یادِ رفتگاں

محترم عبدالوحید وڑائچ صاحب کا ذکرِ خیر

(صداقت احمد مبلغ انچارج جرمنی)

کثیر الجہات خدمات سر انجام دینے والے پُر عزم، باہمت، نہایت فعّال ، مثالی کِردار کے حامل اور چھ برِّ اعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سَر کرکےاُن پر لوائے احمدیت لہرانے والے جماعت احمدیہ عالمگیر کے واحد کوہ پیما محترم عبدالوحید وڑائچ صاحب آف جماعت Waldshutجرمنی مورخہ ۱۲؍ مئی ۲۰۲۱ء کو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے اور اُس پر جماعت کا پرچم لہرانے کے بعد واپس آتے ہوئے بقضائے الٰہی اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

خاندانی تعارف اور احمدیت کا نفوذ

مکرم عبدالوحید صاحب کا تعلق چک نمبر ۳۵جنوبی ضلع سرگودھا پاکستان سے تھا۔ آپ کے دادامحترم سَیْد محمد وڑائچ صاحب اپنے علاقے میں بہت معروف احمدی تھے اور بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اُنہوں نے اپنے ڈیرے پر ایک مسجد بنائی ہوئی تھی جہاں لوگ نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے گاؤں میں جامع مسجد بنانے کے لیے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے صدر تھے اور اِس سلسلے میں بھی اُنہوں نے اہم کِردار ادا کیا۔ جب بی ڈی ممبر کا الیکشن ہوا تو اُس کے لیے دو امیدوار تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ اُنہوں نے مخالف امیدوار کو پیشکش کی کہ وہ مسجد کی تعمیر میں زیادہ رقم ادا کرے اور بی ڈی ممبر بن جائے لیکن اُس نے یہ تجویز منظور نہ کی اور آپ الیکشن جیت کر بی ڈی ممبر منتخب ہو گئے۔۱۹۶۷ء میں جب آپ تک احمدیت کا پیغام پہنچا تو آپ بیعت کر کے جماعت کا حصہ بن گئے۔ آپ نے ۱/۳حصہ کی وصیّت کی ہوئی تھی۔

محترم عبدالوحید صاحب کے والد محترم خادم حسین وڑائچ صاحب نے دو سال بعد ۱۹۶۹ء میں ۱۸سال کی عمر میں محترم عزیز الرحمٰن منگلا صاحب مبلغ سلسلہ کے ذریعےخود تحقیق کے ذریعہ سرگودھا میں بیعت کر کےجماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اِس کے بعد آپ نے ساری زندگی بڑے ہی اخلاص و وفا کے ساتھ جماعت کی خدمت میں گزاری۔ آپ سرگودھا کے قائد ضلع اور پھر قائد علاقہ کے طور پر غیرمعمولی خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ کے خلاف ۲۹۸سی کے تحت مقدمہ بھی چلتا رہا ۔ ۱۲؍نومبر ۱۹۸۶ءکو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اُس وقت محترم عبد الوحید صاحب جن کی عمر صرف چھ سال تھی ان کے ساتھ تھے ۔حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےمکرم عبدالوحیدوڑائچ صاحب کو دلیر بچے کا خطاب بھی دیا تھا۔ بعد میں آپ کی بہادری کے کارناموں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے ان الفاظ کو سچ کر دکھایا۔ ۱۹۷۴ء میں عبدالوحید وڑائچ صاحب کی والدہ نے بھی بیعت کر لی۔ آپ بھی ایک کامیاب داعیہ تھیں۔ پیشے کے لحاظ سے آپ ٹیچر تھیں اور اپنی ساتھی ٹیچرز کو خوب تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ٹیچرز کا گروپ بھی ربوہ لے کر گئیں۔ آپ کے ذریعےدو ٹیچرز کو بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔

آج سے تقریباً ۳۱سال قبل محترم خادم حسین وڑائچ صاحب پاکستان سے ہجرت کرکے سوئٹزرلینڈ آکر آباد ہوگئے۔ اُس وقت محترم عبدالوحید صاحب کی عمر دس سال تھی۔

