متفرق مضامین

’’مسلمان‘‘ کی تعریف

(’ف۔ مجوکہ‘)

آج کے زمانے میں جہاں دنیا مذہبی اور اخلاقی پہلو میں زوال کی طرف بڑھ رہی ہے وہاں اس زمانے کے مامور کے انکار اور مخالفت میں بھی اس حد تک بڑھ رہی ہے جو سوچ کے دائرہ سے بھی باہر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تو پہلے سے ہی بتایا جا چکا تھا کہ مامور کو بھیجا ہی تب جائے گا جب علم اٹھ جائے گا اور جاہل علماء ان مسندوں پر بیٹھ کو لوگوں کو گمراہی کی طرف لے کر جائیں گے۔ علم حدیث کی کتاب مشکوٰة کی روایت کو دیکھتے ہیں جس میں ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔( اس زمانہ کے لوگوں کی) مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے (یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے ) (مشکوٰة المصابیح،کتاب العلم )۔

پھر اسی طرح امام بخاری اپنی کتاب میں تحریر کر چکے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا اللہ بندوں سے یونہی چھینا جھپٹی کرکے علم نہیں اٹھایا کرتا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہتا تو لوگ ایسے جاہلوں کو سردار بنا لیتے ہیں کہ جن سے اگر (کوئی مسئلہ ) پوچھا جائے تو بغیر علم کے فتویٰ دیتے ہیں۔ خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ (بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم روایت نمبر ۱۰۰) اور جب انہی علماء کی جہالت کو دُور کرنے کے لیے خدا اپنی خاص صفت رحمانیت کے تحت مامور کو مبعوث کرتا ہے تو یہی علماء اس کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ سپین میں چھٹی صدی ہجری کے ممتاز مفسر اور پیشوائے طریقت حضرت محی الدین ابن عربی (۱۱۶۵ء۔ ۱۲۴۰ء) فرماتے ہیں، جب امام مہدی دینا میں ظاہر ہوگا تو علمائے ظاہر سے بڑھ کر ان کا کوئی کھلا دشمن نہیں ہوگا۔ کیونکہ مہدی کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ جاتا رہے گا۔ (فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحہ ۳۳۶)

یہ مخالفت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ دین کی بنیادی اکائیوں پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مگر دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْز (المجادلہ:۲۲)’’اللہ نے لکھ رکھا ہے ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے‘‘۔ اور بدیہی بات ہے کہ جب علماء کے دعوے اور فتوے بے بنیاد ہوں گے تو وہ کسی بھی طرح خدا کے مامور کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔

اب دیکھتے ہیں آج کل انہی باتوں میں سے ایک بنیادی بات تھی کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ کس طرح پتا چلے کہ یہ شخص مسلمان ہے اور یہ شخص مسلمان نہیں ؟ اسلام تو دین یُسر (یعنی آسانی کا دین ) تھا، اس نے تو بہت آسان وضاحت کی اور تدریجا ًدین سکھایا۔ اس نے ارکان ایمان بتا دیے کہ (یعنی اللہ پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، اس کے فرشتوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، تقدیر خیر و شر پر ایمان ) اور ارکان اسلام بھی بتا دیے ( یعنی کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج)۔ مگر اس دور کے علماء نے مامورِ زمانہ کی مخالفت میں اسلام کو تنگی اور سختی کا دین بنا دیا اور اسلام کی وہ تعریف کی جس کی بنیاد اس سے قبل تاریخِ اسلام میں نہ تھی۔ ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیت کی مخالفت میں مسلمان کی تعریف کچھ ان الفاظ میں کی۔

’’کوئی آدمی جو آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر غیر مشروط اور قطعی یقین نہیں رکھتا جو آخری نبی ہیں یا جو آنحضرتؐ کے بعد کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا کسی ایسے مدعی کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ قانون اور آئین کی اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (آئین کی دوسری ترمیم ۷؍ستمبر۱۹۷۴ء)

پھر اس سے بڑھے تو ۲۱؍اگست ۲۰۲۰ء میں یہ قانون جاری کر دیا کہ

’’It is notified for general information and compliance of the unanimously resolution passed by the National Assembly of Pakistan that the name of the Holy Prophet (صلى الله علیہ وسلم وعلیٰ (آلہ و اصحابہ و سلمmay be written in all official /non official record as

حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلى الله عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحابه وسلم۔‘‘

