حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ بےحساب دیتا ہے اور سریع الحساب بھی ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء)

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے اور اس پر توکل کرے، اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اور اس کے لئے ایسے سامان پیدا فرماتا ہے جن کا گمان بھی انسان کی سوچ میں نہیں ہوتا۔ اس وہم و گمان سے بالا مدد کے نظارے جو اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کو اور ایمان والوں کو دکھاتا رہتا ہے اس کے چند واقعات مَیں آج پیش کروں گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ غیرت دکھاتے ہوئے جس طرح حساب لیتا ہے اس کے بھی بعض واقعات مَیں نے آج چنے ہیں۔ جماعت کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت سارے واقعات ہیں۔ کیونکہ آپ کی سیرت بڑی تفصیل سے لکھی گئی ہے۔ چوہدری غلام محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حکیم خادم علی صاحب کے ایک رشتہ دار سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارہ میں سنا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کشمیر سے راولپنڈی کے راستے سے واپس آ رہے تھے کہ دورانِ سفر روپیہ ختم ہو گیا۔ (کہتے ہیں) مَیں نے اس بارہ میں عرض کیا (تو) آپ گھوڑی پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ گھوڑی چار پانچ صد روپے میں بیچ دیں گے (اور) فوراً بِک جائے گی اور خرچ کے لئے کافی روپیہ ہو جائے گا۔ آپ نے وہ گھوڑی سات سو روپیہ میں خریدی تھی۔ (وہ کہتے ہیں) تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ گھوڑی کو دردِ قولنج ہوا (پیٹ میں بڑی درد ہوئی، قولنج اُسے کہتے ہیں ) بہرحال راولپنڈی پہنچ کر وہ گھوڑی مر گئی۔ (کہتے ہیں) تانگے والوں کو کرایہ دینا تھا۔ آپ ٹہل رہے تھے(پیسوں کی ضرورت تھی)۔ مَیں نے عرض کی کہ ٹانگہ والے کرایہ طلب کرتے ہیں۔ آپ نے نہایت رنج کے لہجہ میں فرمایاکہ نورالدین کا خدا تو وہ مرا پڑا ہے۔ اب اپنے اصل خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ وہی کارساز ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھا(اور بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ) اُس نے ہمیں اتنی رقم دے دی کہ جمّوں تک کے اخراجات کے لئے کافی ہو گئی۔ (ماخوذ از حیات نور صفحہ 168-169۔ جدید ایڈیشن)

تو یہ تقویٰ ہے کہ اگر غلطی سے کسی دنیاوی ذریعہ پر انحصار کیا بھی تو اس کے ضائع ہو جانے پر رونا پیٹنا شروع نہیں کر دیا۔ بلکہ کامل توکّل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی، دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فوراً پھر خلافِ توقع انتظام بھی فرما دیا۔

جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور ان کو پڑھا جائے تو ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسی طرح مرزا سلام اللہ صاحب مستری، قطب الدین صاحب دہلوی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے گھر سے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کپڑے دھلے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف ایک پاجامہ ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا۔ آپ نے اس میں آہستہ آہستہ ازار بند ڈالنا شروع کر دیا۔ قادیان کا واقعہ ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ان دنوں صدر انجمن کے سیکرٹری تھے۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ حضور نماز عید میں دیر ہو رہی ہے۔ لوگوں نے قربانیاں بھی دینی ہیں۔ اس لئے جلد تشریف لائیں۔ فرمایا۔ تھوڑی دیر تک آتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا۔ حضور نے اسے پھرپہلے کا سا جواب دیا۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے ملازم کو فرمایادیکھو باہر کون ہے؟ آنے والے نے کہا۔ مَیں وزیر آباد سے آیا ہوں۔ حضرت صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے اسے اندر بلا لیا۔ عرض کی کہ حضور مَیں وزیر آباد کا باشندہ ہوں۔ حضور کے، امّاں جی کے اور بچوں کے لئے کپڑے لایا ہوں۔ چونکہ رات کو یکّہ نہیں مل سکا تھا، اس لئے بٹالہ ٹھہرا رہا۔ اب بھی پیدل (چل کر) آیا ہوں۔ (تو اللہ تعالیٰ نے فوراً وہاں انتظام فرمایا)۔ (ماخوذ ازحیات نور صفحہ 641۔ جدید ایڈیشن)

صوفی عطا محمد صاحب بھی اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید کی صبح حضرت مولوی صاحب نے غرباء میں کپڑے تقسیم کئے حتّٰی کہ اپنے استعمال کے کپڑے بھی دے دئیے۔ گھر والوں نے عرض کی کہ آپ عید کیسے پڑھیں گے۔ فرمایا خدا تعالیٰ خود میرا انتظام کر دے گا۔ یہاں تک کہ عید کے لئے روانہ ہونے میں صرف پانچ سات منٹ رہ گئے۔ عین اس وقت ایک شخص حضرت کے حضور کپڑوں کی گٹھڑی لے کر حاضر ہوا۔ حضور نے وہ کپڑے لے کر فرمایا۔ دیکھو ہمارے خدا نے عین وقت پر ہمیں کپڑے بھیج دئیے۔ (حیات نور صفحہ 641-642۔ جدید ایڈیشن)

پس دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی ضرورتوں کا خود متکفل ہو جاتا تھا اور وقت پر آپ کی تمام حاجات پوری فرماتا تھا۔

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میرا بڑا لڑکا عزیزم میاں اقبال احمد سلّمہ ابھی بچہ ہی تھا تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اور میری اہلیہ اور عزیز موصوف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں مقیم ہیں اور اس وقت مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ میری اہلیہ حضرت اقدس کی لڑکی ہے اور عزیز موصوف حضور کا نواسہ ہے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ مَیں اور میرا یہ لڑکا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاوٴں دبا رہے ہیں کہ حضور علیہ السلام مجھے دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں (پنجابی میں فرمایا کہ) ’’جا تینوں کوئی لوڑ نہ رئے‘‘۔ یہ پنجابی زبان کا ایک فقرہ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ تیری سب حاجتیں (خواہشیں ) پوری کرے۔ (تجھے کسی قسم کی حاجت نہ رہے)۔ اس خواب کے بعد (مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ) واقعی آج تک خدا تعالیٰ میری ہر ایک ضرورت کو مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ پورا فرما رہا ہے۔ جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا وہاں وہاں سے میری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور میرے گھر والے اور میرے پاس رہنے والے اکثر لوگ اس روحانی بشارت کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ (ماخوذ ازحیات قدسی حصہ دوم صفحہ 138 جدید ایڈیشن) اس طرح مولوی صاحب کے بھی اور بے شمار واقعات ہیں۔ آپ کی کتاب بھی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اصل رازق خدا تعالیٰ ہے۔ وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے مَیں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں۔ پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 273)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہوجاؤ۔ انبیاء اس کی صفات میں ہو بہو رنگین ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کی ذات سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ کہ آپ کسی طرح خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین تھے۔ اس بارے میں بعض احادیث ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہوتا تو یہ بات میرے لئے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی کہ تین دن اور تین راتیں گزرنے پر اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی نہ رہتاسوائے اس حصہ کے جسے مَیں قرض کی ادائیگی کے لئے بچا کے رکھ لیتا۔ (صحیح بخاری کتاب الاستقراض و اداء الدیون باب اداء الدیون حدیث نمبر 2389)یعنی اتنی زیادہ دولت بھی ہوتی تو مجھے پسندنہیں کہ میرے پاس رہے۔ بےحساب تقسیم کرتا چلا جاتا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button