یادِ رفتگاں

جماعت احمدیہ کے پہلے ہندوستانی شہید حضرت مولوی عبیداللہ صاحب رضی اللہ عنہ

(بشارت نوید)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جس پیارے اور انمول انداز میں اسلام کے دورِ اوّلین کے شہداء یعنی شہدائے بدر کا ذکر خیر خطبات میںکیا ہے اوراُس دَور کی حسین یادوں کو زندہ کیاہے۔یہ خیروبرکت کی توفیق بھی صرف آپ ہی کے حصہ میں آئی ہےجس کی مثال گذشتہ چودہ سو سال میں ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔دوسری طرف اسلام کے دورِ آخرین میں بھی خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے آغاز میں ہی آپ کے دورِخلافت میں جس قدرشہادتیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی توفیق ملی ہے اس کی مثال بھی گذشتہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

آئیں آج ہم پہلے ہندوستانی اور واقفِ زندگی شہید حضرت مولوی عبید اللہ رضی اللہ عنہ شہید کی یادو ںکو تازہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی حضرت حافظ غلام رسول وزیر آبادیؓ احمدیت قبول کرنے سے قبل اپنے علاقے کے ایک مشہور وہابی عالم دین تھے۔احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے آپ کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین نے آپ کے گھر اور جائیداد پر بھی قبضہ کر لیا اور آپ کو وہاں سے نکال دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب آپ نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا صبر کریں اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے اچھا گھر دے گا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ الحمدللہ ا للہ تعالیٰ نے مجھے قادیان میں اُس سے اچھا گھر عطا کیا جو میں حضرت مسیح موعودؑ کی اطاعت میں صبر کرتے ہوئے مخالف رشتہ داروں کے پاس چھوڑ آیا تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے جب زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو آپ کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ عبیداللہ تھا جس کی عمرتقریباََ ٦سال کی تھی۔ آپ نے اُسے اُسی وقت اللہ کی راہ میں وقف کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش کردیا۔

ماریشس میں جماعت کی طر ف سے جب دوسرے مبلغ بھجوانے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں درخواست کی گئی تو آپؓ کی نظر مبارک مولوی عبیداللہ صاحب رضی اللہ عنہ پر پڑی جو کہ اُس وقت مبلغ بن چکے تھے۔

ماریشس کے لیے روانگی

مولوی عبید اللہ صاحب رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ اور حضرت صوفی غلام محمد مبلغ سلسلہ ماریشس کی اہلیہ کے ہمراہ ۱٤؍اکتوبر ۱۹۱۷ءکو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲٥؍نومبر کو ماریشس پہنچے۔اس وقت تک آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ماریشس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شادی کے ۸سال بعد ایک بیٹے اور بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ جنوری ۱۹۱۹ءمیں بیٹی امۃ الحفیظ اور جولائی ۱۹۲۰ء میں بیٹا بشیرالدین پیدا ہوا۔یہ پہلے بچے تھے جو کسی مبلغ کے بیرون ملک پیدا ہوئے۔ ماریشس میں آپ کا تقرر Saint Pierreجماعت میں کیا گیاجہاں آپ تبلیغ اور تربیت میں دن رات حضرت صوفی غلام محمدؓ کا باتھ بٹانے لگے۔

ماریشس کی آب و ہوا آپ کے موافق نہ تھی اور بہت زیادہ نمی والی جگہ میں رہنے سے مسلسل کھانسی اور سر درد کی تکلیف رہتی۔آپ کی صحت خراب ہونے لگی لیکن آپ بغیر کوئی شکایت کیے دل لگی سے اسلام احمدیت کی خدمت میں لگے رہے اوردن رات ایک کردیا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور جان پیش کردی لیکن یہ پسند نہ کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ماریشس سے واپس جانے کے لیے درخواست کریں۔٦ سال میدان عمل میں خد مت دین کرنے کے بعدآج سے تقریباًسو سال قبل آپ نے٤؍دسمبر ۱۹۲۳ء کو ۳۲سال کی عمر میں میدان عمل میں شہادت کو گلے لگا لیااور ماریشس میں ہی دفن ہوئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا خطبہ جمعہ

