تاریخ احمدیت

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ: (قسط۳۲) ڈاکٹر ٹی ایل پنیل آف بنوں Theodore Leighton Pennell کی قادیان آمد (جنوری ۱۹۰۴ء)

(عمانوایل حارث)

ڈاکٹر پنیل(Theodore Leighton Pennell) کی ولادت ۱۸۶۷ء میں انگلستان میں ہوئی اور آپ ۲۳؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو راہی ملک بقا ہوئے۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے،۱۸۹۰ء میں چرچ مشنری سوسائٹی کے رکن بنے اور ۱۸۹۲ء میں ہندوستان وارد ہوئے۔اردو، پنجابی اور پشتو زبانیں سیکھیں اور بطور مشنری ڈاکٹر برصغیر کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں میں مقامی افراد کے درمیان ایک لمبا عرصہ گزارنے کی وجہ سے خاص شہرت پائی۔

ہندوستان میں قیام کے دوران ڈاکٹر پنیل نے سادھوؤں والا لباس اختیار کیا اور مقامی زبانوں میں گفتگو کی روانی کے باعث چرچ کے کاموں میں خاص مددگار بن گئے۔ ڈاکٹر پنیل نے ۱۹۰۴ء میں سائیکل پر صوبہ پنجاب کے دور دراز مقامات کا دورہ کیا اور اپنے اسی سفرکے دوران اپنے ایک نوجوان رفیق جس کا نام جہاں خان تھا،کی معیت میں بصد اشتیاق قادیان دارالامان کی بستی بھی پہنچے۔

ڈاکٹر پنیل نے بنوں میں ہائی سکول اور مشنری ہسپتال بھی قائم کیا تھا، اس وجہ سے تاریخ میں ان کا نام ڈاکٹر پیینل آف بنوں بھی مذکور ہے۔حکومت ہندوستان کی طرف سے ایسی متفرق عوامی خدمت کے صلہ میں اُنہیں قیصرِ ہند کا اعزاز بھی عطا کیا گیا۔

ڈاکٹر پنیل کا ہندوستان میں قیام ۱۶؍سال پر ممتد رہا، اور یہ ۱۹۰۸ء میں واپس انگلستان چلے گئے۔ انہوں نے Alice Sorabji نامی ایک پارسی خاتون سے شادی کی جو غالباً ہندوستان کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے سائنس کے مضامین میں ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر پنیل کی اہلیہ نے بطور ڈاکٹر اور مصنفہ اپنی شناخت بنائی، اس شادی سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔

ڈاکٹر پنیل نے اپنی بنوں میں تعیناتی کے دوران ایک اردو اخبار ’’تحفہ سرحد‘‘ کے پروپرائیٹر کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں، جو صوبہ سرحد کا پہلا اردو اخبار بھی سمجھاجاتا ہے۔ اس اخبار میں وقتاً فوقتاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ لیکن امام و افرادجماعت احمدیہ کی اخلاقی برتری اور علو ہمتی کے باعث جب ۱۹۰۴ء میں بنوں سے سائیکل پر پنجاب کا سفر کیا تو قادیان دارالامان کو بھی اپنی منزل بنایا۔

اس سفرقادیان کا تذکرہ علاوہ جماعتی ریکارڈ کے،ڈاکٹر پنیل کی ۱۹۰۸ء میں شائع ہونے والی کتاب Among the wild tribes of the Afghan frontier میں بھی موجود ہے اورحضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نےبھی ڈاکٹر ٹی ایل پنیل کا ذکر اپنی معروف تصنیف ’’ذکر حبیب‘‘ کے صفحہ۳۱۲ اور ۳۱۳ پر بھی کیا ہوا ہے۔

مقدم الذکر انگریزی کتاب ڈاکٹر پنیل کی زندگی کے حالات پر مبنی ہے اور اسے ان کی آپ بیتی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔نیز اس سفر قادیان کاذکرڈاکٹر پنیل کی اہلیہ Alice Maude Sorabji Pennell نے اپنی کتاب
Pennell of the Afghan Frontier: The Life of Theodore Leighton Pennellمیں بھی کیا ہے۔ مؤخر الذکر دونوں کتب میں قادیان کے سفر اور وہاں قیام کی معلومات قریباً وہی ہیں، بس انداز بیان اور الفاظ کا معمولی فرق پایا جاتا ہے۔

