حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ کینیڈا کے مبلغین سلسلہ کی (آن لائن) ملاقات

مورخہ ۸؍مئی ۲۰۲۴ء بروز بدھ امام جماعت احمدیہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جماعت احمدیہ کینیڈا کے مبلغین سلسلہ کی آن لائن ملاقات ہوئی۔مبلغین سلسلہ کواس ملاقات کا شرف اپنے سالانہ ریفریشر کورس کے موقع پر حاصل ہوا۔ حضور انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ مبلغین سلسلہ نے مسجد بیت الاسلام پیس ولیج کے کمپلیکس میں واقع طاہر ہال سےآن لائن شرکت کی۔ ملاقات کا آغاز دعا کے ساتھ ہواجس کے بعد مبلغین کرام کو حضورِانور سے مختلف موضوعات پر سوالات کرنے کا موقع ملا۔

ابتدا میں عبد الرشید انور صاحب مبلغ انچارج کینیڈا نےعرض کی کہ اگر حضور انور اجازت عنایت فرمائیں تو تمام مبلغین اپنا مختصر تعارف کروا دیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اس وقت یہاں قریباً ۸۰؍مبلغین موجود ہیں۔اگر ہر کوئی ایک ایک منٹ بھی اپنا تعارف کروائے تو ۸۰؍منٹ لگ جائیں گے۔اکثر مبلغین کو میں جانتا ہوں۔آپ اپنا کام دکھائیں گےتو آپ کی شناخت خود بخود ظاہر ہوگی۔

حضور پُرنور نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ کام کر کے دکھائیں اور اپنی پلاننگ اس طرح کریں کہ ہر مشنری اپنے آپ کو ایک سپاہی سمجھے اور اس لحا ظ سے دیکھے کہ میرے کیا فرائض ہیں، میری کیا ذمہ داریاں ہیں کس طرح میں نے ان کو ادا کرنا ہے اور نہ ادا کرنے کی صورت میں ان لوگوں میں شامل تو نہیں ہو رہا جو اپنے عہد کوپورا کرنے والے نہیں۔ اصل چیز تو یہ ہے۔ باقی تو باتیں ہیں۔جتنی مرضی باتیں کرتے چلے جائیں۔ اپنی اصلاح کریں۔ یہ دیکھیں کہ عبادت کے کیا معیار ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو باقاعدہ تہجد پڑھنے والے ہیں اور حقیقت میں تہجد کا حق ادا کرتے ہوئے تہجد پڑھنے والے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو نمازوں کو سنوار کر پڑھنے والے ہیں اور خشوع و خضوع پیدا کرنے والے ہیں۔ کتنے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور سمجھ کر کرتے ہیں۔ کتنے ہیں جو اس کی تفسیر پڑھ رہے ہیں اور اس کو سمجھ رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ رہے ہیں اس سے علم حاصل کر رہے ہیں۔ علم کلام تو ہمیں اسی سے ملتا ہے۔بہت سارے سوال آپ کے مشنری بھی لکھ کر بھیج دیتے ہیں ،جامعہ کے طلبہ بھی لکھ کر بھیج دیتے ہیں حالانکہ اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہوں تو انہی میں ان کے جواب مل جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو پڑھتے ہیں وہ بھی غور سے نہیں پڑھتے اور اس میں سے جو مطلب نکالنے کی ضرورت ہے وہ نہیں نکالتے۔ اور جو چند ایک علم رکھنے والے ہیں ان کے دماغ میں بعض دفعہ یہ خیال آ جاتا ہے کہ ہمارے پاس علم ہے اس لیے ہم دوسروں سے زیادہ superiorہیں حالانکہ کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ مربیان کو خاص طور پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک بنیادی مصرعہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

تو اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ نے دارالوصال کو حاصل کرنا ہے۔ یہ مقصد ہے، یہ ٹارگٹ ہے اور اس کے لیے ہم نے کس طرح ایسی پلاننگ کرنی ہے جس سے ہم جس قدر جلدی ہو سکے کینیڈا کے ہر کونے میں احمدیت اور جماعت کا پیغام پہنچائیں۔ اگر اس طرح آپ لوگ صحیح طرح دل لگا کر کام کرنے والے ہوں اور ہر ایک اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو مشنریز انشاء اللہ تعالیٰ اتنا کام کر سکتے ہیں۔

