حضرت مصلح موعود ؓ

تَعَوُّذ اور تسمیہ پڑھنے میں نکتہ (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۳۰؍ دسمبر ۱۹۲۷ء )

حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۲۷ء میں خطبہ ارشاد فرمایاجس میں حضورؓ نے تعوذ اور تسمیہ کے فلسفہ پر روشنی ڈالی ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔ (ادارہ)

تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

رسول کریمﷺ کی سنت تھی کہ خطبہ پڑھنے سے پہلے آپؐ استعاذہ باللہ کیا کرتے تھے یعنی اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ پڑھا کرتے۔ اس کے بعدبِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کی تلاوت فرماتے۔ ایک مسلم کے لئے رسول کریمﷺ کا یہ طریق اپنے اندر حکمت رکھنے سے خالی نہیں ہوسکتا اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو اس میں اسلامی زندگی کا نمونہ اور فلسفہ پاتے ہیں۔درحقیقت اگر غور کیا جائے تو یہ رسول کریمﷺ کا اپنا بتایا ہوا طریق نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ارشاد فرمودہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ جب قرآن کریم پڑھنے لگو تو اَعُوْذُ پڑھ لیا کرو۔ اور قرآن بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے شروع ہوتا ہے۔ اس طرح یہ قانون قرآن سے ہی نکل آیا کہ پہلے اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ پڑھنا چاہیے اور پھربِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ جب کوئی مسلمان چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی پڑھے گا تو اس حکم کے ماتحت پہلے اعوذ پڑھے گا اور پھربِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ پس قرآن کریم سے یہ قانون معلوم ہوگیا کہ وہ تمام کام جو انسان کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں ان کے کرنے سے پہلے اعوذ اور پھر بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ الفاظ کے لحاظ سے اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں یہ بتایا گیا ہےکہ انسان شیطان سے پناہ مانگے اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے۔ لیکن

مومن صرف الفاظ پر ہی نہیں رہا کرتا بلکہ ہر بات کے فلسفہ کو دیکھتا ہے اور اس کی حقیقت پر نگاہ رکھتا ہے۔

اگر ہم اس طریق کی ترتیب اور اس کے فلسفہ کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک ایسی بات بتائی گئی ہے جو دنیا کا عام فلسفہ ہے۔ اور اس طرح کامیابی کا گُر سکھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ میں آزادی چاہی گئی ہے اور حریت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کسی کی پناہ ڈھونڈنے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ فلاں نے گرفت کی ہوئی ہے اس سے چھٹنا چاہتا ہوں۔ پس اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ کسی کام کے کرنے کے وقت اس کام کے دائرہ میں حریت اور آزادی حاصل کرنا ضروری چیز ہے۔ دیکھو ایک زمیندار کھیت بونے کا کام کرنے سے پہلے کھیت کے لحاظ سے ضروری حریت اور آزادی چاہتا ہے۔ کبھی کسی زمیندار کو نہ دیکھو گے کہ وہ کھیت میں سے پہلے فصل کی جڑیں، روڑے اور ڈھیلے صاف کیے بغیر اس میں بیج بودے۔ وہ پہلے ان روکوں کو دُور کرے گا جو کھیتی کے اگنے کے رستہ میں حائل ہیں اگر اس میں گزشتہ فصل کی جڑیں اور تنے ہوں گےتو ان کو نکالے گا۔ پتھر اور اینٹیں کھیت میں دبی ہوں گی تو ان کو دور کرے گا گھاس اگی ہوگی تو اسے اکھیڑے گا۔ غرض پہلے وہ کھیت کے متعلق حریت اور آزادی چاہے گا اور پھر بیج ڈالے گا۔ اسی طرح جب ایک طالب علم خوش خطی کی مشق کرنا چاہتا ہے تو پہلے تختی کو دھوتا اور صاف کرتا ہے وہ پہلے نشانوں کومٹاتا ہے اور پھر اس پر لکھتا ہے۔ اسی طرح ایک بیمار آدمی کو جو بہت کمزور ہوگیاہو جب ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھتے ہی اسے طاقت کی دوائیاں نہیں دے گا بلکہ وہ یہ معلوم کرےگا کہ کمزوری کی وجہ کیا ہے۔ وہ اس کا سینہ دیکھے گا۔ جگر دیکھے گا اور معلوم کرے گا کہ بیماری پیدا کرنے والی کیا چیز ہے۔ اور جب اسے پتہ لگ جائے گا تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرےگا پھر جب وہ دور ہوجائے گی تو کمزوری کو دور کرنے کی دوائیاں دے گا۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان چارپائی پر پڑا ہوتا ہے۔ اٹھ کرا یک قدم بھی نہیں چل سکتا بلکہ چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ اگر بیٹھتا ہے تو دوسروں کے سہارے بیٹھتا ہے مگر اس کے متعلق ڈاکٹر یہ تجویز کرتا ہے کہ اسے جلاب دینا چاہیے اس وقت ایک ناواقف تو کہے گا۔ جب اسے پہلے ہی اس قدر ضعف ہے تو بھر جلاب کیسا یا اگر ڈاکٹر کہے کہ اس کا خون نکالنا چاہیے تو کوئی نادان کہے گا جب یہ پہلے ہی مررہا ہے تو خون نکالنے کا کیا مطلب۔ مگر ڈاکٹر جانتا ہے کہ پہلے جب تک وہ بیماری دور نہ ہوگی جس کی وجہ سے اس قدر کمزوری لاحق ہوگئی ہے اس وقت تک کمزوری دور کرنے کی کوئی دوا مفید نہ ثابت ہوگی جب وہ روک دور ہوجائے گی تب طاقت کی دوا دی جائے گی۔پس تمام کاموں کو کرنے کے وقت جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت ہوتی ہے وہ اس کام کے لحاظ سے حریت اور آزادی ہوتی ہے۔ ان روکوں کو جو اس کام کے رستہ میں حائل ہوں ان کا دور کرنا ضروری ہے۔

