دادی جان کا آنگن

حضرت مریم علیھا السلام

احمد: وقفِ نو کے دونوں رسالوں کے نام بتاؤ؟

محمود: ایک تو اسماعیل ہے جو مجھے انعام میں ملا تھا اور دوسرا…

گڑیا: مریم ہے جو واقفاتِ نو کے لیے ہے۔

احمد: آپی اس مقابلہ میں مدد تو نہیں کرنی تھی۔ اب محمود کو نصف نمبر ملیں گے دادی جان!

دادی جان دونوں میں جاری مقابلہ کا سکور نوٹ کرتے ہوئے مسکرا کر بولیں: جی ٹھیک ہے احمد میاں۔ چلیں اب مقابلہ ختم کرتے ہیں۔

گڑیا: دادی جان ہمیں حضرت مریمؑ کے بارہ میں تو بتائیں۔ ان کے بارہ میں واقفاتِ نو کے اجتماع میں بھی ذکر ہو رہا تھا۔

دادی جان: ٹھیک ہے بچو! بہت زمانے پہلے حضرت مریمؑ کی والدہ کا تعلق آلِ عمران یعنی عمران کے خاندان سے تھا انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا کرےتو میں اللہ اس کی راہ میں وقف کر دوں گی۔ انہوں نے بہت دعا کی کہ خدا تعالیٰ ان کی نذر قبول کرے اور اسے برکت دے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی عطا فرمائی تو اس پر انہیں بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ کام جس کے لیے انہوں نے اپنی اولاد وقف کی تھی لڑکی سے پورا نہ ہو سکے گا۔ اور شاید ہیکل کا قانون بھی تھا کہ صرف لڑکے وقف کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نےگھبرا کر دعا کی کہ الٰہی اب کیا کروں میرے گھر میں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ جو بیٹی اس نے عنایت کی ہے اس سے وہ کام لیناہے جو کہ لڑکا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بچی کا نام مریم رکھا۔ حضرت مریمؑ کی والدہ کی نیت اپنی اولاد کو دین کی راہ میں وقف کرنے کی تھی اس لیے انہوں نے دعا کی کہ اِنِّیۡۤ اُعِیۡذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ (آل عمران: 37) ترجمہ:(خدایا) میں اسے اور اس کی اولاد کو مردود شیطان کے حملہ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

مریم کا کیا مطلب ہے؟ محمود نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا

دادی جان: مریم کے معنی عبادت گزار، پارسا، پاکدامن کے ہیں۔ ان کی والدہ کا ارادہ تھا کہ مریم کی نیک تربیت کریں گی۔ ان کی شادی کریں گی اور ان کی اولاد سے تبلیغ دین کا کام ہو سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے مذہبی عبادت گاہ (ہیکل) میں ایک بزرگ نبی حضرت زکریاؑ کی نگرانی میں حضرت مریمؑ کو دے دیا۔ حضرت زکریاؑ جو حضرت مریم ؑکے کفیل تھے اوران کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریمؑ جو اُس وقت بہت چھوٹی بچی تھیں اُن کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مریمؑ سے پوچھا کہ بیٹی تمہیں یہ چیزیں کہاں سے ملی ہیں؟ چھوٹے بچوں سے عام طور پر لوگ محبت اور پیار کی وجہ سے اس قسم کی باتیں پوچھا ہی کرتےہیں۔ انہوں نے جواب دیاکہ یہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔یہ جواب صرف اُس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریمؑ کی ہوئی تھی۔

ایک نوعمر بچی کا خدا تعالیٰ سے اتنا پیار اور تعلق دیکھ کر حضرت زکریاؑکے دل میں یہ حسرت جاگ اٹھی کہ خدا تعالیٰ اُن کو بھی کوئی بچہ دیتا جو دین کا خادم ہوتا اور ان کا نیک ذکر قائم رکھنے کا باعث ہوتا۔ چنانچہ اس وقت حضرت زکریاؑنے بھی اولاد کی دعا کی جو خدا نے دعا سن لی اور انہیں بیٹے کی خوشخبری دی اور خدا تعالیٰ نے خود اس بیٹے کا نام یحیٰ رکھا۔

محمود: یہ حضرت یحیٰؑ ہی تھے؟

دادی جان: جی بیٹا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ جنہیں یوحنا یاایلیا یاJohn the Baptist کہا جاتا ہے۔ حضرت زکریاؑ نے دیکھا کہ مریم بہت نیک اور خدا پرست ہیں اور خدا تعالیٰ بھی ان سے پیار کا سلوک کرتا ہے ان کو اندازہ ہوگیا کہ ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں جس شاندار نبی کی بشارتیں موجود ہیں وہ انہی کی نسل سے ہوں اس لیے وہ حضرت مریمؑ کا بہت خیال رکھتے۔ لوگ بھی حضرت مریم ؑکے تقویٰ اور پاکیزگی و پارسائی کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے تھے اور ہیکل کے ایک کمرے میں عبادت میں مصروف حضرت مریمؑ کے لیے طرح طرح کے تحفے لاتے۔کوئی کھانا لاتا، کوئی پھل لے آتا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن چند پاک عورتوں کا نام لے کر ذکر کیا ا ن میں حضرت مریمؑ کا نام بھی شامل ہے اور انہیں مومنین کے لیے بطور مثال بیان فرمایا ہے۔

