متفرق مضامین

سر سید احمد خاں کے آخری ایام کے متعلق ایک چشم دید گواہ کی گواہی

(اواب سعد حیات)

حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام اپنی صداقت کے نشانات کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’۸۹۔نواسی واں نشان۔ میں نے سید احمد خان کی نسبت پیشگوئی کی تھی کہ آخر عمر میں اُن کو کچھ تکالیف پیش آئیں گی اور اُن کی عمر کے دن تھوڑے باقی ہیں اور یہ مضمون اشتہارات میں شائع کردیا تھا چنانچہ اس کے بعد ایک شریر ہندو کے غبن مال کی وجہ سے سید احمد خان کو آخری عمر میں بہت غم اور صدمہ اُٹھانا پڑا اور بعد اس کے تھوڑے دن تک ہی زندہ رہے اور اِسی غم اور صدمہ سے اُن کا انتقال ہو گیا۔‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۸)

برصغیر کے مشہور مسلم لیڈر سرسید احمد خان صاحب کی وفات ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو ہوئی اور آپ نے ۸۰؍ سال سے زیادہ عمر پائی۔آپ کو زندگی کے آخری ایام میں بعض سخت صدمات برداشت کر نے پڑے جب علی گڑھ میں آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ کے خزانچی نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ غبن کرلیا اور سرسید کے بیٹے سید محمود کی کثرتِ شراب نوشی نے جو حالات پیدا کر دیے وہ اس پر مستزاد تھے۔جب ان کی وفات ہوئی تو تجہیز وتکفین کے اخراجات کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔

جیسا کہ مشہورہے کہ سرسید احمد خان ایک پولیٹکل مصالح شناس شخصیت اور اپنے زمانے کا ایک اہم اور معروف نام تھے۔ ان کے آخری ایام کے بارےمیں ڈاکٹر شیخ محمد عبداللہ المعروف پاپا میاں کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’مشاہدات  و    تاثرات‘‘ میں کچھ بنیادی معلومات ملتی ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین اطہر صدیقی (علی گڑھ ) نے کی ہے جبکہ اس کو کتابی شکل میں لانے کا اہتمام و پیشکش راشد اشرف کی ہے۔

ڈاکٹر شیخ محمد عبداللہ صاحب اور سر سید احمد خان کے باہمی رابطے اور تعلق کا بھی کچھ ذکر ہوجائے تا اس قریبی شخص کی روایت اور بیان کی اہمیت مزید اجاگر ہوسکے۔

کتاب کے مرتب کرنے والے پروفیسر اطہر صدیقی لکھتے ہیں:’’کشمیر کی ریاست سے دو نابغہ روز گار شخصیتیں ہندوستان کے مطلع پر روشن ستاروں کی طرح جگمگائیں۔ دونوں کا نام شیخ محمد عبداللہ تھا لیکن ایک ماہرتعلیم نسواں تھے اور عرف عام میں پاپامیاں کہلاتے تھے۔ دوسرے کشمیر کی سیاست کے روح رواں تھے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ لوگ پرانے لوگوں کو بھولتے جارہے ہیں اوراکثر نام کی مماثلت کی وجہ سے ایک کو دوسرے سے کنفیوز کرتے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو وقت کے گزرنے کے ساتھ یاد نہیں رکھتے۔لڑکوں کی تعلیم کے سلسلے میں سرسید نے جو کچھ بھی کیا وہ کبھی نہ بھلائی جانے والی حقیقت ہے لیکن لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں اس وقت کے اعتبار سے شیخ محمد عبداللہ (پیدائش:۱۸۷۴ءاوروفات:۱۹۶۵ء) نے بانی تعلیم نسواں کی حیثیت سے یکہ و تنہا جو کارنامہ انجام دیا، وہ سرسید کے کارنامے سے کسی طرح کم نہیں۔ شیخ صاحب کی زیر نظر کتاب ’’مشاہدات و تاثرات ‘‘ایک بہت اہم تصنیف اس نقطۂ نظر سے بھی ہے کہ شیخ صاحب سترہ سال کی عمر میں علی گڑھ تشریف لائے تھے۔ سرسیداحمد خاں اس وقت حیات تھے اور اگلے دس برس انھوں نے سرسید کے سایہ عاطفت میں گزارے۔ وہ غالباً اپنے زمانے کے آخری شخص تھے جنہوں نے سرسید کو دیکھا تھا اور ان سے بالمشافہ ملاقاتوں اور تعلقات کا اپنی اس کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔‘‘

