بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۵)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…کیا ایک جگہ دو جمعے ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم جمعہ کےوقت سیکیورٹی ڈیوٹی پر ہیں تو ڈیوٹی کے بعد ہم ایک اَور جمعہ ادا کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو خانہ کعبہ میں جمعہ کے وقت ہم کیا کریں، کیا غیر احمدیوں کے پیچھے جمعہ پڑھ لیں اور بعد میں اپنا بھی ادا کر لیں؟

٭…کیاSurrogacy کی جماعت اجازت دیتی ہے اور Surrogate ماؤں کی کیا حیثیت ہے؟ نیز یہ کہ کیا Transgenderکا ذکر قرآن کریم میں ہے اور اسلام میں ان کا کیا مقام ہے؟

سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا ایک جگہ دو جمعے ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم جمعہ کےوقت سیکیورٹی ڈیوٹی پر ہیں تو ڈیوٹی کے بعد ہم ایک اور جمعہ ادا کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو خانہ کعبہ میں جمعہ کے وقت ہم کیا کریں، کیا غیر احمدیوں کے پیچھے جمعہ پڑھ لیں اور بعد میں اپنا بھی ادا کر لیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: مجبوری کی صورت میں جس طرح نماز باجماعت دوبارہ ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث نبویہﷺ سے ثابت ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الصلوٰۃ بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّيَ فِيهِ مَرَّةً)نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی حسب ضرورت دوسری جماعت کو جائز قرار دیا ہے۔(اخبار بدر قادیان جلد۶، نمبر۱، مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۸) اسی طرح جمعہ بھی دوبارہ ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

البتہ اس کے لیے یہ احتیاط کر لینی چاہیے کہ جس جگہ پہلے نماز جمعہ ادا کی گئی ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ مسجد کے کسی اَور حصہ میں ڈیوٹی والے خدام اپنے نئے خطبہ کے ساتھ الگ جمعہ پڑھ لیں۔ چنانچہ اس کی مثال حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ہمیں ملتی ہے۔ الفضل قادیان میں مدینۃ المسیح کے عنوان کے تحت لکھا ہے: جمعہ کے دن زن و مرد مسجد اقصیٰ میں چلے جاتے۔ جس سے بعض شریروں کو شرارت کرنے کا موقعہ مل گیا اور ایک دو صاحبوں کا مالی نقصان ہو گیا۔ اس لئے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی تجویز کو حضرت مولوی صاحب(خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ناقل)نے منظور فرما لیا۔ وہ یہ کہ تا حصول اطمینان طَآئِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۱۲ بجے سے بعد نماز جمعہ ہو جانے تک پہرہ دے اور پھر یہ فدائی مسجد مبارک میں جمعہ پڑھ لیں۔ چنانچہ اس جمعہ اس تجویز کے مطابق لاہور کے مخلص و پُرجوش نوجوان بابو وزیر محمدؐ صاحب اور چند افغانستانی احباب اور منشی اکبر شاہ خانصاحب نے اپنے بیس تیس لڑکوں کے ساتھ پہرہ دیا اور جب لوگ مسجد اقصیٰ سے واپس پھرے تو حسب ارشاد امیرؓ(المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ناقل)۔ خانصاحب نے جمعہ پڑھایا۔(الفضل قادیان دارالامان جلد ۱، نمبر ۴، مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱)

پس ایک جمعہ ہونے کے بعد دوسرا جمعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے کہ ایسا صرف حسب ضرورت اور مجبوری ہو سکتا ہے۔ نیزاس کے لیے مقامی انتظامیہ کی اجازت بھی ضروری ہے اور تیسری بات یہ کہ جس مسجد میں جمعہ ہو چکا ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ کسی اَور جگہ پر پڑھا جائے، لیکن اگر دوسری جگہ کا انتظام ممکن نہ ہو تو اسی مسجد میں محراب سے پیچھے صحن میں یا مسجد کی کسی ایک طرف دوسرا جمعہ پڑھ لیا جائے۔