حضرت مریم ؑجب بڑی ہو گئیں تو ہیکل میں ٹھہر نا مشکل ہو گیا۔ اور اب ان کی تربیت بھی مکمل ہو چکی تھی۔ ان کی عمر بھی شادی بیاہ کی ہو گئی تھی۔ والدین تو بچی کو وقف کر چکے تھے اس لیے ان کی شادی کرنے کا اختیار بھی استعمال نہیں کیا اور فیصلہ قرعہ اندازی سے خدا پر چھوڑ دیا۔ یہ قرعہ ایک شخص یوسف نجّار کے نام نکلا جن سے مریم کی منگنی کر دی گئی۔ یہ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور نیک آدمی تھے۔یوسف حضرت ابراہیمؑ کے خاندان میں سے تھے۔

خدا تعالیٰ حضرت مریمؑ سے ان کی نیکی کی وجہ سے خوش تھا مگر بنی اسرائیل سے ان کی گستاخیوں کی وجہ سے ناراض ہو گیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کو ایک فرشتے کے ذریعہ ایک نشان کے طور پر بن باپ کے ایک بیٹے کی خبر دی۔ حضرت مریمؑ اس خبر کو سن کر پریشان ہوئیں لیکن آپ کی گھبراہٹ اور بے چینی کو دیکھ کر فرشتے نے خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں تسلی اور خوشخبری دی کہ وہ بیٹا کئی خصوصیات کا حامل ہوگا۔ حضرت مریمؑ نے یوسف کو بھی بتایا تو وہ بھی بہت گھبرا گئے کیونکہ سب کو علم تھا کہ ابھی صرف منگنی ہوئی ہے۔ وہ لوگوں کے سوالات کا کیا جواب دیں گے۔خود انہیں ذاتی طور پر حضرت مریم ؑکی پاکدامنی پر یقین تھا۔ وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ انہیں خدا تعالی ٰکی طرف سے خواب آیا کہ آپ پاک مریم کو اپنے گھر لے جائیں۔ یوسف نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اوائل بہار کے دنوں میں سفر شروع کیا۔ چونکہ وہ بیتِ لحم کے رہنے والے تھے اس لیے اسی طرف کا رخ کیا۔بیتِ لحم یروشلم سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے اور ناصرہ سے ستر میل جنوب کی طرف واقع ہے اور بہت زرخیز پہاڑی علاقہ ہے۔سرسبزی کی وجہ سے چرواہے یہاں اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہاںسردیوں میں اتنی شدیدسردی پڑتی ہے کہ چشموں کا پانی جم جاتا ہے مگر گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوئی۔ ہم نے الفضل میں پڑھا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش گرمیوں کے موسم میں ہوئی نہ کہ موسمِ سرما میں۔

احمد: جی جب کھجور پک کر کھانے کے قابل تھی اور چشموں کا پانی جاری تھا نہ کہ جما ہوا تھا۔

گڑیا:کیا حضرت مریمؑ پھر وہیں رہیں؟

دادی جان: جی حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد آپ نے ایک لمبا عرصہ بیت لحم اور ناصرہ میں گزارا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو یروشلم جانے کا حکم دیا تو آپ اپنی والدہ کو لے کر وہاں چلے گئے۔وہاں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی وجہ سے آپ کوباتیں بھی سنائی گئیں۔ حضرت مریمؑ کے سامنے ان کے پیارے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کو مارا پیٹا گیا اور انہوں نے صلیب دیے جانے کا انتہائی دردناک منظر بھی دیکھا۔ لیکن انہوں نے صبر کیا کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک نشان تھی تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی حفاظت فرمائے گا۔

احمد: کیا حضرت عیسیٰؑ انہیں وہیں چھوڑ کر ہجرت کر گئے؟

دادی جان: صلیب سے بچنے اور تندرست ہوجانے کے بعد حضرت عیسیٰؑ اپنی والدہ اور خاندان کے ساتھ مشرق کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت مریمؑ نے ایک طویل سفر طے کیا۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کے ذکر میں بیان فرمایا کہ وَجَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَاُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّاٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیۡنٍ(المومنون:51) یعنی اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی۔

یہاں کشمیر کا ذکر ہے ناں ؟ گڑیا نے پوچھا۔

دادی جان: جی ہاں اس آیت میں یہی اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ تو بچو! دیکھو کہ حضرت مریمؑ کو ان کی والدہ نے وقف کیا اور انہوں نے کتنی عبادت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان بھی لیا۔ بیٹے کی پیدائش پر لوگوں کے طعنوں پر صبر کیا اور پھر بیٹے کی تکلیف پر بھی صبر کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کی وجہ سے انہیں آخر ان دکھوں سے رہائی ملی۔ اور ان کی والدہ کی دعا بھی پوری ہوئی کہ انہوں نے حضرت مریمؑ اور ان کی اولاد کو اللہ کی پناہ میں دیا تھا تو اللہ نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا۔ اسی لیے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے وقفِ نو کی تحریک جاری فرمائی۔

اب سب وضو کرلیں نماز مغرب کا وقت ہونے لگا ہے۔

( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 115 تا 117)(درثمین احمد، جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button