ذیل میں اخبار الحکم میں شائع شدہ رپورٹ درج کی جاتی ہے۔الحکم قادیان نےاپنے ۱۰؍جنوری ۱۹۰۴ءکے شمارہ کے صفحہ ۱۶ پرمدیر اخبار حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے قلم سے ’’ایک مشنری انگریز قادیان میں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا: ’’۴؍جنوری ۱۹۰۴ء کی صبح کو گورے رنگ، بھدی داڑھی اور نیلی آنکھوں والا ایک سادھو،گیروے کپڑے پہنے ہوئے، سر پر گیروی پگڑی باندھے ہوئے، ننگے پاؤں پر موٹا دیسی جوتا پہنے ہوئے، آنکھوں پر عینک چڑھائے ہوئے،بائیسکل پر سوار معہ ایک اور ساتھی جو لباس میں اس کا ہم رنگ اور دوسری سائیکل پر سوار تھا، قادیان میں آوارد ہوا۔ اور بیان کیا کہ میں مرزا صاحب کی ملاقات کے واسطے آیا ہوں۔ لوگ اسے مدرسہ تعلیم الاسلام کے مکانات کی طرف لے آئے۔ جہاں ہیڈ ماسٹر مدرسہ مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اس کی شکل اور لب و لہجہ سے معلوم کرکے کہ یہ ایک انگریز دیسی لباس میں ہے۔ فوراً اُس کے واسطے خاطر داری کے ساتھ آرام کی جگہ تیار کرا کے اسے اتارا اور حالات دریافت کئے۔ معلوم ہوا کہ یہ صاحب ڈاکٹر پنل ہیں جو انگلستان کے باشندہ اور چرچ آف انگلینڈ کے مشنری ڈاکٹر ہیں۔ گیارہ سال سے بنوں میں کام کرتے ہیں، پشتو اوراردو بول اور سمجھ سکتے ہیں اور اب فقیرانہ لباس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے بزرگوں سے ملاقات کے ارادہ کے لئے اور جابجا وعظ کرنے کی نیت سے بنوں سے اپنا نکلنا ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چار ماہ کے عرصہ میں کلکتہ تک پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہاں تک بائیسکل پر آئے ہیں اور آئندہ سفر بھی بائیسکل پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ساتھی ایک نوجوان لڑکا تھا جس کو ڈاکٹر صاحب اپنا متبنیٰ بیٹا کہتے تھے اور ظاہر کرتے تھے کہ یہ مسلمان ہے۔ مگر وہ تمام امور میں بظاہر ڈاکٹر صاحب کے رنگ میں رنگین تھا۔

