یادِ رفتگاں

میری ہر دل عزیز آپا جان امۃ القدوس بیگم صاحبہ (مرحومہ) بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحبؒ

(لیڈی امۃ الباسط ایاز۔ لندن)

جانا تو اس دنیا سے ہم سب نے ہی ہے۔ مگر کچھ پیاری ہستیاں اس دنیا سے رخصت ہو جائیں تو دل کو دکھ ہوتا ہے۔ان کی یادیں لکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی بے شمار خوبیوں کو اکٹھا کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔میری آپا جان سے جان پہچان تو قادیان کے قیام کے دوران ہوئی۔آپ ایک عظیم بیوی اور ایک عظیم ماں تھیں بلکہ قادیان سے لے کر سارے ہندوستان کی لجنات سے ماں جیسا سلوک کرتیں۔بہت سادہ مگر خوش اخلاق، خوش مزاج مسکراہٹ سے استقبال کرتیں۔اور جو بھی وقت کے لحاظ سے میسر ہوتا اس سے خاطر تواضع کرتیں۔ان کے پاس سے اُٹھ کر جانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔جب بھی میں جانے کے لیے کہتی تو فرماتیں کہ کیا کرنا ہے دار الضیافت جاکر۔میرے پاس بیٹھو اچھا لگتا ہے۔ میں پھر بیٹھ جاتی۔ مجھ سے باصرار پوچھتیں کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ کمرے میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک بتا دینا۔اور میں بہت آرام اور سہولت کا ذکر کرتی اور خدام کی تعریف کرتی کہ وہ تو آ آ کر پوچھتے ہیں کہ کچھ چاہیے تو نہیں؟اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔

سردیوں کے د ن ہوا کرتےتھے کیونکہ اکثر ہم دسمبر کی چھٹیوں میں جاتے تھے۔اس لیے رضائیوں کو گرم کرنے کے لیے گرم پانی کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی مگر ہم نے نہ کبھی ذکر کیا اور نہ سردی کا اظہار کیا۔ مگر آپا جان نے خود ہی گرم پانی کی دو نئی بوتلیں بھجوا دیںکہ آپ کو لندن میں ہیٹنگ کی عادت ہوگی۔ الحمد للہ کتنی مہمان نواز اور دور اندیش تھیں۔

ایک روز کی بات ہے کہ ہم رات کو منصور چیمہ صاحب کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خادم ہاتھ میں گرما گرم شامی کباب کی پلیٹ لیے کھڑا ہے کہ آپا جان نے بھجوائے ہیں اور کہا ہے کہ مہمانوں کے لیے میںنے اپنے ہاتھ سے بنائے ہیں۔

اسی طرح ہم دار الضیافت میں اپنے کمرے میں کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم دروازے پر آئے اور کہا کہ آپاجان نے آپ کے لیے مکئی کی روٹی اور سرسوںکا ساگ بھجوایا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں کتنا مزہ آیا ہوگا اور کتنی دعائیں ہمارے دلوں سے نکلی ہوں گی؟اس وقت آپ صدر لجنہ نہ تھیں بلکہ لمبا عرصہ صدر لجنہ رہنے کے بعد اب قرآن کلاسز اور ترجمۃ  القرآن کلاسز لیا کرتی تھیں۔

انہی دنوں جلسہ سیرت النبیؐ بھی منعقد ہوا۔ بشریٰ غوری صاحبہ صدر لجنہ تھیں۔مجھے بھی آپا جان نے مدعو کیا اور تقریر کرنےکا ارشاد فرمایا۔آپ نے بنفس نفیس بہنوں سے میرا تعارف بھی کرایا۔

بات تو چھوٹی سی ہے مگر ہے کام کی

سردیوں کے دن تھے۔ میں تقریباً گیارہ بجے آپ سے ملنے دار المسیح چلی گئی۔آپ صحن میں دھوپ میں بچھے تخت پوش پر اکیلی بیٹھی تھیں۔آپ کے پاس ایک بڑی ٹرے میں بہت سی گولیوں کے پیکٹ پڑے تھے اور آپ نے ہاتھ میں قینچی لی ہوئی تھی۔مجھے دیکھ کر کہنےلگیں کہ باسط آئو میرے پاس بیٹھو۔ دھوپ اچھی ہے۔ پھراپنی ملازمہ کو آواز دے کر بلایا کہ باسط کے لیے کرسی لائو۔ میںنے کہا کہ نہیں میں آپ کے پاس یہیں تخت پوش پر بیٹھوں گی تو فرمانے لگیں کہ یہ تو سادہ سا تخت پوش ہے اس پر کچھ بچھا بھی نہیںہے۔ میں مغرب کی نماز اکثر اس پر پڑھ لیتی ہوں۔ کبھی رات کا کھانا بھی ہم یہاں صحن میں ہی کھا لیتے ہیں۔

