متفرق مضامینیادِ رفتگاں

محترم مولانا میر غلام احمد نسیم صاحب مبلغ سلسلہ وفات پاگئے

جماعت احمدیہ کے دیرینہ اور مخلص خادم، انتھک محنت کرنے والے سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ محترم مولانا میر غلام احمد نسیم صاحب مبلغ سلسلہ وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون

احباب جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ۴۰سال تک خدمات سلسلہ بجا لانے والے، جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم، سابق مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ سیرالیون، گیانا، زیمبیا اور سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ، محترم مولانا میر غلام احمد نسیم صاحب مبلغ سلسلہ مورخہ ۶۔ اپریل ۲۰۲۴ء کو نیو جرسی امریکہ میں بعمر ۹۳سال انتقال کرگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون

آپ کی نماز جنازہ اگلے دن مورخہ ۷۔ اپریل کو بعد نماز مغرب بیت الہادی نیو جرسی میں مکرم عمر نیر صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ محترم مولانا مرحوم کی تدفین مورخہ   ۸۔ اپریل کو دن ساڑھے گیارہ بجے قطعہ موصیان احمدیہ قبرستان، فاریسٹ گرین Morganville نیو جرسی امریکہ میں ہوئی۔

محترم میر غلام احمد نسیم صاحب ۱۵۔ اگست۱۹۳۱ء کو دھوڑیاں بھاٹہ علاقہ پونچھ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام میر صلاح محمدصاحب تھا جنہوں نے کسوف خسوف کا نشان دیکھ کر مہدی کی تلاش شروع کی اور اس میں کئی سال گزر گئے۔ پھر ۱۹۰۱ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ دُور دراز کا علاقہ ہونے کی وجہ سے قادیان زیارت کے لیے نہیں پہنچ سکے۔ میر صلاح محمد صاحب خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ قبول احمدیت کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اپنے گاؤں میں یہ اکیلا احمدی گھرانہ تھا۔ ان کے نزدیک ترین جماعت چار کوٹ چند میل کے فاصلہ پر تھی۔ میر صلاح محمد صاحب نے قیام پاکستان کے بعدہجرت کی اور مورخہ ۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو مہاجر کیمپ چک جمال ضلع جہلم میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا یادگیری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔

محترم میر غلام احمد نسیم صاحب نے پرائمری اپنے گاؤں سے پاس کی اور جماعت احمدیہ چار کوٹ کے احمدیہ سکول میں داخلہ لے لیا۔ آپ آٹھویں جماعت میں تھے کہ تقسیم برصغیر ہوگئی اور یہ علاقہ میدانِ جنگ بن گیا۔، سکول بند ہوگیا۔ چنانچہ آپ نے دوران تعلیم وقف زندگی کی درخواست کا خط لکھااور منظوری آگئی جواب میں کہا گیا کہ پڑھائی جاری رکھیں ۱۹۴۸ء میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کے لیے انٹرویو دینے لاہور آگئے اور پاس ہوگئے۔بعدہ مدرسہ احمدیہ، احمد نگر میں تعلیم شروع کی۔ ۱۹۵۳ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی منظوری سے ستمبر ۱۹۵۴ء میں جامعۃ المبشرین داخل کیا گیا۔  جون ۱۹۵۷ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد مبارک کے تحت آپ کو تبویب یعنی مسند احمد بن حنبل کو ابواب میں تقسیم کرنے کے کام پر مقرر کیاگیا۔ آپ کا باقاعدہ تقرر ۶۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء میں کیا گیا۔ جس کے بعد آپ کو شعبہ تبویب مسند احمد بن حنبل، وکالت مال ثانی، وکالت دیوان، وکالت مال اول، وکالت تبشیر، دفتر امانت تحریک جدید، جامعہ احمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ آ مورخہ ۱۵۔ اگست ۱۹۹۱ء کو بعمر ساٹھ سال ریٹائر ہوئے۔ آپ کو بعد از ریٹائر منٹ ۱۶۔ اگست ۱۹۹۱ء تا ۳۰ جون ۱۹۹۷ء بطور ری ایمپلائمنٹ خدمت سلسلہ کی توفیق ملی۔

آپ کی شادی مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۵۸ء کو مکرمہ امۃ المنان قمر صاحبہ ( سابق ہیڈ مسٹریس فضل عمر گرلز سکول ربوہ )بنت محتر م مولوی چراغ دین صاحب کے ساتھ طے پائی۔ آپ کے سُسر اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ انہوں نے خلافت اولیٰ میں بیعت کی سعاد ت پائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تحریک پران کی شادی سیکھواں خاندان میں حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی کی بیٹی حضرت سارہ بیگم صاحبہ ؓ سے ہوئی۔

 ۱۹۵۷ء میں میر غلام نسیم صاحب میدان عمل میں آگئے۔ ۱۹۶۰ ء میں سیرالیون پہنچے۔ یہاں تین سال مبلغ سلسلہ کے ساتھ احمدیہ سکول بو (BO) کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ ۱۹۶۳ء میں پاکستان واپس آنے پر آپ کا جامعہ احمدیہ میں تقرر ہوا، یہاں لائبریری میں مہتمم کے فرائض سر انجام دیئے۔ نیز اس دوران کوئی استاد رخصت پر ہوتا تو اس کی کلاس میں بھی پڑھاتے۔ اسی عرصہ میں آپ نے ایم اے عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کرلیا اور ایم اے،ایم او ایل کی ڈگری مل گئی۔

