متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دو از دھم)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

حضورِانور کا اپنے وقت کا بہترین استعمال

کیلگری میں ایک ہفتہ قیام کے دوران مجھے محترم سید قمر سلیمان صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، جو میرے خالو ہیں اور کینیڈا جماعت کے مدعو کرنے پر تشریف لائے تھے۔ آپ حضورِانور کے کزن بھی ہیں۔

دنوں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ محترم قمر سلیمان صاحب جنہیں ہم خالو بَبّی کہتے ہیں، کینیڈا کے خوب واقف ہوچکے ہیں اور اپنے قیام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مثلاً ۱۱؍نومبر ۲۰۱۶ء کی صبح ہم ایک کار میں بیٹھ کر ہوٹل سے مسجد جا رہے تھے کہ راستے میں مکرم قمر صاحب نے ڈرائیور کو کہا کہ آپ کو کینیڈا کے مشہور کیفے Tim Hortons پر اتار دے تاکہ آپ Iced Capp کافی لے لیں۔

قمر صاحب نے اس دورے کے چند تجربات کا ذکر کیا، خاص طور پر حضورِانور کی مصروفیات کے بارے میں اپنے مشاہدہ سے بتایا کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ حضورِانور کی time management ہے۔ میں واقعی سمجھ نہیں سکا کہ آپ اپنے وقت کو کیسے بہترین طور پر استعمال فرما کر اپنے فرائض احسن ترین رنگ میں سر انجام دیتے ہیں۔ حضورِانور کے پاس وہی چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں جو ہمارے پاس بھی ہیں اور یہاں کینیڈا میں ہم مختلف ٹائم زونز میں سے گزرتے ہیں اور لوگ فطرتی طور پر ہوائی سفر کی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں پھر بھی مَیں نے کبھی حضورِانور کے چہرے پر تھکاوٹ نہیں دیکھی۔ آپ ہمیشہ مسکراتے ہوئے نہایت شفقت سے پیش آتے ہیں۔

آپ نے مزید بتایا کہ ہر روز حضور کئی فیملیز سے ذاتی ملاقاتیں فرماتے ہیں اور پھر چالیس سے پچاس بچوں کی تقریب آمین روز منعقد ہوتی ہے۔ اگر ہم ملاقاتوں کو ہی دیکھیں تو ہر فیملی کے داخل ہونے پر کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے ہیں،ان سے گفتگو کرتے ہیں،ان کی راہنمائی فرماتے ہیں اور پھر دو سے تین منٹ کے بعد حضورِانور دوبارہ اپنی نشست سے اٹھتے اور اس فیملی کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں۔

حضورِانور کی پبلک مصروفیات کے علاوہ، حضورِانور کو اپنی روزانہ کی ڈاک بھی دیکھنی ہوتی ہے اور ہر روز تقریباً دو ہزار تک خطوط ملاحظہ فرماتے ہیں جن کے ساتھ مختلف جماعتوں کے بے شمار دفتری خطوط بھی ہوتے ہیں، جو حضورِانور پڑھتے ہیں اور ہدایات سے نوازتے ہیں۔

یوں ہمیں مستقل حضورِانور کے لیے دعا کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنی زندگی کا ہر لمحہ جماعت کی خدمت میں صَرف فرماتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ آپ کی بات توجہ سے سنیں اور آپ کی فرمانبرداری اختیار کریں اور مخلص احمدی بننے کی کوشش کریں تاکہ ہم آپ کے اعصاب شکن بوجھ کو کم کرنے والے ہوں اور آپ کے لیے خوشی اور راحت کا موجب بنیں۔ آپ کا وجود ایسا ہے جو ہماری مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آپ ہی ہیں جو ہماری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرماتے ہیں اور سچائی پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔یوں آپ کی اطاعت گزاری ہمیشہ ہمارے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے۔