خاکسار ایڈیٹر اور دوسرے احباب نے جن کی ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ہوئی ان کی خدمت میں بہت اصرار کیا کہ جب ڈاکٹر صاحب مختلف مقامات میں مختلف مذاہب کے بزرگوں کو دیکھنے کے واسطے نکلے ہیں تو یہ مقام سب سے زیادہ اس امر کا مستحق ہے کہ سب سے زیادہ ٹھہریں کیونکہ بلحاظ دعویٰ کے اور اس کے ظاہری نتائج کے اس جگہ ایک ایسا شخص اور ایک ایسا سلسلہ اور ایک ایسا فرقہ مذہب موجود ہے کہ بلحاظ عظمت و شان کے اُس کا مقابل اس وقت تمام دنیا میں موجود نہیں۔ لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب پہلے سے ٹھان چکے تھے کہ ایک دن سے زیادہ نہ ٹھہریں گے اس لئے وہ اپنے پروگرام کو نہ توڑ سکےاور بسبب اس کے کہ حضرت اقدس ؑکی طبیعت علیل تھی۔ آنحضرت ؑکی ملاقات کے بغیر ہی ڈاکٹر صاحب دوسری صبح کو واپس چلے گئے۔ تاہم اس تھوڑے سے عرصہ میں ڈاکٹر صاحب نے اس پاک سلسلہ کے حالات کے متعلق مختلف احباب سے بہت کچھ سنا اوردیکھا۔ چنانچہ ہم ذیل میں مختصر وہ چند باتیں تحریر کرتے ہیں۔ جو حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے درس حدیث میں اور مفتی محمد صادق صاحبؓ کی زبانی ڈاکٹر صاحب نے سنیں۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہے اور عموماًسرتسلیم ہلاتے رہے اور ہاں ہاں کرتے رہے لیکن کہیں کہیں اگر ڈاکٹر صاحب نے اثنائے گفتگو میں کوئی کلام یا سوال کیا تو وہ بھی ہم اس جگہ درج کردیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کے تھوڑی دیر کے پہنچنے کے بعد مفتی صاحب ان کو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحبؓ کی نشست گاہ میں لے گئے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کی استدعا کے مطابق درس حدیث جو طلباء کا روزانہ سبق تھا، شروع ہوا، جس میں پہلے حضرت مولانا موصوف نے اس بات پر چند کلمات فرمائے کہ احادیث میں راویوں کے نام کا ذکر کرنا اور درجہ بدرجہ ایک روایت کو نہایت تحقیق اورتدقیق کے ساتھ اصل متکلم تک پہنچانا، یہ پاک طریق صرف اسلامی کتب میں پایا جاتاہے اور اس کے بالمقابل دوسرے تمام مذاہب کی روایات خواہ ان کا راوی اصل متکلم سے کتنے ہی بعد ہوا ہو بغیر کسی سند کے یوں ہی ذکر کردی جاتی ہیں جس سے ان کی صداقت پر بہت کچھ شبہ پڑتا ہے۔ پھر احادیث میں طلباء نے یہ ذکر پڑھاکہ ہر رکعت میں قرآن شریف کا کچھ حصہ ضرور پڑھنا چاہئے۔ اس پر مولانا موصوف نے فرمایا کہ یہ اس واسطے ہوا کہ قرآن شریف اصل زبان اور عبارت میں محفوظ رہے چنانچہ اس وقت سے قرآن شریف کی پوری حفاظت سینہ بسینہ ہورہی ہے۔ قرآن شریف کے اصلی ہونے میں کوئی شبہ ایسا پڑ نہیں سکتا جیسا کہ توریت اور اناجیل کی عبارتیں بہت سے شکوک و شبہات کے نیچے دب گئی ہیں بلکہ اکثر محقق عیسائیوں کے نزدیک ان کا بہت سا حصہ جعلی اوراُن لوگوں کانہیں جن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور اصل زبان اناجیل کی تو بالکل دنیا سے مفقود ہی ہوگئی ہے۔ اسی سبق میں طلباء نے کئی جگہ پڑھاکہ اُس مقام پر آنحضرتﷺ نے وہ سورت پڑھی اور اس مقام پر وہ سورت پڑھی۔ اس پر مولانا موصوف نے بیان فرمایا کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن شریف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب سب اُس مقدس رسول ﷺ کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور یہ بالکل غلط ہے کہ بعد میں کسی نے آیات اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ کی ہے۔ …‘‘(جلد ۸ نمبر ۱)

سلسلہ کے اوّلین اخبار الحکم نےاپنے اگلے ہفتے کے شمارہ (جلد ۸ نمبر ۲۔مطبوعہ۱۷؍جنوری ۱۹۰۴ء) کے صفحہ ۱۰پر ’’ایک مشنری انگریز قادیان میں ‘‘ کے عنوان کے تحت مزید لکھا کہ’’…ایسی ہی اَور کئی ایک باتیں ہوئیں جن سے ثبوت حقانیت اسلام اور بطلان مذاہب غیر فی زمانہ ہوتا تھا۔ اور مشنری صاحب ان سب باتوںکو چپ چاپ سنتے رہے۔ اور عموماً ہاں ہاں کرتے رہے…‘‘

