’’قیمتی موتی‘‘
گذشتہ دنوں محترم ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب کی تصنیف ’’قیمتی موتی‘‘ نظر سے گزری جو دراصل ان کی اہلیہ محترمہ صاحبزادی امۃ الحئی درثمین صاحبہ کی سیرت و سوانح پر مشتمل ہے۔ پیش لفظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس شامل کیا گیا ہے۔
’’میرا تو اعتقاد ہے کہ ایک آدمی باخدا اور سچامتقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور اُن کی خود حفاظت فرماتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۸۲)
محترمہ صاحبزادی صاحبہ کی سیرت و سوانح کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت اور برکت کا سایہ ان کا ہم سفر رہا۔ اللہ کے فضل سے آپ بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں عزیزوں سے نیک سلوک اور خلافت سے فدایانہ تعلق کی ایک مثال تھیں اور آنے والی نسلوں کے لیے بہترین نمونہ تھیں۔ یہ نیک نمونے آنے والی نسلوں کے لیے سرمایۂ حیات ہیں اس کے لیے خلفائے کرام نے ایسے بزرگوں کے حالات کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر حامداللہ صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے بڑی محنت سے ان یادوں کو اکٹھا کیا اور اسے ایک تصنیف کی شکل دے کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک نیک تحریک کا ذریعہ بنا دیا۔ محترمہ صاحبزادی صاحبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پڑپوتی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امّ ناصر کی پوتی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا اور حضرت نواب محمد علی صاحبؓ کی نواسی تھیں۔
آپ اپنے خاوند کے ساتھ ۱۹۷۲ء میں یوکے منتقل ہوگئیں اور آپ کو جماعت کی بےمثال خدمات کے علاوہ تین خلفائے کرام کی مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ احمدیت کی ناموس کے لیے جو غیرت و شجاعت آپ میں تھی وہ مردوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی تھی۔ ان واقعات سے خاکسار کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچپن کا واقعہ یاد آگیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ قریبی گاؤں ناتھ پور میں شکار کے لیے چلے گئے وہاں چند سکھ لڑکے آپ کے ساتھ شامل ہوگئے اور آپ کو شکار کے لیے ایک جگہ کی طرف لے گئے اور آپ کے ساتھ شوق و راحت کے لیے شامل تھے۔ ایک جگہ درخت پر ایک فاختہ نظر آئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےنشانہ لگایا اور بندوق چلائی چنانچہ فاختہ نیچے گر گئی لیکن اتنے میں گاؤں کی ایک بڑھیا وہاں سے گزری اور جو فاختہ کو تڑپتے دیکھا تو سکھ لڑکوں کو شرم دلائی کہ دوسرے گاؤں سے آکر لوگ جیوہتیا کر رہے ہیں۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ اس بڑھیا کے کہنےپر ان نوجوان سکھوں کا رنگ متغیر ہوگیا اور کہنے لگے یہاں شکار نہ کریں۔ (الفضل قادیان ۴؍اپریل ۱۹۲۵ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:’’یہ واقعہ میرے نزدیک اس پہلو سے مطالعہ کے لائق ہے کہ ایسا واقعہ اگر کسی عام بچے سے پیش آتا تو یقیناً وہ سخت خوف محسوس کرتا اور یہی خوف اس کی یاد کا نمایاں پہلو بن کر اس کے ذہن پر ثبت ہو جاتا…قادیان کے بچے سکھوں کے بعض بدنام دیہات میں جانے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کی وحشت اور جرائم کے قصے عام مشہور تھے اور بسا اوقات وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بر انگیختہ ہوکر بچوں کو زدو کوب کیا کرتے تھے…لہٰذا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس پس منظر کی روشنی میں بچوں کو ایسے واقعات اگر یاد رہتے ہیں تو خوف اور گھبراہٹ کی ہیجانی کیفیات کی وجہ سے اور عموماً ایسے