یہ صرف مامور زمانہ کی مخالفت میں کیا گیا کیونکہ آنحضرتﷺ نے کہیں بھی اسلام قبول کرنے کی شرط میں ختم نبوت کی شرط کو شامل نہیں کیا تھا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں آنحضرتﷺ کے دور میں مسلمان کی تعریف کیا تھی، کس طرح کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہلا سکتا تھا، کیا اس کو چند مخصوص الفاظ کو دہرانا ضروری تھا؟ یا ایمان کا تعلق دل سے تھا؟ اس چیز کے لیے ہم صرف احادیث مبارکہ کو ہی بنیاد بناتے ہیں اور بعد کے مورخین کی کتابوں کو چھوڑتے ہیں تا کوئی محلِ اعتراض باقی نہ رہے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ اپنی کتاب صحیح بخاری میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو قبلہ بنایا اور ہمارا ذبیحہ کھایا۔ پس وہ مسلمان ہے۔ (بخاری کتاب الصلاة باب فضل استقبال القبلة ۳۹۱)پھراسی باب کی ایک اور روایت ہے کہ راوی حمید نے کہا کہ میمون بن سیاہ نے حضرت  انس بن مالکؓ سے پوچھا۔ کہا ابو حمزہ! آدمی کے خون کو اور اُس کے مال کو کونسی چیز محفوظ کردیتی ہے تو انہوں نے کہا جو شخص یہ اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے۔ اُس کے لیے وہی حقوق ہیں جو مسلمان کے لیے ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مسلمان پر ہیں۔( پھر راوی حمید کہتے ہیں کہ حضرت انسؓ نے بیان کیا نبیﷺ نے (یہی) فرمایا)۔ (بخاری کتاب الصلاة باب فضل استقبال القبلة ۳۹۳)

گویا بتا دیا کہ مسلمان وہی ہے جس نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کر لیا اور آنحضرتﷺ کو خدا کا نبی مان لیا۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ان دو احادیث میں کہیں کلمہ شہادت کا تو ذکر نہیں۔ تو ذرا غور کریں کہ جو شخص خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گا اور نماز کے کلمات دہرائے گا وہ یقیناً تشہد میں خدا کی وحدانیت کا بھی اقرار کر رہا ہو گا اور آنحضرتﷺ کی رسالت پر بھی ایمان لانے والا ہو گا۔

نیز جب امام نسائی نے اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے اس کو مزید وضاحت سے بیان کیا اور اقرار رسالت کو بھی شامل کیا۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ میمون بن سیاہ نے حضرت انس بن مالکؓ سے پوچھا کہ اے ابو حمزہؓ! کون سی چیز مسلمان کے خون اوراس کے مال کو حرام کر دیتی ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد(ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں اور جس نے ہمارے قبلے کو قبلہ اختیار کیا اور ہمارے جیسی نماز پڑھی اور ہمارا ذبیحہ کھایا تووہ مسلم ہے اس کے لیے وہ سب کچھ ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے اور اس پر وہی(ذمہ داریاں) ہیں جو مسلمانوں پر ہیں۔(نسائی کتاب المحاربہ، باب تحریم الدم، روایت نمبر ۳۹۷۳)

پھر ایک اور حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مزید تفصیل ملتی ہے۔ وہ کچھ یوں ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجد میں سے ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ پراگندہ بال اور ہم اس کی آواز سنتے تھے اور سمجھ نہیں آتا تھا جو وہ کہہ رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ قریب آ گیا تو دیکھووہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا دن رات میں پانچ نمازیں۔ اس پر اس نے کہاکیا ان کے علاوہ مجھ پر کچھ اور بھی ہے؟ فرمایا نہیں۔ سوائے اس کے کہ تم نفل پڑھو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایااور رمضان کے روزے بھی۔ اس نے کہاان کے علاوہ مجھ پر کچھ اور بھی ہے؟ فرمایا نہیں۔ سوائے اس کے کہ تم نفلی روزہ رکھو۔روای نے کہا رسول اللہﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا اور اس نے کہا کیا مجھ پر اس کے علاوہ کچھ او ربھی ہے؟ فرمایا نہیں۔ مگر تم کچھ نفل کے طور پر دو۔ راوی نے کہا اس پر وہ شخص واپس مڑا اور وہ کہہ رہا تھا بخدا! میں نہ اس سے اضافہ کروں گا اور نہ میں کمی کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کامیاب ہوگیا اگر وہ سچ کہہ رہا ہے۔(بخاری کتاب الایمان باب الزکوٰة من الاسلام روایت نمبر ۴۶)

