متفرق مضامین

لیلۃ القدر جاری ہے

(ولید احمد۔ متخصص تاریخ و سیرت جامعہ احمدیہ جرمنی)

قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے جیسے کہ جب چاند کی ۲۹؍تاریخ ہو جاتی ہے اور رات بالکل اندھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے۔

رسول کریمﷺ کو مدینہ آئے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ آپﷺ کے ایک مخلص انصار ی صحابی کلثوم  بن  الہدمؓ جن کے ہاں آپ نے ہجرت مدینہ کے دوران قبا میں قیام فرمایا تھا وفات پاگئے۔جنازہ کے بعد آپؓ کی تدفین کے لیے آنحضرتﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ جنت البقیع میں موجود تھے۔ایسے میں ایک صحابی حضرت سلمان فارسیؓ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے بےحد رونے لگے۔حضورﷺنے جب یہ دیکھا تو انہیں اپنے ساتھ بٹھالیامگران کی حالت یہ تھی کہ آنسوتھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔آپﷺ نے ان سے پوچھا،کیا سب خیریت ہے؟ آپ کیوں اتنا رو رہے ہیں؟ آپؓ نے جواباً کہا میری داستان بہت ہی لمبی اور درد بھری ہے۔ رسول  اللہﷺ نے تمام اصحابؓ کو فرمایا کہ سب یہاں بیٹھ جائیں اور خاموشی سے یہ واقعات سنیں۔چنانچہ آپؓ نے اپنی کہانی کا آغاز اس طرح کیا: میں اصفہان میں واقع بستی کا ایرانی باشندہ ہوں۔میرے والد علاقہ کے مشہور زمیندار تھےاور مجھ سے بےحد پیار کرتے تھے۔ایک مرتبہ میرے والد صاحب کچھ کام میں مصروف ہوگئےتو انہوں نے مجھے زمین کے معاملات دیکھنے کے لیے بھجوادیااور کہا کہ فارغ ہوتے ہی جلد گھر لوٹ آنا۔چنانچہ میں وہاں سے نکلا تو راستہ میں ایک گرجا دکھائی دیا جہاں بعض عیسائی بزرگ عبادت میں مشغول تھے۔ہماری قوم چونکہ آتش پرست تھی یعنی آگ کی عبادت کرتی تھی، اور مجھے ایسی عبادت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں ان عیسائیوں کی عبادت دیکھنے لگا اور اس میں مستغرق ہوگیا۔میں نے ان سے سوالات بھی کیے اور یہ معلوم کرلیا کہ ان کے دین کا مرکز ملک ِشام ہے۔