آپ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۱؍دسمبر ۱۹۲۳ءکوایک پُر درد خطبہ ارشاد فرمایا اور تمام بیرونی جماعتوں کو تاکید فرمائی کہ میرا یہ خطبہ پڑھ کر سُنایا جائے اور جنازہ پڑھا جائے اور خلوص اور اخلاص کے ساتھ نماز میں مرحوم کے لیے دعا کریں۔آپؓ نے فرمایا ’’ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جو اپنے شہیدوں کو اعلیٰ اور عزت کا مقام نہیں دیتی ‘‘ آپؓ نے مزید فرمایا کہ ’’میں اپنے علم ویقین کی بنا پر کہتا ہوں کہ ہمارے ماریشس کے مبلغوں نے نہایت اخلاص کے ساتھ خدمتِ دین کی اور وہ ہمارے اعلیٰ مجاہدوں میں شامل ہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لیے کیا ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی خطبہ میں فرماتے ہیں:…میں آج ایک دین کی خدمت میں جان دینے والے عزیز کی یاد کے لیے اور دوستوں کو اُس کے لیے دعا کی تحریک کرنے کے واسطے خطبہ پڑھنے لگا ہوں۔وہ دوست جس کو خدمتِ دین میں شہادت ملی ہے وہ ہمارا عزیز بچہ عبیداللہ ہے….عزیز عبید اللہ کی موت معمولی موت نہیں اور طبعی طور ہمارے لیے صدمہ اور رنج کا باعث ہے۔ماریشس میں اُس کے رشتہ دار نہ تھے۔وہ وہاں اپنے رشتہ داروں کے لیے نہ گیا تھا۔نہ وہ بڑی تنخواہ کے لیے گیا تھا۔ وہاں اُس کو جو تنخواہ ملتی تھی یہاں کے لحاظ سے بھی زیادہ نہ تھی۔حالانکہ یہاں جتنے میں آٹا دس سیر فروخت ہوتاہے وہاں دو سیر بکتا ہے۔مگر وہ اپنی اس تنخواہ میں گزارہ کرتا رہا۔پھر وہ عمر رسیدہ نہ تھا کہ ابتدائی عمر میں دُنیا کی خوشیاں دیکھ چکا تھا۔ اور آخری عمر میں دین کی خدمت کے لیے نکلاتھا۔ وہ سترہ اٹھارہ برس کانوجوان تھا جب اُس نے اپنی زندگی دین کے لیے وقف کی۔دُنیاکی خوشیوںمیں سے ایک بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں رہے۔ مگر اس عزیز نے شروع سے یہ حاصل نہ کی۔ اُس کی ابتدائی عمر والدین سے جدائی میں طالب علمی کے رنگ میں قادیان میں گزری۔ اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو ہندوستان سے باہر چلا گیا۔باپ کے پاس رہنے کا اس عزیز کو بہت کم موقع ملا۔کیونکہ اس کی جس قدر عمر تھی یا قادیان میں تعلیم کے لیے یا ہندوستان سے باہر تبلیغ دین میں بسر ہوئی۔ گویا کہ اُس کو یتیم کی موت ملی۔وہ دُنیا میں اکیلا آیا۔ اور اکیلا چلاگیا۔ ایسے وقت اور ایسی صورت میں جو احساسات غم ہو سکتے ہیں اُن کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔اُس کے اور حالات جانے دو۔اُس کی یہ موت ہی بہت بڑی قربانی اور اس کے ساتھ نہایت درجہ غم کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔

لیکن میں نے اور خوبیوں کے علاوہ اُس میں ایک خاص خوبی پائی تھی اور اس خوبی کو اُس کی موت نے اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔وہ یہ تھی کہ اُس نے دین کے لیے زندگی وقف کرنے کا جوعہد کیا تھا اُس کو نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ نباہا۔اور آخیر وقت تک کسی قسم کی شکایت یا تکلیف کے اظہار کا ایک لفظ بھی اُس کے منہ سے نہ نکلا۔ حالانکہ کئی بڑے بڑے آدمی مشکلات میں گھبرا جاتے اور شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں مالی مشکلات پیش آتی ہیں۔کبھی اُن کو رشتہ دار یاد آتے ہیں۔کبھی وطن کا خیال آتا ہے لیکن اس لمبے عرصہ میں اس عزیز نے کبھی اپنے کسی خط میں کسی امر کی شکایت اشارۃََ یا کنایۃََ  نہیں لکھی۔اور میں نے کبھی اُس کے خط سے محسوس نہیںکیا تھا کہ اُس کو کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے یا اُس کو اپنے عزیزواقارب یاد آتے ہیں۔مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم نے اپنے عہدِوقف کو کس درجہ تک نباہاکہ اُس کے تازہ خطوط سے معلوم ہوا ہے ( ماریشس سے خطوط بہت دیر کے بعد آتے ہیں ) کہ مرحوم کو سِل کی مرض ہو گئی تھی اور یہ ایسی مرض ہے کہ جب ڈاکٹر اس کا نام بتا دے تو بڑے بڑے آدمی گھبرا جاتے ہیں۔مگر اُس کی حالت عجیب تھی۔آخری خط میں اُس نے لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں مجھے سِل ہوگئی ہے لیکن میرا خیال ہے اُن کی بات غلط ہے۔اگر ہو تو بھی خیر میں نے بہرحال خدا کے دین کا کام کرنا ہے اور وہ میں کر رہا ہوں۔خیال کرو۔ جب کہ بڑے بڑے لوگ ڈاکٹروں کے فتویٰ کو بہت اہم قرار دیتے ہیں اور سِل کا نام سُن کر گھبرا جاتے ہیں۔ یہ عزیز کس اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خُدا کے کام میں مصروف رکھتا ہے اور دلیری سے اس بات کی تردید کرتا ہے۔گویاکہ وہ اپنی نازک حالت میں بھی اپنے کا م اور عہد سے غافل نہیں تھا…ان کی موت اُس مجاہد کی طرح ہے جو دشمنوں کی فوج کو مسلمانوں کو پامال کرتا دیکھ کر تلوار ہاتھ میں لے اور کفار کی فوج پرحملہ آور ہوجائے اور لڑتے لڑتے میدان میں ہی جان دے دے۔وہ وطن سے دُور عزیزوں سے دُور اور ایسی بیماری جس میں اپنے گھر کی چھت کے نیچے عزیزوں کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے وہ جان دیتا ہے اور اس طرح خدمتِ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے اقرار کو آخری سانس تک پورا کردیا۔اور دکھادیا کہ خدا کی راہ میں میرے لیے کوئی تکلیف نہیں۔ پس وہ ہمارے شکریہ اور حمد کا مستحق ہے۔اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی تعریف کریں۔اور دراصل جس کی حمد وتعریف خدا کرتا ہے ا ُس کی حمد اور کون کر سکتا ہے۔میں خدا کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اُس کو خدا کی حمد حاصل ہوگئی۔اللہ تعالیٰ صحابہ کے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے:مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔(الاحزاب:۲٤) مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس عہد کو جوانہوں نے اللہ سے کیا تھا کہ ہم نے اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کردی۔ آخری گھڑی تک پورا کردیا۔اور کچھ ایسے ہیں جو اس عہد پر قائم ہیں کہ آخری دم تک پورا کریں گے۔میں سمجھتا ہوں مولوی عبیداللہ اپنے عمل سے آیت کا مصداق ثابت ہوا ہے…

