حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پورے ہونے والے چند الہامات کا تذکرہ
اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔آپؑ کےساتھ اللہ تعالیٰ نے مکا لمہ ومخاطبات کا سلسلہ جاری رکھا۔جن کو آپ نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا۔ اُن میں سےبےشمار الہامات ومخاطبات اپنے اپنے وقت پر پورے ہوئے۔ صرف چھ یہاں پیش کیے جارہے ہیں جو کہ پورے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےان کو حقیقۃ الوحی میں درج فرمایا:
’’تُو ایک درد ناک ران دیکھے گا‘‘
’’ ایک دفعہ میں اپنے اُس چوبارہ میں بیٹھا ہوا تھا جو چھوٹی مسجد سے ملحق ہے جس کا نام خدا تعالیٰ نے بیت الفکر رکھا ہے اور میرے پاس میرا ایک خدمتگار حامد علی نام پیر دبا رہا تھا۔ اتنے میں مجھے الہام ہوا تَرَى فَخْذًا اَلِيْمًا یعنی تو ایک درد ناک ران دیکھے گا۔ میں نے حامد علی کو کہا کہ اس وقت مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ اُس نے مجھے یہ جواب دیا کہ آپ کے ہاتھ پر ایک پھنسی ہے۔ شائد اسی کی طرف اشارہ ہو میں نے اُس کو کہا کہ کجا ہاتھ اور کجا ران یہ خیال بیہودہ اور غیر معقول ہے اور پھنسی تو درد بھی نہیں کرتی اور نیز الہام کے یہ معنی ہیں کہ تو دیکھے گا نہ کہ اب دیکھ رہا ہے۔ بعد اس کے ہم دونوں چوبارہ پر سے اُترے۔ تابڑی مسجد میں جا کر نماز پڑھیں اور نیچے اُتر کر میں نے دیکھا کہ دو شخص گھوڑے پر سوار میری طرف آرہے ہیں دونوں بغیر کاٹھی کے دو گھوڑوں پرسوار تھے اور دونوں کی عمر بیس برس سے کم تھی، وہ مجھے دیکھ کر وہیں ٹھیر گئے اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ میرا بھائی جو دوسرے گھوڑے پر سوار ہے درد ران سے سخت بیمار ہے اورسخت لا چار ہے۔ اس لئے ہم آئے ہیں کہ آپ ان کے لئے کوئی دوا تجویز کریں۔ تب میں نے حامد علی کو کہا کہ الحمد للہ کہ میرا الہام اس قدر جلد پورا ہوا کہ صرف اسی قدر دیر لگی کہ جس قدر زینہ پر سے اُترنے میں دیر لگی ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۴۴)
’’خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رسوا نہیں کیا کرتا‘‘
’’ ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کا میرا بے حس ہو گیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی اور چونکہ میں نے یونانی طبابت کی کتا ہیں سبقاً سبقاً پڑھی تھیں، اس لئے مجھے خیال گذرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں ساتھ ہی سخت درد تھی۔ دل میں گھبراہٹ تھی کروٹ بدلنا مشکل تھا۔ رات کو جب میں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت اعداء کا خیال آیا، مگر محض دین کے لئے نہ کسی اَور امر کے لئے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ موت تو ایک امر ضروری ہے۔ مگر تو جانتا ہے کہ ایسی موت اور بے وقت موت میں شماتت اعداء ہے۔ تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا: اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا يخْزِى الْمُؤمِنِیْن۔ یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رسوا نہیں کیا کرتا۔ پس اُسی خدائے کریم کی مجھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے۔ کہ میں اُس پر افترا کرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آ گئی اور پھر ایک دفعہ جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا۔ تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور میں اُٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ میں بالکل تندرست ہوں۔ تب مجھے اپنے قادر خدا کی قدرت عظیم کو دیکھ کر رونا آیا کہ کیسا قادر ہمارا خدا ہے۔ اور ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ اُس کی کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور اس کے رسول کی پیروی کی اور کیا بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس ذو العجائب خدا پر ایمان نہیں لائے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۵تا۲۴۶)
