دین کی خاطر قربانی کے عظیم الشان نظارے
’’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘
روزِ اوّل سے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ دُنیا کی راہنمائی اور تربیت کے لیے انبیاء اور رسل نازل کرتا رہتا ہے۔ اسی سنت کے مطابق انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلام کی حیاتِ نو اور عیسائیت کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی ایک دُور دراز بستی قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو نازل فرمایا۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام پر کشوف و الہامات کا آغاز ہوچکا تھا اور بہت سے بزرگان آپ سے درخواست کرتے تھے کہ آپ ان کی بیعت لیں۔ مگر حکمِ خداوندی نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے کبھی کسی سے بیعت نہ لی۔ تاہم جب حکمِ خداوندی نازل ہوگیا تو آپ نے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو ایک پیغام خلق اللہ کو دیا جس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنےکے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں۔ انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خداتعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا۔ بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے۔ یہ ربّانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔
اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَا صْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی
المبلغ خاکسارغلام احمد عفی عنہ(مجموعہ اشتہارات جلد۱ ۱۸۷۸ء تا ۱۸۹۳ء ایڈیشن ۱۹۸۹ء صفحہ ۱۸۸)
۹؍جمادی الاوّل ۱۳۰۶ھ بمطابق ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں دس شرائطِ بیعت کی تشریح بیان فرمائی۔ ان شرائط کی آٹھویں شرط مندرجہ ذیل ہے جو مضمون ہذا کا موضوع ہے۔
ہشتم :۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔(اشتہار تکمیل تبلیغ ۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۶ ہجری مطابق ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام شرائط بیان کرنے کے بعد تحریر فرمایا:’’یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں …‘‘
بیعت کی اس شرط کا مطالعہ گہرائی میں جاکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی یہ شرط بہت مشکل ہے اور اس پر عملدرآمد حقیقتاً ایمان کے لیے ایک امتحان ہے۔
ہر انسان کو قدرتی طور پر اپنی زندگی، اپنا مال و دولت، اپنی عزت، اہل و عیال اور رشتہ دار بہت عزیز ہوتے ہیں اور ان سے محبت کی وجہ سے ان کی حفاظت کے لیے حتی المقدور کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم ان مندرجہ بالا دُنیاوی اموال اور رشتوں کا الگ الگ جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تقویٰ کی وہ باریک راہیں ہیں جن پر چلے بغیرمسیح زماں علیہ السلام سے وفاداری کا دَم نہیں بھرا جاسکتا۔
ایک عام شخص بھی اپنے مال ودولت کی حفاظت کے لیے حسبِ ضرورت و اِسْتِطاعَت چوکیدار، سیکیورٹی گارڈ، کیمرے، تالے، کنڈیاں غرضیکہ ہردستیاب طریقہ سے کام لیتا ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ انشورنس بھی لے لیتا ہے کہ اگر یہ تمام حفاظتی نظام بھی ناکام ہوگیا تو مال و دولت کے بدلہ میں انشورنس کمپنی معقول رقم ادا کردے۔
اسی طرح لوگ اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت کے لیے ہر اقدام اٹھاتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ان کے کپڑے لتّے کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے دُنیا جہان کے مصائب اٹھاتے ہیں۔
ہر شخص کی اپنے ایک خاص حلقہ میں کچھ نہ کچھ عزت ضرور ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عزت کو بچانے کے لیے بڑی تگ و دو کرتا ہے۔ اور اپنی ناک کٹنے سے بچانے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح ہر انسان، بلکہ ہر جاندار اپنی جان بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس کے اندر قدرت نے ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے بغیر سوچے سمجھے کوشش کرتا ہے، اور کبھی بھی آسانی سے موت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا۔
