حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ کی صفات کو اگر پرکھنا ہے تو صفتِ قدّوس ذہن میں رکھنی چاہئے

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

قرآن کریم میں آتا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو کہا نُقَدِّسُ لَکَ (البقرۃ:31) اس کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ نُقَدِّسُ لَکَ کا معنی ہے اے اللہ! تمام وہ صفاتِ نقص جو تیرے شایان شان نہیں ہم تجھے ایسی تمام صفات سے پاک قرار دیتے ہیں اور کوئی بھی قبیح بات تیری طرف منسوب نہیں کرتے۔ اس معنی کے اعتبار سے نُقَدِّسُ لَکَ میں لام زائدہ ہے یعنی مضمون کی تاکید کرنے کے لئے ہے۔ اور اگر اس لام کا ترجمہ بھی شامل کیا جائے تو پھر بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اے اللہ! ہم اپنے نفوس کو تیری خاطر یعنی تیری رضا حاصل کرنے کے لئے خطاؤں اور گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں۔ اسی طرح اس بارے میں علامہ فخرالدین رازی لکھتے ہیں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ(البقرۃ:31) کہ بعض لوگوں نے یہ شبہ اٹھایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو خلق آدم کے وقت اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا(البقرۃ:31) کہہ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا تھا۔ علامہ فخرالدین رازی اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شبہ دو وجہ سے باطل ہے، غلط ہے۔ نمبرایک، فرشتوں نے فساد اور خون خرابہ کو مخلوق کی طرف منسوب کیا ہے نہ کہ خالق اللہ تعالیٰ کی طرف۔ اور دوسرے فرشتوں نے اپنے اس قول کے معاً بعد کہا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ(البقرۃ:31) اور تسبیح کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مادی اجسام والی ہر صفت سے منزہ قرار دینا، پاک قرار دینا اور تقدیس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے افعال کو مذمت اور نادانی کی صفت سے منزہ قرار دینا۔

اسی طرح علامہ رازی صفت القدوس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ القُدُّوس اور القَدُّوس (قاف کی زبر اور پیش دونوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، افعال و احکام اور اسماء کی پاکیزگی اور بے عیبی کو بیان کرنے کے اعتبار سے بڑا بلیغ ہے۔ اس میں بڑی بلاغت ہے، بڑا وسیع لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بے عیب ہے جیسا کہ لغت میں بھی دیکھا ہے۔ اس کی صفات کو اگر پرکھنا ہے تو صفت قدوس ذہن میں رکھنی چاہئے۔ صفت قدوس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی اور وضاحت ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن کریم کے معنی کرتے ہوئے (اگر صحیح معنے کرنے ہیں تو) اللہ تعالیٰ کی صفات ضرور دیکھو۔ لیکن ایک گُر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت پر حرف نہ آئے۔ کوئی بھی قرآن کریم کی تشریح کرنی ہے، صفت قدوسیت کو ہمیشہ سامنے رکھو۔ یعنی ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بےعیب ہے۔ کوئی ایسی تشریح نہ ہو، کوئی ایسی تفسیر نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بے عیب ہونے پر حرف آتا ہو۔ اس کا ہر فعل اور ہر حکم اسی صفت کے تحت بے عیب اور پاک ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اپریل ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍مئی ۲۰۰۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button