حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آسمان اور زمین کی پیدائش پر غوروفکر (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍اپریل ۲۰۰۹ء)

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (آل عمران: 191-192)

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ ہے کہ یقیناً آسمان اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں عقل والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں اور الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ ۔ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ تونے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ توجہ دلائی ہے کہ ایک بات واضح ہو مخلوق پر، انسانوں پر، کہ ہر قسم کی پیدائش خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس پیدائش میں زمین و آسمان کی ہر چیز شامل ہے۔ انسان بھی اس پیدائش کا حصہ ہے۔ انسان کے لئے اس کی بہتری کے لئے، اس کے کام میں آسانی کے لئے اور اس کے آرام کے لئے دن اور رات رکھے۔ ایک جگہ فرمایا کہ اگر صرف دن ہی ہوتااور رات کبھی نہ پڑتی تو تمہارا حال کیا ہوتا؟ اور اگر صرف رات ہی ہمیشہ کے لئے ہوتی تو پھر انسان کا کیا حال ہوتا؟ ان ملکوں میں، مغربی ممالک میں جائزہ لیں، دیکھیں تو سردیوں کے موسم میں دن بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں اور راتیں لمبی ہوتی ہیں اور ان دنوں میں عموماً دیکھا ہو گا کہ ڈپریشن کے مریض بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی احسان ہے کہ اس نے دن بھی بنایا، رات بھی بنائی۔ دو مختلف اوقات بنائے اور جب اس میں ذرا سی تبدیلی آتی ہے تو باوجود اس بات کے کہ ان لوگوں کو جو یہاں رہتے ہیں اس موسم کی عادت ہے جب چھوٹے دن آئیں، روشنی کم ہو جائے تو ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ یہ جو دن اور رات ہیں، یہ مختلف موسموں میں بھی ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں، دن لمبے ہو جاتے ہیں۔ دن چھوٹے ہوتے ہیں راتیں لمبی ہو جاتی ہیں یا بعض دفعہ برابرہو جاتے ہیں۔ یہ جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ادلتے بدلتے موسم بنائے ہیں، یہ اس لئے ہیں کہ وہ ایک تو اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے کہ کتنا بڑا احسان ہے، ایک ہی طرح کی چیز نہیں بنائی جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ جو فطرت نے اس کی طبیعت میں تبدیلی رکھی ہے اس کا اظہار ہوتا رہے اور انسان کہیں ڈپریشن کا مریض نہ ہو جائے اسے مختلف موسم دئے، پھر یہ کہ روشنی کے جو دن ہیں اگرہم جائزہ لیں تو روشنی عموماً زیادہ دنوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ چھوٹے دن کم عرصے کے لئے ہوتے ہیں اور بڑے دن زیادہ عرصہ کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کاایک بہت بڑا احسان ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عقلمند وہی لوگ ہیں جو ان ادلتے بدلتے موسموں کو، دنوں کو دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے احسان مند ہوں، شکر گزار ہوں کہ اس نے جس طرح انسان کی فطرت بنائی اس کے مطابق موسموں کو بھی ڈھال دیا اور اس لحاظ سے یہاں فرمایا کہ یہ جو بدلتے ہوئے دن ہیں اور راتیں ہیں انسان کو ان روشنی کے دنوں سے سبق حاصل کرناچاہئے اور روحانی فائدہ بھی اٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے نور کو، اس روشنی کو جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، وہ روحانی روشنی جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے دنیا میں بھیجتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان بھیجے ہوؤں کو تلاش کرنا چاہئے اور جو پیغام وہ لاتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے اس کی صداقت کو تسلیم کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے نہ کہ انکار کرنے کی طرف۔ تو یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کو توجہ دلاتی ہیں۔ اس کی عبادت کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ اس کا شکر گزار اور احسان مند بناتی ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی کو پہچان کر اُس روشنی سے حصہ پا رہے ہیں جو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی ترقی کے لئے بھیجی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حصّہ پانے اور فیض اٹھانے کے لئے صرف پہچاننا اور مان لینا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ضروری ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا کہ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ کہ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بَل بھی۔ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ بے ساختہ یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو نے ہرگز یہ چیزیں یوں ہی پیدا نہیں کیں۔ بے مقصد پیدا نہیں کیں بلکہ ہر پیدائش کا ایک مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی جتنی مخلوق اس زمین پر بھی پائی جاتی ہے چاہے وہ زہریلے جانور ہی ہوں، ان کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ہم کہیں تیری اس بات کا انکار کرکے تیری خدائی کا انکارکرکے آگ کے عذاب میں نہ پڑنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے مبعوث کئے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر اور بھی زیادہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ پیدا ہو اور ہر وقت ہر سوچ کے ساتھ اور ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس کو دیکھ کر ایک احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوں۔ اور جب ذکر ہو گا تو عبادت کی طرف توجہ ہو گی اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ تو یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کے اندر آ کر انسان پھر نیکیوں پر عمل کرتا ہے۔ نیکیوں کو کرنے کی توفیق پاتا ہے اور شکر گزاری کے جذبات سے سرشار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی زمین و آسمان میں پیدا کی ہے اس پر غور کرکے اللہ تعالیٰ پرایک بندے کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔

…اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے آسمان و زمین کی پیدائش میں بھی اگر غور کرو تو ایک نئی شان ہے۔ دوسرے سیاروں کو تو ابھی ہم نے دُور سے ہی دیکھا ہے اور سائنسدانوں نے کچھ اپنے علم کے مطابق کچھ اندازے لگا کر، کچھ دھندلی سی تصویریں دیکھ کر ہمیں ان کے بارہ میں بتایا لیکن ان کی گہرائی کا ہمیں پتا نہیں لیکن یہ زمین جو ہے، جس میں خداتعالیٰ نے ہمیں آباد کیا اس زمین میں ہی عجیب عجیب نظارے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صنّاعی کے نظر آتے ہیں۔ پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی شان اور پھر اس پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیات جو اُس زمانے میں آج سے 14، 15سو سال پہلے عرب کے صحرا میں ایک ایسے انسان پر اتریں جس کو دنیا کا علم نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے اپنی کتاب اتار کر، اپنا کلام اتار کراسے کامل انسان بنا دیاتھا۔ اس نے پھر ہمیں بتایا اور پھر یہ بات بے اختیاراسلام کی سچائی اور آنحضرتﷺ کی سچائی پر ایک یقین قائم کرتی ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے اُس زمانے میں جب سائنس کو ترقی نہیں تھی، اُس وقت زمین اور آسمان کی پیدائش کے بارے میں بڑے گہرے گہرے راز بتائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان چیزوں کو دیکھ کر جو ایک مومن انسان ہے پھر یہ بے اختیار کہتا ہے کہ مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اے اللہ تعالیٰ تو نے ساری چیزیں ایسی پید اکی ہیں جو جھوٹ نہیں ہیں۔ پس ہمیں کبھی ایسا نہ بنا جو اس کو جھوٹ سمجھنے والے ہوں، غلط سمجھنے والے ہوں۔ اور پھر ہم اس کی وجہ سے تیری عبادت سے بے اعتنائی کرنے والے ہوں۔ تیری عبادت نہ کرنے والے ہوں اور نتیجۃً پھر تیرے عذاب کے مورد بنیں۔ پس قرآن شریف جو ہم پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی سائنس کے بارے میں یہ چیزیں اور اپنی پیدائش کے بارہ میں جب ان آیات پر غور کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ پر ایمان اور مضبوط ہوتا ہے اور اسلام کی سچائی اور زیادہ ہم پر واضح ہوتی ہے۔ پس ہر احمدی کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی پیدائش کی ہے وہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نہیں ہے اگر وہ دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی زمین پر ہی بے شمار مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button