احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا۔بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نوحصے اورزیادہ کردئے جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزء ہوگئی۔ہرایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے توچورانوے روپیہ صَرف ہوتے ہیں۔پس کُل حصص کتاب نو سوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے
کیا براہین احمدیہ پہلے مکمل لکھی جاچکی تھی؟ ۳۷ دلائل
(گذشتہ سے پیوستہ)۲۱:حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسی مسودے کی بابت ایک روایت اپنی تالیف ’’سیرت المہدی‘‘ میں درج فرمائی ہے۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں: ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمدیہ تصنیف فر ما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۱۲۳)
۲۲: ’’Life of Ahmad‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں :
”A portion of the book (probably 2500 pages) seems to have been completed by May, 1879, when a notice concerning it was published in the Zameema Ishaat-us-Sunna No.4. Vol.2, pages 3 and 4 (issued in May, 1879). In this Ahmad says that the occasion for the writing of his book was the teaching of the Arya Samaj. Who looked upon Moses, Jesus and Muhammad (Peace be on them all) as liars and their sacred books as impostures. They had made it a habit to heap abuse upon all holy personages. A certain Arya had been challenging Ahmad for a long time through the columns of the Safeer Hind.” (Life of Ahmad part 1 P:70-71)
۲۳:براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا۔ جس میں تاخیرکی وجوہات اور اسباب یہ نہ تھے کہ کتاب کامسودہ ہی تیارنہ تھا یایہ کہ وہ ساتھ ساتھ تیارہورہاتھابلکہ اصل وجوہات مہتمم مطبع کی ذاتی وجوہات از قسم علالت و دیگر اسباب تھے۔یہی وجہ ہے کہ چوتھے حصہ کی اشاعت کے بعد بھی براہین احمدیہ کابقیہ مسودہ شائع کیے جانے کاعندیہ دیاجاتارہا۔اور اس کی ایک وجہ معقول سرمایہ نہ ہونابھی تھا۔لیکن اس بقیہ مسودہ کی اشاعت کافکرمندی کے ساتھ اظہارگاہے گاہے کیاجاتارہا۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر کوئی مسودہ تھاہی نہیں تو بقیہ براہین کی طباعت صرف سرمایہ کی کمی کی وجہ سے کیوں ملتوی ہونے کا اظہار کیا جارہا تھا۔ صاف نظر آتاہے کہ براہین احمدیہ کے کم ازکم کل ۴۸۰۰؍صفحات میں سے وہ صفحات بہرحال موجودتھے جن کاایک اشتہارمیں ذکرکیاگیاتھا۔حضورعلیہ السلام کابقیہ کتاب کی طباعت کے لیے جودردتھا اس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اورکئی مرتبہ دل میں یہ دردپیدابھی ہواکہ براہین احمدیہ کے ملتوی رہنے پرایک زمانہ دراز گزر گیا مگر باوجود کوشش بلیغ اور باوجود اس کے کہ خریداروں کی طرف سے بھی کتاب کے مطالبہ کے لئے سخت الحاح ہوا اور اس مدت مدید اور اس قدر زمانہ التوامیں مخالفوں کی طرف سے بھی وہ اعتراض مجھ پرہوئے کہ جوبدظنی اور بدزبانی کے گندسے حدسے زیادہ آلودہ تھے اور بوجہ امتداد مدت درحقیقت دلوں میں پیداہوسکتے تھے مگرپھربھی قضاء وقدر کے مصالح نے مجھے یہ توفیق نہ دی کہ میں اس کتاب کوپوراکرسکتا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲)
اس کے علاوہ بھی حضورؑ نے مختلف مواقع پرفرمایاکہ ابھی اس براہین احمدیہ کابقیہ حصہ طبع ہونا باقی ہے۔چنانچہ۱۸۸۶ء میں سرمہ چشم آریہ کےاندرونی ٹائٹل پیج پر ایک اشتہار میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ رسالہ کحل الجواہرسرمہ چشم آریہ نہایت صفائی سے چھپ کر ایک روپیہ بارہ آنہ اس کی قیمت عام لوگوں کے لئے قرارپائی ہے اورخواص اورذی استطاعت لوگ جو کچھ بطور امداد دیں ان کے لئے موجب ثواب ہے کیونکہ سراج منیراوربراہین کے لئے اسی قیمت سے سرمایہ جمع ہوگا اور اس کے بعد رسالہ سراج منیر انشاء اللہ القدیر چھپے گا۔ پھر اس کے بعد پنچم حصہ کتاب براہین احمدیہ چھپنا شروع ہو گا…‘‘