اس موقع پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اس مہمان کو تبلیغ کا حق ادا کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا اچھی طرح تعارف کروایا اور ڈاکٹر پنیل کے پیش گوئی بابت پگٹ اور ڈوئی سوالات کا تفصیل کے ساتھ جواب دیا اور مثالوں سے اس پر احقاق حق کیا۔

دوسری طرف جائزہ لیں ڈاکٹر پنیل نے اپنی مقدم الذکر کتاب(ایڈیشن ۱۹۲۲ء) میں سفر قادیان کا ذکر صفحہ ۲۴۷ سے ۲۴۹ پر کیا ہے۔

اپنے سفرہندوستان کے احوال میں لکھا کہ میں اور میرا شریک سفر جہان خان قادیان بھی گئے جو مسلمان مصلح مرزا غلام احمد کا مرکز ہونے کے باعث خاص شہرت کا مقام تھا۔ ۱۹۰۸ء میں فوت ہونے والے اس دعویدار کے مخلص مرید بہت زیادہ تھے۔

بتایا کہ جب ہم قادیان کے لئے روانہ ہوئے تو آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، اور ہم نے بٹالہ سے قادیان تک کا کچا راستہ جو گیارہ کلومیٹر لمبا تھا، مسلسل بارش میں طے کیا۔ تب سارا دن ہی بارش ہوتی رہی۔ مولوی محمد صادق صاحب جو مرزا صاحب کے ہائی سکول کے ہیڈماسٹر تھے، نے ہمارا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا، اور سکول کے کمروں میں سے ایک میں ہمیں ٹھہرایا کہ ہم کچھ آرام کرسکیں۔ تب مرزا صاحب علیل تھے، اور ہماری ان سے ملاقات نہ ہوسکی، ہمیں مولوی محی الدین (ڈاکٹر پنیل کی اہلیہ نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ لکھتے ہوئے یہاں نام مولوی نورالدین لکھا ہے، جو کہ درست ہے اور الحکم کے مذکورہ بالا دونوں شماروں سے اسی کی تصدیق ہوتی ہے) کے پاس لے جایا گیا، جو بہت ہی عالم انسان تھے، او رغالباً قادیان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شخص تھے، آپ کا تعلق بھیرہ، پنجاب سے ہے، اور آپ بہت زیادہ اسفار اختیار کرچکے ہیں۔ جب ہم پہنچے تو آپ نوجوانوں اور مردوں کی بہت بڑی جماعت کو مشرقی انداز میں پڑھارہے تھے، آپ ایک سادہ سی دری پر تکیہ کا سہارہ لئے ہوئے تھے اور آپ کے شاگرد آپ کے گرد جمع تھے۔ہمارے لئے چائے لائی گئی۔ مولوی صاحب نے اپنا درس جاری رکھا۔ اس دن حدیث کاسبق نماز کے متعلق تھا، طالب علم باری باری حدیث پڑھتے جاتے اور مولوی صاحب اس حصہ پر بہت تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتے رہے۔ شاید ہماری خاطر مولوی صاحب نے اس موقع پر بائبل کے مقابلہ میں حفاظت قرآن کے ذرائع بتائے، کہ کس طرح حفظ کے ذریعہ قرآن کریم کا متن بالکل اصل حالت میں محفوظ ہے۔

مولوی صاحب کے بعدہم سے محمد صادق نے بھی بائبل کے متن میں تحریف و تبدیلی کے متعلق عیسائی محققین کے حوالہ سے تفصیلی بات کی۔ بائبل کے متن کے غیر محفوظ اور اس میں رد و بدل کے حوالہ سے ثقہ دلائل دیتے ہوئے محمد صادق نے انسائیکلو پیڈیا ببلیکا سے اس قدر موادبالکل روانی سے پیش کیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ شاید انہوں نے اسے حفظ کر رکھا ہے۔

دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا، جو نواب آف مالیر کوٹلہ کے ایک رشتہ دار کی طرف سے تیار کرکے بھیجا گیا تھا، یہ معزز فرد تب مرزا صاحب کے مرید ہوکر،ان کے مشن کی خدمت کے لئے خود کو مکمل طور پر وقف کرکے قادیان جیسے چھوٹے سے گاؤں میں بالکل درویشانہ رنگ میں رہائش پذیر تھے۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی، دیگر چند افراد سے ملنے کے بعد ہمیں ہائی سکول، کالج کلاسز اور بورڈنگ ہاؤس دکھایا گیا۔ یہ عمارتیں تو اعلیٰ پایہ کی نہیں تھیں لیکن ان کا انتظام عمدہ معلوم ہوتا تھا۔ اوران عمارتوں کے رہائشی نظم و ضبط والے اور تربیت یافتہ تھے۔

خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ گو اگلی صبح سرد ہوا اور ہلکی بارش تھی لیکن پھر بھی سب فجر کے پہلے حصہ میں بیدار ہوچکے تھے اور منظم طور پر اپنے گرم بستروں سے باہر نکل کر باہر ٹھنڈے صحن سے ہوتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھے جہاں سب نے مل کر صبح کی نماز ادا کی جس کے بعد اکثریت نے نصف گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک اپنا وقت تلاوت قرآن کریم کےلئے وقف کیا۔

کئی اساتذہ بھی، اپنے کام میں نہایت ایماندارمعلوم ہوئے اور وہ بڑی بڑی تنخواہیں چھوڑ کر اُ س مقصد کےلئے جس کی خاطر اپنے آپ کو وقف کیا تھا، معمولی تنخواہ پر کام کرتے…

چونکہ اس دن ہم لوگوں سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ تھک چکے تھے، اس لئے رات گہری نیند آئی۔ لیکن اگلی صبح پھر یہی بتایا گیا کہ مرزا صاحب کی طبیعت تاحال ناساز ہے، اس کا ہمیں افسوس ہواکہ ہماری ان سے ملاقات نہ ہوسکے گی…۔

ہمارا استقبال خوش دلی اور خاطر داری سے کیا گیا اور ایسے متعدد تعلیم یافتہ آدمیوں کو دیکھ کر جو مذہب کی جستجو میں جوش و خروش سے سرگرم تھے، ایک متاثر کن بات پائی جاتی تھی۔گو اس جگہ عیسائی عقائد کی سخت مخالفت دیکھ کر صدمہ بھی ہوا۔ ‘‘

ڈاکٹر پنیل کی اہلیہ نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ڈاکٹرپنیل کی ایک اور موقع پر مرزا صاحب کے صحابی ’’محمد احسن ‘‘ سے بھی ملاقات ہوئی۔نیزلکھا کہ جب ڈاکٹر پنیل بنوں میں کام کیا کرتا تھا تب اس کو مرزا صاحب کے ایک صاحبزادے سے بھی ملاقات کا موقع ملا تھا۔ غالبا ًیہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب تھے۔

اسی طرح دسمبر ۱۹۳۸ء میں ’’تاثرات قادیان‘‘ کے نام سے ملک فضل حسین صاحب مہاجر کی مرتب کردہ کتاب مسلم پرنٹنگ پریس لاہور سے شائع ہوئی جس کے صفحہ ۸۱ تا ۸۵ پر ڈاکٹر پنیل کے قادیان آنے کا ذکر ہے اور ان کے تاثرات ایک کتاب ’’سفر نامہ ابن السبیل ‘‘ کے حوالہ سے درج ہیں، اس میں ڈاکٹر پنیل نے لکھا کہ’’آج کل تین اشخاص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ چنانچہ پگٹ نے ولایت میں دھوم مچا رکھی ہے کہ ’’آنے والا مسیح میں ہوں‘‘۔ امریکہ میں ڈوئی نے اپنے تئیں الیجہ ثابت کیا ہے اور اِدھر مرزا غلام احمد نے اپنے آپ کو ’’مسیح موعود‘‘ ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی…ان تینوں شخصوں نے اپنے اپنے دعاوی کے ثبوت میں خوب ہاتھ پاؤں مارے اور اپنے مریدوں کے دلوں میں جگہ حاصل کی ہے۔ سب سے زیادہ پیرو ڈاکٹر ڈوئی کے ہیں۔ اور سب سے کم مسٹر پگٹ کے۔ تینوں پیشگوئیاں کرنے کا بھی دم مارتے ہیں اور ڈاکٹر ڈوئی کو مریضوں کو شفا بخشنے کی قدرت بھی حاصل ہے۔اگرچہ تینوں شخص اپنے چال چلن کی دلکش طاقت کے ذریعہ لوگوں کو اپنا مرید بنانے میں اپنے اندر ایک مقناطیسی اثر رکھتے ہیں لیکن یہ امر ضرور قابل غور ہے کہ جب یہ تینوں شخص ایک ہی دعویٰ کرتے اور ایک حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں تو ان میں دو ضرور جھوٹے ہیں۔ کیونکہ نبی تو ایک ہی ہونا چاہیے…