مگر جب کسی شخص کو ان سب میں سے کسی ایک یا ایک کے مقابلہ میں دوسری چیز مثلاً مال اور زندگی میں سے ایک کو بچانے کے لیے دوسرے کی قربانی دینا پڑے تو زندگی بچانے کے لیے مال قربان کردیا جاتا ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے پستول یا چھری کے سامنے لوگ اپنی ساری زندگی کی کمائی دے دیتے ہیں اور شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ جان بچ گئی۔
مگر جب اسی زندگی کا سودا عزت یا اولاد کے ساتھ ہوتو لوگ اپنی زندگی دے کر اپنی عزت یا اہل و عیال بچا لیتے ہیں۔ صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ نے موقع پانے کے باوجود اپنی زندگی دے دی مگر مسیحِ دوراں سے منسوب اپنی عزت بچالی۔
اسی طرح ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ والدین اپنےڈوبتے بچوں کو بچاتے بچاتے خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یعنی جو شخص حقیقتاً اسلام قبول کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ دین کے لیے، دین کی عزت کے لیے اور اسلام کی ہمدردی کی خاطر ان سب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے جو اس کے لیے آج سے پہلے مقصدِ حیات تھیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں، آپؑ کی بیعت کرنے والوں نےاور آپؑ کے غلاموں نے اپنے اس عہد کا کس حد تک پاس کیا؟
دین کی عزت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی نسل میں سے صاحبزادہ مرزا غلام قادراحمد صاحب نے جان کی قربانی دی۔ ان کو پتا لگ گیا تھا کہ دشمنوں کی سازش ہے کہ کہیں حملہ کرکے، اسلحہ اور صاحبزادہ غلام قادر کو وہاں چھوڑ دیں تاکہ دہشت گردی کا الزام جماعتِ احمدیہ پر لگ جائے لہذا صاحبزادہ غلام قادر نے دین کی عزت بچانے کے لیے چلتی گاڑی سے نکلنے کے لیے کوشش شروع کردی جس کی وجہ سے آپ گاڑی سےباہر نکلنے میںکامیاب ہو گئے اوربھاگ اُٹھے، یہ دیکھ کر دشمنوں نے پیچھے سے گولی مار دی اور آپ نے وہیں جامِ شہادت نوش فرمایا لیکن جماعت کی عزت بچالی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ غلام قادر شہید کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ان کا اغوا لشکر جھنگوی کے چار اشتہاری بد معاشوں نے جن کا سرغنہ لشکر جھنگوی کا ایک نہایت بد نام زمانہ مولوی تھا اور یہ چاروں مفرور مجرم پولیس کو انتہائی خطرناک جرائم کے ارتکاب میں اس درجہ مطلوب تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے سر کی قیمت حکومت نے بیس بیس لاکھ مقرر کر رکھی تھی۔ یعنی بد بخت مُلّاں جو اس کا سر براہ تھا اور باقی پیشہ ور بد معاش جو ان کی ملازمت میں رہتے ہیں۔ ان سب کے سروں کی بیس بیس لاکھ قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ اس قسم کے منظم جرائم کے ماہرین سے ہم نے مشورہ کیا ہے۔ ان کی قطعی رائے یہ ہے کہ ان کو شیعوں پر خطرناک حملہ کرنے کے الزام میں ملوث کیا جائے کیونکہ محرم کا زمانہ ہے اس لئے دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا اور سارے ملک میں یہ کہہ کے آگ لگانی تھی کہ بے چارے سپاہ صحابہ پر تو خواہ مخواہ الزام آتے ہیں۔ اصلی بد معاشی جماعت احمد یہ کروا رہی ہے اور محرم وغیرہ کے موقع پر جو ملک گیر فسادات ہوتے ہیں ان میں یہ ذمہ دار ہیں۔ اور اگر یہ پتا چل جائے کہ جماعت احمدیہ ملوث ہے تو پھر وہ ملک گیر فسادات بہت زیادہ ہولناک صورت اختیار کر سکتے تھے۔ بے شمار احمدی معصوموں کی جانیں ان کے رحم و کرم پر ہوتیں جورحم و کرم کا نام تک نہیں جانتے۔ چنانچہ ماہرین بڑی قطعیت کے ساتھ یہ کہتے ہیں اور ان کے پاس یہ کہنے کی وجوہات موجود ہیں۔ ان کی کارسمیت ان کی لاش کو، وہ کہتے ہیں کہ جلا دینا مقصود تھا۔ جس میں دہشت گردی کے جدید ترین ہتھیار مثلاً راکٹ لانچرز، گرنیڈ اور گرنیڈ لانچر اور بہت سی کلاشنکوفیں بھر دی جانی تھیں۔ یہ خیال کیوں ان کو آیا اس لئے کہ ایک شخص کے قتل کے لئے اتنا بھاری جدید اسلحہ جو دہشت گردی کے جدید ترین تیار لوگوں کو جو ٹرینڈ آدمی ہیں ان کو دیا جا تا ہے۔ وہ ساتھ لے جانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک کار سے ان سارے جدید ترین اسلحہ جات کی بھر مار پکڑی گئی ہے اور ان ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ان کی کار میں بھر کر اس کو جلا دینا مقصود تھا لیکن اندر سے وہ چیز یں پکڑی جاتیں اور یہ الزام لگتا کہ سارے پاکستان میں جو خطرناک اسلحہ تقسیم ہو رہا ہے اور بد معاشیاں کی جا رہی ہیں یہ جماعت احمدیہ کروا رہی ہے۔ اور یہ جو چیز یں پکڑی گئیں۔ یہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک طرف تو اس کو اتفاقاً ڈکیتی کا واقعہ بیان کرتی ہے اور دوسری طرف تسلیم کرتی ہے کہ ساری چیزیں ان کے پاس تھیں۔ عام ڈکیتی میں اتنے خطرناک ہتھیاروں کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ ویسے ہی ناممکن ہے۔
اب عزیزم غلام قادر شہید کا جو غیر معمولی کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ آ گئی کہ یہ ایک بہت خطرناک سازش ہے جس کے بد اثرات جماعت پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے بالکل پرواہ نہیں کی کہ اس کو کیا تکلیف دی جا رہی ہے۔ اس کے گلے گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ اس کو ہر طرح سے اندر خنجرمار کے بھی مارنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ بچ کے باہر نہ نکل سکے۔ لیکن بڑی سخت جانی کے ساتھ سارے مصائب برداشت کرتے ہوئے وہ ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ پسند کیا کہ سڑک پر اس کا خون بہ جائے تاکہ جماعت احمد یہ اس سازش کے بد اثرات سے محفوظ رہے اور ان کے قبضے میں آ کر دہشت گردی کے منصوبے میں اس کو ملوث نہ کیا جا سکے۔ یہ جد وجہد تھی قادر کی، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہی۔
شدید جسمانی اذیت پہنچی ہے مگر بالکل پرواہ نہیں کی۔ آخر دم تک ان سے لڑتا رہا اور اغوا کا منصوبہ نا کام کر دیا اور سڑک پر باہر نکل کر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا قبول کر لیا۔ اس شہادت کا یہ پہلو ایسا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ قیامت تک شہید کے خون کاہر قطره آسمان احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رہےگا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۹۹ء )
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۳؍اپریل ۱۹۸۷ء کو تحریکِ وقفِ نو کا اعلان کرتے ہوئے ایک کہانی سنائی جس سے ثابت ہوتا تھا کہ انسان کے لیے اس کی اولاد مال و دولت اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر قیمتی ہوتی ہے۔ حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’…ہمایوں کے متعلق بھی بابرنے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو بہت پیارا ہے یہ دے دوں۔اسے خیال آیا یہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں۔ پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے۔ یہ پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا۔ پھر آخر اس کو خیال آیا۔ اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تمہیں تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے۔ اس وقت اس نے عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا! واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے، تو میر ی جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعتاً اس وقت کے بعد سے ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۳؍اپریل۱۹۸۷ء بمقام مسجد فضل لندن مطبوعہ خطبات طاہر جلد ۶صفحہ۲۴۵)