یہ کہنا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں، ہمارے پاس فلاں چیز نہیں غلط ہے۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود جو وسائل ہیں ان کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔نئے نئے راستے exploreکرنا یہ آپ لوگوں کا کام ہے۔ وسائل کے اندر رہتے ہوئے آپ نے کام کرنا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ وسائل کی کمی رہتی ہے۔ اس لیے اکانومسٹ ،دنیا دار ،معیشت کے ماہرین وہ بھی کہتے ہیں کہ minimum resources and maximum utilities۔تو یہ آپ کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اپنے محدود وسائل سے آپ زیادہ سے زیادہ کتنا استفادہ کر سکتے ہیں اور اس کے لیے پھر نئے طریقے ایجاد کریں۔ ہر ایک بجائے یہ سوچنے کے کہ مجھے امیر صاحب نے یہ چیز نہیں دی،مجھے مشنری انچارج نے فلاں چیز نہیں دی، میرے پاس یہ کمی ہے، میرے گھر میں یہ کمی ہے ،مجھے سکون نہیں ہے۔ جب اوکھلی میں سر دے دیا تو پھر یہ نہ دیکھیں کہ یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے۔ یہ سوچیں کہ اب جیسے مالک نے مجھے چلانا ہے ، اس طرح مَیں نے چلنا ہے۔ اور وہ مالک اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہمیں بڑی واضح ہدایات دے دیں کہ کس طرح ہم نے کام کرنا ہے۔بے نفس ہو کر کام کریں گے تو انشاء اللہ کامیابیاں ہوتی چلی جائیں گی۔

پھر یہ کہ جو اچھے کام کرنے والے ہیںیا جن میں زیادہ بہتر علم ہے ان میں کسی قسم کا تکبر نہیں آنا چاہیے۔ وہ یہ کوشش کریں کہ اپنا علم بڑی عاجزی سے دوسروں کو بتائیں اور سکھائیں۔ بجائے اس کے کہ سوشل میڈیا پہ اپنا اظہار خیال کر کے بحثوں میں پڑ کے، اور پھر یہ کہنا کہ میری یہ بات ٹھیک ہے اور فلاں نے کہا کہ میری بات ٹھیک ہے یہ طریقہ درست نہیں۔ سوال ہے کہ سوشل میڈیا کی ان بحثوں سے جماعت احمدیہ کی ترقی پہ کیا اثر پڑ رہا ہے؟ آپ کا ultimate targetتو یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے جماعت کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے نہ یہ کہ اپنی علمیت کا اظہار کرنا ہے،یا اپنے علمی اظہار سے اپنوں کو ہی قائل کرنا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ جو پرانی تاریخ ہے وہ تو یہی بتاتی ہے کہ اس سے مختلف قسم کے نقطہ ہائے نظر والے لوگ پیدا ہوئے ،فقہاء پیدا ہوئے،مکتبہ فکر پیدا ہوئے اور اس کے بعد rift ہی بڑھتی چلی گئی۔ وہ رفٹ ہم نے نہیںپیدا کرنی۔ ہم نے ایک ہو کر کام کرنا ہے۔ اگر کسی کے علم میں کوئی اچھی بات ہے تو اس کو بتائے اور اس کو اس طرح بتائے کہ اگلے کو یہ نہ ہو کہ اس کو بحث کا رنگ دیا جا رہا ہے بلکہ اس طرح بتائے کہ ہم ایک دوسرے سے شیئر کریں تا کہ علم میں اضافہ ہو۔ جو میں بات سمجھا ہوں اگرا س میں کمی ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ اس کمی کوکس طرح پورا کرنا ہے۔ اگر آپ میں کمی ہے تو میری بات کو سمجھ لیں۔ تو یہ understanding کی بات ہے جو ہر مشنری کو ہمیشہ اپنے دماغ میں رکھنی چاہیے۔

ایک مبلغ سلسلہ نے سوال کیا کہ لجنہ کی تعلیم و تربیت میں مربی اپنا کس طرح کردار ادا کر سکتا ہے؟

