حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

زکوٰۃ کی اہمیت و مصارف کابیان

[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناظم صاحب دارالافتاء کو تحریر فرمایا:]

صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارے میں آپ کی طرف سے فقہی مسائل میں دیا جانے والا جواب مجھے کسی نےبھجوایا ہے، جس میں آپ نے سورت التوبہ کی آیات نمبر60سے استدلال کرتے ہوئےاس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ۔

صدقہ کا لفظ قرآن و حدیث میں اسلام کے ایک فرض رکن زکوٰۃ کےلیے بھی استعمال ہوا ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ اللہ کی رضا کی خاطر غرباء و مساکین کی مدد اور اعانت کےلیے دیے جانے والے دیگر صدقات کےلیے بھی یہ لفظ آیا ہے۔اور ہر جگہ کا سیاق و سباق اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اُس جگہ استعمال ہونے والا لفظ اسلامی رکن زکوٰۃ کےلیے آیا ہے یا دیگر صدقات کےلیے استعمال ہوا ہے۔ سورت التوبہ کی مذکورہ آیت میں بیان صدقات سے مراد اموال زکوٰۃ ہیں۔لہٰذا اس آیت سے استدلال کر کے زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے صدقات کی رقم کو مسجد فنڈ میں خرچ کرنے کا فتویٰ درست نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے زکوٰۃ اور دیگر صدقات میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صدقہ کے گوشت کو صرف غرباء کا حق قرار دیا اور انہیں میں تقسیم کی ہدایت فرمائی۔ لیکن لنگرخانہ میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی حالانکہ لنگر خانہ میں عام طور پر مسافروں کے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے اور آپ کے استدلال کے مطابق تو پھر فی سبیل اللہ اور ابن السبیل کے تحت ان کےلیے بھی اس قسم کے صدقہ کے گوشت کی اجازت ہونی چاہیے تھی۔(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۲۵ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۴؍دسمبر ۲۰۲۱)

ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوٰۃ ہے۔ پھر بینک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوٰۃ ہے۔ اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے۔ اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں…اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوٰۃ ادا کیا کریں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍مئی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۱؍جون ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button