حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا

اگرکسی کو ان روزوں کی کبھی بھی ادائیگی کی طاقت نہ ہو تو لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا۔(البقرہ:۲۸۷) یعنی اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا، کے تحت ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے حضور معذور متصور ہو گا۔ اور اگر اسے ان روزوں کے بدلہ میں فدیہ دینے کی طاقت ہو تو فدیہ ادا کر دے اور اگر فدیہ کی بھی طاقت نہ ہوتو اس معاملہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور معذور ہی شمار ہو گا۔ حاملہ اور مرضعہ کے لیے بھی یہی حکم ہوگا۔

اگر کسی شخص کے ایک سال کے رمضان سے زیادہ رمضان کے مہینوں کے روزے کسی جائز عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ اس عذر کے دُور ہونے پر اسے روزوں کی توفیق عطا فرما دے تو وہ جس قدر ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کر سکتا ہو اسے تھوڑے تھوڑے کر کے ان روزوں کو رکھ لینا چاہیے۔ ایک سال کے رمضان سے زیادہ رہ جانے والے روزوں کی قضا کےبارے میں مختلف نظریات ہیں۔بعض فقہاء کا خیال ہے کہ پچھلے سالوں کے چھوٹ جانے والے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد اس سے مختلف ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں: میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے رمضان کے سارے روزے نہیں رکھے وہ بعد میں روزے رکھیں اور ان کو پورا کریں۔ خواہ وہ روزے غفلت کی وجہ سے رہ گئے ہوں یا وہ روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ اسی طرح اگر گذشتہ سالوں میں ان سے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں تو ان کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے وہ صاف ہو جائیں۔ بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چُھوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضاء نہیں، جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں۔لیکن اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھے۔ہاں اگر وہ روزہ رکھ سکتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ وہ جب توبہ کرے گا اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے یا کسی اجتہادی غلطی یا بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک خواہ وہ روزے کتنے ہی دُور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں۔ (الفضل نمبر ۵۵، جلد ۵۱،۵۰۔ مورخہ ۸ مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲، ۳)(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۵۶ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍ جون ۲۰۲۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button