اس پرحضور انور نے فر مایا کہ پہلے مجھے یہ بتا دیں کہ آپ نے مردوں کی تعلیم وتربیت میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ مجھے بتائیں کہ کتنے فیصد مرد ہیں جن کو آپ نے باجماعت نماز کا عادی بنا لیا؟ کتنے فیصد مرد ہیں جو اگر مجبوری کی وجہ سے باجماعت نماز ادا نہیں کر سکتے جو فرائض میں شامل ہےتو ان کو مسجدوں میں لے آئے؟کتنے فیصد مرد ہیں جن کو آپ نے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی طرف مائل کر لیا یا اس کا ترجمہ پڑھنے کی طرف مائل کر لیا؟ کتنے فیصد مرد ہیں جن کی آپ نے یہ تربیت کی کہ اپنے گھریلو معاملات جو ہیں ان کو احسن طریقے پر ادا کرو۔ عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِپہعمل کرو۔ بہت سارے جھگڑے آتے ہیں،کینیڈا سے بھی آتے ہیں اور یہ جھگڑوں کی تعداد اب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ مردوں کی تربیت نہیں۔ تو پہلے مردوں کی اصلاح کریں، لجنہ کی خود اصلاح ہو جائے گی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مرد خود اپنا نمونہ دکھائے تو عورت تم پر انگلی نہیں اٹھائے گی۔اگر وہ عورت کو کہے کہ تم یہ کرو اور وہ کرو تو عورت کہے گی کہ پہلے اپنی تو اصلاح کرو۔ تمہارے اپنے اخلاق تو یہ ہیں کہ تم نماز نہیں پڑھتے۔تمہارے اپنے اخلاق تو یہ ہیں کہ تمہاری زبان گندی ہے،گھر میں گالم گلوچ ہو رہی ہے۔تمہارے اپنے اخلاق یہ ہیں کہ بچوں پہ تمہاری زبان کا، تمہارے اخلاق کا، تمہاری حرکتوں کا اثر پڑ رہا ہے۔ تم تو سارا دن ٹی وی یا انٹرنیٹ پر بیٹھے ایسے پروگرام دیکھتے رہتے ہو جو آتے جاتے بچے بھی دیکھتے ہیں توان کو لگتا ہے کہ یہ شاید جائز ہے۔ اسی سے پھر بچوں کے اخلاق خراب ہو رہے ہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے خود نیک بنو تا کہ عورت کو تمہارے پہ انگلی اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے۔اس سبق کو پہلے یاد کریں پھر لجنہ کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔ ہاں! اب جب یہ کر لیں تو پھر لجنہ کے ساتھ coordinatedپروگرام ہونا چاہیے۔لجنہ کی تنظیم اس لیے بنائی گئی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تین تنظیمیں بنائی تھیں انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ اس کو تین پہیے نہیں بنایا تھا۔ آپؓ نے کہا تھا چوتھا پہیہ جماعت احمدیہ ہے۔ جب یہ چاروں پہیے صحیح طرح چل رہے ہوں گے تو جماعت ترقی کی راہ پر چلتی چلی جائے گی۔ اگر ان میں سے ایک پہیہ بھی خراب ہو گا تو گھسٹ گھسٹ کے چلے گی۔ یا یوں ہو گا کہ اسی دائرے میں گھومتے چلے جائیں گے۔ پہیہ اگر بالکل بیٹھ جائے تو پھر آگے نہیں چلتا۔ پھر وہ گھومنا شروع ہوجاتا ہے، ایک مرکز بن جاتا ہے، محور اس کے اندر گھومتا رہتا ہے وہ پھر اس سے باہر نکلتا ہی نہیں۔ وہ آگے ترقی کی طرف جائے گا ہی نہیں۔ وہ اپنے اسی دائرے میں رہے گا اور آپ سمجھ رہے ہوں گے ہم بڑی ترقی کر رہے ہیں حالانکہ یہ نہیں پتاکہ اسی لکیر کے اندر آپ پھر رہے ہیں۔ جس طرح فونوگراف کی ریکارڈنگ ہے یا disk کی ریکارڈنگ ہے اس کے اندر سوئی گھوم رہی ہے وہ گھومتی گھومتی اسی کے اندر رہے گی۔اس سے باہر نہیں نکلے گی۔ تو یہ چیزیں آپ کودیکھنی ہوں گی کہ چاروں پہیوں کی آپ نے کس طرح اصلاح کرنی ہے۔ پہلے مردوں کی اصلاح کریں توعورتوں کی اصلاح خود ہو جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مرد جب اپنا رشتہ کرتا ہے تو وہ حسن ، دولت اور خاندان کو دیکھنے کی بجائے دین کو دیکھے۔ جب وہ دین کو دیکھے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے اندر دین ہو گا تو وہ دین کو دیکھے گا۔ یہ تو نہیں ہے کہ ایک مرد پانچ نمازوں کی بجائے تین نمازیں پڑھ رہا ہو۔ اکثر سے میں پوچھتا ہوں تو مشکل سے کہتے ہیں کہ کوشش کر رہے ہیں کہ پانچ نمازیں پڑھ لیںلیکن پڑھتے ہم تین ہیں۔ تو یہ تین نمازوں کا ایک تصور پیدا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو کہیں نہیں معاف فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں۔ یہ چیزیں پہلے آپ خود پیدا کریں، نمونہ بنیں۔ آپ کے اچھے اخلاق ہوں، آپ کی عبادت کا معیار ہو۔ مرد اچھے ہوں گے تو عورتیں خود بخود اچھی ہو جائیں گی۔