آئیے اب ایک دوسرے پہلو سے مسلمان کی تعریف دیکھتے ہیں۔ امام ترمذیؒ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺنے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے خون اوران کے مال امن میں رہیں۔ اور نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں کون سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ (ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی ان المسلم من سلم المسلمون ۲۶۲۷)

یہی بات امام ابو داؤد نے بھی کچھ فرق کے ساتھ تحریر کی۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر وؓ نے کہامیں نے رسول اللہﷺکوفرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان (باتوں) کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی الھجرة ھل انقطعت ۲۴۸۱)

اب اسلام کی دوسری تعریف بتا دی کہ منہ سے اقرار کافی نہیں جب تک دل سے بھی روز آخرت پر ایمان نہ ہو گا۔ اب یہاں بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان دو احادیث میں تو روز آخرت کا ذکر نہیں۔ ذرا غور کریں کہ ارکان ایمان میں ایک رکن آخرت پر ایمان تھا یعنی روز محشر پر۔ یعنی ایک ایسا دن بھی آئے گا جس میں اعمال نامے کھولے جائیں گے اور وہاں ہر مظلوم کو اس کا حق دیا جائے گا، اس دن کوئی کسی کو دھوکا نہ دے سکے گا اور نہ قوت بیان کے ذریعہ اپنے حق میں فیصلہ دلوا سکے گا۔ پس اگر اسلام قبول کر لیا ہے اور خدا کو واحد معبود اور خالق مان لیا ہے اور یہ سب آنحضرتﷺ کی وساطت سے کیا ہے تو جان لو کہ دنیا میں بھی کسی کو دھوکا نہ دینا اور کسی کا حق نہ مارنا، کیونکہ اس چند روزہ زندگی کے بعد ایک دن ان باتوں کا حساب دینا ہے۔ اگر دنیا میں کسی کو زبان یا ہاتھ سے ایذا دی اور دنیا میں جاہ و حشمت یا طاقت کی وجہ سے سزا سے بچ بھی گئے تو بھی قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا۔

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ نماز پڑھنا یا قبلہ کی طرف رخ کرنا تو بعد کے اعمال ہیں۔ تو جو شخص دل سے مسلمان ہو چکا ہو وہ مسلمان ہی کہلائے گا۔

یہ بات نہایت ہی معقول ہے اور عقل ایسی صورتحال کو قبول کرتی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے کسی سابقہ مذہب یا اپنی لا مذہبیت کو چھوڑ کر اسلام میں آنا چاہ رہا ہو مگر اس کو علم نہ ہو کہ کس طرح وہ اسلام قبول کر سکتا ہے۔ تو کیا اس کے لیے چند مخصوص الفاظ کا دہرانا لازم و ملزوم شرط ہے ؟ احادیث مبارکہ میں اس بات کی بھی وضاحت ملتی ہے۔ امام بخاریؒ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ  کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا اور انہوں نے اُن کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اچھی طرح نہ کہا کہ ہم نے اسلام قبول کیا اور کہنے لگے: ہم صابی ہو گئے۔ ہم صابی ہو گئے ( ہم نے اپنا دین بدل ڈالا)۔ اس پر حضرت خالدؓ نے ان کے آدمی قتل کرنے اور قید کرنے شروع کردیے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو اُس کا اپنا ہی قیدی دے دیا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت خالدؓ نے حکم دیا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے قیدی کو قتل کردے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ یہاں تک کہ ہم نبیﷺ کے پاس پہنچے تو ہم نے آپؐ سے سارا واقعہ ذکر کیا۔ نبیﷺ نے اپنےہاتھ اُٹھائے اور آپؐ نے دو بار یہ فرمایا: اے اللہ! میں تیرے حضور بَری ہوں، اس فعل سے جو خالد نے کیا۔

اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریمﷺ نے ساڑھے تین سو مہاجرین و انصار کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ  کو شوال ۸ھ میں بنو کنانہ کے قبیلہ بنو جذیمہ کے پاس بھیجا جو مکہ کے قریب یلملم کے اطراف میں آباد تھے اور انہیں وہاں لڑنے کے لیے نہیں بلکہ دعوتِ اسلام کی غرض سے بھیجا تھا۔ یہ قبیلہ اسلام کی طرف راغب تھا۔ اس مہم کا نام یوم الغمیصاء بھی ہے۔ بنو جذیمہ کے ایک مخصوص حصے نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور مسلح ہوکر لڑنے لگے۔ جس کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے اُن کا مقابلہ کیا اور شکست ہونے پر وہ قید کیے گئے۔ ان میں سے بعض اپنے آپ کو نرغے میں دیکھ کر صَبَأْنَا صَبَأْنَا کے الفاظ سے اپنے اسلام کا اظہار کرنے لگے۔ صَبَأْنَا کے معنی ہیں: ہم صابی ہوگئے یعنی اپنا دین تبدیل کرلیا۔ آنحضرتﷺ مکہ مکرمہ میں لفظ صابی سے طنزاً پکارے جاتے تھے اور لوگوں کو اس لفظ سے نفرت دلائی جاتی تھی۔ لڑنے والوں نے واضح طور پر اور انشراح سے اسلام قبول کرنے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ صَبَأْنَا کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ اس فقرے سے وہ اپنے آپ کو لڑائی میں قتل سے بچا نہ سکے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پیغام پر اپنے قیدی قتل نہیں کیے اور آنحضرتﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ جس پر آپؐ نے ہاتھ اُٹھائے اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے بیزاری اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اور آنحضرتﷺ کو خالدؓ  کی اس مذکورہ غلطی سے شدید صدمہ ہوا اور آپؐ نے اس کی تلافی کے لیے حضرت علیؓ  کو بھیجا جنہوں نے جاکر ایک ایک بچے کا خون بہا ادا کیا۔ یہاں تک کہ جن کے کتے بھی مارے گئے تھے ان کے کتوں کا بھی خون بہا دیا گیا اور علاوہ واجبی دیت کے ان کو مزید رقم بھی دی۔امام باقرؒنے بھی حضرت علیؓ کے ذریعہ تلافی نقصان کرنے کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری جزء۸صفحہ۷۲)

پھر اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ ذکر ہے کہ جس نے صرف زبان سے بھی کہہ دیا کہ وہ مسلمان ہے تو اسے مسلمان ہی گردانا گیا۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا جن لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کے نام مجھے لکھ دو اور ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ کو دیے اور ہم کہنے لگے کیا اب بھی ہمیں ڈر ہے جبکہ ہم ڈیڑھ ہزار ہیں؟ ہم نے اپنے آپ کو آزمائش کے اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب ایک شخص اکیلا نماز پڑھتا اور وہ خوف زدہ ہوتا۔ (بخاری کتاب الجھاد باب کتابة الامام الناس۳۰۶۰)

اب دیکھیں کہ مدینہ میں ایک گروہ منافقین کا تھا، جن میں عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی تھا، مگر آپؐ نے ان سب کو مسلمان ہی تصور کیا۔ نیز جب اس نے آپؐ کی شان میں گستاخی کی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں، تو آپؐ نے فرمایا نہیں (رہنے دو) لوگ کیا کہیں گے کہ وہ ( یعنی آنحضرتﷺ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے۔ (بخاری کتاب المناقب باب ما ینھی من دعوی الجاھلیة )۔ وہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ دل سے کلمہ نہیں پڑھتا اس کو قتل کر دو۔ اور اس کے زبان سے اقرار کو ہی کافی سمجھا، حتیٰ کہ اس کی وفات پر اس کو اپنی قمیض کفن کے طور پر پہنائی اور اس کے لیے مغفرت کی دعا بھی کی۔ (بخاری کتاب الجنائز باب الکفن فی قمیص الذی یکف، روایت نمبر ۱۲۶۹)