محترم عبدالوحید صاحب ۱۹۸۰ءمیں پیدا ہوئے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات۔‘‘ یعنی جس بچے نے بڑے ہو کر عظیم خدمات اور اعلیٰ کارنامے سر انجام دینے ہوتے ہیں اُس کے آثار بچپن سے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ عبدالوحید کی مختصر لیکن خدمات سے بھرپور زندگی آپ کے حق میں اِس ضرب المثل کے سچا ہونے کی دلیل ہے جس کے بارے میں خلیفۂ وقت کی گواہی بھی موجود ہے۔ چھ سال کی عمر میں جب عبدالوحید کے سامنے اِن کے والد صاحب کو دشمنانِ احمدیت نے زدوکوب کیا تو آپ نے یہ نظارہ بڑے حوصلے اور جرأت سے دیکھا لیکن اِس واقعہ سے اِن کے ذہن پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے اور انہوں نے اپنے والد سے ان مخالفین احمدیت سے انتقام لینے کا اظہار کیا۔ اِس پر اِن کے والد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں خط لکھاجس میں اپنے بچے کے اس جذبے کا بھی ذکر کیا۔ اِس خط کے جواب میں حضورؒ نے لکھا :’’خصوصاًآپ کے بچے کا حوصلہ اور استقامت اور پُرعزم باتیں تو بہت قابلِ رشک ہیں۔ اِس کی باتیں بہت پیاری لگیں۔ اِسے کہیں انتقام کا جذبہ دل میں ہی رکھے۔ جو بھی انتقام لینا ہو گا مَیں بعد میں بتا دوں گا۔ لیکن یہ انتقام وہی ہو گا جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنے مخالفوں سے لیا تھا۔ آپ کے بیٹے کی بندوق پر چڑیا کی بجائے مولوی کی تصویر بنانے کی تجویز بہت اچھی تھی لیکن اِسے سمجھادیں کہ بندوق حلال چیزوں کو مارنے کے لیے ہے حرام کے لیے نہیں۔‘‘

تعلیم و تربیت

آپ کے والدین نے آپ کی بہت اچھی تربیت کی۔آپ کو نظام جماعت اور خلافت سے گہری وابستگی تھی۔ دربار خلافت سے آنے والا ہر فرمان ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ ہر معاملے میں خلیفہ وقت سے راہنمائی لیتے ۔ اسی طرح سلسلہ کے کارکنان اور مربیان کرام سے خاص لگاؤ تھااور اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کی۔ مکرم وجاہت احمد صاحب جو کہ ان کی جماعت میں مربی سلسلہ کے طور پر خدمات بجا لا رہے ہیں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ مکرم عبد الوحید وڑائچ صاحب کے گھر گئے اور صوفے پر بیٹھ گئے۔ وحید صاحب کی بیٹی جو ابھی کم سن ہے مربی صاحب کے پاس آئی اوراُن کا ہاتھ چوم کر کہنے لگی کہ مربی صاحب مَیں بہت خوش ہوں کہ آپ ہمارے گھر آئے ہیں۔ بچے عموماً کسی اجنبی کے پاس آنے سے ڈرتے ہیں لیکن آپ نے اور آپ کی اہلیہ نے اپنے بچوں کی ایسی عمدہ تربیت کی اور بچپن سے ہی ان کے دلوں میں ڈالا کہ کیسے جماعت کے خادموں اور خلیفہ ٔ وقت کے نمائندگان سے عقیدت کا اظہار اور اُن کا احترام کرنا ہے۔

خاکسار کو تقریباً ۱۴ سال سوئٹزرلینڈ میں جماعت کی خدمت کا موقع ملا ۔ اس دوران مکرم عبدالوحید وڑائچ صاحب اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک قریبی تعلق بن گیا۔ ۲۰۱۵ءمیں خاکسار کی تقرری آسٹریا ہوگئی ۔ اگلے سال جب جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا تو ان کے تینوں بیٹوں نے جو ان کے ساتھ تھے وقفہ کے دوران جب خاکسار کو دیکھا تو بڑی تیزی سے دوڑتے ہوئے آئے اور خاکسار کے ساتھ محبت سےچمٹ گئے۔ ان کا چھوٹا بیٹا جو اس وقت بمشکل پانچ یا چھ سال کا ہوگاوہ میری ٹانگوں سے چمٹ گیا جیسے کہ بہت اداس ہو۔یہ دراصل اسی محبت کی ہی عکاسی تھی جو مکرم عبد الوحید وڑائچ صاحب کو جماعت اور جماعت کے مربیان سے تھی۔ آپ نے یہ محبت آگے اپنی اولاد کے دلوں میں بھی منتقل کردی تھی۔