ایک مبلغ سلسلہ نے سوال کیا کہ کسی معاملے میں اصلاح یا تربیت کی خاطر تحقیق اور تجسس میں ہم کہاں define lineکھینچ سکتے ہیں یا آیا کھینچ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس تربیت کے لیے کوئی معاملہ آتا ہے اور اس کے لیے آپ نے تحقیق کرنی ہے تو اس تحقیق کے لیے آپ معاملات کی گہرائی میں جانے کے لیے ہر ایک کو بلا سکتے ہیں اورمعلومات لے سکتے ہیں۔لیکن پھر آپ کو بہت زیادہ رازدان بننا پڑے گا۔ راز رکھنا پڑے گا۔ جو بھی آپ راز رکھیں گے آپ کے پاس ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ وہی بات آپ کے دفتر میں آپ کی فائل میں آئے اور پھر فائل سے باہر نکلے اور دوسرے فریق کے لیے استہزا اور تضحیک یا اس کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بن جائے۔ اور جہاں آپ کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ آپ نے تحقیق کر کے جماعتی مفاد کی خاطریا کسی بھی لحاظ سے اس کا فائدہ حاصل کرنا ہے تو پھر اس معاملے کو آپ چھوڑ دیں۔ جب آپ سے کوئی رپورٹ لینے کے لیے پوچھے اور وہ بات آپ کے علم میں ہے تو آپ ضرور بتائیں اور اگر نہیں پوچھا جا رہا تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر بڑی وضاحت سے اپنے تفسیری نوٹوں میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی بیان کیا ہوا ہے۔اگر آپ لوگ باقاعدہ لٹریچر پڑھتے رہیں تو آپ کو سوال کے جواب مل جائیں گے۔تو اگر پوچھا جائے تو پھر آپ نے بڑی وضاحت سے جو آپ کے علم میں ہے بتا دینا ہے لیکن پھر آگے کسی اور سے بات نہیں کرنی کہ فلاں بندہ آیا تھا اس شخص کی تحقیق ہو رہی ہے تو میں نے بتا دیا۔ پھر راز اس طرح لیں کہ آپ کے پیٹ میں جائے اور وہیں غائب ہو جائے۔یہ نہیں ہے کہ دنیاداروں کی طرح اس محاورے پر عمل کرنے والے نکلیں کہ ہونٹوں نکلی اور کوٹھے چڑھی۔وہ نہیں ہونا چاہیے۔اپنے دل میں رکھیں۔اور جہاں آپ سے پوچھا نہیں جا رہا وہاں آپ کو تجسس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اپنے بھائی کے راز چھپانا ، ستّاری کرنابھی ایک اہم چیز ہے لیکن جہاں جماعتی مفاد ہو وہاں اگر آپ خود سمجھتے ہیں کہ جماعتی مفاد اس سے متاثر ہو رہا ہے اور اس بات کو چھپانے سے جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے تو پھر جو متعلقہ عہدیدار ہیں یا امیر جماعت ہے اس حد تک ہی بات پہنچائیں کہ یہ اس طرح ہو رہا ہے اور ہمارے نزدیک جماعت کے لیے یہ نقصان دہ ہے ، اس بارے میں آپ تحقیق کر کے اس کے اصلاحی پہلو کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

جو اصلاحی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں وہ بھی اس لیے نہیں بنائی گئی تھیں کہ جب ایک جھگڑا ہو جائے ،لڑائیاں ہو جائیں تو اس وقت اصلاح کریں۔ ہاں! ایک پہلو اس کا یہ بھی تھا۔لیکن اس سے پہلے کہ جب گھروں میں یا کہیں ناچاقی پیدا ہو رہی ہے یا فساد کی صورت پیدا ہو رہی ہے یا جھگڑے کی صورت پید ا ہو رہی ہے یا مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے تو اس کو پہلے ہی آپ foreseeکر کے دیکھیں اور اس کو نپٹانے کی کوشش کریں۔ لیکن اس میں پھر جو دوسرا فریق ہے یا فریقین ہیں ان کو یہ اعتمادہونا چاہیے کہ مربی صاحب کو جب ہم بات بتائیں گے تو ان کے پیٹ میں راز دفن ہو جائے گا۔ یہ نہیں ہے کہ سو جگہ جا کر باتیں نکلیں گی۔ تو یہ اعتماد بھی پیدا کریں ۔جماعت کے ممبران کے اندر آپ مربیان کا یہ اعتماد پید اہو جائے گاتو آپ سے لوگ تعاون بھی کریں گے اور اصلاحی پہلو بھی زیادہ واضح ہو کر ظاہر ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن یہ کہنا کہ کہاں تجسس ہے تو تجسس سے مراد یہی ہے کہ آپ خود تجسس کر کے،کھود کھود کر نقص نکال رہے ہیں۔ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مقصد نیک نیت ہونا چاہیے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ نیت آپ کی کیا ہے؟ اگر آپ کی نیت صرف تجسس ہے تو وہ نیکی بھی برائی ہے۔ اور اگر آپ کی نیت اصلاح ہے، معاشرے کی اصلاح ہے، جماعت کی اصلاح ہے، اپنے ماحول میں امن اور سکون پیدا کرنے کا مقصد ہے تو وہ جائز ہے۔ آپ نے دو لفظ استعمال کیے ہیں تجسس اور تحقیق، وہ خود ہی بتا رہے ہیں کہ میرا مطلب الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرما دیا کہ تجسس نہ کرو۔ لَا تَجَسَّسُوْا۔ لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا کہ تحقیق کرو۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ فتنہ پیدا کرنے کی نیت سے تحقیق نہ کرو۔ تحقیق وہ کرو جو تمہارے اختیار میں ہے لیکن جہاں تمہارا اختیار ہی نہیں ،جہاں تمہارے سے کوئی تعلق نہیں وہاں بلا وجہ کی دخل اندازیاں نہ کرو۔ چسکے لینے کے لیے باتیں نہ کرو۔ ہاں اصلاح کرنے کے لیے کرو۔نیک نیت ہونا چاہیے۔