اس بارےمیں حضرت اسامہ بن زیدؓ  کا مشہور واقعہ ہے کہ جب انہوں نے ایک شخص کو جنگ میں قتل کر دیا جبکہ اس نے آخری لمحے پر اسلام کا اقرار کیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:حضرت اسامہؓ  آپ کو نہایت عزیز تھے ان کے باپ کو آپ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ ایک غزوہ میں حضرت اسامہؓ شریک تھے کہ ایک مخالف کے تعاقب میں انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اس نے کہا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر حضرت اسامہؓ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ بعد میں کسی شخص نے رسول کریمﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی۔ آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کیوں مارا جب کہ وہ اسلام کا اقرار کر چکا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے کہا وہ جھوٹا اور دھوکے باز تھا وہ دل سے ایمان نہیں لایا صرف ڈر کے مارے اس نے اسلام کا اقرار کیا تھا۔ رسول کریمﷺ نے سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا: کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچے دل سے اسلام کا اظہار نہیں کر رہا تھا یعنی جب کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم یہ کہتے کہ تم مسلمان نہیں۔ اسامہ بن زیدؓ نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا اور کہا: یا رسول اللہؐ! وہ تو یونہی باتیں بنا رہا تھا ورنہ اسلام اس کے دل میں کہاں داخل ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ اسامہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اس کا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔ اسامہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی اس ناراضگی کو دیکھ کر اس دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے پہلے کافر ہی ہوتا اور آج مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملتی تا کہ رسول کریمﷺ کو میرے فعل کی وجہ سے اتنا دکھ نہ پہنچتا۔ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ و من احیاھا و مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۰۰، ۲۰۷)۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ ۵۵)

پھر اس کی مثال ایک اور طرح بھی ملتی ہے کہ حضورﷺ نے زبان سے محض اقرار کو بھی کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے کافی سمجھا اور اس بات پر زور نہ دیا کہ جب تک دل سے قبول نہیں کرتا تب تک وہ مسلمان نہیں۔حضرت سعدؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺ نے کچھ لوگوں کومال دیا اور سعدؓ بیٹھے ہوئے تھے تو رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو چھوڑ دیا کہ جو مجھے اُن میں سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہایارسول اللہؐ!آپؐ کا فلاں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بخدا میں تو اسے مومن دیکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایایا مسلم! اس پر میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر جو کچھ میں اس کے متعلق جانتا تھا وہ مجھ پر غالب آگیا اور میں نے اپنی بات دہرائی اورکہا آپؐ کا فلاں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ بخدا میں تو اسے مومن دیکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا یا مسلم! پھر اس کے متعلق جو میں جانتا تھا وہ مجھ پر غالب آ گیا اور میں نے اپنی بات دہرائی اور رسول اللہﷺ نے وہی جواب دیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایااے سعد!میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے اس ڈر سے کہ اللہ اس کو آگ میں اوندھا نہ گرا دے۔ (بخاری کتاب الایمان باب اذا لم یکن الاسلام علی حقیقة…، روایت نمبر ۲۷)

گویا بتا دیا کہ دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا مگر زبان سے اقرار بھی ان کے مسلمان ہونے کے لیے کافی ہے۔

آئیے اب ایک اور مثال دیکھتے ہیں جہاں بظاہر کلمہ شہادت نہیں بھی پڑھا مگر پھر بھی اس کے اسلام کو آپؐ نے قبول فرمایا۔ حضرت معاویہ بن حکم سلمی ؓکہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میری ایک لونڈی ہے جسے میں نے زور سے تھپڑ مارا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس بات کو میرے لیے سنگین قرار دیا۔جس پر میں نے عرض کیا کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ۔ وہ کہتےہیں میں اسے لے کر آیا۔ آپؐ نے اس لونڈی سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں۔ آپؐ نے فرمایا میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اسے آزاد کردو،یہ مومنہ ہے۔ (ابوداؤد کتاب الایمان باب فی الرقبة المؤمنة ۳۲۸۲)

پھر اسی ضمن میں ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا ایک شخص ایک سیاہ باندی کے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ اور عرض کیا یارسول اللہؐ! مجھ پر ایک مومن لونڈی آزاد کرنا واجب ہے۔ آپؐ نے اس(لونڈی) سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ پھر آپؐ نے اس ( لونڈی)سے پوچھا! میں کون ہوں؟ تو اس نے نبیﷺ اورآسمان کی طرف اشارہ کیا ( یعنی آپ ؐاللہ کے رسولؐ ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔(ابوداؤد کتاب الایمان باب فی الرقبة المومنة۳۲۸۴)

پھر ایک دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے اپنے وفود کو عرب کے مختلف علاقوں میں بھیجا تو ان کو کیا راہنمائی فرمائی۔ حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابن  عباسؓ نے بیان کیا جب رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ  بن جبلؓ  کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم ایک قوم کے پاس جاؤگے جو اہل کتاب ہے۔ جب ان کے پاس جاؤتو انہیں اس طرف بلانا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوریہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ہر دن اور رات میں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃفرض کی ہے۔ جو ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں لوٹائی جائے گی۔ اگروہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی(بد)دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں۔(بخاری کتاب الزکاة باب اخذ الصدقة من الاغنیاء، روایت نمبر ۱۴۹۶)