عبدالوحید وڑائچ صاحب جماعتی اجلاسات اور دیگر تمام پروگرامز میں بھرپور حصہ لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے آواز بھی اچھی عطا کی ہوئی تھی اِس لیے بچپن سے ہی بہت عمدہ تلاوت کیا کرتے تھے۔سؤیٹزرلینڈ کے جلسہ سالانہ میں کئی بار آپ کو اختتامی اجلاس میں تلاوت کرنے کا موقع ملا۔ ۲۰۰۵ءکے جلسہ سالانہ میں حضور انور کی موجودگی میں بھی تلاوت قرآن کریم کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہےکہ آپ دس سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ سوئٹزرلینڈ آ گئے تھے۔ اپنی محنت، خداداد ذہانت اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی بدولت آپ پر اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے زبان سیکھ کر تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ سینٹ گالن Gymnasiumمیں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ETHلوزان سے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کی اور امریکہ کی Cornell یونیورسٹی میں بھی کچھ عرصہ کے لیے تعلیم حاصل کی۔ اِسی طرح ملازمت کے دوران HSGسینٹ گالن سے MBA کی ڈگری حاصل کی۔آپ ITکے شعبہ سے منسلک تھےاور ملازمت کے ساتھ ساتھ ۲۰۱۴ء میں آپ نے 7 Summit ITکے نام سے اپناذاتی کاروبار بھی شروع کیا۔

جماعتی خدمات

آپ نہایت درجہ اخلاص و وفا اور ایثار کے جذبوں سے بھرے ہوئے اور جماعت احمدیہ کے ایک مثالی اور فعّال کارکن تھے۔ خدمت کے میدانوں میں آپ کی اعلیٰ اور نمایاں کارکردگی، جنون کی حد تک قربانی کا جذبہ اور بلند پروازی آپ کی فطرت کا حصہ تھی۔ آپ کی جماعتی خدمات کا دائرہ بہت وسیع اور بہت سی اطراف میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ کئی اہم جماعتی عہدوں پر فائز رہے۔

۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۴ء تک آپ نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ سوئٹزرلینڈ کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ نوجوانوں میں وہ ایک بڑے بھائی اور شفیق اور مہربان مربی کا مقام رکھتے تھے۔ نہایت عمدگی، پیار اور حکمت سے انہوں نے نوجوانوں کی خدمت اور تربیت کی۔ خدّام کو اپنی تعلیم اور مستقبل کے لیے آپ کی شخصیت میں ایک قابلِ اعتماد مشیر میسر تھا۔ اِن کے عرصۂ صدارت میں ایسے نوجوان جو جماعت سے دُور تھے، اِن کی توجہ اور کوششوں کے نتیجے میں جماعت کے ایک فعال ممبر بن گئے۔ اِس لیے نوجوان اِن سے بے حد متاثر تھے۔

آپ نے نیشنل سیکرٹری تربیت سوئٹزرلینڈ کے طور پر بھی خدمات کی توفیق پائی۔ نیشنل سیکرٹری سمعی و بصری کے طور پر ایک سیریز جرمن زبان میںFragen zum Islam کے نام سے شروع کی جس میں خود بھی سوالات کے جواب ریکارڈ کرائے۔

جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یورپ کے ممالک میں IAAAEکو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کی جائےتو اس وقت سوئٹزر لینڈ میں اِس تنظیم کو قائم کیا گیا اور یہ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے۔ بعد میں پھر حضورِ انور نے اِنہیں اِس کا صدر بھی مقررفرمایا۔ انہوں نے ملک میں موجود آرکیٹیکٹس اور انجینئرز کے سپرد مختلف مساجد کے نقشہ جات تیار کرنے کے کام کیے۔ اِسی طرح آپ کویو کے سے باہر سوئٹزرلینڈ میں پہلا یورپین سمپوزیم منعقد کرنے کا موقع ملا۔ اگلے سال پھر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی مشترکہ کاوش سے ایک اور سمپوزیم سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا جس میں پورے یورپ سے انجینئرز اور آرکیٹیکٹس نے شرکت کی۔ اِسی طرح سوئٹزرلینڈ کےمغربی علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لیے جماعت نے زمین خریدی تو آپ نے Swissآرکیٹیکٹس کے ساتھ مل کر مسجد کے مختلف ڈیزائن تیار کروائے۔

افریقہ میں Water for Lifeپروگرام کے تحت آپ کو خدمات کا موقع ملا۔ نائیجیر میں ۶۰ واٹر پمپ لگانے کے پروگرام میں حصہ لیا۔ اِسی پروگرام کے تحت تنزانیہ کے لیے سوئٹزرلینڈ سے دو افراد کو بھجوایا۔

آپ نےسولرپینل لگانے کے لیے سوئٹزرلینڈ کے نوجوانوں کو تربیت دی۔ اِس کے تحت سیرالیون میں ۳۰سولر پینلز لگائے گئے۔ اِسی طرح اِس خدمت کے لیے مالی میں بھی سوئٹزرلینڈ سے لوگوں کو بھیجا۔ آپ کو ہیومینٹی فرسٹ سوئٹزرلینڈ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات بجالانے کا موقع ملا ۔اسی طرح آپ نے سوئٹزرلینڈ میں ایک ہائیکنگ کلب کی بنیاد رکھی۔ احمدی نوجوانوں کو ہائیکنگ کی طرف رغبت دلانے کے لیے اہم کردار ادا کیا اور ان کے لیے سوئٹزرلینڈ کے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے متعدد پروگرامز تشکیل دیے۔ کئی ایسے نوجوان جو معاشرے کے ماحول سے متاثر ہونے کی وجہ سے جماعت سے دُور تھے محترم عبدالوحیدوڑائچ صاحب کی ذاتی توجہ ، کوشش اور ان کے اندر ہائیکنگ کا شوق پیدا کرنے کے نتیجے میں نہ صرف جماعت کے قریب آگئے بلکہ جماعت کے فعال ممبر بن گئے۔الحمدللہ

آپ کو دعوتِ الی اللہ کا بھی بہت شوق تھا اور آپ ایک کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ آپ کے ذریعے درجن بھر لوگ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ اچھا دینی علم رکھتے تھے۔ فرنچ زبان میں بھی تبلیغی میٹنگز کا انعقاد کرتے اور اُنہیں کامیاب کرنے میں بھرپور کوشش کرتے۔ آپ کو جلسہ سالانہ پر تقاریر کرنے کی بھی سعادت ملی ۔ شروع میں جرمن زبان کے تراجم کے لیے بہت تھوڑے لوگ تھے۔ اِنہوں نے اِس سلسلہ میں بھی بہت معاونت کی۔

۲۰۱۹ءمیں آپ جرمنی شفٹ ہو ئے اور جرمنی کے بارڈر پر جماعت Waldshutمیں مقیم ہو گئے۔ یہاں آپ جب صدر جماعت منتخب ہو ئے تو سب سے پہلے تمام افرادِ جماعت سے واقفیت پیدا کرنے اور اُنہیں اپنے ساتھ مانوس کرنے کی کوشش کی ۔ لوکل مربی صاحب کا بیان ہے کہ تھوڑے سے عرصے میں وہ ہمارے اتنے قریب آ گئے کہ لگتا ہے اِن سے بچپن سے تعلق تھا۔

آپ کو جماعتی خدمات کا جنون تھا اور ہر وقت اِنہی کا فکر رہتا۔ لوکل سیکرٹری مال کے ساتھ روزانہ ویڈیو کال کرتے اور اُن کی راہنمائی کرتے۔ جرمنی کے خدام کی حضورِ انور کے ساتھ آن لائن میٹنگ کے لیے اُنہیں Waldshut سےٹرین پر فرنکفرٹ بھجوایا۔ کہنے لگے جب مال، جان، وقت اور عزت کے قربان کرنے کا عہد کیا ہوا ہے تو یہ سفر کیا ہے۔