ایک مبلغ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شراب خانہ یا تمباکو نوشی اور اسی طرح کا کوئی کاروبار کرتا ہے تو اس کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تمباکو نوشی مکروہ چیز ہے، حرام نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر ہوتی تو شاید حرام ہو جاتی۔ باقی جہاں تک شراب کا تعلق ہے تو قرآن کریم نے بھی اسے منع کر دیا ہے۔ اسلام نے بڑی سختی سے اس کو روک دیا۔ سؤر کھانا تو ایک اضطراری کیفیت میں جائز ہے لیکن شراب پینا کبھی جائز نہیں قرار دیا۔لیکن کیونکہ اس سے فائدہ بھی ہوسکتا ہے اس لیے بعض دوائیوں میں وہ استعمال ہو جاتی ہے اور اس حد تک جائز ہے لیکن اس سے بھی اگر ناجائز فائدہ اٹھاؤ تو وہ بھی غلط ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ہمارے بعض سٹوڈنٹس جو اس قسم کی غلط عادتوں میں پڑے ہوئے تھےوہ cough syrup جس میں الکوحل کی مقدار کافی ہوتی ہے، ۵۰۔۶۰ فیصد ہوتی ہے، شراب تو پاکستان میں اس طرح ملتی نہیں، تو وہ اکٹھی کئی شیشیاں لے کے پی کر اپنا نشہ پورا کر لیا کرتے تھے۔ اس کا پھر بہت زیادہ نقصان ہوتا تھا۔ بیمار بھی ہو جاتے تھے اور بے شمار قسم کی بیماریاں انہیں لگ جاتی تھیں۔ تو سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بات سے منع کر دیا تو اس سے ہمیں منع کرنا چاہیے اور یہ سمجھا کے کرنا چاہیے کہ اللہ کا حکم ہے کہ شراب نوشی نہیں کرنی چاہیے۔

جہاں تک تمباکو اور سگریٹ وغیرہ کا تعلق ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ مکروہ اور غلط چیز ہے لیکن حرام نہیں کہہ سکتے۔ ایک دفعہ اندھیری آئی،کسی نے حقہ پی کے رکھا ہوا تھا۔ایک کنارے پہ وہ گر گیا اس کی چلمن میں سے راکھ نکلی جس سے آگ لگ گئی اور پھیل گئی۔ اس پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا یہ تو ایسی چیز ہے جسے بڑا ناپسند فرمایا۔شاید حرام کا لفظ بھی استعمال فرمایا لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تو ہو سکتا ہے حرام ہو جاتا۔ تو تمباکونوشی ناپسندیدہ ہےاس سے صحت کا بھی نقصان ہے۔اس لیے تمباکو بنانے والے خود یہ تسلیم کرتے ہیں ،حکومتوں نے تواب لازمی قرار دے دیا ہے، سگریٹ کے پیکٹ پہ لکھا ہوتا ہے کہ تمہارے لیے نقصان دہ ہے۔

شراب کے بارے بتائیں ،کہ اگر مسلمان ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس اُم الخبائث سے بچنے کے لیے کہا ہے۔ صحابہؓ  کا نمونہ دیکھو جنہوں نے مٹکے توڑ دیے تھے۔ حالانکہ صحابہؓ  کا ایمان بڑا مضبوط تھا لیکن بعض نشہ میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بول پڑے تھے۔ تو اس قسم کی فضولیات سے پھر انسان اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بیماریاں اس کے علاوہ ہیں۔ اب تو یہاں یوکے میں اور باقی ملکوں میں بھی یا بعض جگہ سے نئی ریسرچ یہ ثابت کرنے لگ گئی ہے کہ جو کہتے تھے ایک گلاس شراب ایک دن میں پی لینا جائز ہے، لیکن اب کہتے ہیں کہ ایک گلاس بھی پیو گے تو اس کے بھی نقصانات ہیں۔ وہ بھی نہیں پینا چاہیے اور اٹھارہ سال سے کم عمروالے کو تو بالکل ہی نہیں پینا چاہیے۔ آہستہ آہستہ بڑی عمر والوں کو بھی کہہ دیں گے کہ نہیں پینا چاہیے تو یہ خود بعض چیزوں کے قائل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اسلامی تعلیم جو بہرحال احسن اور اچھی تعلیم ہے اور اس کے جو فوائد ہیں وہ دنیا پہ اب ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نئی تحقیقات اس کو ثابت کر رہی ہیں۔ تو اس لحاظ سے ان کو پیار سے سمجھاؤ، rigidlyنہیں، پیار سے، محبت سے سمجھاؤ کہ یہ بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے اور ہم نے جو اس زمانے میں مسیح موعود کو مانا اور یہ عہد کر کے مانا ہے کہ آپ سچے اور برحق ہیں توآپؑ نے جن چیزوں کو ناپسند فرمایا ہمیں بھی ان چیزوں سے بچنا چاہیے۔ میں بھی دو تین خطبے اس بارے میں دے چکا ہوں پہلے۔ اگر تم لوگ سنو تو اس میں بھی کافی دلیلیں دی ہوئی ہیں۔