ایسی اولاد جس کے لیے انسان اپنی ساری دولت، خوشیاں اور سب سے بڑھ کر جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا، اُس اولاد کو جب کسی باپ کی آنکھوں کے سامنے تشدّد کا نشانہ بنایا جائے اور باپ کو دھمکی دی جائے کہ اگر باپ، احمدیت سے تائب نہیں ہوتا تو اس کے بیٹے کو جان سے ماردیا جائے گا تو صرف ایمان کی طاقت ہے جو اس قربانی پر بھی راضی ہوجاتی ہے۔ وہ غیرمتزلزل ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرستادہ مسیحِ دوراں کی بیعت کو اس مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے کہ بیٹے کی موت بھی اس ایمان کو رَتی بھر سرکا نہیں سکتی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو فسادات ہوئے تھے، اُن میں تیس پینتیس احمدی شہید کئے گئے تھے۔ لیکن بعض ایسی حالت میں شہید ہوئے کہ اُنہیں اذیت دے دے کر شہید کیا گیا۔ باپ اور بیٹے کو شہید کیا گیا۔ باپ کے سامنے بیٹے کو اذیت دی جاتی تھی۔ بیٹے کے سامنے باپ کو اذیت دے کر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدیت سے تائب ہوتے ہو یا نہیں؟ اور یہ سب کچھ صرف لوگ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہاں کی پولیس بھی سامنے کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہوتی تھی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ اپریل ۲۰۱۲ء)
مندرجہ بالا واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یکم جون ۱۹۷۴ء کو گوجرانوالہ میں مخالفینِ احمدیت نے ایک احمدی گھرانے پر حملہ کردیا۔ اس وقت گھر میں مکرم چودھری منظور احمد صاحب اور ان کے بیٹے مکرم چودھری محمود احمد طاہر صاحب تھے۔مذہبی شدت پسند مخالف لوگوں نے باپ بیٹے کو مارنا شروع کردیا اور اصرار کیا کہ دونوں احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کردیں۔ دونوں نے انکار کردیا۔ ظالموں نے باپ کے سامنے مارمار کربیٹے مکرم چودھری محمود احمد طاہر صاحب کو شہید کردیا مگر باپ نے اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے کوئی بھیک مانگی نہ ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش آسکی۔ بعدازاں ظالموں نے چودھری منظور احمد صاحب کو بھی شہید کردیا۔
شاید ہی کوئی ایسا احمدی ہو جس نے مالی قربانی میں حصہ نہ لیا ہو۔ نہ صرف حصہ لیا ہو بلکہ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے نشان نہ دیکھے ہوں۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تنزانیہ کا ایک ایمان افروز واقعہ سنایا:’’ سموئے (Samuye) کے معلم لکھتے ہیں کہ جماعت میں تین بچے ہیں جو چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں، باقاعدگی سے مسجد میں تعلیمی اور تربیتی کلاسز میں شامل ہوتے ہیں۔ تینوں بچوں کے گھرانے مالی لحاظ سے غریب ہیں۔ کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں۔ گذشتہ ماہ سے یہ آپس میں مقابلہ کرتے تھے اور مقابلے میں چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی طرف ان کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر ایک علیحدگی میں اپنا چندہ لاتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ جتنی بھی رقم اس کے پاس موجود ہے وہ ادا کرے اور اس طرح انہوں نے کسی نے پانچ سو، کسی نے چار سو، سات سو شلنگ جو بھی ان کے پاس تھا دیا اور کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ تم جو یہ چندہ تحریک جدید لاتے ہو، یہ پیسے کہاں سے لے کے آتے ہو؟ ایک نے بتایا کہ اپنی والدہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مدد کرواتا ہوں تو جیب خرچ کے طور پر جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے چندہ تحریک جدید کے لیے رکھ لیتا ہوں اور کہتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ہمیشہ لکڑیوں کے گاہک فوری طور پہ مل جاتے ہیں اور کبھی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ بھی اپنے جیب خرچ میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتا ہے۔ تیسرے بچے نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریبی درختوں پر پھل وغیرہ لگتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنے کھانے کے لیے پھلوں سے زائد کو بیچ بھی دیتا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم سے چندہ ادا کر دیتا ہے۔ ان تینوں بچوں نے چندے کی برکات کا بھی بیان کیا کس طرح چندہ کی ادائیگی سے ان کی زندگی میں سکون محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو ایمان و اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ یہ ہے ایمان جس سے ہمارے بچے بھی مزہ لوٹتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ نومبر ۲۰۲۱ء)