آپ کو لوکل مربی صاحب ایئر پورٹ پر چھوڑنے گئے تو سارا راستہ جماعتی کاموں کے بارے میں ہی گفتگو کرتے رہے۔ آپ نےمربی صاحب کو قائم مقام صدر صاحب کی راہنمائی اور تعاون کی درخواست کی۔ پروگرام کے مطابق آپ کو ۶؍جون کو واپس آنا تھا اور اُسی دن محترم امیر صاحب جرمنی کے ساتھ سائیکل ٹور کا پروگرام تھا۔ دو مہینے پہلے ہی فکر تھی کہ اِس کا انتظام کرنا ہے۔ اِس موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ اِسی طرح جون مالی سال کا آخری مہینہ ہونے کی وجہ سے بھی فکر تھی۔ مربی صاحب سے سیکرٹری مال کی مدد اور راہنمائی کرنے کی درخواست کی تا کہ سال کے آخر پر جماعت کا بقایا نہ رہے۔

مالی قربانی

مالی جہاد میں بھی پیش پیش تھے ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اِس لحاظ سے بھی دوسروں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ سو مساجد سکیم کے تحت اپنی طرف سے ایک مسجد کا خرچ اٹھانے کا وعدہ کیا ہوا تھا اور اِس کے لیے اس سفر پر جانے سے معاً قبل پچاس ہزار یورو کی خطیر رقم پہلی قسط کے طور پر جماعت کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی تھی ۔

اپنے بچوں کی تربیت

اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دینے والے تھے۔ اُن میں خلافت اور جماعت سے محبت پیدا کی اور اُنہیں خادمِ دین بنانے کے لیے اُن کی خود اپنے عملی نمونے سے تربیت کی۔ اِسی طرح اُن میں مربیان کے لیے عزت و احترام اور محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ مجلس خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس میں اِن کے بچوں نےجرمنی بھرمیں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اِن کا بڑا بیٹا جامعہ احمدیہ جرمنی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور یہ اِس بات پر بہت خوش تھے۔ مکرم فدا حسین، جو مرحوم کے چچا ہیں، نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ مکرم عبدالوحید صاحب کے ساتھ کار میں سفر کر رہے تھے۔ اِن کے بڑے بیٹے عزیزم طلحہ وڑائچ متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی کے بارے میں بات ہونے لگی تو اُنہوں نے کہا کہ طلحہ وقفِ نو میں ہے۔ ہم نے اُس کے دل میں خِلافت سے محبت کا بیج بو کر والدین کے طور پر اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ طلحہ کو پوری آزادی ہے کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے کہ آیا اُس نے اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو دینی خدمات کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح کو پیش کرنا ہے یا پھر جامعہ میں جانا ہے تاکہ بطور مربی سلسلہ جماعت کی خدمت کر سکے۔ پھر کہا کہ الحمدللہ طلحہ نے اپنی مرضی سے جامعہ میں جانے کا فیصلہ کیا اور وہ اپنے اِس فیصلہ کی نوعیت اور اہمیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ عبدالوحید صاحب اپنے بیٹے کے اِس فیصلے پر بہت مطمئن اورخوش تھے۔

اوصاف

محترم عبدالوحید صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ پُر عزم، با ہمت اوربڑی مضبوط قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ بہتر سے بہتر نتائج اور اعلیٰ کارکردگی کے حصول کےجذبے سے کام کرتے تھے۔ جو بھی کام سپرد ہوتا پوری دیانتداری، محنت اور اخلاص کے ساتھ سر انجام دیتے ۔ جماعتی خدمات کے لیے اپنے آرام کوقربان کرنے والے اور عہدیداران سے بھرپور تعاون کرنے والے تھے۔ نہ تو کبھی مایوس ہوتے اور نہ ہی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا اظہار کرتے۔ جس کام کا ارادہ کر لیتے تو وہ کر کے ہی چھوڑتے ۔ اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ وقفہ میں جماعتی کام کرتے، جماعتی پیغامات دیکھتے اور اُن کے جواب دیتے۔ رات کو کوہ پیمائی کی ٹریننگ کرتے اور پھر اپنی فیملی کو بھی وقت دیتے۔