اتنی سادگی اور بے تکلفی سے باتیںکرنے لگیںاور پھر کہنے لگیں کہ ہم نے سفر پر جانا ہے۔اور آج میں ہم دونوں کی دوائیوں کے پیکٹ گن کر چیک کر کے تیار کرنے لگی ہوں۔آپ بڑی نفاست سے آدھے استعمال شدہ پیکٹوںکو پھینکتی جاتیں اور باقی پیکٹ الگ سے ڈبوں میں رکھتی جاتیں۔میں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ آپا جان میں بھی ایسے ہی کیا کرتی ہوں۔تو اس پر خوش ہوئیں اور بہت سے گھریلو معاملات پر بات چیت ہوئی ۔ سسرال کا بھی پوچھا کہ سُنا ہےآپ کا سسرال بہت بڑا ہے۔میں نے کہا جی بڑا تو ہے مگر سب اچھے ہیں ۔ اس پر خوش ہوئیں کہ بیٹیاں خوش ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ الحمد للہ۔

قادیان میں خالہ رشیدہ ہوا کرتی تھیں جو آپا جان کی بہت محبت سے خدمت کیا کرتی تھیں۔آپا جان ان کو بہت پیارسے رکھتیں۔ ہر کام میں صفائی وغیرہ رکھنا ان کا ذمہ ہوتا تھا۔کوئی مہمان آجائے تو جھٹ سے رشیدہ خالہ کو آواز دیتیں کہ مہمانوں کے لیے کچھ لائو اور وہ ٹرے سجا کر لے آتیں جس میں موسم کے لحاظ سے مشروبات، ڈرائی فروٹس اور گاجر کا حلوہ وغیرہ ہوتا۔بہت ہی خوش مزاج اور پھرتیلی خاتون تھیں۔مجھے تو احمدنگر سے جانتی تھیں اس لیے کافی باتیںکرتیں۔ابا جان اور امی کا حال پوچھتیں اور بتاتیں کہ باسط میں تمہاری شادی کے موقع پر احمد نگر میں تھی اور شادی میں شامل ہوئی تھی۔اب وہ خالہ بھی فوت ہو گئی ہیں البتہ ان کی بیٹیاں اور بہوئیں وہیں قادیان میں ہیں۔ان کے بڑے اچھے مراسم ہیں میرے ساتھ۔

حضرت آپا جان کی باتیں تو بہت ہیں۔آپ کو تربیت کا خاص ملکہ تھا۔خاص طور پر نوجوان بچیوں کو گھر بسانے کے لیے اچھے اچھے طریقے بتاتیں۔ اعلیٰ اخلاق اور صبر کی تلقین کرتیں۔اور فرماتیں کہ کبھی سسرال کی باتیں اپنے میکےمیں جاکر نہ کرنا۔سسرال بھی تمہارا اپنا گھر ہے۔ اس کو آباد رکھنا اور خوشیوں سے بھرنا وغیرہ وغیرہ۔

حضرت میاں صاحب کو بھی حضرت آپا جان امۃ  القدوس صاحبہ سے بہت پیار تھا۔ان کا بہت خیال رکھتے۔ دفتر سے جب گھر آتے یا نماز کے وقت پر وضو کے لیے گھر آتے تو ضرور آپا جان کو پکارتے اور پوچھتے کہ آپ ٹھیک ہیں کہاں ہیں نظر نہیں آ رہیں۔بس آپا جان بھی جلدی سے سامنے آ کھڑی ہوتیں کہ میں ادھر ہی تھی۔ لجنہ کی ممبرات آئی ہوئی تھیں اور میں تاریخ لجنہ لکھوا رہی تھی وغیرہ۔اس پر حضرت میاں صاحب ماشاءاللہ کہہ کر خوش ہو کر چلے جاتے۔