فرحان صاحب جلسہ سالانہ کینیڈاکے ایام میں بطور افسر جلسہ سالانہ خدمت بجا لا رہے تھے اور اس دورے کے دوران کئی تقریبات کی انتظامیہ کا حصہ تھے۔ حضورِانور کے دورے کے جماعت پر اثرات کے بارے میں فرحان صاحب نے بتایا کہ یہ دورہ کسی بھی سابقہ دورے سے مختلف تھا۔ حضورِانور کی شہداء کی فیملیز سے ملاقاتیں زندگی بدل دینے والی تھیں، آپ کی عرب اور ملک شام سے تعلق رکھنے والی فیملیز سے ملاقاتیں بہت اثرانگیز تھیں۔ مزید برآں حضورِانور نے فیملی ملاقاتوں کے دوران ہزاروں لوگوں سے ملاقات فرمائی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جماعتی عہدیداران نے گذشتہ سالوں میں کتنی محنت سے کام کیا ہو، ہماری کوششوں کا اثر حضورِانور کی محض دو منٹ کی ملاقات کے اثر کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ حضورِانور سے ملاقات کے بعد لوگوں کے جذبات خوشی کے مارے بے قابو ہو رہے ہوتے تھے۔

حضورِانور سے اپنی ذاتی ملاقاتوں کے بارے میں فرحان صاحب نے بتایا کہ مجھے حضورِانور کے ساتھ ہر ایک ملاقات اچھی طرح یاد ہے اور ہر موقع جب حضور نے خاکسار سے گفتگو فرمائی۔مجھے یاد ہے کہ میں رات کو گھر تاخیر سے جاتا اور اپنی فیملی میں ہر کسی کو بتاتا کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ حضورِانور نے خاکسار سے گفتگو فرمائی۔ آپ میرا نام جانتے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں احمدی ہیں اور آپ میرا نام جانتے ہیں۔ یہ کس قدر کمال کی بات ہے۔ حضورِانور کا دورہ ایک حسین خواب کی طرح تھا جس سے میں کبھی بھی جاگنا نہیں چاہتا تھا۔

کینیڈا جماعت میں جس دوست کو میں سب سے پرانا جانتا تھا وہ آصف خان صاحب تھے۔ ان کی ایک خاص صفت پریشانی کے وقت بھی نہایت پُرسکون اور مطمئن نظر آنا تھا۔ جس سے یہ یقین دہانی ہوتی تھی کہ ان کی صحبت نہایت خوش کن تھی۔ اس دورے کی بابت ان کی یادداشت سننا بہت دلچسپ تھا۔ وہ اور ان کی امورِ خارجہ کی ٹیم پبلک تقریبات کا انعقاد کر رہی تھی جواس دورہ کے دوران منعقد ہوئیں۔

آصف صاحب نے بتایا کہ حضورِانور کی قربت میں رہنا آپ کو یقینی طور پر اس قابل بنا دیتا ہے کہ آپ حضورِانور کے مقام اور مرتبہ کو بھرپور طور پر خراج تحسین پیش کر سکیں۔جب آپ خلیفہ وقت کو اپنے روز مرہ فرائض کو انجام دیتے ہوئےدیکھتے ہیں تو آپ کے مزاج سے متعارف ہوتے ہیں اور آپ کے چہرۂ مبارک، مسکراہٹ اور حوصلے کو مستقل دیکھتے ہیں تو آپ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے چنیدہ خلیفہ کی محبت اور تعریف میں مگن ہو جاتے ہیں۔

کینیڈا میں حضورِانور کی موجودگی کے اثرات کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ میرا ایمان ہے اور میں یہ امید اور دعا کرتا ہوں کہ حضورِانور کے دورے نے ایک مسلمان ہونے کے فخر کو ازسرِ نَو زندگی بخشی ہے اور خاص طور پر ایک احمدی مسلمان ہونے اور جماعت کا ممبر ہونے کو۔ قبل ازیں اسلام کی عمومی حالت کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہاں مغرب میں بحیثیت مسلمان متعارف ہوتے ہوئے کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی تاہم اب ویسے احساسات نہیں ہیں۔ محض حضورِانور کو یہاں کینیڈا میں دیکھنا ہی آپ کو فخر اور خوشی کا احساس فراہم کرتا ہے۔ مزید براں جس انداز میں حضورِانور کا مہمانوں نے،گورنمنٹ کے آفیشلز نے اور میڈیا نے استقبال کیا، اس نے ہر کسی میں یہ خواہش پیدا کر دی ہے کہ وہ فخر سے بتائے کہ اس کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔

ذاتی طور پر آصف صاحب پر حضورِانور کی شفقت کے بارے میں انہوں نے بتایاکہ میں حضورِانور سے ذاتی ملاقات کی درخواست کرنے کے بارے میں جھجک محسوس کر رہا تھا اور میں دیکھ رہا تھا کہ آپ کس قدر مصروف ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ مجھے کئی مواقع پر حضورِانور کے قریب ہونے کی سعادت مل رہی تھی۔ تاہم مجھے خیال آیا کہ میری اہلیہ اور بچے آپ کی صحبت سے کس قدر مستفیض ہوں گے۔ یوں میں نے آپ سے [یعنی خاکسار سے] پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اپنی فیملی کوحضورِانور کی رہائش گاہ کے قریب بلوا لوں تاکہ وہ حضورِانور کو قریب سے گزرتے ہوئے دیکھ سکیں۔

جب آصف صاحب نے یہ کہا تو مجھے یاد آگیا کہ وہ اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں جو حضورِانور کے پیس ویلج کے دورے کے آخری دن پیش آیا۔آصف صاحب نے کہا کہ کیا میں ان کی فیملی کے لیے اجازت لے سکتا ہوں کہ وہ حضورِانور کی رہائش کے قریب کھڑے ہو سکیں تاکہ وہ قریب سے آپ کا دیدار کر سکیں۔ باوجود حضورِانور کی بے انتہا مصروفیات کے، جب خاکسار نے یہ درخواست پیش کی تو حضورِانور نے فرمایاآصف سے کہو کہ وہ شام کو اپنی فیملی کے ساتھ ملاقات کے لیے میرے دفتر میں آ جائے۔

یوں اگرچہ یہ درخواست حضورِانور کو قریب سے گزرتا دیکھنے کے لیے تھی، حضورِانور نے ازراہِ شفقت اس فیملی کو ملاقات کے لیے اپنے دفتر بلا لیا۔

بحیثیت جنرل سیکرٹری صبیح ناصر صاحب، حضورِانور کے دورے کے انتظامات کا حصہ تھے اور روز مرہ پروگرام ترتیب دے رہے تھے جو روزانہ حضورِانور کی خدمت میں منظوری کے لیے پیش ہوتے۔کبھی کبھار میں ان کے لیے تکلیف محسوس کرتا تھاکہ اگر کچھ بھی خرابی ہو جاتی تو اکثر صبیح ناصر صاحب ہی وہ شخص ہوتے جن سے لوگ سوال کرتے۔ مجھے بھی بعض مواقع پر ایسا کرنا پڑا تھا۔ حضورِانور کے دورے کے بارے میں صبیح ناصر صاحب نے بتایا کہ حضورِانور کا پہلا کوئی دورہ اس طوالت اور وسعت کا نہیں تھا اور میری عاجزانہ رائے میں حضورِانور کے دورے کی اشد ضرورت بھی تھی۔ ہر چیز میں غیر معمولی تیز رفتاری پیدا ہوئی ہے۔ اس دورے کے دوران کینیڈا کا ماحول کس قدر پُرجوش تھا۔

صبیح ناصر صاحب نے مزید بتایا کہ ذاتی طور پر میرے لیے اس دورے کے بعد سے ہر چیز بدل گئی ہے۔ جب سے حضورِانور انگلینڈ واپس تشریف لے گئے ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میں نے عالم تصور میں حضور سے گفتگو نہ کی ہو۔ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب میں نے ان انمول لمحات کے بارے میں نہ سوچا ہو جو مجھے حضورِانور کے ساتھ گزارنے نصیب ہوئے اور یہ حقیقت بھی ہےکہ مجھے بسا اوقات حضورِانور کی اقتدا میں آپ کے بالکل پیچھے نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اگر میں اپنے جذبات کو ایک فقرہ میں لکھوں تو کچھ یوں ہوگا کہ اس دورے سے قبل میں کہا کرتا تھا ’ہمارے حضور‘ اور اب میں کہتا ہوں ’میرے حضور‘۔

(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button