یہی حال قوموں کا ہے

جو قومیں دنیوی ترقی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ جب تک دوسری قوموں کے ماتحت رہتی ہیں۔ کامل ترقی حاصل نہیں کرسکتیں۔

جتنی جتنی انہیں حریت ملتی ہے۔ اتنا اتنا آگے قدم بڑھاتی ہیں۔اور کسی قوم کو اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی جو ضرورت ہے یہ اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کامل طور پر سیاسی آزادی حاصل نہ ہو۔ پہلی گورنمنٹ کو نکالنا پڑے گا پھر اپنا قانون جاری کیا جاسکے گا۔اسی طرح اگر تمدنی ترقی کی طرف قدم اٹھاناہے تو پہلے ان رسوم اور رواج کو توڑنا ہوگا جنہوں نے تمدنی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔ غرض

ہرکام کے لئے پہلے روکوں کو دُور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور پھر ترقی کے سامان سے کام لینے پر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ میں یہ گُربتایا گیا ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے دیکھو اس میں کون سی روکیں حائل ہیں ہر کام کے متعلق علیحدہ علیحدہ روکیں ہوتی ہیں سیاست کی روکیں علیحدہ ہیں۔تمدن کی علیحدہ۔مذہب کی علیحدہ اور جب تک ان روکوں کو دور نہ کیا جائے جو کسی کام کے رستہ میں حائل ہوتی ہیں اس پہلو سے ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔ کوئی قوم حکومت والی ترقی اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک غیر حکومت کی ماتحتی سے آزاد نہ ہوجائے۔ مگر تجارت میں ترقی کر سکتی ہے۔تجارت کے رستہ میں اَور روکیں ہیں اگر ان کو دور کیا جائے تو ترقی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح دین کے معاملہ میں ترقی کرنے کے راستہ میں جو روکیں ہیں ان کو دور کرلیا جائے تو باوجود تمدنی سیاسی اور اقتصادی روکوں کے مذہبی لحاظ سے ترقی ہوسکتی ہے۔ غرض جب تک کسی کام میں پیش آنے والی روکوں کو دور نہ کیا جائے اس وقت تک اس میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ پس

مومن کو اپنی روحانی اصلاح اور ترقی کے متعلق پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے رستہ میں کیا کیا روکیں ہیں۔