جب قادیان میں میری پہلی کتاب نشیمن کے چھپوانے کی تیاری شروع ہوئی تو میری خواہش ہوئی کہ حضرت میاں صاحب سے اس کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کروں۔آپ کی مصروفیت اس قدر ہوتی تھی کہ ملاقات بہت مشکل تھی۔جلسہ کے دن تھے اور ہمیں دو دن بعد واپس ربوہ جانا تھا۔میں آپا جان کو الوداعی سلام کر نے دار المسیح چلی گئی۔باہر صحن میں کھڑے ہو کر سلام کیا تو ایک بچی خادمہ باہر آئی۔دوپہر کےتین بجے تھے۔ میرے کہنے پر کہ میں نے آپا جان سے ملنا ہے، اندر سے آواز آئی کہ جو بھی آئی ہیں ان کو اندر بلا لائو۔ اتنی سردی میں باہر کھڑی ہیں۔میں اندر داخل ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خوبصورت تخت پوش پر حضرت آپا جان اور میاں صاحب برآمدے میں بیٹھے ہیں۔ خوبصورت پردے لگے ہیں۔ ایک جانب بستر بچھا ہوا ہے۔ حضرت میاںصاحب کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپا جان مجھے دیکھتے ہی بولیں کہ آئو باسط ہمارے پاس بیٹھو بلکہ کھانا کھائو۔ حضر ت میاں صاحب نے پوچھا کہ کون ہیں؟تو آپ نے بتایا کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی بڑی بیٹی امۃ الباسط ایاز ہیں۔ ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب کی بیگم ہیں۔

میں نے سلام کیا اور دعا کی درخواست کی۔ اور لگے ہاتھوں پوچھ لیا کہ میاں صاحب آپ سے ایک کام ہے۔ فرمانے لگے میرے دفتر چلی آنا اپنے میاں صاحب کو بھی ساتھ لے کر آنا۔ ابھی تو ہمارے پاس بیٹھ کر کھانا کھائو۔کیا سادگی اور خلوص تھا اس کھانے اور ماحول میں۔بس لنگر کی دال اور تنور کی روٹی پھر پانی پی کر میاں صاحب تو نماز کو چلے گئے۔اور میں سوچتی رہ گئی کہ کس قدر عظیم ہستیاں اللہ تعالیٰ نے ہم کو عطا کی ہیں۔جو اتنی بڑی ذمہ داریوںکے باوجود ہمیں وقت دیتے ہیں۔ہماری ساری باتیں سنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کی جھولیاں بھر بھر کر اپنی جماعت کو سیراب کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلاجائے۔ آمین۔

اگلے روز میں صبح گیارہ بجے اپنے خاوند ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ان کے دفتر چلی گئی۔ میاں صاحب ہمیں دیکھتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے اور وہی پیار بھری آواز کہ آئو آئو باسط، اب تو مجھے تمہارا نام بھی یاد ہو گیا ہے۔کیسی ہیں آپ۔ ڈاکٹرصاحب سے گلے ملے۔ میاں صاحب بہت ہی مصروف لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی مجھے یہی کہا تھا کہ اپنے کام کی ہی بات کرنا زیادہ وقت نہ لینا، مصروفیت کے دن ہیں۔سو میں نے جھٹ سے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ میاں صاحب آپ کے علم میںہوگا کہ اللہ تعالیٰ کےفضل سے مجھے اپنی پہلی کتاب نشیمن قادیان سے شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔جو میرے مضامین اور سفروںکا مجموعہ ہے۔میری خواہش ہےکہ اس پہلی چھپنے والی کتاب کے بارےمیں کچھ ضرور لکھ دیںتو میںبہت ممنون ہوںگی۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل مصروفیت کچھ زیادہ ہے۔جلسہ کے چنددن بعد لکھ کر بھجوا دوں گا۔بڑی خوشی اور محبت سے آپ نے اس کتاب کے لیے حرف اوّل کے نام سے تحریر مجھے بھجوا دی۔جو سرورق پر شامل اشاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔آمین۔

جب حضرت آپا جان مرحومہ ربوہ میں قیام پذیر ہوتیں تو آپ سے ملنے ضرور جاتی۔ قادیان میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ گزارا ہوا وقت بہت یاد کرتی تھیں اور پھر وہی صبر و رضا کا نمونہ جو ہم سب کے لیے ہے۔گھر کی باتیں، جماعت کی باتیں اور ایاز صاحب کا حال احوال پوچھتیںاور سلام بھجواتیں اور دعا کی درخواست کرتیں۔یہ پیاری آپا جان کی چند پیاری یادیں قلمبند کی ہیں اور ڈھیروں دعائوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی تعزیت کا پیغام اور سلام بھیجتی ہوں۔اللہ تعالیٰ سب کا حامی و ناصر ہو خاص طور پر عزیزہ علیم صاحبہ کا اللہ تعالیٰ ان کی والدہ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور والدین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button