از افاضاتِ خلفائے احمدیت

عملی اصلاح کے لیے علم اور قوّتِ ارادی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۴ء)

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا۔ آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اس چیز کے لئے آپ تشریف لائے ہیں۔ بندے کا ایک دوسرے کے حق ادا کرنا بھی ایک مقصد ہے اور یہ سب باتیں اعمال پر منحصر ہیں۔ نیک اعمال بجا لا کر خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی حق ادا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا تھا، پہلے بھی میں کئی دفعہ یہ چیزیں بیان کر چکا ہوں۔ فرمایا کہ ’’یاد ر کھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 48۔ ایڈیشن 2003ء)
پھر ایک موقع پر فرمایا: ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو۔ عمل ایمان کا زیور ہے۔ اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 249۔ ایڈیشن 2003ء)
پس اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن میں کارآمد ہونا ہے۔ آپ کے مقصد کو پورا کرنے والا بننا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو دُور کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ کیونکہ یہ عملی اصلاح ہی دوسروں کی توجہ ہماری طرف پھیرے گی اور نتیجۃً ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل میں ممدّ و معاون بن سکیں گے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس کے حصول کے لئے ہم نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ ہمارے غالب آنے کا ایک بہت بڑا ہتھیار عملی اصلاح بھی ہے۔ ہماری اپنی اصلاح سے ہی ہمارے اندر وہ قوت پیدا ہو گی جس سے دوسروں کی اصلاح ہم کر سکیں گے۔ ہمارے غالب آنے کا مقصد کسی کو ماتحت کرنا اور دنیاوی مقاصد حاصل کرنا تو نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے۔ لیکن اگر ہمارے اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے تو دنیا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ پس ہمیں اپنی عملی قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ خود دوسروں سے مرعوب ہونے کی بجائے دنیا کو مرعوب کرنے کی ضرورت ہے آجکل جبکہ دنیا میں لوگ دنیاداری اور مادیت سے مرعوب ہو رہے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ نظریں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کے رعب سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اور دنیا کو بھی ان شیطانی حالتوں سے نکالنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہم بن سکیں اور دنیا کی اکثر آبادی بن سکے۔ لیکن اس کے راستے میں بہت سی روکیں ہیں۔ اس کے لئے ہم نے اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرنی ہے کہ ان روکوں کو دُور کر سکیں۔ ہمیں دنیا کے مقابلے کے لئے بعض قواعد تجویز کرنے ہوں گے جو ہم میں سے ہر ایک اپنے اوپر لاگو کرے اور پھر اُس کی پابندی کرے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی دینی ہو گی اور ایک ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ جب تک ہمیں یہ حاصل نہیں ہوتا، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
جیسا کہ مَیں گزشتہ ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں۔ آجکل دنیا سمٹ کر قریب تر ہو گئی ہے۔ گویا ایک شہر بن گئی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے ایک محلہ بن گئی ہے۔ ہزاروں میل دُور کی برائی بھی ہر گھر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پہنچ گئی ہے اور ہر ملک کی جو خواہ ہزاروں میل دور ہے، اچھائی بھی ہر گھر تک پہنچ گئی ہے۔ مجموعی لحاظ سے ہم دیکھیں تو برائی کے پھیلنے کی شرح اچھائی کے پھیلنے کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے۔ پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں اچھائی اور برائی کا معیار بدل گیا ہے۔ ایک چیز جو اسلامی معاشرے میں برائی ہے، دنیا دار معاشرے میں جو اب تقریباً لا مذہب معاشرہ ہے، اس میں وہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو ہم برائی سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک بہت معمولی سی چیز ہے بلکہ اچھائی سمجھی جانے لگی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے میں ناچ کا رواج ہے۔ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو اتنا عام نہیں تھا یا کم از کم اس کے لئے خاص جگہوں پر جانا پڑتا تھا۔ آجکل تو ٹی وی اور انٹرنیٹ نے ہر جگہ یہ پہنچا دیا ہے اور بعض گھروں میں ہی تفریح کے نام پر ناچ کے اڈے بن گئے ہیں۔ اور بعض گھریلو فنکشنز پر بھی یہ ناچ وغیرہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر شادیوں کے موقع پر تفریح اور خوشی کے نام پر بیہودہ ناچ کئے جاتے ہیں۔ ایک احمدی گھر کو اس سے بالکل پاک ہونا چاہئے۔ اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال میں حضرت مصلح موعود کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اب مغربی ملکوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اسے لوگ برا سمجھتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ اسے لوگوں نے اختیار کرنا شروع کر دیا۔ پہلے عورت مرد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ناچتے تھے۔ پھر ایک دوسرے کے قریب منہ کر کے ناچنے لگے اور پھر یہ فاصلے کم ہونے لگے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 432خطبہ فرمودہ 3؍جولائی 1936ء)
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اب تو ناچ کے نام پر بیہودگی کی کوئی حدنہیں رہی۔ ننگے لباسوں میں ٹی وی پر ناچ کئے جاتے ہیں۔ یہ کیوں پھیلا؟ صرف اس لئے کہ برائی پھیلانے والے باوجود دنیا کے شور مچانے کے کہ یہ برائی ہے، برائی پھیلانے پر استقلال سے قائم رہے اور دنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آخر ایک وقت میں یہ کامیاب ہو گئے۔ اب تو پاکستان جو مسلمان ملک ہے اُس کے ٹی وی پر بھی تفریح کے نام پر، آزادی کے نام پر بیہودگیاں نظر آتی ہیں، ننگ نظر آتا ہے۔ گویا برائی اپنے استقلال کی وجہ سے دنیا کے ذہنوں پر حاوی ہو گئی ہے۔ پس اس کے مقابلے پر آنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی اور قربانی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ ہوئی تو پھر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button