الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم ڈاکٹر عبدالوہاب بن آدم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۷؍جون۲۰۱۶ء میں مکرم زبیر خلیل خان صاحب کے قلم سے محترم ڈاکٹر عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان خاکسار کو متعدد بار گھانا کا سفر کرنا پڑا اور اس دوران مرحوم عبدالوہاب صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ نے اسلام احمدیت، امن، انسانیت اور اپنے ملک کی گرانقدر خدمت کی توفیق پائی۔ مثلاً گھانا میں ایسے قومی معاملات کے تصفیہ کے لیے ایک امن کونسل قائم ہے جن کی وجہ سے بےچینی پیدا ہورہی ہو۔ چنانچہ ایک بار جب قومی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ملک بھر میں حالات خراب ہونے لگے تو یہ معاملہ کونسل کے سپرد کردیا گیا۔ اُس اجلاس کی صدارت آپ کررہے تھے۔ جائزے کے بعد رائے شماری ہوئی تو کونسل کے نصف ارکان نے حکومت اور باقی نصف نے اپوزیشن پارٹی کی تائید کردی۔ آپ نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل کچھ وقت مانگا۔ پھر سارے معاملہ کا ازسرنَو گہرائی میں جاکر جائزہ لیا اور خاص دعا بھی کی۔ پھر شرح صدر کے ساتھ ایک فریق کے حق میں ووٹ دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے میں ایسی برکت ڈالی کہ ملک میں بےچینی کی لہر ختم ہوگئی۔ آپ کا گھانا کے امن کے لیے بےلوث اور منصفانہ کردار بہت ہی قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔

ایک دفعہ صدر مملکت کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں آپ بےہوش سے ہوکر گرگئے۔ آپ کو صدر مملکت کے احکام پر ملٹری ہسپتال بھجوایا گیا جہاں صدر مملکت بھی آپ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔

آخری بیماری سے قبل جب آپ نے پیٹ میں شدید درد کو محسوس کیا تو جرمنی کے احمدی ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ جرمنی آجائیں۔ چنانچہ آپ تشریف لائے۔ پہلے احمدی ڈاکٹرز نے چیک اَپ کیا تو پریشانی کا اظہار کیا اور سپیشلسٹ کلینک بھجوادیا گیا۔ وہاں تشخیص کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ لبلبے کا کینسر ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور یہ بھی کہ آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہیں۔ آپ یہ سن کر ہنسے اور کہنے لگے کہ میرا ایک خدا بھی ہے اور اس کے علاوہ میرا ایک خلیفہ بھی ہے جو میرے لیے دعائیں کرتا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی میری وفات میں ہے تو مَیں اس پر بھی راضی ہوں۔

اس کے بعد چند ہفتے آپ جرمنی میں قیام فرما رہے لیکن کسی قسم کا تردّد یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور ہر ملنے والے کے ساتھ اسی خندہ پیشانی اور پُرمزاح طبیعت کے ساتھ ملتے رہے۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور گھانا سے آپ کی اہلیہ محترمہ کو بھی لندن بلوالیا۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱؍دسمبر۲۰۱۵ء میں مکرم سیّد شمشاد احمد ناصر صاحب کے قلم سے محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم عبدالوہاب صاحب پہلے افریقن مرکزی مبلغ اور امیر تھے۔ آپ برطانیہ میں بھی مبلغ رہے ہیں اس طرح یورپ کے پہلے افریقن مبلغ تھے۔ آپ خداتعالیٰ کے فضل سے ایک بااثر شخصیت تھے اور اپنی دینی خدمات کی بجاآوری کے سلسلے میں گھانا سمیت بعض دیگر ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں کا شرف بھی پاتے تو انہیں قرآن کریم اور دیگر لٹریچر پیش کرتے۔

خاکسار ۱۹۷۸ء میں گھانا متعین ہوا اور چار سال یہاں خدمت کی توفیق پائی۔ محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب کو انتہائی صبر کرنے والا، محنتی، اپنے کام میں مگن اور عبادت گزار واقف زندگی پایا۔ کسی بھی جگہ آپ کو بلایا جاتا تو ہمیشہ تشریف لے جاتے، سارے پروگرام میں شرکت فرماتے، لوگوں سے ملتے، تقریر کرتے، سوالوں کے جواب دیتے، ہر ایک کی بات بڑے تحمل سے سنتے، خواہ کوئی کتنا ہی بول رہا ہو اُسے بولنے دیتے اور پھر بعد میں حکیمانہ انداز میں سمجھا بھی دیتے۔ اکتاہٹ نام کو نہ تھی۔ آپ کی تقریر بہت پُراثر ہوتی۔