باقی حج یا عمرہ کے موقع پر خانہ کعبہ میں نماز باجماعت یا جمعہ کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا یہی مسلک ہےکہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز اور جمعہ ادا نہ کیا جائے بلکہ اگر ممکن ہو تو احمدی احباب اپنی الگ جماعت کریں۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنی الگ انفرادی نماز پڑھ لیں۔ اور اگر کسی وقت کوئی ایسی مجبوری ہو جائے کہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنی ناگزیر ہو جائے اور اس کے بغیر کوئی چارہ باقی نہ رہے اور نماز میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے کسی فتنہ اور ابتلا میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں فتنہ سے بچنے کے لیے وہاں بھی نماز پڑھ لی جائے لیکن بعد میں یہی نماز اپنی الگ بھی ادا کی جائے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی قسم کے مسئلہ کے بارہ میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۱۹۱۲ء میں مَیں اور سید عبدالمحی صاحب عرب مصر سے ہوتے ہوئے حج کو گئے۔ قادیان سے میرے نانا صاحب میر ناصر نواب صاحب بھی براہ راست حج کو گئے۔ جدہ میں ہم مل گئے اور مکہ مکرمہ اکٹھے گئے۔ پہلے ہی دن طواف کے وقت مغرب کی نماز کا وقت آ گیا۔ میں ہٹنے لگا۔ مگر راستے رک گئے تھے نماز شروع ہو گئی تھی۔ نانا صاحب جناب میر صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح کا حکم ہے کہ مکہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے اس پر میں نے نماز شروع کر دی۔ پھر اسی جگہ ہمیں عشاء کا وقت آ گیا وہ نماز بھی ادا کی۔ گھر جا کر میں نے عبدالمحی صاحب عرب سے کہا کہ وہ نماز تو حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم کی تھی اب آؤ خدا تعالیٰ کی نماز پڑھ لیں جو غیر احمدیوں کے پیچھے نہیں ہوتی اور ہم نے وہ دونوں نمازیں دہرا لیں۔ ایک نماز شاید دوسرے دن ادا کی مگر میں نے دیکھا کہ باوجود نمازیں دہرانے کے میرا دل بند ہوتا جاتا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ میں اگر اس طریق کو جاری رکھوں گا تو بیمار ہو جاؤں گا۔ آخر دوسرے دن میں نے عبدالمحی صاحب عرب سے کہا کہ میں تو بوجہ ادب دریافت نہیں کر سکتا۔ آپ دریافت کریں کہ کیا جناب نانا صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح نے خاص حکم دیا تھا یا عام سنی ہوئی بات ہے۔ انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خاص حکم نہیں دیا تھا بلکہ کسی اَور شخص کے متعلق یہ بات آپ نے سنی تھی۔ اس پر میں نے شکر کیا اور باوجود لوگوں کے روکنے کے برابر الگ نماز ادا کرتا رہا۔ اور بیس دن کے قریب جو ہم وہاں رہے یا گھر پر نماز پڑھتے رہے یا مسجد کعبہ میں الگ اپنی جماعت کرا کے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ گو مسجد کعبہ میں چاروں مذہبوں کے سوا دوسروں کو الگ جماعت کی عام طور پر اجازت نہیں مگر ہمیں کسی نے کچھ نہیں کہا بلکہ پیچھے رہے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل جانے سے بعض دفعہ اچھی خاصی جماعت ہو جاتی تھی۔ چونکہ جناب نانا صاحب کو خیال تھا کہ ان کے اس فعل سے کوئی فتنہ ہو گا۔ انہوں نے قادیان آ کر حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے یہ سوال پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہماری واپسی کی خوشی میں قادیان کے احباب یکے بعد دیگرے دعوت کر رہے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادم میاں حامد علی صاحب نے جو چالیس سال حضرتؑ کے پاس رہے ہیں۔ ہماری چائے کی دعوت کی۔ حضرت خلیفہ اوّل۔ میر صاحب۔ میں اور سید عبدالمحی عرب مدعو تھے۔ ایک صاحب حکیم محمد عمر نے یہ ذکر حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس شروع کر دیا۔ آپؓ نے فرمایا: ہم نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ ہماری یہ اجازت تو ان لوگوں کیلئے ہے جو ڈرتے ہیں اور جن کے ابتلاء کا ڈر ہے۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ اگر کسی جگہ گھر گئے ہوں تو غیر احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھ لیں۔ اور پھر آ کر دہرا لیں۔ سو الحمد للہ کہ میرا یہ فعل جس طرح حضرت مسیح موعودؑ کے فتویٰ کے مطابق ہوا۔ اسی طرح خلیفہ وقت کے منشاء کے ماتحت ہوا۔ (آئینہ صداقت، انوار العلوم جلد ۶ صفحہ ۱۵۶،۱۵۵)