اب ایک اور واقعہ دیکھتے ہیں جہاں ایک قیدی نے اسلام قبول کیا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے اور وہ بنی حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ کر لے آئے، جسے ثمامہ بن اُثال کہتے تھے۔ انہوں نے اس کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ نبیﷺ اس کے پاس باہر آئے۔ آپؐ نے پوچھا ثمامہ تمہاری کیا رائے ہے؟ (یعنی یہ کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا۔) اس نے کہا: محمد! اس بارے میں میری رائے اچھی ہی ہے۔ اگر تم نے مجھے مار ڈالا تو ایسے آدمی کو مارو گے جو خون کر چکا ہے۔ اگرتم احسان کرو تو شکرگزار پر احسان کرو گے۔اور اگر تم مال چاہتے ہو تو اس سے جو چاہو مانگو۔ثمامہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جب دوسرا دن ہوا، پھر نبیﷺ نے اس سے پوچھا: ثمامہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: میں تو عرض کر چکا۔اگر آپؐ احسان کریں تو شکرگزارپر احسان کریں گے۔ آپؐ نے اسے پھر ویسے ہی رہنے دیا۔ جب تیسرا دن ہوا۔ آپؐ نے کہا: ثمامہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: وہی جو میں کہہ چکا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ثمامہ کو آزاد کردو۔ اس پر وہ ایک پانی پر چلا گیا جو مسجد کے قریب تھا اور نہایا۔ پھر مسجد میں آیا اور کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کےاور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ محمدؐ! اللہ کی قسم، زمین پر کوئی منہ بھی آپؐ کے منہ سے بڑھ کر میرے نزدیک زیادہ قابل نفرت نہیں تھا مگر آج آپؐ کا چہرہ تمام چہروں سے مجھے زیادہ پیارا ہے۔ اللہ کی قسم! آپؐ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین قابل نفرت نہیں تھا مگر آج آپؐ کا دین تمام دینوں سے بڑھ کر مجھے محبوب ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر بھی آپؐ کے شہر سے بڑھ کر میرے لیے قابل نفرت نہیں تھا مگر آج آپؐ کا شہر تمام شہروں سے بڑھ کر مجھے محبوب ہے اور آپؐ کے سواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کا ارادہ کررہا تھا۔ آپؐ کی کیا رائے ہے؟ رسول اللہﷺ نے اس کو بشارت دی اور اس کو کہا کہ وہ عمرہ ادا کرے۔ جب وہ مکہ میں پہنچا، کسی کہنے والے نے اسے کہا: تم نے دین بدل ڈالا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں، بلکہ میں محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگیا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک دانہ بھی ہرگز نہیں آئے گا جب تک کہ نبیﷺ اس کے متعلق اجازت نہ دیں گے۔(بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ ۴۳۷۲)

کافر لوگ رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرکے مسلمان ہوتے تھے۔ آئیے اب بیعت لینے کی حدیث مبارکہ بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں سےیہ بھی پتا چلتا ہے کہ مسلمان ہونے کی کیا شرائط ہیں۔حضرت جریرؓ نے بیان کیا کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپؐ بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپؐ کی بیعت کر سکوں اور مجھ پر شرائط عائد کردیں کیونکہ آپؐ سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اور تم نماز قائم کرو گے اورتم زکوٰۃ دو گے اور تم مسلمانوں کی خیر خواہی کرو گے اور تم مشرکین سے علیحدگی اختیار کرلوگے۔(سنن نسائی کتاب البیعة باب البیعة علی فراق المشرک، روایت نمبر ۴۱۸۲)

حضرت عبادہ بن صامتؓ  کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی بیعت ایک گروہ کے ساتھ کی۔ آپؐ نے فرمایا مَیں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کا شریک کسی بھی چیز کو نہیں ٹھہراؤ گے اور تم چوری نہیں کرو گے اور تم زنا نہیں کروگے اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور تم کوئی ایسا بہتان نہیں باندھو گے جو تم نے خود اپنے سامنے گھڑا ہو اور تم معروف میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ پس جس نے تم میں سے اپنے عہد کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی غلطی کا مرتکب ہوا پھر اسے اس کی وجہ سے سزا دی گئی تو وہ اس کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے اور جس کی اللہ نے پردہ پوشی کی تو اس کا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے اگرچاہے تو اسے عذاب دے اوراگر چاہے تو اسے بخش دے۔(سنن نسائی کتاب البیعة باب البیعة علی فراق المشرک، روایت نمبر ۴۱۸۳)