’’جب تُو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے‘‘
’’ ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایک دم قرار نہ تھا۔ کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان۔ اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بیتابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی تھی۔ میں نے بے تابی کی حالت میں اُس چارپائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آ گئی۔ جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا: اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِِیْ یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے۔فالحمد للہ علی ذالک۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۶تا۲۴۷)
’’جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا‘‘
’’خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھےیہ الہام ہوا تھا۔ اَلْحَمْدُللِّٰهِ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّصهْرَ وَالنَّسَبَ۔یعنی اس خدا کو تعریف ہے جس نے تمہیں دامادی اور نسب دونوں طرف سے عزت دی، یعنی تمہاری نسب کو بھی شریف بنایا اور تمہاری بیوی بھی سادات میں سے آئے گی۔ یہ الہام شادی کے لئے ایک پیشگوئی تھی جس سے مجھے یہ فکر پیدا ہوا کہ شادی کے اخراجات کو کیوں کر میں انجام دوں گا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں اور نیز کیونکر میں ہمیشہ کے لئے اس بوجھ کا متحمل ہو سکوں گا۔ تو میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ
ہر چه باید نو عروسی را ہمه سامان کنم
و آنچه در کار شما باشد عطائے آن کنم
یعنی جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا شادی کے لئے جو کسی قدر مجھے روپیہ درکار تھا اُن ضروری اخراجات کے لئے منشی عبد الحق صاحب اکاؤنٹنٹ لاہور نے پانچ سو روپیہ مجھے قرضہ دیا اور ایک اور صاحب حکیم محمد شریف نام ساکن کلانور نے جو امرتسر میں طبابت کرتے تھے دوسور وپیہ یا تین سو روپیہ مجھے بطور قرضہ دیا۔ اُس وقت منشی عبدالحق صاحب اکاؤنٹنٹ نے مجھے کہا کہ ہندوستان میں شادی کرنا ایسا ہے جیسا کہ ہاتھی کو اپنے دروازہ پر باندھنا۔ میں نے اُن کو جواب دیا کہ ان اخراجات کا خدا نے خود وعدہ فرما دیا ہے۔ پھر شادی کرنے کے بعد سلسلہ فتوحات کا شروع ہو گیا اور یا وہ زمانہ تھا کہ بباعث تفرقہ وجوہ معاش پانچ سات آدمی کا خرچ بھی میرے پر ایک بوجھ تھا اور یا اب وہ وقت آگیا کہ بحساب اوسط تین سو آدمی ہر روز مع عیال و اطفال اور ساتھ اس کے کئی غربااوردرویش اس لنگرخانہ میں روٹی کھاتےہیں۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۴۷تا۲۴۸)
’’اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ حرج بھی‘‘
’’ایک دفعہ مجھے لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا اور میرے ساتھ وہی شیخ حامد علی اور دوسرا شخص فتح خان نام ساکن ایک گا نؤ متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا اور تیسرا شخص عبدالرحیم نام ساکن انبالہ چھاؤنی تھا اور بعض اور بھی تھے جو یاد نہیں رہے۔ جس صبح ہم نے ریل پر سوار ہونا تھا مجھے الہام کے ذریعہ سے بتایا گیا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ حرج بھی۔ میں نے اپنے ان تمام ہمراہیوں کو کہا کہ نماز پڑھ کر دعا کر لو کیونکہ مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ چنانچہ سب نے دعا کی اور پھر ہم ریل پر سوار ہو کر ہر ایک طور کی عافیت سے پٹیالہ میں پہنچ گئے…لیکن جب واپس آنے کا ارادہ ہوا تو وہی وزیر صاحب مع اپنے بھائی سید محمد حسین صاحب کے جو شاید ان دنوں میں ممبر کونسل ہیں مجھے ریل پر سوار کرنے کے لئے اسٹیشن پر میرے ہمراہ گئے اور اُن کے ساتھ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم جھجر والے بھی تھے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کے چلنے میں کچھ دی تھی میں نے ارادہ کیا کہ عصر کی نماز یہیں پڑھ لوں، اس لئے میں نے چوغہ اتار کر وضو کرنا چاہا اور چوغہ وزیر صاحب کے ایک ملازم کو پکڑا دیا اور پھر چوغہ پہن کر نماز پڑھ لی اور اس چوغہ میں زاد راہ کے طور پر کچھ روپیہ تھے اور اسی میں ریل کا کرایہ بھی دینا تھا جب ٹکٹ لینے کا وقت آیا تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ تا ٹکٹ کے لئے روپیہ دوں تو معلوم ہوا کہ وہ رومال جس میں روپیہ تھا گم ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ چوغہ اُتارنے کے وقت کہیں گر پڑا، مگر مجھے بجائے غم کے خوشی ہوئی کہ ایک حصہ پیشگوئی کا پورا ہو گیا۔ پھر ہم ٹکٹ کا انتظام کر کے ریل پر سوار ہو گئے جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو شاید اُس وقت دس بجے رات کا وقت تھا اور وہاں صرف پانچ منٹ کے لئے ریل ٹھیرتی تھی میرے ایک ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لودہا نہ آگیا ؟ اُس نے شرارت سے یا کسی اپنی خود غرضی سے جواب دیا کہ ہاں آگیا، تب ہم مع اپنے تمام اسباب کے جلد جلد اُتر آئے۔ اتنے میں ریل روانہ ہوگئی۔ اُترنے کے ساتھ ہی ایک ویرانہ سا اسٹیشن دیکھ کر پتہ لگ گیا کہ ہمیں دھو کہ دیا گیا وہ ایسا ویرانہ اسٹیشن تھا کہ بیٹھنے کے لئے چارپائی بھی نہیں ملتی تھی اور نہ روٹی کا سامان ہو سکتا تھا۔ مگر اس امر کے خیال سے کہ اس حرجہ کے پیش آنے سے دوسرا حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو گیا اس قدر مجھے خوشی ہوئی کہ گویا اس مقام میں کسی نے ہمیں بھاری دعوت دی اور گویا ہر ایک قسم کا خوش مزہ کھانا ہمیں مل گیا۔ بعد اس کے اسٹیشن ماسٹر اپنے کمرہ سے نکلا۔ اُس نے افسوس کیا کہ کسی نے ناحق شرارت سے آپ کو حرج پہنچایا اور کہا کہ آدھی رات کو ایک مال گاڑی آئے گی اگر گنجائش ہوئی تو میں اس میں بٹھا دوں گا۔ تب اُس نے اس امر کے دریافت کے لئے تار دی اور جواب آیا گنجائش ہے تب ہم آدھی رات کو سوار ہو کر لودہانہ میں پہنچ گئے گویا یہ سفر اسی پیشگوئی کے لئے تھا۔‘‘ (حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۵۶تا۲۵۷)
’’جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ
[امور معاش] کھل جائیں گے‘‘
’’ایک دفعہ نواب علی محمد خان مرحوم رئیس لدھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے۔ میں نے بذریعہ خط اُن کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے اور اُن کو بشدت اعتقاد ہو گیا۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا اور جس گھڑی اُنہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے۔ تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ خط آگیا اور جب میرا خط ان کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور اُن کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے جب میں پٹیالہ میں گیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔ جب وزیر سید محمد حسن صاحب کی ملاقات ہوئی تو اتفاقاً سلسلہ گفتگو میں وزیر صاحب اور نواب صاحب کا میرے خوارق اور نشانوں کے بارہ میں کچھ تذکرہ ہوا تب نواب صاحب مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتاب اپنی جیب میں سے نکال کر وزیر صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میرے ایمان اور ارادت کا باعث تو یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں اور جب کچھ مدت کے بعد اُن کی موت سے ایک دن پہلے میں اُن کی عیادت کے لئے لدھیانہ میں اُن کے مکان پر گیا تو وہ بواسیر کے مرض سے بہت کمزور ہو رہے تھے اور بہت خون آرہا تھا اس حالت میں وہ اُٹھ بیٹھے اور اپنے اندر کے کمرہ میں چلے گئے اور وہی چھوٹی کتاب لے آئے اور کہا کہ یہ میں نے بطور حرزِ جان رکھی ہے اور اس کے دیکھنے سے میں تسلی پاتا ہوں اور وہ مقام دکھلائے جہاں دونوں پیشگوئیاں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر جب قریب نصف کے یا زیادہ رات گذری تو وہ فوت ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ میں یقین رکھتا ہوں کہ اب تک اُن کے کتب خانہ میں وہ کتاب ہوگی۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۵۷تا۲۵۸)