غرضیکہ جماعتِ احمدیہ کی تاریخ، ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں غلامانِ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جان، مال اور اولاد کی قربانی دے دی مگر اپنی بیعت کے الفاظ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور بڑے زور آور حملوں سے دشمن کے منصوبوں کو چکنا چور کردیا۔
مئی ۲۰۱۴ء میں بھوئیوال ضلع شیخوپورہ میں ایک مخالفِ جماعت نے اپنی دکان پر جماعت مخالف اشتہار لگائے جس کی بنا پراس دکاندار کی چند احمدی احباب سے تلخ کلامی ہوگئی۔ اسی دکاندار نے ۱۳؍مئی ۲۰۱۴ء کو اشتہار پھاڑنے کا بے بنیاد الزام لگا کر ۴؍احبابِ جماعت مکرم خلیل احمد صاحب، مکرم مبشر احمد صاحب، مکرم غلام احمد صاحب اور مکرم احسان احمد صاحب کے خلاف تھانہ شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ میں ایف آئی آر نمبر۲۹۱کے تحت، زیر دفعہ ۲۹۵ الف مقدمہ درج کروادیا۔
۱۶؍ مئی ۲۰۱۴ء کو ایک انیس/بیس سالہ شرپسند سلیم قادری نے تھانہ شرقپور شریف میں داخل ہوکر، حوالات تک رسائی حاصل کرکے، مکرم خلیل احمد صاحب کو پستول سے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔
اسی اسیری کے دوران مکرم احسان احمد صاحب (جن کے والد صاحب حوالات میں ہی شہید کردیے گئے تھے) کی والدہ محترمہ اپنے بیٹے کے غم اور صدمہ میں مالکِ حقیقی سے جاملیں اور بیٹے کو نہ تو پیرول پر رہائی ملی نہ ہی وہ اپنی والدہ کا آخری دیدار کرسکا۔ بلکہ اس کو اطلاع بھی ایک ہفتہ بعد ہوئی جب ملاقات کے مقررہ دن احباب سے ملاقات ہوئی۔
مکرم احسان احمد صاحب کی شادی ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور گرفتاری کے وقت ان کی اہلیہ امید سے تھیں۔(انہوں نے اپنے بیٹے کو پہلی بار ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو گلے لگایا۔) اس کیس کے دوران ہی اسیران کے خاندانوں کو مخالفانہ حالات کی بنا پر ہجرت کرنا پڑی اور تاحال یہ خاندان واپس اپنے گھروں میں نہیں آسکا۔
مکرم غلام احمد صاحب کی گرفتاری کے وقت ان کے تین بچوں کی عمریں ۸ سے ۱۲ سال تھیں اور یہ تینوں بچے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تھے۔ اس خاندان کو بھی اپنے عزیز واقارب اور گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا اورمکرم غلام احمدصاحب کی اہلیہ صاحبہ نے یہ انتہائی مشکل اور آزمائش کا وقت، بڑے حوصلے، بہادری اور بغیر کسی شکوہ کے، بڑے صبر کے ساتھ گزارا جو واقعی قابلِ ستائش ہے۔
خاکسارراقم الحروف کو ان اسیرانِ راہ مولا سے باری باری تفصیل سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ان سے جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ان احباب کا ایمان پہلے سے کہیں مضبوط ہوچکا ہے اور خلافت سے ایسا تعلق پیدا ہوچکا ہے جس کا تصور عام آدمی تو کُجا عام احمدی کے لیے بھی مشکل ہے۔ اُن کا ہر فقرہ اس بات سے شروع ہوتا تھا کہ خلیفۂ وقت کی دُعاؤں سے…خلیفۂِ وقت کےارشاد کے مطابق…خلیفۂ وقت جیسا حکم فرمائیں گے… اس کے بعد وہ ان تمام احبابِ جماعت کے شکرگزار تھے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کا اور ان کے اہلِ خانہ کا خیال رکھا۔
چنداسنگھ والا ضلع قصور میں ایک ہی احمدی گھرانہ ہے۔ اس خاندان کے سربراہ مکرم محمد حنیف صاحب ہیں اور اس خاندان کو ۱۹۹۸ء میں بیعت کرکے احمدیت میں شمولیت کی سعادت ملی۔ جس طرح اِس خاندان نے بیعت کی اور مذکورہ بالا شرط پر عمل کیا ہے وہ بے مثال ہے۔