ہمیں چونکہ روحانیات کازیادہ خیال ہے سیاسیات کا اتنا نہیں۔ گو اگر کوئی موقع ہو اور ضرورت ہو تو ہم اس بارے میں بھی مشورہ دے دیتے ہیں۔ اس لئے روحانیات کے متعلق ہی ذکر کیا جاتاہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ روحانی ترقی کے رستہ میں کیا روکیں حائل ہیں۔ بیسیوں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت پاک ہوتی ہے۔ وہ روحانی اصلاح کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے کے گُر پاسکیں تو ترقی کرسکتے ہیں۔مگر جہالت میں گھرے ہونے کی وجہ سے محروم رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شریعت کا علم حاصل کریں۔ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت اچھی ہوتی ہے، علم بھی رکھتے ہیں، ترقی کے لئے جو باتیں ضروری ہوتی ہیں وہ بھی جانتے ہیں۔ مگر بعض گندی عادات ان کو پڑی ہوتی ہیں ان سے نہیں بچ سکتے۔ایسے لوگوں کو چاہیے کہ ان عادات کی اصلاح کریں۔ پھر ایسے لوگ ہوں گے جنہیں خالق کی نسبت مخلوق کے خوف کی کڑی نے باندھ رکھا ہوگا۔ وہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے روحانیت میں قدم نہ اٹھا سکتے ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ ان کے رستہ میں کیا روک ہے۔اگر لوگوں کا ڈر اور خوف روک ہو تو اسے دل سے نکال دینا چاہیے۔ پھر بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے کوئی گستاخی اور بے ادبی دین کے معاملہ میں ہوئی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے۔ ایسے انسان کو توبہ استغفار کثرت سے کرنا چاہیے۔ اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ غلطی اور گستاخی معاف کردے۔ پھر بعض لوگوں کے اندر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ خاص ریاضت اور محنت نہیں کرسکتے اور اس طرح روحانی ترقیات سے محروم رہتے ہیں کئی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان سوچ نہیں سکتا۔ فکر نہیں کرسکتا۔ ایساشخص اگر قرآن کریم کی تلاوت کرے گا تو اسے کیا لذت آسکتی ہے؟ یا عبادت میں اسے کیا لطف آسکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ ڈاکٹر سے علاج کرائے۔ اور دماغی حالت کے درست کرانے کی کوشش کرے تاکہ وہ غور و فکر سے کام لے سکے۔ اسی طرح مختلف قسم کی روکیں ہوتی ہیں۔ اور بیسیوں قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اس لئے جب تک انسان اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِکی حکمت پر نظر ڈال کر ان کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے اس وقت تک اس کا قدم اٹھانا کوئی نتیجہ نہیں پیداکرتا۔ ایسی حالت میں اس کا کوشش کرنا اسی طرح اندھا دھند ہوتا ہے جس طرح دو موٹریں اندھا دھند دوڑ پڑیں۔ اگر ان کو درست طور پر نہ چلایا جائے گا تو وہ ٹکرائیں گی۔ پس

روحانی ترقی کے لئے پہلے ان روکوں کو دُور کرنا چاہیے جو رستہ میں حائل ہوں۔

اس کے بعد بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا کام شروع ہوگا یعنی اس طرح انسان روکیں دور ہوجانے کے بعد بیج ڈالتا ہے۔ اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِکے بعد دوسری چیز بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ رکھی گئی جس سے یہ بتایا کہ یہ ترقی کا بیج ہے۔

جب انسان روکوں کو دور کرنے کے بعد بیج ڈالے گا تب رحمانیت اور رحیمیت کے آثارظاہر ہوں گے۔

