کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے

قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں۔اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃالقدر کی ہوتی ہے۔دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃالقدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے وہ زمانہ میں آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا۔کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے۔جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں ۔سوم۔ لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔بعض وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ ؓکو کہتے ہیں کہ ارحنا یا عائشہ یعنی اے عائشہ مجھ کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں مصروف ہوتے۔

(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۳۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

یہ لیلۃ القدر اگرچہ اپنے مشہور معنوں کے رُو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلۃ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے۔ اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے۔ اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کرکے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں۔ سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہوگئی اور دنیا نے اس سےایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا۔ اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی۔ پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کرکے دکھلادیا۔ وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مرچکی تھی اور بَر اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہوچکا تھا۔ پس اس نے نزول فرماکر وہ کام کردکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرماکر کہا ہے۔اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا (الحدید :۱۸)یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ۴۱۸-۴۱۹حاشیہ نمبر۱۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button