متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر، نومبر ۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ ہشتم)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

حضورِانور کی رہائش گاہ میں ایم ٹی اے کا مسئلہ

ایک امر جس کی بابت حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بار بار احمدیوں کو توجہ دلاتے ہیں وہ ایم ٹی اے دیکھنے کی اہمیت اور اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونا ہے۔حضورِانور کبھی احباب جماعت کو ایسے امور پر عمل کرنے کا حکم صادر نہیں فرماتے جن پر آپ خود عمل پیرا نہ ہوں، بے انتہا مصروفیت کے باوجود حضورِانور جس قدر ہو سکے ایم ٹی اے ملاحظہ فرماتے ہیں۔

مثال کے طور پر کئی مواقع پر مَیں نے دیکھا ہے کہ حضورِانور اپنے دفتر میں ایم ٹی اے ملاحظہ فرماتے ہیں اور جو بھی پروگرام چل رہا ہو اسے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ اس دوران آپ مستقل اپنے دفتر کی ڈاک بھی ملاحظہ فرماتے جاتے ہیں۔ اسی طرح دورہ جات کے دوران بھی حضورِانور جب ممکن ہو ایم ٹی اے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ تاہم کینیڈا میں حضورِانور نے مجھے بتایا کہ کسی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے حضور کی رہائش گاہ میں ایم ٹی اے کا چینل نہیں آرہا۔ حضورِانور نے اس کا اظہار جماعتی انتظامیہ کے سامنے بھی فرمایا لیکن یہ مسئلہ ٹھیک نہ ہو سکا۔ حضورِانور نے مجھے فرمایا کہ انہوں نے ایک جدیدسسٹم لگایا ہے لیکن زیادہ تر یہ کام نہیں کرتا۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ یوکے میں The Sky TV System ہے جو بہتر اور سادہ ہے۔ لیکن کینیڈا کی جماعت کا سسٹم بہت پیچیدہ ہےاور اکثر کام بھی نہیں کرتا۔ اتفاق سے بسا اوقات حضورِانور کی رہائش گاہ اور دفتر میں جب ایم ٹی اے چل رہا ہوتا تھا تو حضورِانور اور خالہ سبوحی (حضورِانور کی اہلیہ محترمہ) اس کو آن رکھتے اور ملاحظہ فرماتے رہتے۔ مجھے یہ بات سن کر افسوس تھا کہ حضورِانور کو ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے ایسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک خوش نصیب ڈرائیور

۲۸؍اکتوبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ ایک اور تاریخی واقعہ رونما ہو،جب حضورِانور نے Ontanioکی Yorkیونیورسٹی میں ایک معرکہ آرا خطاب فرمایا۔ حضورِانور شام چھ بجے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور اس گاڑی سے آگے تشریف لے گئے جس میں آپ بالعموم تشریف رکھتے تھے اور قافلہ کی ایک دوسری گاڑی کی طرف بڑھے جسے کینیڈا کی سیکیورٹی ٹیم کے ایک ممبر منصور احمد باجوہ صاحب چلا رہے تھے۔یہ حضورِانور کی شفقت اور محبت کا ایک اظہار تھا کہ آپ نے قافلہ کے ایک دوسرے ممبر کو غیر متوقع طور پر ایک با برکت موقع نصیب فرمایا کہ وہ خلیفہ وقت کی گاڑی چلائے۔

بعد ازاں خاکسار نے مکرم منصور صاحب سے ان لمحات کے بارے میں گفتگو کی جب وہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودگی میں گاڑی چلا رہے تھے۔ جس لمحہ حضورِانور ان کی گاڑی کی طرف بڑھےاس کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا جب میں نے دیکھا کہ حضورِانور بالعموم جس گاڑی میں تشریف فرما ہوتے ہیں اس سے آگے بڑھے اور میری گاڑی کی سمت میں تشریف لائے۔ جب مجھے اندازہ ہوا تو حضورِانور میری گاڑی میں رونق افروز ہو رہے تھے۔ اس خیال سے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ حضورِانور کی گاڑی چلاؤں مَیں گاڑی سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ حضورِانور کے سیکیورٹی گارڈسخاوت باجوہ صاحب نے مجھے ہاتھ کے اشارے (thumbs up) سے بیٹھے رہنے کا کہا جس کے بعد میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا رہا۔