نہایت ہمدرد انسان تھے اور لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے۔ ہر ایک کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آتے۔جذبۂ ہمدردی اور خدمت میں اپنی مثال آپ ہونے کی وجہ سے ہردلعزیز تھے۔ نہایت سادہ اور عاجز انسان تھے۔کسی بھی کام میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے چاہے وہ بظاہر کتنا بھی معمولی کیوں نہ ہو۔ شہرت کے متمنی نہ تھے اور طبیعت ہر قسم کے ریا اور دکھاوے سے پاک تھی۔ آپ کا انداز اور دوسروں سے سلوک دل موہ لینے والا تھا۔ جس سے واسطہ پڑتا اُسے اپنا بنا لیتے۔ مربی صاحب کو کبھی کسی کام سے نہ نہیں کی۔ اُنہوں نے جو کام بھی کہا اور جس قسم کی بھی مدد مانگی یا خواہش کا اظہار کیا اُسے پورا کرنے کی کوشش کی۔ لوکل مربی صاحب کو گرنے کی وجہ سے چوٹ لگ گئی تھی اور اُنہیں ہسپتال جانا پڑا۔ یہ اُس وقت اپنے آخری مشن کے سلسلہ میں نیپال میں تھے ۔ وہاں سے میسج کر کےخیریت دریافت کی۔ تین ہفتے بعد دوبارہ میسج کر کے پوچھا کہ اب ڈاکٹر کیا کہتے ہیں۔

نہایت محنتی ، ذہین اورصائب الرائے تھے۔ خاموش طبیعت کے باوجود برملا اپنی رائے کااظہار کرتے۔ افسرانِ بالا کا احترام کرنے والے تھے۔ جب کسی معاملے میں فیصلہ ہوجاتا تو پھر شرح صدر کے ساتھ اُس پر عمل کرتے اور کروانے کی کوشش کرتے۔

نوجوانوں کے لیے خاص طور پر نمونہ تھے۔ بچوں اور نوجوانوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی کرتے۔ اُنہیں نرمی اور پیار سے سمجھاتے اور اپنے ساتھ مانوس کرتے۔ اُن سے تعلق پیدا کر کے پھر اُنہیں جماعتی کاموں کے لیے ترغیب دلاتے۔

طبیعت میں انتہائی درجے کی عاجزی و انکساری تھی اور کسی قسم کا کوئی نخرہ نہ تھا۔ مالی لحاظ سے صاحب حیثیت تھے اور جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ہوٹل میں رہائش رکھ سکتے تھے لیکن جلسہ گا ہ کی عام مارکی میں رہتے تاکہ جلسہ کے ماحول کا لطف لے سکیں اور نمازِ تہجد میں شامل ہو سکیں۔ اپنے بچوں کو بھی شامل کرتے۔

خلافت سے تعلق

اِن کے والد صاحب کا بھی خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بڑی محبت اور بے تکلفی سے اُنہیں خط کا جواب دیتے اور کبھی اپنے ہاتھ سے بھی تحریر کرتے۔ایک خط میں حضورِ انورؒ نے اِن کے والد محترم خادم حسین صاحب کو اپنے ہاتھ سے خط لکھا اور اِس میں فرمایا :’’آپ ہمیشہ سے مجھے عزیز ہیں مگر اِس خط نے پہلے سے بھی بڑھ کر آپ کو میرے قریب کر دیا ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اپنے ماحول کو نیک نصیحت کے ذریعے زندگی کا پانی پلاتے رہیں۔ دعا اور صبر سے کام لیں۔ فتح یقیناً ہماری ہوگی۔‘‘

محترم عبدالوحید صاحب کا بھی خلیفۂ وقت سے نہایت محبت، عقیدت اور وفا کا تعلق تھا۔ اپنے کوہ پیمائی کے شوق کے حوالے سے بھی حضورِ انور سے رابطہ تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک دفعہ آپ کو فرمایا کہ ’’جھنڈے گاڑ دو‘‘۔ بس یہ نعرہ لے کر اپنا مشن یہ مقرر کر لیا کہ دنیا کے تمام برِّ اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سَر کرنا ہے اور اُن پر لوائے احمدیت لہرانا ہے۔