واقعات بیان کرتے ہوئے وہ اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ اُس وقت خوف کے مارے ہماری جان نکل گئی یا ٹانگیں کانپنے لگیں یا سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے لگے…لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا ردّ عمل بالکل الگ ہے…آپؓ کو اس واقعہ سے شدید تعجب اس بات پر ہوا کہ …سکھ جوان اوربچے آپ کے ساتھ مل کر شکار کا طبعی لطف اٹھا رہے ہیں دوسری طرف ایک مذہبی تعصّب سے پیدا شدہ انگیخت ہے جس کے نتیجہ میں اچانک ان کا رجحان تبدیل ہو کر ان کا تعصّب فطری شوق پر غالب آجاتا ہے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ ۱۲۸۔۱۲۹)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کسی خوف کا شکار ہونے کی بجائے اس نفسیاتی گتھی کو سلجھانے میں محو ہوجاتے ہیں جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس طرح کا غیر معمولی واقعہ مجھے محترمہ صاحبزادی امۃ الحئی کی سوانح میں بھی نظر آیا۔
یہ ۱۹۸۹ء کا واقعہ ہے جب جماعت کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں غیر احمدیوں کی آتشِ حسد اور مخالفت بھڑک اٹھی۔ چنانچہ ڈاکٹر حامداللہ صاحب تحریر کرتے ہیں:’’انہی دنوں مولانا دوست محمد شاہد صاحب یارکشائر آئے ہوئے تھے۔ ہماری جماعت نے مولانا صاحب سے درخواست کی کہ ۱۹؍اگست ۱۹۸۵ء کو جلسہ سیرت النبیؐ میں خطاب فرمائیں…ہمیں کونسل سے …اجازت مل گئی۔ عین وقت پر کونسل نے بغیر وجہ کے اجازت کینسل کر دی…فیصلہ ہوا کہ کچھ دوست جن میں ہمارے نو احمدی پاکستانی دوست …چار اطفال جن میں میرے دونوں بیٹے …شامل تھے، انہیں بیٹلے سکول کے پاس والی جگہ کھڑا کر دیا (جائے) تاکہ یہاں بھی آنے والے مہمانوں سے معذرت کی جاسکے۔ مجھے گھر جا کر علم ہوا کہ غیر احمدی فسادیوں نے ہمارے بچوں کے اوپر کار چڑھانے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے جان بچا کر بچے گھر پہنچے…گھر جا کر مجھے علم ہوا کہ کسی غیر احمدی کا فون بھی آیا تھا اُس نے دھمکی دی اور کہہ رہا تھا۔
’’Mrs Khan you live in our Batley, one day you wake up and find yourself and your daughter dead!‘‘
اس پر میری بیگم نے بڑی تسلی سے جواب دیا:
’’If I am dead how do I wake up?‘‘
اس پر اس شخص نے شرمندہ ہو کر فون بند کر دیا۔(قیمتی موتی صفحہ ۲۸، ۲۹)
یہ ایسی دھمکی تھی کہ خواتین تو ایک طرف مردوں کی نیند اڑادینے کے لیے کافی تھی۔ کیونکہ اگر کوئی اپنے آپ کو نظرانداز بھی کر دے لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ہر کوئی نہایت حسّاس ہوتا ہے چنانچہ ایسی دھمکی سن کر ایسا مسکت جواب دینا بے مثال جرأت اور توکل علی اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔
اسی طرح آپ نے ایک شخص کو دکان کے اندراحمدیت کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پایا جو کہ کہہ رہا تھا ربوہ والوں نے جنت دوزخ بنا رکھی ہے۔ آپ نے اسے کہا: میرا تعلق ربوہ سے ہے اور کیا تم نے جنت اور دوزخ دیکھی ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ سننے اور دیکھنے میں فرق ہے۔ اس پر وہ شخص لاجواب ہوگیا اور دکان سے باہر جانے لگا۔ آپ دروازہ میں کھڑی ہوگئیں اور اس کا راستہ بند کر دیا۔ یہ شخص کہنے لگا کہ آپ ہمارے عالم سے بات کریں۔ آپ عالمہ معلوم ہوتی ہیں۔ آپ نے کہا: میں عالمہ نہیں ہوں لیکن جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا آپ کو باہر نہیں جانے دینا۔ جب گھر واپس آئیں تو یہ واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بھی سنایا۔ حضور نے فرمایا: ہماری امتل نے تو کمال کر دیا۔ (قیمتی موتی صفحہ ۳۵، ۳۶)
کمال کیوں نہ کرتیں آخر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں۔