منصور صاحب نے مزید بتایا کہ جب حضورِانور تشریف فرما ہوئے تو میں نے حضور کو سلام کیا۔ حضور نے مجھ سے پوچھا کہ اس گاڑی کا مالک کون ہے؟ حضورِانور کی آواز ایسی پُرشوکت اور رعب دار تھی کہ مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔میں نے عرض کیا کہ یہ گاڑی ہماری ٹیم کے ایک اور ممبر سعادت صاحب کی ہے۔ پھر مجھے گاڑی چلانے کی ہدایت ملی اور یوں حضورِانور کو Yorkیونیورسٹی لے جانے اور واپس لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

اس شام کے متعلق منصور صاحب نے بتایا کہ میں اس لمحہ کو کبھی نہیں بھلا سکتا جب مجھے اندازہ ہوا کہ حضورِانور میری گاڑی کی طرف تشریف لا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میری زندگی کے جملہ خواب مجسم تعبیر بن گئے ہوں۔ میں حیران و ششدر تھا اور سب سے بڑھ کر ایک عجیب سی خوشی تھی کیونکہ یہ بالکل غیر متوقع سعادت تھی جس کا مجھے نہ تو اندازہ تھا اور نہ ہی مجھے یقین آرہا تھا کہ میں ایک لمبے دورانیے تک حضورِانور سے صرف ایک فٹ کے فاصلے پر بیٹھا رہا۔

موصوف نے مزید بتایا کہ کوئی بھی ان بابرکت لمحات کو مجھ سے الگ نہیں کر سکتا اور وہ میری زندگی کے یادگار لمحات بن چکے ہیں اور انشاءاللہ، میرے بچے اور ان کی اگلی نسلیں دوسروں کو بتائیں گی کہ ان کے والد یا دادا کو ایک مرتبہ یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ حضورِانور کو ایک تاریخی پروگرام میں شمولیت کے لیے اپنی گاڑی میں بٹھا نےکی سعادت ملی۔

آخر پر مَیں نے منصور صاحب سے پوچھا کہ کیا انہیں حضورِانور کے ساتھ بیٹھ کر ڈرائیونگ کرنے میں کوئی مشکل پیش آئی۔ میں صرف سوچ ہی سکتا تھا کہ ایسی صورتحال میں خود میں کس قدر پریشان ہو جاتا۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک رہا کیونکہ ایک دفعہ جب آپ ڈرائیونگ شروع کر دیتے ہیں تو پھر اسی میں مگن ہو جاتے ہیں لیکن ایک موقع پر میں نے کچھ زور سے بریک لگائی تو حضورِانور نے اس کو محسوس کیا اور تبصرہ بھی فرمایا۔ تاہم وہ بھی میرے لیے ایک سعادت ہی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے حضورِانور نے میرے ساتھ دوبارہ گفتگو فرمائی۔

حضورِانور کا ڈاکٹر منیب صاحب کے گھر کا دورہ

پیس ولیج واپسی پر حضورِانور نے نماز مغرب و عشاء کی امامت مسجد بیت الاسلام میں فرمائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے جانے کی بجائے حضورِانور اپنی رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر اپنے ایک عزیز ڈاکٹر منیب صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ ڈاکٹر منیب صاحب ملک سے باہر تھے اس لیے حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ کا ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ امۃالرؤوف صاحبہ جنہیں ہم خالہ روفو کے نام سے جانتے ہیں اور بچوں نے استقبال کیا۔

بعد ازاں خالہ روفو کے بیٹے عزیزم حاشر (عمر ۱۹؍ سال)نے مجھے بتایا کہ اس شام حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ کے ان کے گھر تشریف آوری پر ان کے کیا جذبات تھے۔ عزیزم حاشر نے بتایا کہ جب ہمیں پتا چلا کہ حضورِانور ہمارے گھر تشریف لا رہے ہیں تو اس وقت آپ کی تشریف آوری میں صرف چند گھنٹے باقی تھے۔ ہم سب بے حد خوش تھے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ ہم سب نے بھاگ دوڑ شروع کر دی تھی تاکہ حضورِانور کی آمد سے قبل سب کچھ تیار ہو۔

عزیز م حاشر نے مزید بتایا کہ گھر میں داخل ہونے پر حضورِانور نے گھر کا بغور جائزہ لیا اور تہ خانے میں بھی تشریف لے گئے جہاں میرے بڑے بھائی کا کمرہ ہے۔ میرے بھائی قاصد کے پاس اس کی صفائی کے لیے وقت نہ تھا اور اسے دیکھنے پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعی ایک لڑکے کا کمرہ ہے۔

