امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ Queens، امریکہ کے وفد کی ملاقات
مورخہ ۲۱؍اپریل۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کوینز، امریکہ سے آئے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک وفد کو، اسلام آباد (ٹلفورڈ )ميں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کے لیے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
دوران ملاقات حضور انور نے خدام کو انفرادی طور پر ان کی ذاتی زندگی، پڑھائی اور مجلس خدام الاحمدیہ میں ان کی خدمات کے بارے میں دریافت فرمایا۔ ملاقات کے دوران تمام خدام کو حضور سے بات کرنے کا موقع ملا۔
ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا تمام شاملین مجلس کو اردو سمجھ آتی ہے؟پھر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک خادم سے استفسار فرمایا کہ انہیں اردو آتی ہے۔ اس پر موصوف نے عرض کی کہ تھوڑی تھوڑی اردو آتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بنگالی ہو کر اگر تھوڑی تھوڑی اردو آتی ہے تو اتنی کافی ہے۔
قائد مجلس نے حضور انور کے استفسارپر بتایا کہ Queens مجلس میں ۱۲۳؍خدام اور۲۳؍اطفال ہیں۔
اس کے بعد حضور انور نے اس وفد میں شامل مربی سلسلہ سے گفتگو فرمائی اور انہیں مقامی مسجد میں کلاسز کے انعقاد کے حوالے سے توجہ دلائی۔
گھانا سے تعلق رکھنے والے ایک خادم سے حضور انور نے گفتگو فرماتے ہوئے گھانا میں ان کے آبائی علاقے کے حوالے سے دریافت فرمایا نیز نیو یارک میں ان کے پیشہ کے حوالے سے پوچھا۔پھر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آیا ان کی شادی ہو چکی ہے جس پر موصوف نے عرض کی کہ ابھی شادی نہیں ہوئی لیکن ایک جگہ رشتہ کی بات چل رہی ہے۔
حضور انور کے استفسار فرمانے پر قائد مجلس نے بتایا کہ حاضر خدام میں سے تین شادی شدہ ہیں۔
ناظم تبلیغ اور ناظم تربیت نو مبائعین نے بتایا کل آٹھ نو مبائعین ہیں جن میں چھ خدام اور دو اطفال ہیں۔ان کے لیے باقاعدہ کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مربی صاحب بھی شامل ہوتے ہیں۔
موصوف نے مزید بتایاکہ مرکز کی طرف سے انہیں ایک سو بیعتوں کا ٹارگٹ ملا ہے لیکن اب تک صرف دس بیعتیں ہوئی ہیں نیز بتایا کہ گذشتہ چار ماہ میں انہوں نے تیرہ سو لیف لیٹس تقسیم کیے ہیں۔ اس پرحضور انور نے فرمایا کہ ایک ملین لیف لیٹس تقسیم کرنے کا ٹارگٹ ہونا چاہیے۔
ایک طالب علم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کی کہ وہ جامعہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس پر حضور انور نے فرمایا کہ جامعہ کینیڈا اور جامعہ یوکے فی الوقت امریکن شہریوں کو اجازت نہیں دے رہی ۔ حضور انور نے از راہ شفقت ان کو جامعہ گھانا جانے کی راہنمائی عطا فرمائی۔
ملاقات کے دوران حضور نے Queensقیادت کے معتمد صاحب سے بات کی، معتمد صاحب نے حضورانور سے راہنمائی چاہی کہ حضور انور کو ایک فعال قیادت سے کیا توقعات ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ میں ایک قیادت کو تب ایکٹو considerکرتا ہوں جب سو فیصد لوگ باقاعدگی سے روزانہ اپنی نمازیں ادا کرنے والے ہوں۔ پھر وہ فعال ہیں۔ تو اگر سارے مسجد میں آ کر پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں تو تب وہ ایکٹو ہیں۔ اگر تین نمازیں بھی مسجد میں آ کر پڑھ لیتے ہیں تب بھی انہیں فعال تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ بعض دفعہ لوگ نوکری یا کسی دوسری مصروفیت کی وجہ سے ہر نماز پر نہیں بھی آ پاتے۔ تو ۷۵%لوگوں کو تو مسجد میں آنا چاہیے۔ فجر کی نماز پہ اور عشاء کی نماز پہ تو جاسکتے ہیں۔ فجر کی نماز پہ تو آپ لوگ خود بھی نہیں جاتے تو لوگوں نے کیا جانا ہے۔
اس کے بعد لوکل ناظم عمومی نے اپنا تعارف کروایا جس پر حضور انور ایدہ اللہ نے ان سے استفسار فرمایا کہ آیا وہ مسجد کی ڈیوٹی لگاتے ہیں یا نہیں ۔ اس کے جواب میں انہوں نے عرض کی کہ جمعہ اور رمضان میں ڈیوٹی لگواتے ہیں۔
حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ عام ایام میں بھی حالات کی وجہ سے ڈیوٹی لگوائی جائے۔ وہاں فائرنگ وغیرہ کے واقعات کی وجہ سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ ایک دو خدام ڈیوٹی کے لیے ہر نماز پہ مسجد میں موجود رہا کریں ۔