ایم ٹی اے کینیڈا اسٹوڈیوز میں خدمت بجا لانے والے ایک مبلغ نے سوال کیا کہ ایک مربی سلسلہ کو اپنی تقرری کی مصروفیات اور کسی دیگر جماعتی ذیلی تنظیم وغیرہ میں منتخب کیے گئے عہدے کی خدمت کے درمیان مستحسن توازن کس طرح قائم کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ویژن دی تھی کہ ایک وقت یہ آئے گا کہ ہم اپنے دفتروں میں بجائے اس کے کہ دوسرے لوگ بھرتی کریں ہم مربیان کو اس کام کے اوپر لگائیںگےکیونکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ تو بہرحال آپ ایم ٹی اے میں کام کررہے ہیں۔ یہاں تو توازن کا کوئی سوال ہی نہیں۔ آپ کو جماعت کا کام سپرد کیا گیا ہے۔یہ محاذ اور مورچہ آپ کا کھڑا کیا ہے۔ آپ کو درّے پر بٹھایا ہوا ہے۔درّے پر بیٹھے رہیں۔ جن کو جہاد کے لیے بھیجا ہوا ہے وہ جہاد پر چلے جائیں گے۔ تو یہ بھی تو ایک جہاد ہے جو آپ ایم ٹی اے کے ذریعہ کر رہے ہو۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے لاکھوں لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ آپ لوگوں کے ذریعہ سے تو اتنا پہنچتا ہی نہیں جتنا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پہنچتا ہے۔ مجھے ایک ایک مہینے میں سینکڑوں خط آ جاتے ہیں جہاں ذکر ہوتا ہے کہ لوگ ایم ٹی اے سن رہے ہوتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے ان کو احمدیت کا تعارف حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ پاکستان میں ہمارے بعض اغوا ہوئے لوگ اسی طرح اغوا کرنے والوں کے ہاتھوں سے بچ کے نکل آئے کہ انہوں نے بتایا کہ وہاں جو ان کے اغوا کرنے والے تھے وہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کے کہتے تھے۔خود تو وہ نماز پڑھتے نہیں تھے۔نہ ان کو سورت فاتحہ آتی تھی نہ ان کو اسلام کا پتا تھا اور صرف انہوں نے کہا کہ ہم اسلام کی خاطر تمہیں اغوا کر کے لائے ہیں تم لوگ کافر ہو وغیرہ۔ لیکن وہ ایم ٹی اے ضرور سنتے تھے اور شام کو آ کر بتاتے تھے کہ تمہارے خلیفہ نے آج یہ کہا۔ وہ تو مجھے گالیاں دے کے کہتے تھے۔خطبہ کا خلاصہ وہ خود ہی آ کے سنا دیتے تھے۔ تو اس کا مطلب ہے وہ لوگ بھی ایم ٹی اے دیکھتے ہیں جو چور ڈاکو ہیں۔ لیکن بہت سارے نیک لوگ بھی دیکھتے ہیں اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ ایم ٹی اے العربیہ کا اثر ہو رہا ہے اس کے ذریعہ سے بہت ساری بیعتیں ہو رہی ہیں۔ایشیا میں ہو رہی ہیں، ہندوستان میں ہو رہی ہیں۔آپ ایم ٹی اے میں کام کر رہے ہیں تو یہ بھی ایک جہاد ہے جس میں آپ حصہ لے رہے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانا جہاد کبیر ہی ہے تو یہ بھی تو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ اس لیے آپ کو پریشانی کیا ہے؟