سوال: محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ پاکستان نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عریضہ بھجوایا کہ کیاSurrogacy کی جماعت اجازت دیتی ہے؟ اور Surrogate ماؤں کی کیا حیثیت ہے؟ نیز یہ کہ کیا Transgenderکا ذکر قرآن کریم میں ہے اور اسلام میں ان کا کیا مقام ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍جنوری ۲۰۲۳ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اس بارہ میں تحریر ہے کہSurrogacy میں میاں بیوی کے مادہ کو ایک ایسی عورت کے رحم میں رکھ کر Developکیا جاتا ہے، جس کا اس مادہ سے کوئی جائز جسمانی تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ طریق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بےحیائی کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور ناجائز اور گناہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس بارہ میں ایک سوال کے جواب میں درج ذیل وضاحت فرمائی تھی: یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ایک عورت اگر بانجھ ہے یا خاوند میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو ہم Artificial ذرائع سے جب کوشش کرتے ہیں تو گویا یہ گناہ ہے،یہ گناہ نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک طریق ہے۔اور اگر اس نے نہیں دینا، اس کا فیصلہ ہے کہ میں نہیں دوں گا تو لاکھ چارے کر کے دیکھ لیں مجال ہے جوبچہ پیدا ہو جائے جو نہیں ہونا۔ یہاں ہم نے دیکھا ہے بعض احمدی خواتین نے مجھ سے اجازت لے کر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لیے کوشش کی اور ایک دفعہ، دو دفعہ، دس دس دفعہ کوششیں ہوئیں بالکل کوڑی کا بھی فائدہ نہیں پہنچا۔وہ اندرونی مدافعانہ طاقتیں جو بچہ کو پیدا ہونے میں مانع تھیں وہ اسی طرح سر اٹھاتی رہیں اور ڈاکٹر کی ایک بھی پیش نہیں گئی۔ اور ایک بچی کا مثلاً مجھے پتہ ہے، اس نے بھی اجازت لی، میں نے کہاہاں دعائیں کرو، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔تو اگلے دن وہ گودی میں بڑے پیارے پیارے دو بچے اٹھا کے لائی ہوئی تھی۔ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ملے گا۔ لیکن خدا کے کام جن کے نقشے اس نے بنارکھے ہیں ان میں امداد،خدا کے کاموں کی مخالفت نہیں اور گناہ نہیں ہے۔

ایک چیز گناہ ہےوہ میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں، بچہ کی Artificial یعنی مصنوعی طریق سے پیدا کرنے کی کوشش میں بعض لاعلمی سےایک کام کر بیٹھتے ہیں جو گناہ ہے۔ اور وہ Surrogate Motherکے ذریعہ بچہ لینا ہے۔ مجھے کل ہی امریکہ سے ایک نو احمدی کا خط ملا ہے، انہوں نے بڑی پریشانی کا اظہارفرمایا ہوا ہے اور استغفار بھی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے تواحمدیت سے پہلے ان باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔ میں یہ کام کر بیٹھا ہوں کہ میری بیوی چونکہ بانجھ تھی، میں نے ڈاکٹروں کی مدد سے ایک اَور عورت کے پیٹ میں اپنا بچہ پیدا کیا اور وہ اب ہمیں مل گیا ہے۔

