حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرتﷺ کی آواز پر لبّیک (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍اگست ۲۰۱۴ء)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ۔(الانفال:25)کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کی بات پر لبّیک کہو۔ جب وہ تمہیں بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو زندگی دینے کے لئے بھیجتا ہے۔ ان یعنی مومنوں کے بارے میں فرمایاکہ ان کی موت کو زندگی عطا کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ زندگی روحانی زندگی ہے نہ کہ ظاہری موت سے زندگی۔ یہاں ایک صداقت کا بھی اظہار ہے کہ مومن کو ہمیشہ نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کے سامان کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہماری زندگی کے سامان کئے اور ایک کامل اور مکمل شریعت قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی۔ اور اس پر عمل کرنے کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں نے محسوس کیا اور محسوس کرتے تھے۔ جو جتنا زیادہ آپؐ کے قریب تھا اتنا ہی زیادہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کا حسن نکھر کر واضح ہوتا تھا اور آپ کی بیویاں آپ کے اس حسن عمل کی سب سے زیادہ گواہ ہو سکتی تھیں اور تھیں۔ تبھی تو جب سوال کرنے والے نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن۔ آپ کا خُلق قرآن تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 144حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا حدیث نمبر 25108 عالم الکتب بیروت 1998ء)
جو کچھ اس میں یعنی قرآن کریم میں ہے اس کا عملی نمونہ آپؐ تھے۔
پس انبیاء کا وجود دنیا میں نمونہ ہوتا ہے۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کے وجود یا ان کے نمونے سے کسی کو ٹھوکر لگے۔ یہاں اس آیت میں اللہ اور رسول کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو اللہ کہتا ہے وہی اس کے رسول کہتے اور کرتے ہیں۔ پس اگر روحانی زندگی چاہتے ہو تو آنکھیں بند کر کے رسول کے پیچھے چل پڑو۔ اس کی اتباع کرو۔ اس کے حکموں پر عمل کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو یہ بھی فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے اور خدا کی محبت ہی وہ مقام ہے جس سے روحانی حیات ملتی ہے، روحانی زندگی ملتی ہے۔ پس حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبّیک کہنا ضروری ہے۔ اور جب تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی رنگ میں اس بات کو نہیں مانتا جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں اعلان کروائی کہ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)۔ پس میری اتباع کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اس وقت تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی متبع اور مومن نہیں کہلا سکتا۔ اور آپ کی اتباع کے لئے آپ کے نمونے کی لکھی ہوئی تفصیل جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں ناانصافی پر مجبور نہ کرے۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ بلا وجہ کسی کا خون نہ بہاؤ۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے مخلوق کے حقوق ادا کرو۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃٌ للعالَمین ہیں جو بلاتخصیص مذہب و ملّت ہر ایک کے لئے رحمت ہیں۔ رحمانیت اس بات کا ہی تقاضا کرتی ہے کہ وہ بلا تخصیص ہو۔
غرض کہ جیسے جیسے قرآن کریم کو پڑھتے جائیں اس میں ہر قسم کی رہنمائی اور ہدایت ملتی چلی جاتی ہے۔ پس قرآن کریم تو ہر اس شخص کے اعتراض کو ردّ کرتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کے غلط عمل دیکھ کر غیر مسلم یا معترضین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر کرتے ہیں کہ یہ زندگی ہے؟ تم کہتے ہو کہ رسول زندگی دینے والا ہے لیکن کیا یہ زندگی ہے جو دینے کے لئے تمہارا رسول اور تمہارا دین آیا ہے؟ انبیاء تو زندگیاں دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے تو عمل بھی مردہ ہیں اور عملاً بھی انسانی زندگی کے خاتمے میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ معصوموں بیواؤں کے قتل ہو رہے ہیں۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے، کئی دفعہ لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں تو مَیں یہی کہا کرتا ہوں کہ تمہارے اس اعتراض کا جواب تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول چودہ سو سال پہلے اسلام کے ابتدا میں ہی قرآن کریم میں سورۃ جمعہ کی ان آیات میں دے چکے ہیں کہ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔ وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(الجمعۃ: 3-4) کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔
پس یہ جہالت اور گمراہی جو اس وقت کے مسلمانوں کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہے وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی اور اس کے دُور کرنے کے لئے اور اصل زندگی بخش پیغام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اب یہ زندگی بخش پیغام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اس کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر جماعت احمدیہ مسلمہ یہ پیغام پہنچا رہی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ پہنچائے۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان حالات کے بارے میں، ان لوگوں کے بارے میں، ان علماء کے بارے میں جو آجکل یہ حرکتیں کر رہے ہیں واضح فرما دیا کہ یہ لوگ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں جو علماء بنے پھرتے ہیں۔ فتنوں کی اور فسادوں کی یہ لوگ آماجگاہ بن جائیں گے (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد سوم صفحہ 317 فصل قال وینبغی لطالب العلم…باب نشر العلم والا یمنعہ اھلہ… حدیث نمبر 1763)
اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہو گا جو زندگی بخشے گا۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں زندگی بخشنے آیا ہوں اور آپ کے ماننے والوں نے یہ زندگی پائی۔ پس یہ اعتراض کہ کیا یہ رسول ہے جو زندگی دینے والا ہے؟ یہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ نے اور اللہ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ حالات ہوں گے۔ یہ پیغام تو زندگی بخش ہے اور رہے گا۔ یہ رسول تو زندگی بخش ہے اور ہمیشہ تاقیامت رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے اس کی پیروی کرنے والے نہیں ہوں گے اور ایسے حالات میں پھر اللہ تعالیٰ آپ کی کامل اتباع اور پیروی میں مسیح موعود کو بھیجے گا۔