اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (نومبر۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
کوٹلی میں احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کو شہید کر دیا گیا
کوٹلی آزاد جموں کشمیر۔۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء: کچھ عرصہ قبل احمدیہ مسجد کے میناروں، محراب اور مسجد میں لکھی قرآنی آیات کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔انتظامیہ نے احمدی وفد کو بلایا اور مخالفین کا مطالبہ سامنے رکھا۔اس پر احمدی احباب نے کہا کہ بہت ساری احمدی مساجد بدنام زمانہ آرڈیننس XX سے پہلے بنی ہیں اور احمدی کبھی خود سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے۔اس کے بعد مخالفین بھی انتظامیہ سے ملے اور مزید دباؤ ڈالتے رہے۔
دولیاں جٹاں میں بھی مخالفین نے احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔ لیکن ۲۴؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو پچاس کے قریب شرپسندوں نے مسجد پر حملہ کر دیا۔اور مسجد کے مینارے اور محراب مسمار کر دیے۔اس وقت کوئی بھی احمدی موقع پر موجود نہیں تھا۔ اور احمدیوں کے آنے سے قبل ہی تمام شرپسند وہاں سے فرار ہو گئے۔یہ مسجد ۱۹۵۴ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس سے قبل ۱۹۹۴ء میں بھی شرپسندوں نے اس پر حملہ کر کے اس کو نقصان پہنچایا تھا۔
احمدی استاد کو زبردستی ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا
نِدھیری۔کوٹلی۔ آزاد جموں کشمیر۔نومبر۲۰۲۳ء: ایک احمدی استاد کا تبادلہ دوسال قبل برموچ گوئی کوٹلی میں لڑکوں کے پرائمری سکول میں ہوا۔ وہ گذشتہ ۳۳؍ سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ تحریک لبیک سے منسلک ایک استاد ان کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کرتا رہتا تھا۔ مقامی سطح پر سیاسی لحاظ سے وہ استاد کافی اثر ورسوخ رکھتا ہے اور سکول میں اپنی من مانی کرتا اور بنا بتائے سکول سے غیر حاضر رہتاہے۔ جب بطور ہیڈ ماسٹر ان احمدی استاد نے اس کواس کام سے روکا تو اس نے موصوف کو نوکری سے نکلوانے کی دھمکی دی۔
۳۰؍ ستمبر کو اس استاد نے ایک شدت پسند مولوی سے رابطہ کیا اور تحریک لبیک کے شر پسندوں کو جمع کرکے کہا کہ گاؤں میں ایک قادیانی استاد ہے جو بچوں کو تبلیغ کر رہا ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ ضلعی تعلیم کے افسران کو ملے اور شکایت کی اور ان احمدی استاد کو نوکری سے برخاست کرنے کا مطالبہ کیا۔ ضلعی افسر نے ۱۰؍ اکتوبر کو ایک ٹیم متعلقہ سکول میں روانہ کی اور تحقیقات کرنے کو کہا۔ اس موقع پر تحریک لبیک کے شرپسند وہاں جمع ہو گئے اور ہنگامہ آرائی شروع کردی اور احمدی استاد کو نوکری سے نکالنے کا مطالبہ دہرایا۔ اس پر اس ٹیم نے ان شر پسندوں کے ساتھ ایک تصویر بنائی اور سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایک قادیانی استاد کو نوکری سے نکال دیا گیا۔اس کے بعد موصوف کو اسسٹنٹ ایجوکیشن کے دفتر میں تعینات کر دیا گیا لیکن حالات کی نزاکت کے پیش نظر انہوں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی۔
احمدی عہدیدار کے خلاف دائر ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار ایک احمدی ضمانت لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مسترد