اس کے بعد حضورِانور لاؤنج میں تشریف فرما ہوئے تو میں بھی قریب ہی بیٹھ گیا۔ لیکن حضورِانور نے مجھے فرمایا کہ تمہاری والدہ اور بہن کچن میں کام کر رہی ہیں اس لیے مجھے جاکر ان کی مدد کرنی چاہیے۔

عزیزم حاشر نے مجھے بتایا کہ چند منٹ کے بعد انہوں نے حضورِانور کی خدمت میں رات کا کھانا پیش کیا اور اللہ کے فضل سے ہمارے دونوں معززمہمانوں نے کھانے کو پسند فرمایا۔ دورے کے دوران حاشر اس ٹیم کا ممبر رہا جس نے قافلہ ممبران کو رات کا کھانا پیش کرنا ہوتا تھا اور یوں کھانے کے دوران انہوں نے حضورِانور کو بتایا کہ بعض قافلہ ممبران بہت زیادہ کھاتے ہیں اور بعض بہت تھوڑا کھاتے ہیں۔ یہ سماعت فرما نے پر حضورِانور نے فرمایا کہ کون کم کھانا کھاتا ہے۔تو حاشر نے میرا نام لیا۔اس پر حضورِانور نے فرمایا تم نے عابد کو تِکے کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر تم دیکھ لو تو تمہیں پتا چل جائے گا کہ بعض اوقات وہ اچھا خاصا بھی کھاتا ہے۔

یہ سننے پر میں خوب محظوظ ہوا۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ ۲۰۱۳ءمیں آسٹریلیا میں عید کے موقع پر مجھے حضورانور کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اس وقت حضورِانور نے میرے لیے ایک پلیٹ بنائی جس میں آپ نے بہت سے چکن تکے اور بیف کباب رکھے اور میرے کھانا ختم کرنے کا انتظار بھی فرمایا۔ اگرچہ آپ خود اور دیگر احباب کئی منٹ قبل کھانا تناول فرما چکے تھے۔

جب میں نے حاشر سے حضورِانور کا یہ تبصرہ سنا تو یقین تو نہیں تھا مگر میرا خیال تھا کہ حضورِانور اس کھانے کی طرف اشارہ فرما رہے تھے۔عزیزم حاشر نے مزید بتایا کہ رات کے کھانے کے بعد حضورِانور نے ہم سے گھروں کے کرایوں کی بابت استفسار فرمایا اورحضورِانور نے فرمایا کہ آپ کے علم میں آیا ہے کہ پیس ولیج میں کرائے بہت زیادہ ہیں یہاں تک کہ تہ خانوں کے لیے بھی لوگوں کو بھاری رقوم دینی پڑتی ہیں۔

واپسی کا پیدل سفر

حضورِانور نے ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت خالہ روفو کے گھر گزارا اور اس دوران مقامی احمدی احباب باہر شدید ٹھنڈ میں انتظار کرتے رہے کیونکہ وہ حضور  انور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔

سینکڑوں احمدی احباب و خواتین حضورِانور کی رہائش گاہ کے باہرمنتظر تھے جبکہ کئی دوسرے احباب خالہ روفو کے گھر کے باہر بھی جمع تھے۔یہ احمدی احباب بلند اور پُرجوش نعرے لگا رہے تھے جبکہ ہر نعرہ پہلے نعرے سے بلند ہوتا تھا۔ وہ بےتاب تھے کہ حضورِانور کو پتا چلے کہ وہ آپ کے لیے باہر منتظر کھڑے تھے اور آپ کو متوجہ کر رہے تھے کہ آپ باہر تشریف لائیں اور ان پر نظرِ کرم فرمائیں۔

حضورِانور خالہ روفو کے گھر کے اندر نعرے سن رہے تھے۔اس لیے بجائے گاڑی میں اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے جانے کے،حضورِانور نے ازراہِ شفقت پیدل واپسی کا سفر اختیار کیا اور احمدی احباب کی طرف ہاتھ ہلا کر ان کے سلام کا جواب دیا جو خوشی اور جذبات سے مغلوب ہو رہے تھے۔

حضورِانور کے ساتھ پیدل واپسی کا یہ سفر نہایت جذباتی ثابت ہوا اور ایک مرتبہ پھر احمدیوں اور ان کے خلیفہ کی باہمی محبت کے اظہار کا باعث بنا۔ یہ پیدل سفر ایک دوسری ہمیشہ یاد رہنے والے پیدل سفر کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا جو ابھی پیش آنا تھا۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button