حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

غیر رشتہ دار ہمسائے سے بھی حسنِ سلوک کرو

اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اس کا تو تب پتہ لگے گا کہ غیروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ جو غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر تلقین کی گئی، اس قدر تواتر سے آنحضرتﷺ کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اب ہمسائے ہماری وراثت میں بھی حصہ دار بن جائیں گے۔ تو ہمسائے کی یہ اہمیت، یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ اس کا خیال رکھنا، اس سے حسن سلوک کرنا، اس کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہمسائے ہیں جو گھر کی چاردیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہیں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں، ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنیں، تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تووہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی۔ اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیل سکتی۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے زیادہ آمنا سامنا ہمسایوں سے ہوتا ہے۔ ان کو اگر دل کی گہرائیوں سے سلامتی کا پیغام پہنچائیں گے تو وہ بھی آپ کے لئے سلامتی بن جائیں گے۔ ان مغربی ممالک میں عموماً ہر کوئی اپنے میں مگن رہتا ہے ان لوگوں کی ایک زندگی بن گئی ہے کہ اپنا گھر یا اپنے بہت قریبی۔ ہمسائے کا وہ تصور یہاں ہے ہی نہیں جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے کہ ہر بظاہر چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی توجہ دلا دی اور پھر اس کے نتیجے کے طور پر بڑی بڑی جنتوں کی خبریں دیں تاکہ ہر طرح سے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کے لئے ہر مومن کوشش کرے۔ تو جب ان لوگوں سے سلامتی کا پیغام پہنچاتے ہوئے ہم تعلق رکھیں گے، جب ان لوگوں کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ لوگ بے غرض ہو کر ان سے تعلق رکھ رہے ہیں، ان کے یہ تعلق ہماری ہمدردی کے لئے ہیں، تو یہ لوگ خوش بھی ہوتے ہیں اور حیران بھی ہوتے ہیں کیونکہ اس کی ان کو عادت نہیں ہے۔ ان باتوں کا، اس خوشی کے اظہار کا، ان کی باتوں اور خیالات سے بڑا واضح پتہ لگ رہا ہوتا ہے۔ اس تعلق کو بڑھانے کی وجہ سے فطرت کی جوآواز ہے۔ اگر نیک فطرت ہے تو فطرت تو ہر ایک سے یہ چاہتی ہے کہ نیکی کا سلوک ہو۔ فطرت کی وہ آواز ان کے اندر بھی انگڑائی لیتی ہے۔ وہ بھی اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے ہمارے سے نیک تعلق کی وجہ سے رابطہ رکھ رہے ہیں۔ کوئی مفاد یا ذاتی منفعت حاصل کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ اِلّاماشاء اللہ اکثریت اس بات پر خوش ہوتی ہے۔

(خطبہ جمعہ یکم جون ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍جون ۲۰۰۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button