رات کو جب میں واپس آیا تو سب میرے انتظار میں بہت پریشان تھے۔میں نے اپنے والد کو سارا واقعہ بتایااور عیسائیت کی تعریف بھی کی۔اس پر والد صاحب نے مجھے سمجھانا شروع کیا، لیکن میں ان کی ہربات سے انکار کرتا رہا۔آخر انہوں نے مجھے گھر میں قید کردیا۔گو میں قید تھا لیکن سچے مذہب کی تلاش کی ایک تڑپ میرے دل میں پیدا ہوچکی تھی۔چنانچہ میں نے خفیہ طور پر عیسائی بزرگوں کو بتادیا کہ اگر کوئی قافلہ شام کی طرف جارہا ہوتو مجھے مطلع کردیں۔انہی دنوں اتفاقاً ایک قافلے کا شہر سے گزر ہوا جو شام جارہا تھا، پس میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔شام پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ یہاں اسقف نامی علم و روحانیت کے لحاظ سے سب سے بڑا پادری ہے۔چنانچہ میں اس کے پاس رہنے لگا، مگر اس کے مرنے کے ساتھ یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ وہ پادری جسے میں نیک سمجھ رہا تھا دنیا پرست اور لالچی شخص تھا۔اس کے مرنے کے بعد ایک نیک آدمی اس کا جانشین بنا۔ پس میں اس کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ جب یہ پادری اپنی آخری عمر کو پہنچا تو میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا کہ مجھے کوئی آخری وصیت کر جائیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹے! یہاں کے لوگ تو دین سے دُور ہٹ گئے ہیں پس اب تم موصل چلے جاؤ،وہاں ایک نیک بزرگ موجود ہیں۔چنانچہ میں ایک کے بعد ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔آخر جب میں عموریہ کے بزرگ کے پاس تھا اور اس کا بھی آخری وقت آپہنچا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھے اب کہاں جانے کی وصیت کرتے ہیں۔ان بزرگ نے کہا کہ اب میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھتا جو دین کی سچی پیروی کرنے والا ہو۔لیکن عرب میں ایک نبی کے ظہور کا زمانہ اب قریب آپہنچا ہے۔ وہ اپنی بعثت کے دوران ایک ایسی جگہ ہجرت کرے گا جہاں کھجور کے درخت کثرت سے ہوں گے اور تم اس کی یہ تین علامتیں یاد رکھنا، وہ صدقہ نہیں کھائے گا، تحفہ قبول کرے گا اور یہ کہ اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کا نشان ہوگا۔ میں اس آخری وصیت کے مطابق قبیلہ کلب کے ساتھ عرب کی طرف روانہ ہوا۔وادی القریٰ پر جب ہمارا قافلہ گزرا تو قافلہ والو ں نے مجھے زبردستی ایک یہود ی کے ہاتھ غلام بنا کر بیچ دیا۔میں نے جب وہاں پر موجود کھجور کے درخت دیکھے تو یہ امید تھی کہ میں اس جگہ کے بہت ہی قریب ہوں جس کا ذکر کیا گیا تھا۔آخر بنی قریظہ کا ایک یہود ی جو مدینہ کا رہنے والا تھا اس نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ مجھے اس شہرمیں لے آیا جہاں پر رسول کریمﷺ نے ہجرت کر کے تشریف لانا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمادیا تھااور مکہ میں آپؐ کی مخالفت جاری تھی۔اس شدید تکلیف کے وقت میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپﷺ حضرت ابو بکر ؓکے ساتھ مدینہ تشریف لے آئے۔ جب یہ خبر مجھے پہنچی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس بزرگ کی بتائی ہوئی علامتوں کاجائزہ لینے کے لیے میں آپؐ کےپاس حاضر ہوا۔ پس جب کہ آپﷺ ابھی قبا میں ہی تھے تو میں نے آپؐ کی خدمت میں صدقہ پیش کیا،جسے آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کو دے دیا اور خود کچھ نہ لیا۔پھر ایک مرتبہ میں نے آپؐ کی خدمت میں کھجور کا تحفہ پیش کیا جسے آپﷺ نے قبول فرمایااور خود اس میں سے تناول بھی فرمایا۔کہتے ہیں کہ میں ان ۲ علامتوں کے پورا ہونے پر بہت خوش تھا، لیکن ایک تیسری اور آخری علامت بھی میرے ذہن میں تھی۔کہتے ہیں پس آج وہ علامت بھی مجھ پر ظاہر ہوچکی ہے اور آپﷺ جب آج اپنے صحابی کے جنازہ اور تدفین میں مصروف تھے تو میں نے آپ کے کندھے پر مہرِ نبوت کا نشان دیکھ لیا جیسا کہ اس بزرگ نے ذکر کیا تھا۔ اس نشان کو دیکھ کر میں اپنے جذبات کو قابو میں نہ لاسکا اوراپنے آنسو نہ روک سکا۔اس واقعہ کے بعد آخر حضرت سلمان فارسیؓ  آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہوگئے۔ (تلخیص از سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحات ۲۱۴تا ۲۲۲)

یہ واقعہ جہاں حضرت سلمان فارسیؓ  کی دین کی خاطر عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتا ہے وہیں آنحضرتﷺ کی نبوت کی سچائی پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔تمام مذاہب اپنی اصل تعلیم کو بھلا بیٹھے تھے۔لیکن اس تاریک زمانہ میں امید کی ایک کرن ایک نئے اور عالمگیر نبی کے ظہور کی علامتوں کی صورت میں موجود تھی۔نیک اور بزرگ علماء اپنی اولادوں اور عام معاشرہ کواس بات کی یاددہانی کروا رہے تھے کہ آئندہ وقت میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔عرب کے یہود نے آپ کے آنے کی خبر لوگوں میں عام کر رکھی تھی۔عیسائی راہبوں کو بھی اس کا علم تھا اور جابجا اس کا ذکر لوگوں میں کرتے رہتے تھے۔رسول  کریمﷺ کی زندگی میں بحیرہ اور نسطور نامی راہبوں نے بھی آپؐ کو نبوت ملنے کی پیشگوئی کی۔اسی طرح آپؐ کے خاندان میں بھی ورقہ بن نوفل جو عیسائی تعلیم کے زیر اثر تھے اس بات کا اظہار فرما چکے تھے کہ آپﷺ کو آخر نبوت کا درجہ حاصل ہوگا۔