اس پرمبلغ سلسلہ نے عرض کی کہ حضور اگر ایم ٹی اے میں یا کسی بھی تقرری کے دوران اسی مربی کی ایک اور ذیلی تنظیم میں کسی منتخب عہدے پر تقرری ہو جائے ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے کی ڈیوٹی آپ کوئی چوبیس گھنٹے تو نہیں کر رہے ہوتے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ لوگ چھ گھنٹے ایم ٹی اے میں بیٹھتے ہیں تو باقی جو اٹھارہ گھنٹے ہیں اس میں سے آپ چھ گھنٹے سو لیں۔ اگر آپ بہت عبادت گزار ہیں تو سارے دن میں آپ کی تین گھنٹے کی عبادت ہو گی۔ اس کے بعد اپنی فیملی اور ذاتی وقت کےلیےدو تین گھنٹے نکال لیں۔تب بھی آپ کے پاس پانچ چھ گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جو آپ اگر چاہیں تو اپنی ذیلی تنظیموں کو وقت دے سکتے ہیںاور دینا چاہیے۔یہ تو نیت پہ منحصر ہے۔ مربی کی کیا بات کر رہے ہو جو دنیا کمانے والے ہیں جو ہمارے جماعتی نظام میں عہدیدار ہیں ان میں سے اکثریت جو ہے وہ آٹھ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دے کے پھر سفر کر کے اپنے کام سے واپس آکر پھر جماعتی کام میں اپنا وقت دیتے ہیں۔وہ بھی تو ایک، دو، تین گھنٹےوقت دیتے ہیں۔تو آپ لوگ مربی جنہوں نے کہا ہے کہ ہم واقف زندگی ہیں۔ وقف آٹھ گھنٹےنہیں ہیں۔ وقف چوبیس گھنٹے نہیں ہیں۔ چوبیس گھنٹے سات دن وقف ہیں۔ تو آپ کو اس کے لیے دو تین گھنٹے نکالنے چاہئیں ۔اس میں کون سا مشکل مسئلہ ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں،آ رام سےنکل سکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ نہیں میں تھک گیا۔ تھکنے والی تو بات ہی کوئی نہیں۔ جماعت احمدیہ میں تھکاوٹ کوئی چیز نہیں ہے۔ آٹھ گھنٹے بھی کام کریں تب بھی دو گھنٹے آرام سے دے سکتے ہیں اور لوگ دس گھنٹے دنیا میں کام کرتے ہیں۔ کمانے والا بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ امریکہ میں ہمارے ایک صاحب تھے وہ بتا رہے تھے کہ میرا جو باس ہے اس کی بڑی بزنس کمپنی ہے۔وہ صبح ہم سے پہلے دفتر آیا ہوتا ہے اور ہمارے جانے کے بعد جاتا ہے۔ اگر وہ بارہ اٹھارہ گھنٹے اپنے پیسہ کمانے کے لیے کام کر سکتا ہے تو آپ لوگ کیوں نہیں کر سکتے جو نعرہ لگاتے ہیں ہم وقف زندگی ہیں ہم جان بھی قربان کر دیں گے،ہم یہ بھی قربان کردیں گےاور فلاں بھی قربان کر دیں گے اور ہم کچھ کر کے دکھا دیں گے۔ پھرکچھ کر کے دکھاؤ۔ سوال پوچھنے کی ضرورت کیا ہے؟ہم بھی دفتر میں کام کرتے تھے اس کے بعد ذیلی تنظیموں میں بھی کام کرتے تھے۔شام کو خدام الاحمدکو وقت دیتے تھے۔بعض دفعہ رات کو دیتے تھے۔ بعض دفعہ رات نو،دس،گیارہ بجے بھی ہو جاتا تھا کہ خدام الاحمدیہ کے دفتر سے واپس آ رہے ہوتے تھے۔ دفتر میں دفتری کام ختم کر کے اس کے بعد جو اپنے ذاتی کام ہیں وہ بھگتا کے پھر دفتر جا کرسارے کام ہو جاتے تھے۔ یہ تو اپنے آپ کو آرگنائز کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح آپ نے آرگنائز کیا ہے۔