لاہور۔۲۷؍نومبر۲۰۲۳ء: ۶؍دسمبر ۲۰۲۳ء کو چناب نگر(ربوہ) کے پولیس سٹیشن میں اعلیٰ احمدی قیادت کے خلاف توہین اور قرآن کی تحریف کی دفعات کے تحت تحریف شدہ قرآن کی کاپیاں تقسیم کرنے کا ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔مقدمہ میں نامزد ایک احمدی کو ربوہ میں ۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان کا مقدمہ لالیاں میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں زیرسماعت تھا۔۱۰؍جون ۲۰۲۳ء کو انہوں نے حافظ مبارک ثانی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی لیکن علی ضیا باجوہ نے سماعت سے معذرت کر کے مقدمہ چیف جسٹس کی طرف ارسال کر دیا۔ لیکن ۲۷؍ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ مبارک ثانی گذشتہ نو ماہ سے فیصل آباد میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
احمدی استاد کی تحقیقات
میرپور خاص۔سندھ: ایک احمدی استاد کی تقرری میرپور خاص کےایک گاؤں جھوڈو کے سکول میں ہوئی۔ وہاں کے ایک غیر معروف صحافی نے وہاں کے طلبہ کو سکول سے باہر دیکھا اور ان سے پوچھا کہ وہ سکول سے غیر حاضر کیوں ہیں؟اس پر انہوں نے سراسر جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ سکول میں ایک قادیانی استاد ہے اور وہ ہمیں نماز ادا کرنے نہیں دیتا۔ بعد ازاں وہ صحافی موصوف سے ملا اور ان سے مذہبی شناخت کے حوالے سے کچھ گفتگو کی اور ان کو بتائے بغیر سار ی گفتگو ریکارڈ کر کے انٹر نیٹ پر ڈال دی۔اس گفتگو کو سن کے وہاں کے مولویوں نے سخت احتجاج کیا جس کے باعث محکمہ تعلیم نے ان کا تبادلہ میرپور خاص میں کر دیا۔
راولپنڈی میں احمدی دکاندار کو ہراسانی کا سامنا
پلندری۔کہوٹہ۔ضلع روالپنڈی۔نومبر۲۰۲۳ء: مقامی مدرسے کے انجم نامی استاد نے مقامی غیر احمدی آبادی اور مدرسے کے طلبہ کو احمدیوں کے خلاف انگیخت کیا جس کے نتیجے میں مدرسے کے ایک طالبعلم نے احمدی دکاندار کی دکان پر جا کے قادیانی کافر اور تاجدار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔اس بات کی اطلاع پولیس کو کی گئی۔ راولپنڈی کے ایس پی نے ان کے والد کو بات چیت کے لیے بلایا۔اور ساتھ ہی مخالفین کو بھی دعوت دی۔چنانچہ گفت و شنید کے بعد امن قائم ہو گیا۔لیکن اندرون خانہ ابھی بھی احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا جاری ہے۔اور احمدیوں کے کاروبار بند کرنے اور ان کو اس علاقے سے نکالنے کی کوشش جاری ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے ایک بے بنیاد اپیل کو خارج کردیا
پشاور۔۱۴؍نومبر۲۰۲۳ء: ۱۰؍ستمبر کو پھانڈو ضلع پشاور کے پولیس سٹیشن میں ایک احمدی کے خلاف توہین رسالت کی دفعات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اور ان کو ۱۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔مقدمہ درج ہونے سے قبل مشتعل ہجوم نے ان کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی۔ پولیس نے موقع پر ان کی جان بچائی اور عارضی طور پر یہ سب لوگ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ مخالفین کے دباؤ میں آ کے پولیس نے ان پر مقدمہ بھی درج کر دیا۔
پشاور سیشن کورٹ میں یہ مقدمہ چلتا رہا۔ایڈیشنل سیشن جج طاہر اورنگزیب نے دفعات میں کچھ تبدیلی کر کے ان کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔قید کے دوران مختلف تہواروں اور دیگر رعایتوں کے باعث انہوں نے اپنی سزا دو سال سات ماہ اور بیس دن میں پوری کر لی۔ جب وہ رہا ہو کر واپس آئے تو مخالفین نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ ان پر توہین کی اُن دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جائے جن کی سزا موت ہے۔ اس پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مخالفین کی اپیل خارج کر دی اور سیشن کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی۔