پس ہر کام کرنے سے پہلے اَعُوذ ہونی چاہیے جو سزا۔سختی توڑنے اور صاف کرنے کے معنی رکھتا ہے۔ شیر سے بچانے کے کیا معنی ہیں۔ یہی کہ شیر کو مار دیا جائے۔ گھاس سے زمین بچانے کے کیا معنی ہیں۔ یہی کہ گھاس اکھیڑ کر باہر پھینک دی جائے۔ پس اَعُوذ احراق قطع اور جلانے پر دلالت کرتا ہے۔ کاٹے جانے، ٹکڑے کرنے پر دلالت کرتا ہ اور اس کے بعد دوسری پیدائش ہوسکتی ہے۔ انسان کی روحانی پیدائش کے لئے بھی ضروری ہے کہ پہلے قطع۔احراق۔سوز۔ جلادینا۔ صیقل کرنا ہو۔ پھر نیکی کا بیج بڑھے اور ترقی کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسی کوئی بیماری ہو ویسا ہی علاج کیا جائے۔ اور روکوں کو قطع کیا جائے۔ اگر رسوم کی روک حائل ہو تو اس کو دور کیا جائے۔ اگر عادت کی روک ہو تو اسے ہٹایا جائے۔ اگر لوگوں کےڈراور خوف کی روک ہوتو اسے صاف کیا جائے۔ اگر اپنی غلطی اور کوتاہی کی روک ہو تو استغفار پڑھا جائے۔ تب جا کر فائدہ ہوگا۔ ورنہ اگر روکوں کو دور نہ کیا جائے اور یوں کوئی عبادت کرے تو ممکن ہے اسے کچھ فائدہ حاصل ہوجائے مگر یہ استثنا کی صورت ہوگی طبعی فائدہ نہ ہوگا۔پس جس قسم کی کوئی مرض ہو پہلے اسے دور کرنا چاہیے پھرفائدہ کی امید رکھنی چاہیے۔ دیکھو جسمانی بیماریوں میں اگر بخار ہو تو اور دوائی دی جاتی ہے۔ کھانسی ہو تو اور۔ غرض ہر بیماری کی علیحدہ علیحدہ دوا ہوتی ہے۔ مگر روحانی معاملات میں لوگ ایک ہی علاج کرتے چلے جاتے ہیں۔ جسمانی سلسلے روحانی سلسلوں کے مماثل ہوتے ہیں۔ جس طرح تمام جسمانی بیماریاں ایک ہی دو ا سے دور نہیں ہوسکتیں اسی طرح روحانی بیماریوں کا ایک ہی علاج فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ نادانی ہے کہ ہر بیماری کا علاج ایک ہی کیا جائے۔ ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس پر غور کرے اور پھر جو بیماری ہو اس کا وہ علاج کرے جس سے وہ دُور ہوسکتی ہے۔جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریوں کا بھی علاج علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ہاں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جسمانی بیماری دوسرے کو بتائی جاتی اور اس سے علاج کرایا جاتا ہے۔ مگر روحانی بیماری دوسرے کو بتانی ضروری نہیں بلکہ بعض حالتوں میں تو اس کا بتانا منع ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کئی لوگ آتے اور آکر اپنی کمزوریاں بیان کرنے لگتے۔ تو آپؑ منع فرما دیتے۔ یہی طریق ہمارا ہے اگر کوئی بیان کرے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر علاج بتایا جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خاص علاقہ پیدا کرے اور اپنی اصلاح کے لئے کمزوری بتا کر اس کے دور کرنے کا طریق پوچھنا چاہے تو یہ اور بات ہے۔

غرض پہلے اعوذ پڑھنی چاہیے اور پھر بسم اللہ۔ کیونکہ جب بیماری دور ہوجائے گی تب ترقی ہوگی۔ پہلے کھیت کو صاف کیا جائے گا تب جو بیج ڈالا جائے گا وہ پیدا ہوگا۔ جس دل میں بدی کا درخت اگا ہوگا اس میں روحانیت ترقی نہیں کرسکتی۔اور اگر روحانیت کا بیج اگا ہوگا تو جلد مرجھا جائے گا۔ اب دیکھو اعوذ اور بسم اللہ کی ترتیب میں کتنا اعلیٰ فلسفہ ہے۔ کہ پہلے صفائی کی جائے تب ترقی ہوگی۔ اگر مسلمان اس بات کو سمجھ لیں تو سینکڑوں جنہیں روحانی ترقی سے محروم رہنا پڑتا ہے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

(الفضل ۷؍ جنوری ۱۹۲۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button