حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

دعا کی حقیقت اور فلاسفی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۱۳ء)

وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(البقرۃ: 202)

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَعَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا ٝ وَاغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(البقرۃ: 287)

پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اُس کا ترجمہ ہے: اور انہی میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اُس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے بدی کا اکتساب کیا۔ اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پران کے گناہوں کے نتیجہ میں تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب!ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

یہ دو قرآنی دعائیں ہیں جن کے بارے میں مَیں کچھ کہوں گا لیکن اس سے پہلے دعا کی حقیقت کیا ہے؟ اُس کی فلاسفی کیا ہے؟ اِس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا ہے اور اس سے حلِّ مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچا دے خداتعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔ اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلّی اور سکینت خداتعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے۔ اور ہرگز ہرگز نامرادنہیں رہتا۔ اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے۔ لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف مونہہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے‘‘ فرمایا ’’ہماری اس تقریر میں اُن نادانوں کا جواب کافی طور پر ہے جو اپنی نظرِ خطاکار کی وجہ سے‘‘ (یعنی غلط سوچ رکھنے اور ظاہری طور پر دیکھنے کی وجہ سے) ’’یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دعا میں فنا ہوتے ہیں‘‘ (یعنی اُن کی اپنی حالت بھی یہ ہوتی ہے، اور کہتے بھی یہی ہیں کہ دعا کر رہے ہیں اور دعا کی کیفیت بھی ہوتی ہے، اُس میں فنا ہوتے ہیں) ’’پھر بھی اپنے مقاصد میں نامراد رہتے اور نامراد مرتے ہیں۔‘‘ (یعنی اُن کے مقاصد، جو وہ چاہتے ہیں، اُن کو نہیں ملتے) ’’اور بمقابل ان کے ایک اور شخص ہوتا ہے کہ نہ دعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ ان پر فتح پاتا ہے۔‘‘ (یعنی اُس کو سب کچھ مل جاتا ہے) ’’اور بڑی بڑی کامیابیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ سو جیساکہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے۔ اصل مطلب دعا سے اطمینان اور تسلی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے۔ ظاہر بین تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جس مقصد کے لئے دعا کر رہا تھا اُس کو حاصل نہیں ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک تو پہلی شرط یہ رکھی ہے، دعا کو کمال تک پہنچانا۔ اور جو حقیقت میں دعا کرتا ہے وہ صرف ظاہری چیز کو نہیں دیکھتا۔ جو مومن ہے، جس میں مومنانہ فراست ہے جو خدا تعالیٰ کے تعلق کو جانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں جو مانگ رہا ہوں مجھے مل گیا بلکہ فرمایا کہ اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔

فرمایا: ’’اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسر آسکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ خدا جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے؟ وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے۔‘‘ (اگر دعا کامل ہو، صحیح ہو، حقیقی رنگ میں ہو، اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق ہو تو اللہ تعالیٰ جو سمجھتا ہے کہ حقیقی خوشحالی کس چیز میں ہے، وہ عطا فرما دیتا ہے) فرمایا کہ ’’جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے۔ ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تختِ شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔’’ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 237)

دعا کرنے والے کو جو لذت ملتی ہے وہ مشکل کے وقت میں ہی مل سکتی ہے۔ فرمایا کہ جو ایک بادشاہ کو نہیں مل سکتی۔

پس یہ دعا کی حقیقت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ اس کی مختصر فلاسفی ہے۔ یہ دعا کی روح ہے اور ایک حقیقی مومن کی یہ سوچ ہے اور ہونی چاہئے اور ہمیں اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ پس جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کے لئے دعا کو کمال تک پہنچانا ضروری ہے۔ اور اس مقام تک پہنچ کر یا تو دعا قبول ہو جاتی ہے جو انسان اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہے، اُس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں یا پھر دل کی ایسی تسلّی اور سکینت ہوتی ہے کہ انسان کا جو غم ہے جس وجہ سے دعا مانگ رہا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے، وہ دُور ہو جاتا ہے۔ ایک خاص قسم کا سکون ملتا ہے کہ اب جو بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک میرے لئے بہتر ہو گا وہ ظاہر ہوگا۔ یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی مومن کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔

اس وقت مَیں دو قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ دعائیں ان آیات میں ہیں۔ ہم پڑھتے بھی ہیں۔ بہت سے جانتے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202)کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی۔

یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ حدیث 6389)

اور صحابہ کو بھی اس طرف توجہ دلائی اور صحابہ بھی خاص توجہ سے پڑھا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 52 کتاب الدعا باب من کان یحب…حدیث 3مطبوعہ دارالفکر بیروت)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک وقت میں جماعت کے افراد کو یہ کہا تھا کہ خاص طور پر ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں یہ دعا پڑھا کریں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی خاص طور پر اس دعا کی طرف اپنے ایک خطبہ میں بلکہ مختلف خطبات میں توجہ دلائی اور جماعت کو پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائی۔ پس اس دعا کی بہت اہمیت ہے۔

ویسے تو ہر دَور اور ہر وقت کے لئے یہ دعا ہے لیکن آجکل خاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد کا دَور دَورہ ہے یہ دعا خاص طور پر ہمیں پڑھنی چاہئے۔ حَسَنَہ کا مطلب ہے کہ نیکی اور اچھائی، فائدہ جس میں کوئی برائی اور نقصان نہ ہو، ایسا کام ہو جس کا ہر پہلو سے اچھا نتیجہ نکلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ احمدیوں کے لئے تو بعض مسلمان ملکوں میں بحیثیت احمدی بھی ایسے حالات ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے کی خاص طور پر ضرورت ہے۔ مخالفینِ احمدیت چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت سے احمدی کو محروم کر دیا جائے۔ حتی کہ اُسے اُس کے جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے۔ ایسے میں یہ دعا کہ اے اللہ! ہمیں دنیا داروں کے سارے منصوبوں کے مقابلے میں اس طرح سنبھال لے کہ یہ جو تیری ہر قسم کی حَسَنَہ سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کو تیرے فضلوں کی وجہ سے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ہمارے دنیا کے اعمال بھی تیری رضا کے حصول کی وجہ سے ہمیں آخرت کی حَسَنَہ سے بھی نوازنے والے ہوں۔ اور ہر عمل جو ہم یہاں دنیا میں کرتے ہیں وہ تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو۔ دشمن ہمارے کاروباروں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق پر حَسَنَہ سے نواز کہ دشمن کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں۔ وہ ہمیں ایمان سے پھیرنے کے لئے ہمارے رزق ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق سے حَسَنَہ سے نواز کہ پہلے سے بڑھ کر طیب اور حلال رزق میں حاصل ہو۔ ہمارے ہمسائے ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے محلہ دار ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے شہروں کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے ملک کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے خلاف کارروائیاں کرنے والوں کے شرور جو ہیں اُن کی طرف پلٹ جائیں۔ ہمارے حاکموں کو ایسا بنا دے جو رحم دل ہوں، تقویٰ سے کام لینے والے ہوں، انصاف کرنے والے ہوں۔ بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کئی جگہ حاکم ہی ہیں، حکمران ہی ہیں جو عوام کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ماتحتوں کے حق ادا کرنے والے حاکم ہوں، افسر ہوں۔ اور پھر موجودہ حاکم تیرے نزدیک اصلاح کے قابل نہیں تو ایسے حاکم دے جو ان خوبیوں کے مالک ہوں تاکہ اُن کے ذریعہ سے ہمیں جو دنیا کے فوائد ملنے ہیں وہ حَسَنَہ ہوں۔ ہر فائدہ ایسا ہو جو تیری رضا حاصل کرنے والا ہو۔ پھر دوست ہوں تو ایسے ہوں جو خیر خواہ ہوں، محبت کرنے والے ہوں، دکھوں میں کام آنے والے ہوں، نیکیوں کا جواب نیکیوں سے دینے والے ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button