ربوہ میں احمدیت مخالف کانفرنس
مسلم کالونی۔ربوہ۔۱۱؍اکتوبر۲۰۲۳ء: مسلم کالونی میں ایک اَور اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت مولوی شبیر عثمانی نے کی۔ جو ساڑھے بارہ بجے سے لے کر ساڑھے تین بجے تک جاری رہی۔ اس میں پنجاب بھر سے مختلف مخالفینِ احمدیت مولویوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں ۱۷۵؍ کے قریب غیر احمدیوں نے شرکت کی۔ان مولویوں نے کھلے عام احمدیت مخالف تقاریر کیں اور جماعت کے لیے ہتک آمیز رویہ اپنایا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احمدی (نعوذباللہ)جھوٹے ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔علماء نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کو باہر بھاگنے پر مجبور کر دیا اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ۔ اب یہ لوگ ایک اقلیت ہیں۔یورپی یونین اور امریکہ کے ذریعے یہ لوگ پاکستانی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ یہ قوانین تبدیل کیے جائیں لیکن کسی پاکستانی حکومت میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ ان قوانین کو تبدیل کرسکے۔
کوٹلی میں احمدیت مخالف کانفرنس
کوٹلی آزاد جموں کشمیر۔۳؍نومبر ۲۰۲۳ء: ختم نبوت اور تحریک لبیک کے شرپسندوں نے مل کر کوٹلی کے پرانے بازار میں میلاد چوک میں اکٹھ کیا۔انہوں نے انتہائی بیہودہ زبان استعمال کی اور جھوٹ کو بنیاد بنا کر انتہائی غلیظ انداز میں کہا کہ پلید،ناپاک،بے دین اور خالص ایمان والے برابر نہیں ہو سکتے۔قادیانیوں کا ایمان ناپاک ہے اور ہمارے پاس ایمان کی مٹھاس ہے۔ان کا ہر کام پیسوں کی خاطر ہے اور وہ انتظامیہ کوبھی خرید لیتے ہیں۔ہمارے ملک کاقانون کہتاہے کہ وہ مسجد کی طرز پر منارے نہیں بنا سکتے لیکن ہماری انتظامیہ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ کام کر رہا ہے۔ یہ اکٹھ دو احمدی احباب کے گھر کے قریب کیا گیا جن پر پہلے ہی ایک مقدمہ چل رہا ہے۔اس سے قبل ایسا کوئی اکٹھ یہاں نہیں ہوا۔
جنوری ۲۰۲۳ء سے نومبر ۲۰۲۳ءتک احمدیوں کی مخالفت سے متعلق بعض تشویش ناک حقائق
٭۔۶؍احمدیوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر شہید کر دیا گیا۔ اور بدنام زمانہ آرڈیننس xxسے لے کر اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد ۲۷۶ ہو چکی ہے
٭۔۱۹؍احمدی احباب پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں
٭۔توہین اور امتناع احمدیت قوانین کے تحت ۵۷ مقدمات درج کیے جاچکے ہیں
٭۔۲۱؍احمدیوں کو مختلف مذہبی نوعیت کے مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے
٭۔۳۵؍احمدیہ مساجد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔گذشتہ سال یہ تعداد ۱۴تھی۔جبکہ ۲۰۲۱ء میں بھی ۱۴تھی اور ۲۰۲۰ء میں ۷ ہے
٭۔قربانی کرنےکے جرم میں ۲۶ مقدمات درج کیے گئے جن میں سے ۷ میں گرفتاریاں عمل میں آئیں
٭۔جیل میں دواحمدی احباب وفات پا گئے جن کو صرف ان کے عقیدے کی بنا پر گرفتار کیا گیاتھا
٭۔اب تک ۴۲۵؍احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی جن میں سے ۱۹۷؍کوگذشتہ سال اور ۱۰۰ کے قریب کو ۲۰۲۳ء میں نشانہ بنایا گیا
٭۔نومبر میں ایک احمدی خاتون کی تدفین روک دی گئی اور قبر کو مٹی بھر کے بند کر دیا گیا۔ کل تین افراد کی تدفین ۲۰۲۳ء میں روکی گئی
٭۔۲۲؍گھروں اور دکانوں سے مقدس الفاظ کو ہٹایا گیا
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)