سچے روزے دار کو خدا ملتا ہے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:نصیحت میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جس وقت کسی کو نیکی کا کوئی موقع دے اُس وقت اُسے ضائع کر دینا بہت بڑی بے وقوفی ہوتی ہے۔اِن دنوں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک موقع دیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت مہینہ رمضان تمہیں ملا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اور آپ سے زیادہ سچا اور کون ہو سکتا ہے کہ ہر چیز کی ایک جزا مقرر ہے۔ نمازوں کی بھی جزا مقرر ہے، زکوٰۃ کی جزا مقرر ہے، حج کی بھی جزا مقرر ہے مگر روزے کی کوئی اور چیز جزا نہیں۔روزے کی جزا میں خود ہوں۔(بخاری کتاب الصوم باب ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَائِمٌ اِذَا شُتِمَ)
پس اگر کوئی شخص سچے دل سے روزہ رکھتا ہے تو یقیناً اُسے خدا مل جاتا ہے اور اگرکسی کو خدا نہیں ملتا تو معلوم ہؤا اُس کے روزوں میں کسی قِسم کا نقص رہ گیا ہے ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم سچا روزہ رکھو اور تمہیں خدا نہ ملے۔حقیقی روزہ صرف یہی نہیں کہ تم دن بھر کھاؤ پیئو نہیں۔بلکہ روزہ یہ ہے کہ تم اپنی زبان، اپنی آنکھیں، اپنے کان،اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں سب کو اپنے قبضہ میں رکھو۔ نہ جھوٹ بولو، نہ جھوٹی باتیں سنو، نہ غیبت کرو،نہ غیبت کی باتیں سنو، نہ لڑائی کرو، نہ فساد کی جگہ میں بیٹھو،نہ عیب کرو، نہ عیب کی جستجو کرو۔غرض پوری طرح اپنی زبانوں، کانوں، ناکوں، ہاتھوں اور پاؤں کو قابو میں رکھو اور اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرو اور اُس سے ایسی محبت کرو کہ دنیا میں تم نے کسی سے ایسی محبت نہ کی ہو۔یاد رکھو اﷲ تعالیٰ غیر عاشق کو نہیں ملا کرتا بلکہ اُسے ہی ملتا ہے جو اُس کے عشق میں گداز ہو۔بے شک وہ بادشاہ ہے اور انسان ادنیٰ خادم لیکن محبتِ صادق اعلیٰ اور ادنیٰ کے امتیاز کو مٹا دیتی ہے۔میں نے اپنے ایک شعر میں اِس مضمون کو بیان کیا ہے جو یہ ہے۔
طریق عشق میں اے دل سیادت کیا غلامی کیا
محبت خادم و آقا کو اک حلقہ میں لائی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍دسمبر ۱۹۳۵ء۔ الفضل ۱۲؍دسمبر ۱۹۳۵ء)