اس میں شک نہیں کہ مرزا غلام احمد نے مسٹر پگٹ کے پہلے مر جانے کی پیش گوئی کی اور ڈاکٹر ڈوئی کو باہم مباہلہ کرنے کا چیلنج بھیجا کہ جس میں ہر ایک اپنے مخالف کی موت کے لیے دعا مانگتا ہے۔ یعنی جو مر جائے وہ جھوٹا اور جو زندہ رہے وہ ان لوگوں میں جو اس قسم کے مباہلہ کو پسند کرتے ہیں سچا تصور کیا جائے۔مرزا غلام احمد کی کمزوری (صحت) کو دیکھتے ہوئے ہم نہایت وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چیلنج واقعی ہی دلیرانہ ہے…

مرزا صاحب کے مریدوں میں سادگی کی مشہور و معروف مثال ریاست ملیر کوٹلہ کے نواب میں موجود ہے کہ جنہوں نے اپنی ریاست کے انتظام اور عیش وعشرت کو لات مار کر ایک چھوٹے سے مکان میں رہنا اور دل و جان سے مرزا صاحب کی خدمت کرنا پسند کیا ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ لیکن سادہ مزاج نواب سے میری ملاقات ہونا میرے لیے قادیان کی یہ ایک اعلیٰ ترین یادگار ہے۔

قادیان میں تین مطبع ہیں۔ ایک میں تو ریویو آف ریلیجنز بزبان انگریزی ایک ماہوار رسالہ چھپتا ہے اور باقی دو میں الحکم اور البدر،دو اردو زبان کے ہفتہ وار اخبار شائع ہوتے ہیں۔ ایک جگہ ایک ہائی سکول بھی ہے جس میں ۲۰۰ مسلمان طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سکول کے ساتھ ہی بورڈنگ ہاؤس بھی ہے جس میں تقریباً ۶۰ طلباء جو دیگر مقامات سے بغرض تعلیم آئے ہیں، رہتے ہیں۔ اس سال اس سکول میں ایف اے کلاس بھی کھولی گئی ہے کہ جس کو منشی محمد علی خان صاحب ایم اے صرف گذارہ کے موافق تنخواہ لے کر تعلیم دیتے ہیں۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر مفتی محمد صدیق(صادق) ہیں کہ جنہوں نے ہماری خاطرتواضع کرنے کے علاوہ رہائش کے لیے ایک کمرہ بھی عنایت کیا۔قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اور عربی زبان کی تحصیل لازمی ہے۔اور یہ بہت عمدہ قاعدہ ہے کہ تمام بورڈر علی الصبح جبکہ گھنٹا بجتا ہے بستروں سے نکل کر صبح کی نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں، خواہ کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو…‘‘

الغرض جماعتی ماخذوں اور خود ڈاکٹر پنیل کی اپنی کتاب کے مطابق اس انگریزعیسائی پادری کاسخت سرد موسم میں، مسلسل بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے،کچے راستے پر، سائیکل کا سفرکرکے قادیان دارالامان پہنچنا ثابت ہے، گو یہ عیسائی پادری اپنی جلدبازی کی وجہ سے،شفیق میزبانوں کے توجہ دلانے کے باوجود قادیان میں مزید نہ رکا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات سے محروم رہا، لیکن یہ مخالف پادری بھی قادیان دارالامان کے روحانی ماحول اور احمدیوں کی مہمان نوازی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکااور ایک دفعہ پھر یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کی الہامی پیش گوئی پوری ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button