آپ کوئی جماعتی کام خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر نہ کرتے۔ ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ گھانا تشریف لائے تو آپ نے بڑی محنت سے حضورؒ کے دورے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اکرا ایئرپورٹ پر بیس ہزار سے زائد احمدیوں کا ایک جم غفیر استقبال کے لیے موجود تھا جو سفید لباس میں ملبوس تھا اور سفید رومال لہرا کر استقبال کررہا تھا۔ اکرا سے کماسی جاتے ہوئے کئی جگہوں پر میل ہا میل تک ہجوم کی شکل میں استقبال کرنے والے موجود ہوتے جن میں غیر بھی شامل تھے۔ حضورؒ کا قیام سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ اس سارے دورے کے دوران امیر صاحب نے بےشمار محنت کی اور دن رات جاگتے رہے۔ بیمار بھی ہوئے لیکن اس کا اظہار کسی پر نہیں کیا۔ آپ نے جماعت میں خلافت کی محبت اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جو جذبہ پیدا کیا تھا وہ ہر ایک نے ہمیشہ محسوس کیا۔ آپ کا انداز بیان نہایت حکیمانہ ہوتا تھا۔ جب آپ خلافتِ خامسہ کے انتخاب کے بعد واپس گھانا گئے تو بیان کیا کہ حضور ہر وقت خوش رہتے ہیں اور ملاقاتوں کے دوران یہ بالکل محسوس نہیں ہونے دیتے کہ اُنہیں کسی قسم کا کوئی فکر بھی ہے مگر آپ کے دل کی کیفیت کا صحیح اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب آپ مسجد فضل میں سوز اور درد میں ڈوبی ہوئی نماز پڑھاتے ہیں۔

۲۰۰۸ء کے جلسہ سالانہ گھانا کو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی برکت بخشی۔ خاکسار کو بھی شمولیت کی سعادت ملی۔ اُن دنوں بھی باوجود انتہائی مصروفیت کے امیر صاحب فجر کی نماز کے بعد مشن ہاؤس میں مقیم تمام مہمانوں کو اپنے گھر لے جاتے اور اُن کی تواضع چائے، بسکٹ، مٹھائی اور دیگر لوازمات سے کرتے۔ اس کام میں کسی دوسرے کی معاونت پسند نہ کرتے اور مہمانوں کے ذوق کے مطابق خود اشیاء پیش فرماتے۔

آپ کو مقامی زبانوں کے علاوہ عربی، اردو اور انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا۔ ایک بار مجھے بھی شرمندہ کردیا جب اردو میں رپورٹ لکھتے ہوئے مجھے Activities کا متبادل اردو لفظ ذہن میں نہیں آرہا تھا تو فوراً کہنے لگے: مساعی۔

آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ خطوں کے جواب بڑی باقاعدگی سے دیتے تھے۔

آپ کے دَور میں جماعت احمدیہ گھانا نے جو ترقی کی اس کا راز آپ کی خدمت سے وابستگی اور غیرمشروط اطاعت ہی ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا: ’’یہ ہیں نیک نیتی سے کیے گئے وقف کی برکات کہ دین کی خدمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی اعزازات سے بھی نوازا۔ اگر وقف نہ ہوتے تو پتہ نہیں کوئی اَور کام کررہے ہوتے تو پتہ بھی نہ ہوتا کہ کون ہیں وہاب صاحب!‘‘

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۲؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم مبارک احمد صاحب سابق پرنسپل احمدیہ سکول سلاگا رقمطراز ہیں کہ محترم مولانا عبدالوہاب صاحب ۲۲؍جون۲۰۱۴ء کو وفات پاگئے۔ خاکسار کو دو سال ۱۹۷۶-۱۹۷۵ء کا عرصہ آپ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ اَن گنت خوبیوں کے مالک، ایک ہردلعزیز اور ہمدرد امیر تھے۔ ہر ایک کے ساتھ محبت، اخوّت اور احسان کا سلوک تھا۔ دعا پر اس قدر پختہ یقین تھا کہ سکول کی نئی بلڈنگ کی تعمیر کے دوران کسی معاملہ میں مَیں نے پریشانی کا اظہار کیا تو جواب دیا کہ فکر نہ کریں اور جائے نماز بچھالیں۔