جماعت احمدیہ کا پہلا ہندوستانی شہید

حضر ت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:’’جماعت احمدیہ کا پہلا ہندوستانی شہید مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ دین کے لیے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نبھانا دونوں باتوں کو جانتا تھا۔ ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبد اللطیف تھے یا دوسرے کہ اُن سے پہلے اُن کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے۔ مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے۔بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے۔ ہندوستان میں سے شہادت کا پہلا موقعہ عبیداللہ کو ملا ہمیں اُس کی موت پر فخر ہے گو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جد اہوگئی۔ میں اُن کے لیے خدا سے دعا کرتا ہوں اور ان کے پسماندگان کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنے قرب کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر بخشے۔‘‘(الفضل ۱٤؍دسمبر۱۹۲۳ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سب سے پہلا ہاتھ

حضرت مولوی عبیداللہ رضی اللہ عنہ نہ صرف مدرسہ احمدیہ کے اجرا پر اوّلین طلبہ میں سے تھے بلکہ انتخاب ِ خلافتِ ثانیہ کے وقت بھی جس خوش نصیب کو سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی سعادت نصیب ہوئی وہ بھی حضرت مولوی عبیداللہ شہید ہی تھے۔ ’’عزیزعبیداللہ صاحب شہید کا ہاتھ سب سے پہلے دستِ خلافت پر پہنچا۔‘‘(موازنہ مذاہب جولائی۲۰۲۳ء صفحہ۸۰)

نوجوان بیٹے کی شہادت پر صبر جمیل اور پُر عزم خطاب

آپ کے والد محترم حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ اُس وقت تبلیغی سفر پر تھے جب اُنہیں اپنے بیٹے کی وفات کی اطلاع ملی تو آپ قادیان تشریف لائے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدا کی رضا پر شاکر ہونے کا اظہار کیااور ہر تعزیت کرنے والے سے اس طرح ذکر فرمایا کہ میری اس سے بڑھ کر کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ خدا نے میرے بچہ کوشہادت کادرجہ دیا۔۱٤؍دسمبر بروز جمعہ آپ نے مسجد اقصیٰ میں نمازعصر پڑھائی اور لوگوںسے کہا کہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے جوان بیٹے کی شہادت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اس میں بھی مجھے شانِ الٰہی کا جلوہ نظر آرہا ہے۔اب کیامیں یہ توقع نہیں کرسکتا کہ خدا تعالیٰ اُس کے بچہ بشیر احمد کو بخیریت میرے پاس پہنچائے اور میں اُسے قرآن پڑھا کر اور تعلیم دلا کر خدمت دین کے لیے اُسی جگہ بھیجوں جہاں میرا بچہ شہیدہوا ہے۔خدا کے فضل سے اس توقع اور ارادہ کا پورا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔آپ لوگ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ توفیق دے۔‘‘(الفضل ۱۸؍دسمبر۱۹۲۳ء)

آپؓ نے یہ بھی فرمایا:’’میرے لیے ایسے بیٹے کے مرنے پر رنج اور تکلیف کی کیا وجہ ہوسکتی ہے جسے حضرت خلیفۃالمسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید قرار دیا ہے۔اور جسے قرآن کریم شہید قرار دیتا ہے۔ میں تو خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے میری یہ قربانی منظور فرمائی۔مجھے بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ حضرت صاحب کو لکھو کہ عبید اللہ کو واپس بُلالیں۔میں اُن کو کہتا تھا۔ جس کام کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے دیا تھا وہ کر رہا ہے پھر اُس کو بُلانے کی کیا ضرورت ہے…آپ میرے متعلق کوئی فکر نہ کریں۔میں اس واقعہ پر فخر کرتا ہوں ہاں تعزیت آپ لوگ کر سکتے ہیں۔مگر وہی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر دے۔ صبر کا اجر دے۔اور نعم البدل عطا فرمائے۔ میری کیا ہی خوش قسمتی ہوتی۔ اگر میرے بہت سے بیٹے ہوتے اور اسی طرح خداکی راہ میں قربان ہوتے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں۔ کہ میری جتنی زندگی باقی ہے اس میں اپنے چھوٹے بچہ اور عبیداللہ کے بچہ کو خدمتِ دین کے لیے تیار کرسکوں…حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب مدرسہ احمدیہ کے جاری کرنے کی تجویز فرمائی۔تو فرمایا کوئی ہے جو خدا کے دین کی خدمت کے لیے اپنی اولاد وقف کرے۔اُس وقت میں نے عبیداللہ کو پیش کیا۔ اور اُسی دن سے سمجھ لیا کہ یہ خدا کی چیز ہے۔میرا اس سے تعلق نہیں…یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لڑکوں میں سے اس کو سب سے پہلے خدمتِ دین کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے چُنا۔ورنہ اور بھی اچھے اچھے لڑکے تھے۔اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس کوشہادت کا رتبہ حاصل ہوا۔ یوں تو میرے مرنے کے چند سال بعد میرا نام مٹ جاتا اور کسی کو یاد نہ رہتا۔مگر اُس کی شہادت سے میرا نام بھی ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا۔ اس سے مجھے کیا صدمہ اور رنج ہو سکتا ہے۔ یہ تو میرے لیے خوشی اور فخر کی بات ہے… عبید اللہ میرا ایسا فرمانبردار بچہ تھا کہ ۳۲سال کی عمر میں اس نے ایک دن بھی میری نافرمانی نہیں کی۔وہ جنوری ۱۸۹۲ءمیں پیدا ہواتھا۔اور ۱۹۲۳ءمیں خدا تعالیٰ سے جا ملا۔‘‘(الفضل ۱۸؍دسمبر۱۹۲۳ء)