ایک مبلغ سلسلہ نے سوال کیا کہ بعض مربیان کو فیلڈ میں خاص طور پر مقامی عہدیداران اور انتظامیہ کے ساتھ کچھ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ بطور مربی سلسلہ کس طرح ان مشکلات اور حالات سے نکلا جائے تا کہ ایک خوشگوار ماحول پیدا ہو اور کام کرنے میں کامیابی ہو؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ مسئلہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔ یہ ہماری فطرت بن گئی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ مربیان یہ سمجھیں کہ انہوں نے انتظامی معاملات میں دخل نہیں دینا۔ تربیت اور تبلیغ کا جو شعبہ ہے وہ ان کا اصل مقصد ہے اس کے لیے شعبہ تربیت اور شعبہ تبلیغ کے جو سیکرٹریان ہیں ان سے ملیں کہ آؤ ہم ایک coordinated پروگرام بناتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم اکٹھے ہو کر کام کریں۔ اور صدر جماعت کو بھی اس میں involveکریں۔ جہاں یہ تاثر ملے کہ کسی وجہ سے کوئیriftپیدا ہو رہی ہے تو اس میں آپ صدر جماعت کو کہیں کہ اس کو دور کرنا چاہیے۔اس طرح تو ہم کام نہیں کر سکتے۔ ہر جگہ ایک ہو کے کام کریں تو پھر ہمارے نتائج بہتر ہوں گے۔ امیر صاحب بھی بیٹھے سن رہے ہیں ان کو بھی صدران کو کہنا چاہیے کہ ایک کمیٹی بنائیں۔ایک تبلیغ کی کمیٹی اور ایک تربیت کی کمیٹی۔ اور اس کمیٹی میں ہمیشہ مربی کا رول ہونا چاہیے۔جب ایسا ہو گا تو پھر coordinatedکام ہو رہے ہوں گے۔ اس میں پھر رفٹ کے کم امکانات ہوتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتی clashکیوں ہوتا ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہclashکیوں ہوتا ہے۔بلکہ مجھے ایک دفعہ مولانا عبدالمالک خان صاحب جو ہمارے بہت پرانے بزرگ مشنری تھے انہوں نے خود بتایا کہ کراچی میں مربیان کی اور امراء کی میٹنگ ہو رہی تھی تو حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس میں کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس طرح عبداللہ خان چودھری ، عبداللہ خان صاحب چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے چھوٹے بھائی تھے، وہ امیر جماعت کراچی ہوتے تھے اور عبدالمالک خان صاحب ضلعی مربی ہوتے تھے کہ جس طرح عبداللہ خان اور عبدالمالک خان اکٹھے مل کے کام کرتے ہیں اور اس کے بہتر نتائج پیدا ہو رہے ہیں باقی امراء کیوں نہیں اس طرح اکٹھے مل کے کام کر سکتے؟ تو یہ تو ایک understanding کی بات ہے اگر نیت نیک ہو۔ اس کے لیے امیر صاحب بھی اپنی انتظامیہ کو سمجھاتے رہا کریں، اپنے صدران کو سمجھاتے رہا کریں کہ ہم نے اکٹھے مل کے کام کرنا ہے۔ ہمارا مقصد احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا ہے، پھیلانا ہے اور اپنے لوگوں کی تربیت کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کے لیے ہم اپنی اکٹھی کوشش کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں تو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور انصار اللہ کو بھی اس میں شامل کریں۔ ایک joint concerted effortہو تو پھر بہتر نتائج پیدا ہوں گے۔

ایک مبلغ سلسلہ نے ذکر کیا کہ چند سال قبل ایک سرکلر موصول ہوا تھا جس میں مبلغین کو واٹس ایپ گروپس میں شامل ہونے سے منع کیا گیا تھا۔جماعت میں ابھی بھی مختلف مقاصد کے لیے کئی گروپس موجود ہیں جو کام وغیرہ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ پہلے سرکلر کے بعد ایک اَور سرکلر جاری ہوا تھا جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ جماعتی گروپس میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ صرف ذاتی طور پر بنائے گئے گروپس میں شامل ہونے سے منع کیا گیا تھا، جن کے فوائد سے زیادہ نقصانات تھے۔

ایک مبلغ نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے جنوبی امریکہ کے بارے میں مختلف خوابوں کے حوالے سے استفسار کیا۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف مثالیں بیان کی ہیں، جیسے کہ گیمبیا کی مثال کہ اگر وہاںاکثریت احمدی ہو جائے تو ہم وہاں بطور نمونہ اقتداری حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ جب ایسا عمل میں آئے گا تو اسلامی حکومت قائم کی جائے گی۔ خلیفہ وقت سے دینی امور کے حوالے سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ اور یہ حکومت ایسی ہو گی جس کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیم اور انصاف پر مبنی ہو گی۔

ایک مبلغ نے حضور انور ایدہ اللہ سے عرض کی کہ ہم سب مربیان اور دوسرے احباب نے مل کر حضور انور کی صحت کے لیےدعا کی تھی۔اب حضور کی کیسی صحت ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جزاک اللہ بڑی اچھی بات ہے آپ نے دعا کی تھی۔ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں۔ آپ نے میرے سے اتنا کچھ بلوا لیا ،ابھی آپ کو یہ نہیں پتا لگا کہ میری صحت ٹھیک ہی ہو گی تو میں بول رہا ہوں۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ریفریشر کورس کو کامیاب کرے اور جو کچھ سیکھیں اس کو صرف کاغذوں اور ڈائریوں کے اندر نوٹ کر کے نہ لے جائیں بلکہ اس کے اوپر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کے یہ کہ پہلے بھی میں نے جس طرح کہا تھاکہ تعلق باللہ میں بڑھیں اور اپنے دین کے علم میں بڑھنے کی کوشش کریں اور اپنی عملی مثالیں جماعت کے سامنے پیش کریں،دنیا کے سامنے پیش کریں۔اسی سے تربیت ہو گی،اسی سے تبلیغ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button