۱۹۶۶ء میں گیانا تقرر ی ہوئی اور یہاں آپ نے سواچار سال خدمات سرانجام دیں۔ ۱۹۷۰ء میں آپ واپس مرکز تشریف لائے اور ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء آپ جامعہ احمدیہ میں بطور استاد برائے غیر ملکی طلبہ مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۹ء آپ نے زیمبیا، جنوبی افریقہ میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں۔ جنوری ۱۹۸۰ء تا جون ۱۹۹۷ء آپ جامعہ احمدیہ میں تاریخ و تصوف کےپروفیسر کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔

آپ نے بیرون پاکستان یعنی سیرالیون، گیانا اور زیمبیا افریقہ میں گیارہ سال تک خدمات کی توفیق پائی۔ یہ عرصہ آپ اپنی فیملی کے بغیر بیرون ممالک میں رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب مستورات برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۲ء میں قربانی کرنے والی احمدی خواتین میں آپ کی اہلیہ مسز امۃ المنان قمر صاحبہ کا ذکر فرمایا کہ یہ گیارہ سال شوہر کے بغیر رہی ہیں۔

۲۵ مئی ۱۹۶۶ء کو آپ کی جب گیانا کے لیے ربوہ سے روانگی ہوئی تو آپ کی بیٹی چھ سال اور بیٹا ایک سال نو ماہ کا تھا۔ ان چھوٹے بچوں کو لمبے عرصہ تک اپنے والد سے جدا رہنا پڑا اور اس کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جو ایسے حالات سے گزرا ہو۔ جب آپ چار سال بعد ۱۹۷۹ء میں زیمبیا سے واپس تشریف لائے تو اپنے بچوں سے ملاقات کی روئداد اس طرح بیان فرماتے ہیں۔ ”جب میں ربوہ پہنچا تو لگا جیسے سب کچھ بدل چکا ہے۔ گھر سے چار سال قبل روانگی کے وقت جو بچہ پانچ سال کا تھا وہ اب نو سال کا ہوچکا ہے، جو نو سال کا تھا وہ تیرہ سال کا ہوگیا ہے اور مسّے پھوٹ رہے رہیں۔پہچاننا ہی مشکل ہے۔ یا الہیٰ ! یہ کیا ؟ یہ بچے ویسے ہی معصوم اور چھوٹے کیوں نہیں ہیں؟ جیسے چار سال قبل تھے۔ میرے ذہن میں تو پرانی شبیہیں ہی گھوم رہی تھیں۔ لیکن وقت کو کون روک سکتا ہے؟ آپ مرکز سلسلہ میں ۱۹۸۷ء تا ۱۹۹۶ء دس سال تک قاضی سلسلہ رہے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے بےشمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ بطور مبلغ سلسلہ جہاں بھی رہے خوب محنت، لگن اور محبت سے خدمات انجام دیں۔ احباب جماعت کے ساتھ پیار کا سلوک اور ان کے کام آنا آپ کے نمایاں اوصاف میں شامل تھا۔ اسی لیے آپ تمام جگہ ہردلعزیز سمجھے جاتے تھے۔پنجوقتہ نماز باجماعت کے سختی سے پابندی کرنے والے تھے۔ خلافت کے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ آپ شروع سے ہی علمی مزاج کے مالک تھے اسی لحاظ سے آپ وسیع المطالعہ بھی تھے۔ آپ کے بیسیوں تحقیقی اور معلوماتی مضامین الفضل میں شائع شدہ ہیں۔ فیلڈ میں ہوں یا جامعہ احمدیہ میں، تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہوں، آپ صائب الرائے شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ جامعہ احمدیہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات بھی سپرد کئے جاتے رہے۔ایک عرصہ تک ناظم الامتحانات جامعہ احمدیہ بھی رہے۔ محنتی استاد تھے طلباء کومکمل تیاری کے ساتھ پڑھاتے تھے اور ان کے ساتھ اُنسیت کا تعلق رکھتے تھے۔ اپنے علمی مزاج کو آپ نے مضامین کے علاوہ کتب کے ذریعہ بھی آشکار کیا۔ آپ  مندر جہ ذیل تین علمی کتابوں کے مصنف تھے۔

1۔ قاموس الرؤیاء (خوابوں کی تعبیریں، حروف ابجد کے لحاظ سے)

2۔ تصوف۔ روحانی سائنس

3۔ یادِ ایام۔ خود نوشت سوانح

اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار لائق بچوں سے نوازا۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

٭ مکرمہ ڈاکٹر امۃ الشکور صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدا لحفیظ صاحب، امریکہ ( اس جوڑے کو نصرت جہاں سکیم کے تحت گیمبیا اور تنزانیہ میں گیارہ سال تک خدمات کی توفیق ملی)

٭مکرم ڈاکٹر میر شریف احمد صاحب، پلمرنالوجسٹ نیو جرسی امریکہ۔ سابق صدر جماعت سنٹرل جرسی

٭ مکرمہ ڈاکٹر مہ جبیں صاحبہ ریڈیالوجسٹ اہلیہ انجینئر طارق جاوید صاحب، لاہور

٭مکرم ڈاکٹر میر مقبول احمد صاحب، نیفرولوجسٹ، نیو جرسی امریکہ

اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص اور محنتی خادم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ ان کی اولاد کو ان کے اوصاف کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button