’’اُس نے اپنے آپ کو خدمتِ دین کے لیے پیش کیا اور اپنے قول کوآخر دم تک نبھایا۔عمر بھر اس عزیز نے میری رضاء کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔اُس کے جو رقعے میرے پاس ماریشس سے آتے اُن میں بھی صرف تبلیغی اوردینی امور کا ذکر ہوتا۔کبھی کسی اپنی تکلیف دُنیاوی کا ذکر تک نہیں کیا…مجھے کبھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میںعزیز کے لیے یہ کوشش کروں کہ وہ ہندوستان میں آجائے۔بلکہ میں یہی کہتا تھا کہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح پسند فرماویں اُس سے کام لیں۔ عزیز زندہ تھا تو خدا کے دین کا خدمت گذار۔اب فوت ہوا تو خدا کے حضور۔پس میرے لیے رنج کی کوئی وجہ نہیں۔اگر ایسے سو عبید اللہ بھی ہوں تو خدا کی راہ میں قربان کرنے کو اپنی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔جب عزیزی مولوی عبید اللہ صاحب کو اللہ نے لڑکا دیا تو اس نے مجھے خط لکھا۔کہ کئی پشت سے ہم میں حفظ قرآن کی نعمت چلی آتی ہے۔اگر میں پہلے فوت ہو جائوں تو آپ کا فرض ہے کہ اس بچے کو حفظ قرآن کرائیں۔اتفاق سے ایسا ہوا کہ میرے ہاںبھی ایک لڑکا اُنہی ایّام میں پیدا ہوا۔میں بھی اِس مضمون کا خط اُس عزیز کو لکھ چکا تھا۔اُدھر سے اُس کا خط مجھے ملا اور میرا اُسے۔ اب انشاءاللہ اگر زندگی رہی تو عزیز مرحوم کی وصیت کو پورا کروں گا۔‘‘ (الفضل یکم جنوری ۱۹۲٤ء)

