نظم

وقفِ نو کے نوجواں

دنیا میں گھوم جائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

اسلام کو پھیلائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

دکھ درد کے مارے ہوئے لوگوں کی ڈھارس ہم بنیں

ان کو سکوں پہنچائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

علم و عمل کو تھام کر اقوامِ عالم کے لیے

یوں اک نشاں بن جائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

گورا یا کالا ہو کوئی، اس میں نہیں کوئی حرج

ہر اک کو ساتھ لائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

آفت زدہ اغیار ہوں یا ہوں کوئی اپنے مگر

سب کو خوشی پہنچائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

آیا امامِ کامگار، اس کو قبولو دوستو!

اعلان یہ کروائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

پھر یوں فرازؔ! اس آخری حربے میں ہوں گے سرخرو

شیطاں کو جب تڑپائیں گے ہم وقفِ نو کے نوجواں

(ا ح فرازؔ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button