ہرقل شاہ ِروم کی شہادت

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس عظیم نبی کی خاطر ہر لحاظ سے تیار کر رکھا تھا۔جس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صبح ہرقل شاہِ روم بہت ہی پریشان حالت میں اپنے دربار میں آیا۔ درباریوں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی توپوچھا کیا بات ہےآج آپ بڑے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہرقل چونکہ علم نجوم یعنی ستاروں کے علم سے کافی واقفیت رکھتا تھا۔اس نے کہا کہ آج رات میں نے ستاروں پر نظر ڈالی اور یہ بات مجھ پر عیاں ہوئی کہ ختنہ کرنے والی قوم کا ایک بادشاہ ہم پر غلبہ حاصل کرلے گا۔ہرقل نے اپنے درباریوں سے پوچھاکہ وہ کون سی قو م ہے جو ختنہ کرتی ہے؟انہوں نے جواب دیا آپ پریشان نہ ہوں یہود کے علاوہ کوئی ختنہ نہیں کرتا، آپ ابھی ہمیں حکم دیں ہم سب یہود کو قتل کردیں گے۔ وہ سب ابھی انہی معاملات میں مصروف تھے کہ شاہِ غسان کی طرف سے ہرقل کو یہ اطلاع پہنچی کہ محمدﷺ نے عرب میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہےاور آئے دن اس کی جماعت میں اضافہ ہورہا ہے۔ہرقل نے جب یہ سنا تو یہ پیغام بھجوایا کہ معلوم کریں کہ آیا عرب قوم ختنہ کرتی ہے۔ آخر آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔تب ہرقل نے کہا کہ یقینی طور پر یہ محمدؐ وہی نبی ہیں جنہیں میں نے ستاروں کے ذریعہ معلوم کرلیا تھا۔اس واقعہ کے بعد ہرقل نے اپنے ایک دوست کو بھی اس بارے میں خط لکھا جو خود علم نجوم کے ماہر تھے۔ اس نے بھی اپنی رائے میں یہی لکھا کہ محمدؐ واقعی پیغمبرِ خدا ہیں۔

آنحضرتﷺ نے جب سلاطین کی طرف تبلیغی خطوط بھجوائے تو ہرقل نے ابوسفیان اور دیگر مکہ والوں کو اپنے دربار میں مدعو کیااور آنحضرتﷺ کی حیات کے حوالہ سے سوالات کیےاور آخر پر یہ کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ نبی آنے والا ہے۔مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔پس وہ عنقریب اس جگہ کا مالک ہوگا جو میرے ان قدموں کے نیچے ہے۔اگر میں یہ جانتا کہ میں آپ تک پہنچ سکوں گا تو آپ کے ملنے کےلیے ہر تکلیف اٹھاتااور اگر میں آپؐ کے پاس ہوتا تو آپ کے قدموں کو دھوتا۔(صحیح بخاری کتاب بدءالوحی حدیث نمبر ۷)

اندھیری رات میں لیلۃ القدر

یہ زمانہ ایک تاریک اندھیری رات کے زمانے کی مانند تھا جس میں ہر ایک جانب روحانی ظلمت کا دور دورہ تھا۔ ان گمراہ کن اور تاریک تر راتوں میں آخر متعدد پیشگوئیوں اور علامتوں کے موافق وہ مقدس رات بھی آپہنچی جب رسول  کریمﷺ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی نور عطا کیا گیا۔ چنانچہ آخرکار رمضان کے بابرکت مہینے میں جبکہ آنحضرتﷺ کی عمر ۴۰ سال اور بعض روایتوں کی رُو سے ۳۹ سال تھی آپ پر آفتابِ نبوت کا نزول ہوا۔آنحضرتﷺ معمول کے مطابق خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے غارِ حرا میں موجود تھے۔ اچانک جبرئیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ پڑھیں۔آپﷺ نے جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرئیلؑ نے آپؐ کو زور سے پکڑا اور پھر دہرایا کہ پڑھیں۔آپﷺ نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر فرشتے نےایک مرتبہ پھر ویسا ہی کیا لیکن اس بار بھی آپﷺ کا وہی جواب تھا۔آخر تیسری مرتبہ فرشتے نے آپ کو زور سے پکڑا اور کہا پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔جس کے بعد آپﷺ پر سورۃ العلق کی ۵ آیتوں کا نزول ہوا۔اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ۔ اِقۡرَاۡ وَرَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ۔یعنی پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ اُس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تیرا ربّ سب سے زیادہ معزز ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

علماء تاریخ کا بالعموم اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ اور سوموار کا دن تھا جس دن حضرت جبرئیلؑ وحی لے کر آپﷺ کے پاس آئے۔لیکن معین تاریخ کے حوالہ سے متعددتحقیقات ملتی ہیں۔کچھ رمضان کی ۱۸؍ویں تاریخ بیان کرتے ہیں تو بعض ۲۴۔پھر ایک جگہ ۱۷؍تاریخ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔(تاریخ طبری جلد ۲ دار المعارف مصر صفحہ ۲۹۳)