حضرت مولوی عبید اللہ رضی اللہ عنہ شہیدکے اوصافِ حمیدہ

حضرت صوفی غلام محمدصاحب رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں ایک مفصل مضمون لکھا جو الفضل ۲۲؍جنوری ۱۹۲٤ءمیں شائع ہوا ہے۔آپ لکھتے ہیں کہ مولوی عبید اللہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ۱۹۰۳ءمیں قادیان آئے تھے۔۱۹۱٥ء یا ۱۹۱٦ءمیں مدرسہ احمدیہ سے فارغ تحصیل ہوئے۔آپ کے والد حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی حافظ قرآن تھے اور اسی وجہ سے قادیان میں آپ کا نام حافظ عبید اللہ مشہور تھا۔قرآن بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ماریشس آنے سے قبل الفضل میں کام کیا۔پنجاب میں بطور مبلغ کام کرتے رہے ہیں۔ پُر جوش مخلص احمدی تھے۔ احمدیت کے لیے بڑے غیور تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔مرحوم بہت شوق رکھتے تھے کہ فرانس جائیں اور وہاں خدا کے نام کو پھیلائیں۔ ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا کہ اگر میرے اہل وعیال میرے ساتھ نہ ہوتے تومیں ضرور فرانس میں تبلیغ کے لیے جاتا۔ اپنی اہلیہ سے ذکر کیا کہ جب صوفی صاحب واپس قادیان جائیں گے تم بھی ساتھ چلی جانا تاکہ میں زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرسکوں۔ ایک دفعہ مجھے بتایا کہ میں نے حضرت فضل ِعمر کی خدمت میں لکھ دیا ہے کہ جب مبلغ بھجوائیں تو اُس کے ساتھ ان کے اہل وعیال نہیں بھیجنے چاہئیں کیونکہ یہ تبلیغ میں حارج ہوتے ہیں۔مرحوم نے ماریشس میںاوّل تا آخر قرآن شریف کا درس دیا۔کئی لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔اپنی بیوی کو ترجمہ قرآن کریم ختم کرایا۔ مرحوم عابد زاہد تھے۔یہاں جتنے رمضان آئے اُس میں برابر اعتکاف کرتے رہے۔آپ کو کتب منگوانے کا بہت شوق تھا۔مسجد دارالسلام جو اسی سال تیار ہوئی اور نمازپڑھنے کے قابل ہوگئی تو کہنے لگے میرا دل چاہتا ہے اس مسجد کی طرف دیکھتا رہوں۔ آپ خوش خُلق اور جماعت کے لیے غیر ت مند اور کسی سے نہ ڈرنے والی طبیعت رکھتے تھے۔آپ کی بیوی صاحبہ کا قول ہےکہ اُن کی طبیعت ہمیشہ سنجیدہ اور مغموم رہتی تھی۔جب میں پوچھتی کہتے قادیان جاکر کیا منہ دکھائوں گا۔ جس طرح میرا دل چاہتا ہے کام نہیں ہورہا۔اس دُنیا میں میرا دل نہیں لگتا۔تبلیغ احمدیت کا اُن کی طبیعت میں بڑا جوش تھا۔

وصیت

صوفی صاحب کو بذریعہ ٹیلی فون گھر بلوایا اور وصیت کی کہ میرے پاس کچھ نہیں سوائے اُس زمین کے جو میں نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ سے خریدی ہوئی ہے۔اُس کا پانچواں حصہ بہشتی مقبرہ کے لیے وصیت کرتا ہوں۔

زندگی کے آخری لمحات

کمزوری بہت بڑھ گئی اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور اِنہیں گھر لے جانے کا کہا۔ واپسی پر گاڑی میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ۔ربناولک الحمد۔التحیات آخیر تک پڑھتے رہے۔جو احباب موجود تھے اُن سے مصافحہ کیا اور کہا خدا کی شان میں خوش رہو۔ ایک دفعہ اپنے بچوں کو بُلا کر ان کے چہروں پر ہاتھ رکھ کر پیار کیا۔

صوفی صاحب لکھتے ہیں کہ وفات سے قبل اُن کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا اور اُن کی ناک پر پسینہ بہنے لگا۔میںنے اُس وقت کسی سے کہاکہ مومن کی پیشانی پر موت کے وقت حدیث میں آیا ہے پسینہ آتا ہے۔ ٤؍دسمبر رات ۱۰بج کر ۲۰منٹ پر آخری سانس شروع ہوگئے۔اس وقت ان کی بیوی صاحبہ مردوں کو ہٹا کر ان کے پاس آئیںجن کے سامنے صرف چار سانس آئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اہلیہ کا بے مثال صبرو رضا اور تجہیز وتکفین