۲۴:اپنے ایک مخلص رفیق حضرت منشی رستم علی صاحبؓ کے نام ۵؍جون ۱۸۸۵ء کے ایک خط میں تحریرفرماتے ہیں: ’’اور حصہ پنجم کتاب انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہوگا۔‘‘ (مکتوبات احمدجلددوم صفحہ ۴۶۵،مکتوب نمبر۹)
۲۵:براہین احمدیہ کے اولین خریداروں میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب بھی تھے جوکہ ریاست کپورتھلہ کے ایک معزز عہدہ دارتھے۔ان کے نام ۲۳؍دسمبر۱۸۸۴ء کوایک خط میں حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں: ’’یہ سچ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع میں میری امیداور اندازے سے زیادہ توقف ہوگیا مگراس توقف کا نام عہدشکنی نہیں۔میں فی الحقیقت مامورہوں اور درمیانی کارروائیاں جوالٰہی مصلحت نے پیش کردیں دراصل وہی توقف کاموجب ہوگئیں۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد۱صفحہ۳۹۴،مکتوب نمبر۳)
۲۶:ایک مکتوب میں جوکہ حاجی ولی اللہ صاحب کولکھاگیا اس میں آپؑ لکھتے ہیں: ’’جوکچھ آں مخدوم نے لکھا ہے وہ بہت مناسب ہے۔اس عاجز نے پہلے ہی سے یہ تجویز قراردے رکھی ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بجزمتن عبارت و دلائل معقولی اور کچھ درج نہ ہو۔ اسی وجہ سے الہامات کے بارے میں یعنی پیشگوئیوں میں جوہنوز وقوع میں نہیں آئیں ایک مستقل رسالہ لکھاگیاہے جس کانام سراج منیرہے …اب حصہ پنجم کتاب کے چھپنے میں صرف یہ توقف ہے کہ رسالہ سراج منیر تیارہے۔رسالہ سرمہ چشم آریہ کہ وہ بھی تیاراورمرتب ہے۔اکونٹنٹ ڈیرہ غازی خان سے پانسو روپیہ قرض لے کرکاغذ خریداگیاہے۔اب تین چارروز تک یہ چھپنے شروع ہوجائیں گے۔شاید ان کی ایک ایک روپیہ قیمت ہوگی۔اورقیمت وصول ہوکرحصہ پنجم کتاب کے لئے کام آئے گی…‘‘ (مکتوبات احمدجلداول صفحہ ۴۰۷مکتوب نمبر ۶)
۲۷:۷؍اگست ۱۸۸۹ء ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خدائے تعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۴۹ مکتوب نمبر۱ بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب)
۲۸:حضرت اقدس علیہ السلام اپنی تصنیف ’’فتح اسلام‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’سواس وقت مجھ کو تکمیل تالیفات کی سخت ضرورت ہے۔براہین کا بہت سا حصہ ہنوز طبع کے لائق ہے…‘‘ (فتح اسلام صفحہ۵۰،روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۳۰)
۲۹:مئی ۱۸۹۲ء میں فرماتے ہیں: ’’سلسلہ تالیفات کو بلافصل جاری رکھنے کے لئے میرا پختہ ارادہ ہے اور یہ خواہش ہے کہ اس رسالہ کے چھپنے کے بعدجس کا نام نشان آسمانی ہے رسالہ دافع الوساوس طبع کرا کر شائع کیا جاوے…اور بعد اس کے بلاتوقف حصہ پنجم براہین احمدیہ جس کادوسرا نام ضرورت قرآن رکھا گیا ہے ایک مستقل کتاب کے طور پر چھپنا شروع ہو …چونکہ کتاب براہین احمدیہ کا کام از بس ضروری ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۲۶۶-۲۶۷ اشتہار مورخہ ۲۸؍مئی۱۸۹۲ء)
۳۰:آئینہ کمالات اسلام جوکہ براہین احمدیہ کے چوتھے حصہ کی اشاعت کے تقریباً ۹؍سال بعد شائع ہوئی اس کے آخرپربراہین احمدیہ کی بابت پھر ایک اشتہار دیا گیا جس میں یہ درج ہے کہ ’’اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کودوطرح پرثابت کیاگیاہے۔اول تین سومضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان وشوکت وقدرومنزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگرکوئی مخالف اسلام ان دلائل کوتوڑدے تواس کودس ہزارروپے دینے کااشتہار دیاہواہے …‘‘ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۵۷)
اب اگرکسی ایسی کتاب کاوجودہی نہ تھا تو ۹؍سال بعد اس کے اشتہار دینے کاکیافائدہ کہ اس میں تین سودلائل موجودہیں۔