اسی طرح ایک نئی تحقیق کے مطابق وحی نزول کی تاریخ ۲۱ بھی بیان کی جاتی ہے۔(الرحیق المختوم از صفی الرحمان مبارکپوری صفحہ ۶۶)

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ (ایم اے) نے رمضان کی آخری ۱۰ راتوں میں نزول وحی کا ذکر فرمایا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی لیلۃ القدر کا زمانہ تھا۔ اس وقت کی تاریکی اور ظلمت کی بھی کوئی انتہا نہ تھی۔ ایک طرف یہود گمراہ۔ ایک طرف عیسائی گمراہ۔ ادھر ہندوستان میں دیوتا پرستی۔ آتش پرستی وغیرہ۔ گویا سب دنیا میں بگاڑ پھیلا ہوا تھا۔ اس وقت بھی جبکہ ظلمت انتہا تک پہنچ گئی تھی تو اس نے تقاضا کیا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہو۔ سو وہ نور جو نازل ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات تھی۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جیسے کہ جب چاند کی ۲۹؍تاریخ ہو جاتی ہے اور رات بالکل اندھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے تو اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے نام سے موسوم کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ۴۹۴،۴۹۳، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

آپؑ نے ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ ’’قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر کی ہوتی ہے دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بےایمانی کی تاریکی کے زمانہ میں وہ آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں۔ سوم لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔ تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۳۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:’’پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تو ایک دفعہ آپ کا دل خدا کی طرف کھینچا گیا۔ ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ جس کا نام حرا ہے۔ آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور اپنے خدا کو یاد کرتے ایک دن اُسی غار میں آپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور زمین گناہ سے آلودہ ہو گئی ہے۔ اس لئے میں تجھے اپنا رسول کر کے بھیجتا ہوں۔ اب تو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں۔ اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک امی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں اور عرض کی کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھر دیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا۔ آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے۔ اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی۔ یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا‘‘۔( پیغام صلح، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۴۶۵-۴۶۶)

ورقہ بن نوفل کی پیشگوئی

غارِ حرا میں وحی کے نزول کے بعد آنحضرتﷺ گھبرائے ہوئے واپس گھر پہنچے اور حضرت خدیجہ ؓکو اس تمام واقعہ سے آگاہ کیا۔ حضرت خدیجہ ؓنے آپﷺ کو تسلی دی اور مزید اطمینان کے لیے آپؓ نے اس کا ذکر اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے کیاجو عیسائی مذہب کے زیرِ اثر  تھے۔آنحضرتﷺ نے آپ کو تمام واقعہ سنایا۔ ورقہ  بن نوفل یہ واقعہ سنتے ہی بولے کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب یہ قوم تجھے اس شہر سے نکال دے گی۔آپﷺ نے بڑے تعجب سے فرمایا کہ کیا میرے لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں یہ سچ ہےکیونکہ جب بھی کوئی نبی آتا ہے اس کی قوم اس سے ایسی ہی دشمنی کیا کرتی ہے۔پھر کہا کہ اگر مجھے آپؐ کی نبوت کا زمانہ مل گیا تو میں آپؐ کی ہر طرح سے مدد کروں گا۔مگر ورقہ بن نوفل جلدہی انتقال کرگئےاور مسلمان نہ ہوسکے۔(صحیح بخاری کتاب بدءالوحی حدیث نمبر ۳)

پس روحانی اعتبار سے ایک طویل تاریک رات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کامل کو اس دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا اور دنیا اس نور سے روشن ہوگئی اور اسی لیے آپؐ کے وجود کو قرآن کریم نے سراج منیر یعنی روشن آفتاب قرار دیا ہے۔ اللہ کرے کہ دنیا اس آفتابِ صداقت کی روشنی سے فائدہ اٹھائے اور اس حقیقی لیلۃ القدر کا لطف اٹھائے جو ہزارہا سال بعد ہی کبھی میسر آیا کرتی ہے۔یہ لیلۃ القدر جاری ہے اور ہر شخص کے اپنے اختیار میں ہے جب چاہے حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی پاک تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اس نور سے منور ہوجائے۔ آنحضرتؐ کا دور قیامت تک کے لیے ایک مستقل لیلۃ القدر ہے جو مسلسل جاری ہے اور اس دور میں تو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ اور راہنمائی بھی موجود ہے جنہوں نے اسی نور کے فیض سے ایسی روحانی ترقی حاصل کی جس کی گذشتہ چودہ سو سال میں مثال نہیں ملتی۔ جیسا کہ خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا

وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے

پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبیٰ یہی ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button