حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حقیقی عالم اور خشیت اللہ کی پُرمعارف تشریح (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ اگست ۲۰۱۲ء)

جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ(البینۃ: 9)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً وہ لوگ جو اپنے رب کے رعب سے ڈرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔ اور وہ لوگ کہ جو بھی وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ یقیناً اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ ان میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ یہ سورۃالمومنون کی آیات ہیں۔ اگلی آیت سورۃ اَلْبَیّنَۃ کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ ان کی جزا ان کے ربّ کے پاس ہمیشہ کی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ابدالآباد تک ان میں رہنے والے ہوں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف ہے۔

گزشتہ خطبہ میں رمضان کے حوالے سے یہ باتیں ہوئیں تھیں کہ رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے قول اور عمل کی اصلاح ضروری ہے۔ تبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک روزے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے جو روزے رکھے جائیں وہی رمضان کے فیض سے فیضیاب بھی کرواتے ہیں۔ کیونکہ رمضان کے حوالے سے بات ہو رہی تھی اس لئے روزوں کو خشیت کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ اس تعلق کا اظہار کیا گیا تھا ورنہ ہر نیکی جو انسان کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقی نیکی اُس وقت بنتی ہے جب دل میں خشیت بھی ہو۔ اُس وقت مَیں نے کہا تھا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ مَیں خشیت کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بہر حال اب اُس مضمون میں تھوڑا سا مزید اضافہ ہو گیا ہے تو اس کو مَیں آج بیان کروں گا۔ یہ خشیت کا لفظ ہم عموماً استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس کی روح کا پتہ چل جائے توہمارا نیکیاں بجا لانے کا معیار بھی بڑھ جائے۔ اس لئے اس لفظ کے لغوی معنی بھی مَیں آج بیان کرنا چاہوں گا۔

خشیت کے عام معنی خوف کے کئے جاتے ہیں۔ بیشک یہ معنی بھی ٹھیک ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف جس میں ہو پھر یہ خوف اُسے نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا خوف کسی عام خوف اور ڈر کی طرح نہیں ہے۔ اس لئے اہل لغت نے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ مثلاً ایک لغت کہتی ہے کہ خشیت میں ڈر کا لفظ خوف کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ پھر خشیت اور خوف میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خشیت میں اُس ڈر کے معنی پائے جاتے ہیں جو اُس ذات کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس سے ڈرا جائے۔ اور خوف میں اُس ڈر کا مفہوم پایا جاتا ہے جو ڈرنے والے کی اپنی کمزوری پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لغات کے حوالے سے بڑی وضاحت فرمائی ہے۔ (اقرب المواردزیر مادہ ’’خشی‘‘ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 1صفحہ525)

پھر امام راغب اپنی لغت مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ اَلْخَشِیَۃُ اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہو جائے۔ یہ چیز عام طور پر اُس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان عام طور پر ڈرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیۃ کریمہ اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29)۔ اور اللہ تعالیٰ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں خشیت الٰہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا گیا ہے۔ امام راغب کا طریق یہ ہے کہ قرآنی آیات کے حوالے سے الفاظ کے معنی کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں تو اس میں انہوں نے اس آیت کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت سے وہ لوگ بھی ڈرتے ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ مَنۡ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ (سورۃ ق: 34)۔ جو خدا تعالیٰ سے غیب میں ڈرتے ہیں۔ (معجم مفردات الفاظ القر آن لاما م راغبؒ زیر مادہ ’’خشی‘‘)

یعنی یہ غیب کا ڈرنا اُس وقت ہو سکتا ہے جبکہ دل میں ایسا خوف ہو جو معرفتِ الٰہی کا تقاضا ہے۔

پس یہ خشیت کی وضاحت ہے کہ خشیت اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہو اور صرف کسی کی اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ڈر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی خشیت یقیناً ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار بھی ہے اور ایک کمزور بندے کی اپنی کم مائیگی کا اظہار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے؟ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اُس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ہر چیز اُس کی پیدا کردہ ہے اور اُس کے ذریعہ سے قائم ہے۔ اُسی کی ملکیت ہے اور اُس کے چاہنے سے ہی ملتی ہے۔ پس جب ایسے قادر اور مقتدر خدا پر ایمان ہو اور اُس کی خشیت دل میں پیدا ہو تو پھر ہی انسان اُس کی قدرتوں سے حقیقی فیض پا سکتا ہے۔… حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ارشادات میں بہت جگہ پر تذکرۃ الاولیاء کے واقعات بھی بیان فرماتے ہیں، کئی جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک مثال میں اس وقت تذکرۃ الاولیاء کی لیتا ہوں۔ فضیل بن عیاض کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ’ہرات‘ میں کوئی قافلہ آ کر ٹھہرا اور اس میں ایک شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا کہ اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ (الحدید: 17) یعنی کیا اہل ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خوفزدہ ہو جائیں۔ اس آیت کا فضیل کے قلب پر ایسا اثر ہوا جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو اور آپ نے اظہار تأسف کرتے ہوئے کہا کہ یہ غارتگری کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور وقت آ چکا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑیں۔ لکھا ہے کہ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رو پڑے اور اس کے بعد سے ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ پھر ایک ایسے صحرا میں جا نکلے جہاں کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور اہل قافلہ میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اس راستے میں فضیل ڈاکے مارتا ہے۔ لہٰذا ہمیں راستہ تبدیل کر دینا چاہئے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اب قطعاً بے خوف ہو جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے راہزنی سے توبہ کر لی ہے۔ پھر ان تمام لوگوں سے جن کو آپ سے اذیتیں پہنچی تھیں، معافی طلب کر لی۔ پھر یہی ڈاکے ڈالنے والے’رحمۃ اللہ علیہ‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ صفحہ 74-75مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعجاز کہ جب احساس ہو جائے تو ایک لمحے میں ایک عام انسان کو بلکہ بدترین انسان کو بھی جو اُس زمانے میں بدترین کہلاتا ہو، جس کو لوگ پسندنہ کرتے ہوں علماء کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔ جبکہ بڑے بڑے نام نہاد اور جبّہ پوش تکبر میں مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ عام دنیا اُن کو بڑا نیک سمجھ رہی ہوتی ہے لیکن اُن میں خشیت نہیں ہوتی۔ اور جو انسانوں سے تکبر کرنے والے ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں لئے ہوئے نہیں ہوتے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button