۳۱ :۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر باہمی مشاورت سے یہ بھی طے پایا کہ جماعت کااپناایک پریس ہوجس میں کتب کی طباعت کے علاوہ ایک اخباربھی شائع ہواکرے اور اس کے لیے چندہ کی تجویزبھی ہوئی۔ان چندہ دہندگان کی فہرست بھی شائع کی گئی۔یہ تفصیل اورفہرست آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۳۱ تا۶۳۵پرموجودہے۔اس سے اگلے صفحہ پرقابل توجہ احباب کے عنوان سے ایک اعلان ہے جس میں حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں: ’’اگرچہ مکرر یاد دہانی کی کچھ ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ دل میں انجام خدمت دینی کے لئے سخت اضطراب ہے اس وجہ سے پھر یہ چند سطریں بطور تاکید لکھتا ہوں۔
اے جماعت مخلصین! خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اس وقت ہمیں تمام قوموں کے ساتھ مقابلہ درپیش ہے اور ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ اگر ہم ہمت نہ ہاریں اور اپنے سارے دل اور سارے زور اور ساری توجہ سے خدمت اسلام میں مشغول ہوں تو فتح ہماری ہوگی۔ سو جہاں تک ممکن ہو اس کام کے لئے کوشش کرو۔ ہمیں اس وقت تین قسم کی جمعیت کی سخت ضرورت ہے۔ جس پر ہمارے کام اشاعت حقائق و معارف دین کا سارا مدار ہے۔ اول یہ کہ ہمارے ہاتھ میں کم سے کم دو پریس ہوں۔ دوئم ایک خوشخط کاپی نویس۔ سوئم کاغذ۔ ان تینوں مصارف کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہواری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اب چاہیے کہ ہر ایک دوست اپنی اپنی ہمت اور مقدرت کے موافق بہت جلد بلاتوقف اس چندہ میں شریک ہو۔ اور یہ چندہ ہمیشہ ماہواری طور سے ایک تاریخ مقررہ پر پہنچ جانا چاہیے۔ بالفعل یہ تجویز ہوئی ہے کہ بقیہ براہین اور ایک اخبار جاری ہو اور آئندہ جو جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے موافق وقتًا فوقتًا رسائل نکلتے رہیں گے۔ اور چونکہ یہ تمام کاروبار چندہ پر موقوف ہے اس لئے اس بات کو پہلے سوچ لینا چاہیے کہ اس قدر اپنی طرف سے چندہ مقرر کریں جو بہ سہولت ماہ بماہ پہنچ سکے۔ اے مردمان دین کوشش کرو کہ یہ کوشش کا وقت ہے اپنے دلوں کو دین کی ہمدردی کے لئے جوش میں لاؤ کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں۔ اب تم خدا تعالیٰ کو کسی اَور عمل سے ایسا راضی نہیں کر سکتے جیساکہ دین کی ہمدردی سے۔ سو جاگو اور اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ اور دین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اٹھاؤ کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ کہیں اس سے مت غمگین ہو کہ لوگ تمہیں کافر کہتے ہیں تم اپنا اسلام خدا تعالیٰ کو دکھلاؤاور اتنے جھکو کہ بس فدا ہی ہو جاؤ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ۲۴، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۶۳۶)
توگویا ابھی تک وہ بقیہ موجودتھا کہ جس کی طباعت کے لیے جماعت کوتوجہ دلائی جارہی ہے۔
۳۲ :۱۸۹۳ء میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے نام ایک خط میں حضورؑ فرماتے ہیں: ’’…آپ کو کیونکر معلوم ہو گیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں۔‘‘ (مکتوبات احمدجلداول صفحہ ۳۵۰مکتوب نمبر ۲۰)
۳۳ :۲۷؍دسمبر۱۹۰۶ء بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ قادیان میں تقریرفرماتے ہوئے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’…ماسوا اس کے ایک اور بات میں پیش کرتاہوں جوبہت ہی صاف اور بدیہی بات ہے۔براہین احمدیہ کے زمانہ میں جس کوبتیس سال کے قریب گزرے۔کیونکہ کتاب تالیف پہلے ہوتی ہے اورپھرطبع ہوتی ہے۔اس کوشائع ہوئے بھی چھبیس سال گزرے۔اوروہ تالیف اس سے بہت پہلے ہوئی …یہ پیشگوئیاں اس براہین احمدیہ میں موجودہیں۔جن کوشائع ہوئے چھبیس سال کاعرصہ گزرتاہے اور جس کی تالیف پربتیس سال گزرتے ہیں۔یہ وہ کتاب ہے جومخالفوں کے پاس بھی موجود ہے اور گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی اور مکہ۔مدینہ او ربخارا میں بھی اس کے نسخے پہنچے۔اب تو اس میں یہ الہامات درج نہیں کردئے گئے۔‘‘ (ملفوظات جلد۹ صفحہ۱۶۰-۱۶۱ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)(باقی آئندہ)