متفرق مضامین

اولاد کی صحیح تربیت کرنے کے تقاضے

(نادیہ سعید۔ جرمنی)

دنیا میں ہر شخص چاہے مرد ہو یا عورت، جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں صحت مند اولاد ہو جو اس کا نام روشن کرے۔

اولاد کی خواہش کس غرض سے ہو

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے درد کے ساتھ بچوں کی تربیت کے حوالہ سے فرمایا ہے:’’انسان کو سوچنا چاہیے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہیں کر دینا چاہیے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے، لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی فکر کرنی چاہیے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات:۵۷)۔ اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حقِ عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کے لیے اولاد کی خواہش کیا نتیجہ رکھے گی ؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لیے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ خود کون سی کمی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے۔

جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لیے نہ ہو کہ وہ دیندار اورمتقی ہواور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہو کراس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے… صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی۔‘‘(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول، جلد سوم حصہ اوّل صفحہ۴)

اولاد کی صحیح تربیت کریں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی اُن کے لیے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ۵۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

آپؑ مزید فرماتے ہیں :’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا ۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (اوڑھنی والیوں کے لیے پھول، جلد سوم صفحہ۶)

بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبادالرحمٰن بنائیں۔ بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں۔ جب ذرا بات سمجھنے لگ جائیں تو جب بھی کوئی چیز دیں ابھی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تو یہ کہہ دیں کہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ اللہ میاں نے دی ہے۔ شکر کی عادت ڈالیں پھر آہستہ آہستہ سمجھائیں کہ جو چیز مانگنی ہے اللہ میاں سے مانگو۔ پھر نمازوں کی عادت بچپن سے ہی ڈالنی ضروری ہے۔

ہشام بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حماد بن عبداللہ بن خبیر جہنی کے گھر گئے۔ انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ بچہ کب نماز پڑھنی شروع کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک آدمی نے بتایا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ امر دریافت کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب اپنے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنا جان لے تو اسے نماز کا حکم دو۔ ( سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمرالمفلاح بالصلوٰۃ)

آج کل تو بچہ چار پانچ سال کی عمر میں تمیز اور فرق کر لیتا ہے۔

پھر ایک حدیث ہے۔ حضرت عمرو ابن شعیبؓ سے مروی ہے کہ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ پھر دس سال کی عمر تک انہیں سختی سے کاربند کرو۔ نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ۔ ( سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمرالمفلاح بالصلوٰۃ)

اب یہاں اس حدیث میں تربیت کا ایک اہم نکتہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ نماز کی ادائیگی کا حکم دو تو بچے اب ایسی عمر میں پہنچ رہے ہیں جہاں بچپن سے نکل کر آگے جوانی میں قدم رکھنے والے ہیں تو ان کے بستر بھی علیحدہ کر دو۔ ( اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد سوم حصہ اوّل صفحہ ۷۔۸)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے بچوں کو دین سے جوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button