حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

لیلۃ القدر (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍جولائی۲۰۱۴ء)

رمضان کا آخری عشرہ بھی بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس عشرے میں دو چیزوں کی طرف مسلمان زیادہ توجہ رکھتے ہیں یا انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں ان میں سے ایک تو لیلۃ القدر ہے اور دوسری چیز جمعۃ الوداع۔ ان میں سے ایک یعنی لیلۃ القدر تو ایک حقیقی اہمیت رکھنے والی چیز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ احادیث میں اس کا مختلف روایتوں میں ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے لیکن جمعۃ الوداع کو تو خود ہی مسلمانوں نے یا علماء کی اپنی خود ساختہ تشریح نے غلط رنگ دے دیا ہے۔ آج میں ان ہی دو باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا یا ان کی اہمیت اور حقیقت کے بارے میں مختصر ذکر کروں گا۔ آج بھی میں نے کچھ استفادہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے کیا ہے۔

لیلۃ القدر کے بارے میں مختلف راویوں نے مختلف تاریخیں بتائی ہیں۔ کسی نے اکیس رمضان بتائی۔ کسی نے تیئس سے انتیس تک کی تاریخیں بتائیں۔ بعض اسی بات پر پکّے ہیں کہ ستائیس یا انتیس لیلۃ القدر ہے۔ لیکن بہر حال عموماً اس بارے میں یہی روایت ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ آخری دس دنوں میں، دس راتوں میں تلاش کرو۔

بہرحال لیلۃ القدر ایک ایسی رات ہے جس کی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاص رات کی معین تاریخ کا بھی علم دیا گیا جس میں ایک حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا خاص نظارہ دکھایا جاتا ہے اور دعائیں بالعموم سنی جاتی ہیں۔ لیکن روایات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دو مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ معین تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول گئی۔ اس ساعت کا علم ہونا، اس گھڑی کا علم ہونا کوئی معمولی چیز نہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قدرتی طور پر ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا جو علم خداتعالیٰ نے مجھے دیا ہے تو میں مومنین کی جماعت کو بھی بتاؤں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا تو آپ خوشی خوشی گھر سے باہر آئے تاکہ لوگوں کو بھی اس کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر جب باہر تشریف لائے تو دیکھا دو مسلمان لڑ رہے ہیں۔ آپ ان کی لڑائی اور اختلاف مٹانے میں مصروف ہوئے تو اس کی تاریخ کی طرف سے آپؐ کی توجہ ہٹ گئی۔ لگتا ہے کافی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں اشخاص کی صلح کرانے میں لگا یا معاملے کو سلجھانے میں لگا۔ بہر حال جب آپ دوبارہ اس طرف متوجہ ہوئے کہ میں تو لیلۃ القدر کی تاریخ بتانے آیا تھا تو آپ اس وقت تک وہ معین تاریخ بھول چکے تھے بلکہ حدیث میں ’بھلا دیا گیا‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولے ہی نہیں تھے بلکہ الٰہی تصرف سے اس گھڑی کی یاد اٹھا لی گئی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جھگڑے کی وجہ سے یا اختلاف کی وجہ سے اس گھڑی کا علم اٹھا لیا گیا ہے اس لئے اب معین تو نہیں لیکن اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

اس سے ایک بڑا اہم نکتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتحاد و اتفاق سے تعلق رکھتی ہے۔ پس یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔ ہم حدیث سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر وہ دونوں مسلمان نہ لڑتے تو یہ معین تاریخیں ہمیں پتا چل جاتیں۔ لیکن اس اہم بات کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت سے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے وہ قومی اتفاق و اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد و اتفاق مٹ جائے اس سے لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔

آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحادنہیں رہا۔ رعایا رعایا سے لڑ رہی ہے۔ رعایا حکومت سے بھی لڑ رہی ہے اور حکومت رعایا پر ظلم کر رہی ہے۔ گویا نہ صرف اتفاق و اتحادنہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے۔ اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جارہا ہے۔ پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرأت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا اور وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے تو مسلمان ممالک کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ پھر اس طرح ظلم نہ ہوتے۔ جنگ کے بھی کوئی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے۔ لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج توپیں چلا کر ظلم کر رہی ہے۔ مسلمان ممالک سمجھتے ہیں (گزشتہ دنوں ترکی میں سوگ منایا گیا) کہ سوگ مناکر انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جاتا۔ بہر حال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو۔ اسی طرح مسلمان ممالک کے اپنے اندر بھی جو ایک دوسرے کے اوپر ظلم کئے جا رہے ہیں اور فساد بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے۔ اور کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خون سے جو ہاتھ رنگ رہے ہیں اس سے یہ لوگ بچیں۔ آپس میں بھی اتفاق و اتحاد قائم ہو۔ اس کے بغیر نہ ان کی عبادتوں کے حق ادا ہو سکتے ہیں نہ یہ حسرت پوری ہو سکتی ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر ملے۔ کیونکہ جب قوم میں اتفاق و اتحاد مٹ جائے، ختم ہو جائے تو لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر صرف راتیں اور ظلمتیں ہی، اندھیرے ہی مقدر بنتے ہیں۔ ترقی رک جاتی ہے۔ لیلۃ القدر کے معنی ہیں کہ وہ رات جس میں انسان کی قسمت کا اندازہ کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال میں اس سے کیا معاملہ ہو گا۔ وہ کہاں تک بڑھے گا اور ترقی کرے گا۔ کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے اور کیا نقصان اٹھانے پڑیں گے۔ انسانی ترقی کے تمام فیصلے لَیْل یعنی ظلمت میں ہی ہوتے ہیں۔ اس ترقی کی مثال جسمانی ترقی سے جوڑتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی متواتر ظلمتوں میں ہوتی ہے۔ ماں کا پیٹ بھی کئی ظلمتوں کا مجموعہ ہے اور وہیں انسان کی جسمانی ترقی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر ان دنوں میں پرورش اچھی طرح نہ ہو تو بچہ کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ تو ثابت شدہ ہے کہ ماں کے ظاہری ماحول کا بچے پر اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کی خوراک وغیرہ کا بچے پر اثر ہوتا ہے۔ بچے کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوگی اگر ماحول اچھا نہیں۔ یہاں تک کہ خوفزدہ ماؤں کے بچے دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے بلکہ بعض دفعہ بیرونی خوف کی وجہ سے دماغی طور پر بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ دورانِ حمل اچھی خوراک اور اچھے ماحول کا بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دورانِ حمل عورت کا روزہ رکھنا جو ہے وہ ناپسند کیا گیا ہے، اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بچے کی پرورش میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسے مواقع پر طلاق کو بھی ناپسند کیا ہے کیونکہ اس سے جو صدمہ ہوتا ہے اس سے بھی بچے کی پرورش میں کمزوری ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں اسلام نے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس سے جذبات کے ہیجان کی وجہ سے بچے کی پرورش پر برا اثر پڑتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button