اپنے رفقائے کار کا احترام اور حوصلہ افزائی ہمیشہ کرتے۔ ایک کمرے کی چھت کا نقصان کسی وجہ سے ہوا تو مجھے فکر تھی کہ کہیں آپ ناراض نہ ہوں۔ لیکن آپ کا جواب آیا کہ فکر نہ کریں، میرا تو خیال تھا کہ شاید ساری چھت اُڑ گئی ہے۔ پھر جلد ہی رقم بھجوادی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے تعلیم الاسلام کالج میں اردو کانفرنس کو یہ سلوگن دیا تھا کہ ’’اردو ہماری قومی ہی نہیں بلکہ مذہبی زبان بھی ہے۔‘‘ محترم عبدالوہاب صاحب نے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ واقفین زندگی کے ساتھ اردو میں خط و کتابت کی اور اردو کو ایک مذہبی زبان سمجھتے ہوئے اس کی خدمت کی۔ ایک جلسہ سالانہ میں مَیں نے دیکھا کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے کئی اقتباسات کو اردو میں پڑھا اور پھر اُن کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا۔

آپ کو واقفین کا بہت خیال رہتا۔ خاکسار نے سلاگا میں گرمی کے پیش نظر مٹی کے تیل سے چلنے والا فریج ذاتی طور پر خریدا۔ جب خاکسار پاکستان جانے لگا تو آپ نے پیغام بھجوایا کہ وہ فریج کسی کو نہ بیچنا، جو نیا واقف زندگی پاکستان سے آئے گا، اُس کے لیے چھوڑ جانا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس سکول میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بطور پرنسپل متعین ہوئے۔

آپ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا بہت ادب سے نام لیتے۔ اُن کے قریب رہ کر لندن میں آپ کچھ عرصہ خدمت کی توفیق بھی پاچکے تھے۔ آپ افسوس سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ حضرت چودھری صاحبؓ تو واقفین سے بڑھ کر جماعت کی خدمت کرتے ہیں مگر ہم میں سے چند واقفین بھی ویسا نمونہ نہیں دکھاتے۔

………٭………٭………٭………

جرمنی کا تاریخی شہر برلن (Berlin)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۶؍مارچ۲۰۱۴ء میں مکرم امان اللہ امجد صاحب نے جرمنی کے دارالحکومت برلن کا تعارف کرواتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ جرمنی کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ ۳؍اکتوبر۱۹۹۰ء کو دارالحکومت قرار پایا۔ اس کا رقبہ ۳۴۱؍مربع میل اور آبادی ۳۷؍لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

پانچ صدیاں پہلے دریائے Spree کے ایک کنارے پر ماہی گیروں کی ایک بستی آباد ہوئی تو ۱۴۳۲ء میں اس بستی کو دریا کے دوسرے کنارے پر آباد قصبے کولن سے ملادیا گیا۔ سترھویں صدی عیسوی میں اس قصبے کے گرد ایک فصیل تعمیر کرکے اسے قلعہ کی شکل دی گئی۔بادشاہ فریڈرک ولیم اور اُس کے بیٹے فریڈرک اعظم نے یہاں خوبصورت تعمیرات کروائیں تو یہ ایک بڑا شہر بن گیا اور ۱۸۷۱ء میں جرمن سلطنت کا دارالحکومت قرار پایا۔

جنگ عظیم دوم کے فاتحین نے اس شہر کو امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور روسی حصوں میں تقسیم کردیا۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں روس کے بالکل علیحدہ ہونے کے بعد یہ شہر مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ مشرقی برلن کو مشرقی جرمنی کا دارالحکومت بنادیا گیا اور ۱۳؍اگست ۱۹۶۱ء کو مشرقی جرمنی نے پچاس کلومیٹر لمبی دیوار برلن تعمیر کرکے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یہ دیوار ۹؍نومبر ۱۹۸۹ء کو مشرقی جرمنی میں ایک پُرامن انقلاب کے ذریعے گرادی گئی اور ایک سال بعد ۳؍اکتوبر ۱۹۹۰ء کو جرمنی متحد ہوگیا اور برلن جرمنی کا دارالحکومت قرار پایا۔ ثقافتی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے یہ ایک بڑا مرکز ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button