پس ان سب روایات کو پڑھ کر نہایت ہی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ کسی کے مسلمان ہونے کے لیے دو ہی باتوں کی اہمیت تھی جو کلمہ شہادت کے دو پہلو ہیں یعنی واحد و یگانہ خدا پر ایمان اور اس کے رسولﷺ پر ایمان۔ چاہے اس کا اظہار انہی مسنون الفاظ میں ہو یا چاہے دل سے اقرار ہو۔ آنحضرتﷺ کو تو خدا تعالیٰ نے آپ کی امت کے بارے میں آخری زمانہ تک کی پیشگوئیوں سے نوازا تھا۔ اور انہی پیشگوئیوں کی بنیاد پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادہ کے ذریعہ اس کو واپس دنیا میں قائم فرمائے گا۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله وآخرین منهم لما یلحقوا بھم، روایت نمبر ۴۸۹۷) اور پھر خود ہی فرما دیا کہ وہ فرستادہ نبی اللہ ہو گا ۔(مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذکر الدجال وصفته وما معہ ۵۲۱۴) اس سب کے باوجود آپؐ نے اسلام کی بنیادی اکائی (یعنی کلمہ شہادت ) میں کسی بھی اور لفظ کو شامل نہیں کیا۔ یقینا ً آپؐ جانتے تھے کہ کسی امتی کے آنے سے آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کے اعزاز میں کسی طرح سے بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ جون ۲۰۱۳ء میں فرماتے ہیں: ’’ہمیں نہ تو ان دنیاوی حکومتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے اور نہ رکھنی چاہئے اور نہ ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لئے یا مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے۔ وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی مانتا ہوں، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ ا ور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں۔ پس اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیر مسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں یقیناً ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں۔ ہر احمدی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قرب اور اس قرب میں مزید بڑھنا یہی الٰہی جماعتوں کا شیوہ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ یہاں ابھی میں نے آئینی مسلمان کہا تو جن کو اس بات کا پوری طرح پتہ نہیں اُن کے علم کے لئے بتا دوں کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ احمدی آئینی اور قانونی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے۔‘‘

پھر اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا ’’ہر احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے وہ یقینا ًاللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہے۔ مسلمان بھی یقیناً ہے اور پکّا مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا بھی ہے۔ اُس کے مسلمان ہونے پر کسی اسمبلی یا سیاسی حکومت کی مہر کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان ہے جو ان آیات کے مطابق جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ اعلان کرے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ فرمایا کہ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ۔ جو کوئی بھی اپنی تمام تر توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر کر اس کا اعلان کر دے کہ میں مسلمان ہوں تو یہی لوگ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا یہ اعلان کرے کہ تم مسلمان ہو یا نہیں ہو، بلکہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع بنا کر پھر اعلان کرے کہ مَیں اپنی مرضی سے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اُسے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور پھر دعویٰ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَھُوَمُحْسِنٌ۔ وہ احسان کرنے والا ہو۔ وہ تمام اعمال احسن طریق پر بجا لائے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیاہے۔ یہ ذمہ داری ہے جو اُٹھانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اور ہر اُس برائی سے بچے جس سے رکنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے شخص پر پڑے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ایسے ہو تو تم میں کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہونا چاہئے۔ نیک اعمال پچھلے گناہوں سے بھی مغفرت کے سامان کر رہے ہوں گے اور نیک اعمال کا تسلسل اور باقاعدگی، برائیوں سے بچنا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا، آئندہ کی غلطیوں سے بھی ایک مومن کو بچا رہے ہوں گے۔ خوف اور غم سے دُور رکھنے والے ہوں گے۔‘‘

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ہدایت دے کہ وہ وقت کے امام کو پہچانیں اور اس کے جھنڈے تلے آ کر حصن حصین میں آنے والے ہوں اور تباہی سے اپنے آپ کو بچانے والے ہوں۔ نیز اللہ ہمیں بھی حقیقی معنوں میں مسلمان بنائے اور ہم خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button