صوفی صاحب لکھتے ہیںکہ مولوی صاحب کی بیوی نے کہا بہتر ہے رات کو ہی نہلا دیا جائے۔ جب غسل دینے لگے تو مولوی صاحب کی بیوی نے مجھے بُلا کر میری بیوی کے ذریعہ مجھے کہا کہ مولوی صاحب حینِ حیات فرمایا کرتے تھے کہ اگر تو میرے سامنے فوت ہوئی تو میں تجھے نہلائوں گا۔اگر میں تمہارے سامنے فوت ہوا تو تم مجھے نہلانا۔اس لیے مجھے نہلانے دیا جائے۔ میں نے کہا آپ اکیلی کیسے نہلائیں گی۔ یہ سُن کر وہ رونے لگیں۔ اُنہوں نے سمجھاکہ اُنہیں نہلانے نہیں دیا جائیگا۔پھر مجھے کہا کہ امۃ المجید پانی ڈالتی جائے گی اور میں نہلا دونگی۔میں نے چند اصحاب سے پوچھا اُنہوں نے کہا کوئی ہرج نہیں۔ تختے پر اُن کی لاش رکھ دی گئی۔چادر سے پردہ کر دیا گیا اور غُسل کا سارا سامان پاس رکھ دیا گیا۔مولوی صاحب کی بیوی نے امۃالمجید کی مدد سے نہلایا۔ کفن خود مولوی صاحب کی بیوی نے اپنے ہاتھ سے مشین پر سیا۔ (الفضل ۲۲؍جنوری ۱۹۲٤ء)

شہادت کے بعد کے مختصر حالات

حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ نے اپنے بیٹے کی وفات پر جن نیک خواہشات کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی جب ہم بعدکے حالات و واقعات کی طرف نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پیار کا سلوک کیا اور آپ کی خواہشات کو پوار کیا۔

اب خاکسار قارئین کے سامنے بہت اختصار کے ساتھ اُن واقعات کا ذکر کرنے لگا ہے جو اس شہادت کے بعد پیش آئے۔

۱۹۲٤ءمیں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے ماریشس کا سفر کیا۔آپ نے ماریشس میں چند ماہ قیام کیا۔جزیرہ کے اندر تبلیغی سفر کیے۔ ماریشس میں ماہ رمضان میں نمازتراویح پڑھائی اور پھر اپنی بہو،پوتا اور پوتی کے ساتھ واپس قادیان کے لیے روانہ ہوئے۔ قادیان میں آپ نے اپنے پوتے مکرم بشیرالدین عبیداللہ کی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر تربیت شروع کردی اور اُنہیںمبلغ بنایا۔

۱۹٤۹ء میں ماریشس کے تیسرے مبلغ حافظ جمالؓ صاحب کی اچانک وفات ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مقامی مخلص احمدی عظیم سلطان غوث صاحب کو قائم مقام امیر بنایا۔ عظیم سلطان غوث صاحب ایک وفد کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے ربوہ پہنچے۔ ربوہ میں اُن کی ملاقات شہیدمولوی عبید اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے بشیر الدین عبید اللہ صاحب سے ہوئی جو ماریشس میں پیدا ہوئے تھے اور اب مبلغ بن چکے تھے۔ عظیم سلطان غوث صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ماریشس جماعت کو بشیرالدین عبید اللہ صاحب بطور مبلغ سلسلہ بھجوادیں۔قدرتی بات ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ماضی کی وہ ساری یادیں تازہ ہو گئی ہوں گی کہ کس طرح اُنہوں نے شہید عبید اللہ کو بھجوایا تھا اور کس طرح اُنہوں نے نوجوانی میں اللہ کی راہ میںموت کو گلے لگا لیا۔کیا اب میں اُس کے بیٹے کو بھی وہاں بھجوا دوں۔ دوسری طرف دُوردراز سے پہلی مرتبہ جلسہ میں شرکت کے لیے آئے مہمانوں کی درخواست کو بھی نامنظور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ درحقیقت خدائی تقدیر پوری ہونی تھی اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی ؓکی دعا کہ میں اپنے پوتے کو ماریشس سے لے کر آؤں اور مبلغ بنا کر باپ کی جگہ خدمت کے لیے بھیجوں خدا کے حضور قبولیت کا درجہ پاچکی تھی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر آپ بشیرالدین عبیداللہ صاحب کو بطور مبلغ ماریشس لے کر جانا چاہتے ہیں تو اس کا الاؤنس ۳۰۰؍روپے ماہانہ ہوگا۔اُس وقت ماریشس میں مبلغ کو ۹۰؍روپے الاؤنس دیا جاتا تھا اوروہ بھی بعض اوقات دینے میں دیر ہوجاتی تھی۔