ایک خادم نے رشتہ کے حوالے سے سوال کیا کہ انسان کو کب پتا چلتا ہے کہ جو رشتہ وہ کرنے جا رہا ہے وہ اس کے لیے صحیح ہے یا نہیں ؟
اس پر حضور انور نے اس خادم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ الہام تو اللہ تعالیٰ نے کرنانہیں اتنے بزرگ تو ہو نہیں کہ اللہ میاں الہام کرے کہ تم فلاں سےشادی کر لو ۔نہ اللہ میاںہر ایک کو اس طرح بتاتا ہے ۔ very rareکیسز ہوتا ہے۔ تو اصل یہی ہے کہ دعا کرو۔استخارے کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر یہ رشتہ میرے لیے بہتر ہے تو اس میں آسانی پیدا کر دے اور اگر بہتر نہیں تو روک ڈال دے۔ یہ استخارہ ہوتا ہےکہ اللہ میاں سے خیر مانگنا۔ اللہ کی اگر مرضی ہے تو یہ ہو جائے نہیں ہے تو رک جائے ۔اور اگر دعا کرنے کے بعددل کو تسلی ہو جاتی ہے اور دل یہ کہتا ہے کہ go aheadتو پھر کر لو رشتہ۔پھر زیادہ سوچو نہ۔
پھر خود بھی حق ادا کرنے ہوں گے ۔ اپنی حالت خود دیکھو کہ میری اپنی روحانی حالت کیا ہے اور جہاں رشتہ کر رہے ہو اس کی بھی دینی حالت اچھی ہے کہ نہیں۔ جماعت سے تعلق ہے کہ نہیں ۔صرف یہ نہ دیکھو کہ اس لڑکی میں کیا اچھائیاں ہیں۔یہ بھی دیکھ لو کہ میرے اندر کیا اچھائیاں ہیں اور کیا برائیاں ہیں۔ پھر رشتہ کرو۔پرفیکشن کی تلاش میں نہ رہو وہ کسی میں نہیں ہوتی۔ہر ایک میں کمزوریاں ہوتی ہیں تو اس لیے دعا کرو اور اگرتسلی ہو جائے تو بس رشتہ کر لو۔یہی criteriaہے۔
ناظم صنعت و تجارت کو حضور انور نے توجہ دلائی کے وہ بےروزگار خدام کی فہرست تیار کریں اور کام تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔
ایک سولہ سال کے خادم کو جن کے سپرد ریجنل ناظم تربیت نو مبائعین اورمقامی طور پر ایڈیشنل ناظم اطفال کی خدمات سپرد تھیں سے گفتگو کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ معلوم ہوتا کہ ان کی بڑھی ہوئی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں دو عہدے ملے ہوئے ہیں۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ جس جذبہ سے وہ اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کا کام کررہے ہیں اس کو بڑے ہو کر بر قرار رکھنا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو جذبہ میں کمی واقع ہو جاتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وقت اخلاص اور وفا سے پُر ہونا چاہیے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے جامعہ احمدیہ میں داخلے کے خواہش مند ایک خادم کو حضور انور نے فرمایا کہ وہ جامعہ گھانا جائیں۔موسم کے وہ پہلے ہی عادی ہیں۔
اسی ملاقات کے دوران ایک خادم نے حضور سے دریافت کیا کہ ایک انسان یہ کیسے معلوم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر انسان کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس کی کیا کوتاہیاں اور گناہ تھے اور وہ کس مقصد سے اللہ تعالیٰ سے توبہ طلب کرتے ہوئے کسی فعل سے بچنے کی دعا مانگ رہا تھااور پھر وہ اس فعل کو ترک بھی کر دے اور وہ اس فعل کو دوبارہ نہ دہرائے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ انسان کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔ یوں انسان مستقل استغفار بھی پڑھتا رہتا ہے۔ اگر انسان وہ فعل دوبارہ دہرائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوئی اور اس میں اب بھی خامیاں ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔
شیطان پر دسترس حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان مستقل طور پر استغفار پڑھتا رہے۔ استغفر اللّٰہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔ اس کے معنی کو سمجھنا چاہیے۔ محض منہ سے الفاظ دہرانا کافی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کی دوسری دعائیں بھی قبول فرمائی ہوئی ہوں اور ہر قسم کی بدی کو کلیةً ترک کر چکا ہو تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔
ملاقات کے اختتام پر خدام کو حضور سے قلم کا تحفہ ملنے کا شرف حاصل ہوا جس کے بعد انہیں حضور کے ساتھ تصویر بنوانے کا بھی موقع ملا۔