تو یہ( طریق) تو ناجائز ہے، کیونکہ شادی بیاہ اور نکاح کے جو قوانین خدا تعالیٰ نےدیئے ہیں، ان کو توڑنے والا ہے۔ خدا تعالیٰ نے افزائش نسل کیلئے جونظام جاری فرمایا ہے، اس کی مخالفت ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی اَور بیوی سےبغیر شادی، بغیر نکاح کےانسان تعلقات قائم کر لے اور (ہونےوالے۔ ناقل) بچہ کو کہے کہ بڑا اچھا بچہ ہے۔بچہ تو بہرحال اچھا رہے گا، وہ تو معصوم ہے، مگر ایسا کرنے والا گناہگار ہو جاتا ہے۔ پس اس پہلو سےمیں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ یہاں تک جانا گناہ ہے۔ اس سے ورے ورے جائز کوششوں سے میاں اور بیوی کے مادوں سے، آپس کے تعلق سے اگر بچہ پیدا کرنے میں مدد لی جاتی ہےتو وہ جائز بلکہ مناسب ہے، اور ہر گز گناہ نہیں۔ (اردو ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مورخہ ۲۹؍اپریل۱۹۹۴ء)

پس جماعت احمدیہ کے نزدیک Surrogacy اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور ناجائز طریق ہے۔ اس لیے Surrogate ماؤں کی اسلامی لحاظ سے کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

باقی جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے تو Transgenderیا خنثیٰ کا ذکرقرآن کریم میں نہیں آیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی الذَّکَرَ وَالۡاُنۡثٰۤی یعنی نر و مادہ کی ہی ایک بیمار شکل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم نے مختلف بیماریوں میں مبتلا مرد و خواتین مثلاً ہونٹ کٹے ہوئے، یا آنکھ سے محروم یا ٹانگوں سے اپاہج انسان کا الگ ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح خنثیٰ کا بھی ذکر نہیں کیا۔ جو کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیّت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو استفاضہ کی قوت اپنے (اندر) رکھتے ہیں وہ انثیٰ ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثیٰ ہوتے ہیں۔ ان سے دنیا میں کبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہےوَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر نر اور مادہ آپس میں نہ ملیں تو نسل انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔

بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالیٰ نے ذَکر اور انثیٰکو پیدا کیا ہے مگر اس نے خنثیٰ کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اَور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خنثیٰ ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ بہر حال یا ذَکر ہے یا انثیٰ ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے… اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذَکر یا انثیٰ کے خنثیٰ پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا۔ خنثیٰ کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالیٰ آنکھیں دیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے۔ مجھے تو حیرت آتی ہےکہ ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ذَکراور انثیٰ کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثیٰ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ خنثیٰ ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دیدیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالیٰ نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو اپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو اپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثیٰ کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیے تھے اور کہنا چاہیے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر، ایک ہی قلب، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں، حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذَکراور انثیٰ کا نام لیا ہے خنثیٰ کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے۔ اور مفسرین کو چاہیے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے، کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے۔ دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں، ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذَکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیں تب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں۔ (تفسیر کبیر جلدنہم صفحہ۵۴-۵۵، مطبوعہ قادیان فروری ۲۰۰۴ء)

Transgenderکا لفظ پیدائشی جنسی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو اپنی پیدائشی جنس کے برعکس جنس والے جذبات یا کسی اَور قسم کے جذبات اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہو۔

پس Transgenderچونکہ ایک قسم کی پیدائشی جنسی بیماری یا ذہنی جنسی بیماری ہے، لہٰذا جس طرح ہم دوسری بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں،اسی طرح اس بیماری کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ نیز اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دُور کرنے کے لیے دھتکار دیں اور ان سے نفرت کریں۔ بلکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سےہر معاشرہ اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی جائز ضروریات کو پور کرے، اگر ان کا علاج ہو سکتا ہو تو انہیں علاج کی سہولت بہم پہنچائے۔ اس بیماری کی وجہ سے انہیں ہر اس بُرائی میں مبتلا ہونے سے بچانے کی کوشش کرے، جس میں اس بیماری کے شکار افراد کا شیطان کے بہکاوے میں آ کر مبتلا ہونے کا امکان ہو۔ اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button