شوقِ کوہ پیمائی اور اِس کی تکمیل

کوہ پیمائی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ نہایت مشکل، جسمانی مشقت اورغیر معمولی جفا کشی والاشوق ہے جس میں ہر وقت جان کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ اِس لیے صر ف پُر عزم ، بلند ہمت، نڈر اور حوصلے والے لوگ ہی یہ کام کرسکتے ہیں۔

سات برِّ اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا خواب اپنے دل میں بسائے ہوئے عبدالوحید وڑائچ صاحب نے ۲۰۱۴ء میں کوہ پیمائی کا آغاز کیا اور سات سال کے عرصہ میں آپ دنیا کی تمام بلند ترین چوٹیوں کوسَر کر چکے تھے۔ آپ ایک تجربہ کار کوہ پیما تھے اور کسی بھی مشن پر جانے سے قبل خوب تیاری کرتے۔ جب بھی کوئی چوٹی سَر کرتے تو اُس پر تین جھنڈے لہرایا کرتے۔ لوائے احمدیت کے ساتھ پاکستان کا ہلالی پرچم اور سوئٹزرلینڈ کا جھنڈا لہراتے۔ آپ کے مشن کی آخری منزل دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ تھی جسے سَر کر نے کے بعد آپ نے اپنی زندگی کا خواب پورا کر دیا۔ یہ چوٹی۸۸۴۸؍میٹر بلندہے۔

ایک دفعہ آپ ساؤتھ امریکہ میں کوہ پیمائی کے مشن پر تھے۔ وہاں شدید سردی ہوتی ہے۔ سفر شروع ہوا تو موسم زیادہ خراب ہونا شروع ہو گیا اور لوگ واپس آنے لگ گئے۔ پروگرام کینسل ہوگیا کیونکہ اگلے دنوں میں موسم خراب رہنے کی پیشگوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یاالٰہی! مَیں تو تیرے مشن پر نکلا ہوں، تُو ہی موسم کو تبدیل کر سکتا ہے اور یہ سب تیری قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور موسم اتنا اچھا ہو گیا کہ شاید ہی کبھی اُس علاقے میں اتنا اچھا موسم میسر آیا ہو۔

ایک دفعہ کوہ پیمائی کے دوران شدید سردی کی وجہ سے اِن کی شہادت کی انگلی فریز ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اِسے کاٹنا پڑے گا۔ اِنہوں نے سوچا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، یہ انگلی تو اللہ کی شہادت کے لیے ہے، مَیں اِسے نہیں کٹواؤں گا اور آپ نے انگلی کٹوانے سے انکار کر دیا۔ اللہ کے فضل سے آپ کی انگلی ٹھیک ہو گئی، صرف تھوڑا سا نقص باقی رہ گیا۔

آپ نے ماؤنٹ ایورسٹ سمیت سات برِّ اعظموں کی مندرجہ ذیل ۹؍چوٹیوں کو سَرکیا:

اپنے آخری مشن پر روانہ ہونے سے قبل آپ نے خوب ٹریننگ کی۔ پچیس پچیس کلو گرام وزن اٹھا کر اور ۵۔۱۰؍کلو گرام پاؤں سے باندھ کر کئی کئی گھنٹے ٹریننگ کیا کرتے۔ آپ ۵؍اپریل کو اپنے اِس آخری مشن پر جانے کے لیے نیپال کے لیے روانہ ہوگئے۔ پروگرام کے مطابق ۶؍جون کو آپ کی واپسی تھی۔