بشیر الدین عبید اللہ صاحب۲؍جون۱۹٥۱ءکو ماریشس پہنچے جہاںاُن کی آمد چند کمزور ایمان اور منافق طبع لوگوں کے لیے ابتلا ثابت ہوئی۔ جن میں چندعاملہ ممبران جو مالی اورانتظامی امور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے اور نئے مبلغ کو حضرت مصلح موعودؓ کا مقرر کردہ الاؤنس دینے کو تیار نہ تھے شامل تھے۔آہستہ آہستہ اختلاف شدت اختیار کرنا شروع کرگئے۔اسی دوران ان باغی ممبران نے چندہ کی رقم تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور جانے والے ایک احمدی طالب علم کے ذریعہ ربوہ بھجوائی جو کبھی بھی ربوہ نہیں پہنچی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا۔ اس گروہ نے بغاوت کا راستہ اختیار کرلیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کھلی نافرمانی شروع کردی۔ مسجد سے ملحقہ مبلغ سلسلہ بشیرالدین عبید اللہ صاحب کے گھر پر حملہ کرکے چاردیواری گرا دی اور اُنہیں بمعہ فیملی گھر سے نکال دیا۔جماعت کی جائیداد پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ جبکہ ماریشس جماعت کی اکثریت نے جن میں عظیم سلطان غوث صاحب بھی شامل تھے ہمیشہ مبلغ کا ساتھ دیا اورمکمل اطاعت کرتے رہے۔ ایک دوسری جگہ نمازکا قیام اور مبلغ کی رہائش کا انتظام کیا گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے۱۹٥٥ء میںفلسطین سے مولانا فضل الٰہی بشیر کوماریشس بھجوایا اور مکرم بشیر الدین عبید اللہ کو فلسطین بھجوادیا۔ماریشس میں مولانافضل الٰہی بشیر صاحب نے حکمتِ عملی اور عدالتی ذرائع سے تمام جائیداد واپس لی۔ماریشس میں مکرم بشیر الدین عبید اللہ کو ٤سال خدمت کا موقع ملا۔

سرائے عبید اللہ،قادیان

خلافت خامسہ کے دور میں ماریشس جماعت نے قادیان میں گیسٹ ہائوس بنانے کے منصوبہ پر حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے کام شروع کیا۔ جس کی پہلی منزل ۲۰۰٥ءمیں مکمل ہوچکی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۰۰٥ءمیںلندن سے پہلی مرتبہ ماریشس تشریف لائے اور پھر قادیان رونق افروز ہوئے اورجلسہ سالانہ قادیان کے دوران ماریشس گیسٹ ہائوس کا افتتاح فرمایا اور اُسے’’سرائے عبیداللہ‘‘کانام عطا فرمایا۔ ۱۰۰سال بعد ایک مرتبہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ کے حق میںبڑی شان سے پوری ہوئی کہ اللہ آپ کو اُس سے اچھا مکان دے گا جو مخالفین نے آپ سے چھینا ہے۔ اور ماریشس میں باپ بیٹے کی دی گئی قربانیوں کا اِس دُنیا میںبھی بہترین بدلہ دیا جو ہمیشہ کے لیے آخرین منھم کی دیارِ غیر میں قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس سے بھی زیادہ بلندیاں عطا فرماتا چلاجائے۔(آمین)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button