مکرم محمد حنیف صاحب کی ایک ۱۵سالہ بچی نازیہ حنیف جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھی، چند دن بیمار رہنے کے بعد ۸؍مارچ ۲۰۰۶ء کوبقضائے الٰہی وفات پاگئی اور نزدیکی قبرستان سچیرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
تدفین کے بعد چند شرپسند عناصر نے لوگوں کو بھڑکایا کہ ہمارا قبرستان ناپاک ہوگیا ہے۔ گاؤں کے مولوی نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ قبرستان کے دیگر مرحومین نے خواب میں میرے پاس آکر شکایت کی ہے لہٰذا مرحومہ کی میت کو قبرستان سے نکالا جائے۔ مرحومہ کے خاندان نے جوان بچی کی وفات کا صدمہ تو پسِ پشت ڈال دیا اور یہ فکر ستانے لگی کہ کہیں قبر کی بےحرمتی نہ ہو۔ گاؤں میں شدید کشیدگی کا ماحول طاری ہوگیا تھا۔
بالآخر ۱۶؍مارچ ۲۰۰۶ء کو رات کے وقت بھاری تعداد میں پولیس نفری گاؤں پہنچی اور مکرم محمد حنیف صاحب اور اہلِ خانہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کے موبائل فونز چھین لیے تاکہ کہیں رابطہ نہ کرسکیں۔ نیزان کو حکم دیا کہ وہ فوراً اپنی بیٹی کی قبرکشائی کرکے نعش نکال کرکہیں اور لے جائیں۔ انکار پر پولیس نے مکرم محمد حنیف صاحب کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بالآخر پولیس مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کے دس سالہ بیٹے کو قبرستان لے گئی۔ گاؤں کے تقریباً ۲۰۰؍ افراد بھی قبرستان پہنچ گئے۔
پولیس نے دونوں باپ بیٹے کو جبراً حکم دیا کہ قبر کھود کر نعش نکالی جائے۔ مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کا دس سالہ بیٹا قبرکشائی کرتے رہے اور لوگ تماشہ دیکھتے رہے اورقہقہے لگاتے رہے، ایک بھی آواز ایسی نہ اٹھی جس نے ندامت یا شرمندگی کا اظہار کیا ہو۔ اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی کہ ایک جوان بچی کی نعش، وفات کے کئی روز بعد، باپ اور بیٹے کے ہاتھوں تماش بینوں کے سامنے نکلوائی جائے۔
ایک پولیس اہلکار سے آخر رہا نہ گیا اور اس نے اونچی آواز سے تمام حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’آپ لوگوں کو جو اعتراض تھا وہ دور ہوگیا ہے اب تو آپ کو ٹھنڈ پڑگئی ہے۔‘‘
نعش کی حالت بالکل ویسی ہی تازہ تھی جیسے تدفین کے دن تھی اور ایک خاص قسم کی خوشبو تھی جس نے ماحول کو مہکادیا تھا۔ پولیس کی نگرانی میں نعش کو قصور شہرلایا گیا اورتدفین عمل میں آئی۔
پوری دُنیا میں اسلام کے خلاف مختلف طریقوں سے حملے جاری ہیں۔ یہ حملے جنگ و جدل کے میدانوں میں بھی ہیں اور زبانی، تقریری اور تحریری بھی۔ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو اس میں ایک اور ہی تیزی آگئی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کے پاس کوئی دُنیاوی حکومت نہیں ہے جس کی افواج دشمنوں کے ان جنگی حملوں کو جو وہ سیاسی بہانوں سے کرتے ہیں، روک سکے۔ مگر دشمنوں کے اسلام پر ہونے والے ہر تقریری یا تحریری حملے کو روکنے کے لیے پوری دُنیا کے احمدی، نظامِ جماعت کے تحت یا حسبِ موقع انفرادی طور پر اسلام کا دفاع کرنے کے لیے سب سے پہلے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈنمارک میں شائع ہونے والے خاکے ہوں،سویڈن میں قرآن کی بےحرمتی ہو یا ہندوستان میں کی گئی توہینِ رسالت ہو، یہ احمدی ہی ہیں جو اسلام کی ہمدردی اور دفاع کے لیے آگے آئے اور ان دشمنان کا جواب تقریر، تحریر، سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبارات، کُتب، ویڈیوز، غرضیکہ ہر دستیاب طریقہ سے تسلی بخش دیا گیا۔
احمدی مسلمانوں کی جان، مال، وقت، عزت اور اولاد کی قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہے، جن پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور یہ قربانیاں ابھی جاری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گی۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ ہمیں بیعت کی ہرشرط پر لفظی اور معنوی لحاظ سے پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت حقّہ، جو کہ حقیقی اسلامی خلافت ہے، کے وفادار مبائع رہیں۔آمین