آپ نے کوہ پیماؤں کی ٹیم کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا اور ماؤنٹ ایورسٹ کی جنوبی جانب سے اِسے مورخہ ۱۲؍مئی کو کامیابی سے سَر کر کے اِس پر لوائے احمدیت، پاکستان کے ہلالی پرچم، سوئٹزرلینڈ کے جھنڈے کے علاوہ جرمنی کا جھنڈا بھی لہرایا اوراپنے مشن اور اپنی زندگی کی اہم خواہش کو پورا کر دیا۔ اُسی دن ۱۲؍مئی کوواپسی ہوئی لیکن راستے میں موسم کی شدّت اور آکسیجن کی کمی کے باعث آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اوراِن کے لیے مزید سفر کرنا ناممکن ہو گیا۔ اِن کی مدد کے لیے ٹیم نے زائد آکسیجن اور خوراک دے کر دو گائیڈز بھجوائے لیکن یہ اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ موسم کی شدت کے باعث اُس وقت اِن کی نعش اپنے ساتھ لانی گائیڈز کے لیے ممکن نہ تھی۔ بعد میں متعلقہ محکمے کی ٹیم نے اِن کی نعش تلاش کرکے مورخہ ۲؍جون کوکھٹمنڈو (نیپال) پہنچائی جہاں سے پھر اِسے جرمنی پہنچایا گیا۔

اِن کے والدین ، بیوی بچوں اور دوسرے عزیز و اقارب نے اِن کی وفات پر کمال درجے کے صبر، حوصلے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اُس کی رضا پر راضی رہنے کا مظاہرہ کیا جو یقیناً دوسروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں نے اِن کی وفات کی خبر سنی تو اِس طرح صدمے اور دکھ کا اظہار کیا جیسے اُن کا کوئی اپنا خونی عزیز فوت ہوگیا ہو۔

آپ کی اِس المناک وفات کی خبریں سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئیں اور اِن میں محترم عبدالوحید صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ بی بی سی (اردو) نے بھی آپ کی وفات پر خبر شائع کی اور ساتھ یہ ذکر بھی کیا کہ کس طرح شدّت پسندوں کے حملے کی وجہ سےآپ کے والدین کو پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔اِسی طرح اِس میں اِس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپ چوٹی پر پہنچ کر پاکستان، سوئٹزرلینڈ اور جماعت احمدیہ کے جھنڈے لہرایا کرتے تھے۔ سوِس اخبار Blick نے بھی ایک ویڈیو رپورٹ نشر کی ۔ اِسی طرح ایک مضمون آپ کے والدین اور افرادِ جماعت احمدیہ کے جذبات پر مشتمل شائع کیا۔ Waldshut – Tiegenکے اخبار نے بھی آپ کی وفات پر ایک خبراِس سرخی کے ساتھ شائع کی ’’اُس کی آخری چوٹی ۔عبدالوحید وڑائچMount Everest پر وفات پا گیا۔‘‘ Badische Zeitungنے آپ کی وفات اور مشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’عبدالوحید وڑائچ نے اپنی مسلم جماعت، جماعت احمدیہ کا جھنڈا Mount Everest کی چوٹی پر پہنچا دیا۔‘‘ اِسی طرح دنیا بھر کے جرمن ، انگریزی اور اردو اخبارات نے بھی آپ کی وفات پر خبریں شائع کی ہیں۔

اِن کی وفات پر غم اور فخر کے ملے جلے جذبات تھے۔ ایک طرف ایک انتہائی محبت کرنے والے اور بے شمار خوبیوں کے مالک وجود کے کھو جانے کا دکھ اور غم اور دوسری طرف یہ خوشی کہ اُس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اور یہ غیر معمولی اور تاریخ ساز کارنامہ سر انجام دے کر اپنے خاندان اور جماعت کا نام روشن کر دیا اور ہمارے سَر فخر سے بلند کر دیے ہیں ۔ یہ میرے علم کے مطابق پہلے احمدی ہیں جنہوں نے اِس کارنامے کے ذریعے تاریخِ احمدیت میں ایک روشن باب کا اضافہ کرکے اپنا نام ہمیشہ کے لیے محفوظ کرا لیا۔ لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے لیےاپنی زندگی میں کامیابی اور کامرانی کا معیار یہی مقرر کیا ہوا تھا۔ یہ اُن کی خواہش تھی جو اُنہوں نے بڑی جرأت اور دلیری سے پوری کی۔

پسماندگان

وفات کے وقت مرحوم کی عمر ۴۱ سال تھی ۔ آپ نے اپنے پیچھے اہلیہ، پانچ بچے اور والدین سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، اِنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اورپسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے اور بیوی بچوں کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button