سر سید احمد خان کے آخری ایام کے ذکر سے قبل شیخ  محمدعبداللہ کا کچھ مزید تعارف ہوجائے۔ مکتوبات احمد کی جلد دوم میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے خط وکتابت کے اندر ایک ہندو لڑکے کا ذکر آتا ہے۔ جیسا کہ ۵؍اگست ۱۸۸۷ء کے اپنے ایک خط میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’برہمن لڑکا جس کا آپ نے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے اس کے لئے بھی انشاء اللہ القدیر، میں دعا کروں گا۔ اگر کچھ حصہ سعادت اس کے شامل حال ہے تو آخر وہ رجوع کرے گا اور اگر اس گروہ میں نہیں تو پھر کچھ چارہ نہیں۔‘‘

اس خط کے بعد مکتوبات احمد کو مرتب کرنے والے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کا ایک نوٹ ہے:’’ یہ ہندولڑ کا جس کا ذکر حضرت کے خطوط میں آ تا ہے۔ شیخ محمد عبد اللہ صاحب وکیل علی گڑھ ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی خدمت میں وہ رہتے تھے اور کشمیر سٹیٹ کے بعض بڑے بڑے ہندو عہدہ  دار اس کی مخالفت میں منصو بے کر رہے تھے کہ مولوی صاحب کے پاس سے اس لڑکے کو نکالا جاوے۔مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک موقعہ اس لڑکے کے مسلمان ہونے کے بعد اس پر ارتداد کا بھی آ یا اور قریب تھا کہ وہ مرتد ہو جاوے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اسے بچایا اور اب وہ علی گڑھ کے ایک کامیاب وکیل اور تحریک علی گڑھ کے پر جوش مؤید ہیں اور کارکنوں میں سے ہیں۔ خصوصیت سے تعلیم نسواں کے متعلق انہوں نے نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔‘‘(مکتوبات احمد، جلد دوم۔ صفحہ ۴۴۔۴۵)

شیخ محمد عبداللہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلاً صفحہ ۱۹ پر ’’سب سے اول سرسید کی زیارت ‘‘کے عنوان کے تحت لکھا:’’۱۸۸۸ء کی کرسمس کی تعطیلات میں جبکہ میں گورنمنٹ ہائی اسکول لاہور میں ساتو یں جماعت کا طالب علم تھا اور میری عمر قریب پندرہ سال کی تھی جب میں نے سرسید کو سب سے اول دیکھا تھا۔ اس سال محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ لاہور میں ہوا تھا اور اپنے مخدوم استاد حکیم مولانا نورالدین مرحوم کے ہمراہ میں کانفرنس کے جلسے میں گیا تھا۔ میں نے اس سے قبل اس قسم کے جلسے نہیں دیکھے تھے… محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ خاص مسلمانوں کا جلسہ تھا اور سرسید کی فصاحت و بلاغت کی تعریف ہمارے استاد کیا کرتے تھے۔اس لیے میں کوشش کر کے مولانا نورالدین مرحوم کی وساطت سے اس جلسے میں شریک ہوا۔ میرے جانے کے بعد جلسہ شروع ہوا۔ سرسید جہاں بیٹھے تھے ان کے تھوڑی دور پر میری کرسی تھی۔ میں نے سرسید کو اس وقت اچھی طرح دیکھا…‘‘

کتاب کے صفحہ ۲۲۔پر مئی ۱۸۹۱ء میں بسلسلہ تعلیم اپنے لاہور سے علی گڑھ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’…دوسرے یا تیسرے دن میں کچھ معززین کے خطوط جو لاہور سے اپنے ساتھ سر سید علیہ الرحمة کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لایا تھا وہ لے کر کوٹھی پر گیا اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کا ایک پیغام تھا ان کی خدمت میں پہنچایا۔ سر سید علیہ الرحمة نے نہایت شفقت اور مہربانی سے فرمایا کبھی کبھی ہم سے آکر مل جایا کرو…سر سید کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتا تھا اور جتنی مرتبہ حاضری کا شرف حاصل کیا اتنی ہی مرتبہ کوئی نہ کوئی ایسی بات حاصل کی کہ جس کا اثر میری زندگی پر بہت اچھا پڑا…‘‘

کتا ب کے صفحہ ۳۰ پر ’’سر سید کا معمول زندگی‘‘ کا عنوان ہے، ا س کے ماتحت شیخ عبداللہ بتاتےہیں:

’’ سرسید کا معمول زندگی‘‘

’’ سرسید صبح چار بجے اٹھ جاتے تھے اور ان کے پلنگ کے پاس جو میز رکھی رہتی تھی اس پر ایک موم بتی جلا کر رکھ دیتے تھے اور اس کی روشنی میں کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے یا مضامین لکھا کرتے تھے۔ جاڑوں میں دوگھنٹہ اس شغل میں صرف کرتے تھے۔اس کے بعد اٹھ کر غسل خانہ جایا کرتے تھے اور ضروریات سے فراغت پانے کے بعد چائے نوش فرماتے تھے اور پھر ایک بڑی میز کے پاس بیٹھ جاتے تھے جہاں گدے لگے ہوئے تھے۔اس پر بیٹھ کر تصنیف کا کام شروع کر دیتے تھے۔اس دوران میں ڈاک آ جایا کرتی تھی تو سب کام چھوڑ کر ڈاک کی طرف توجہ کر تے تھے اور انگریزی خواں بابو کو گورنمنٹ یا افسران گورنمنٹ کے نام خطوط لکھنے کی ہدایت فرماتے تھے۔اور(صفحہ ۳۱)گورنمنٹ کے پاس انگریزی میں جو خطوط بھیجے جاتے تھے وہ کسی انگریز پر وفیسر کو اور بالخصوص مسٹربیک پرنسپل کالج کوضرور دکھائے جاتے تھے اور بعض خط و کتابت جو بہت اہم ہوتی تھی اس کا مسودہ مسٹر بیک سے ہی بنواتے تھے۔ روپیہ جو آتا تھا تو بابوشیام بہاری لال سکریٹری کی معرفت بینک آف بنگال شاخ آگرہ میں جمع کروانے کو بھجواتے تھے۔ بینک آف بنگال تو ختم ہو گیا اور اس کی جگہ امپیریل بینک آف انڈیا کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا کر دیا ہے۔

انگریزی داں اور دو کایستھ ملازم تھے جو معمولی انگریزی کا کام کیا کرتے تھے۔ بورڈ نگ ہاؤس کی فیس وصول کر نے کا انتظام اچھا نہیں تھا۔ بورڈ نگ ہاؤس کی فیس سرسید کے ہاتھ میں نہیں آتی تھی اور نہ اس زمانے میں کوئی ٹریزرمقررتھا۔ بورڈ نگ ہاؤس کی فیس سعید احمد ساکن کاندھلہ ضلع مظفر نگر وصول کرتے تھے۔ وہ مولویوں کے خاندان کے لوگ مولوی اکبر وغیر ہ کے دوستوں میں سے تھے۔اس لیے منشی سعید احمد ایک معتبر آدمی سمجھے جاتے تھے اور بورڈنگ ہاؤس کا کل رو پیہ ان ہی کے ہاتھ میں آتا تھا۔ طالب علموں کا حساب وہی کرتے تھے۔

میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ نہ وہ لائق تھے اور نہ وہ معتبر تھے۔ان کے زمانہ میں حسابات میں بہت گڑ بڑ رہتی تھی۔ان کے پاس کوئی با قاعدہ حساب کا رجسٹر یا کھاتہ نہیں تھا۔ سادہ کاغذوں کی ایک جلد بنارکھی تھی اور جب کوئی طالب علم روپیہ لے کر آتا تھا تو جہاں کہیں خالی جگہ یا خالی صفحہ ملا اس پر لکھ دیا اور یاد نہ رہا تو پھر دوبارہ مانگا۔ جب کہا گیا کہ آپ نے لے لیا تھا اور درج بھی کر لیا تھا تو وہ اپنی کتاب کھول کر ڈھونڈنے بیٹھ جاتے تھے اور بعض وقت دو دو گھنٹہ صرف کر کے ایک اندراج کہیں ملتا تھا۔ رسید کسی کو نہیں دیتے تھے۔ بعض طالب علم شکایت کرتے رہ جاتے تھے کہ ہم نے تو روپیہ دے دیا اورمنشی سعید احمد نے نہ اس کا اندراج کہیں کیا اور نہ وہ اب تسلیم کرتے ہیں کہ روپیہ ہم نے لیا ہے۔ لیکن ایسے واقعات کم ہوتے تھے۔ زیادہ تر اندراج ڈھونڈنے سے مل جاتے تھے اور بعض طالب علم منشی سعید احمد پر تہمت بھی لگایا کرتے تھے کہ منشی سعید احمد روپیہ لے لیتا ہے اور کھا جا تا ہے۔ میرے خیال میں طالب علموں کو اس بات کی جرأت اس سے ہوتی تھی کہ منشی  سعید احمد کا حساب ٹھیک نہیں تھا اس لیے ان کو موقع مل جاتا تھا کہ وہ منشی سعید احمد پر الزام لگائیں۔

با بوشیام بہاری لال کے تغلب کا واقعہ

سرسید کے پاس علاوہ بابوشیام بہاری لال کے جنہوں نے بہت بڑا تغلب کیا دو اور کایستھ کلرکی کا کام کرتے تھے۔ بابوشیام بہاری لال نے ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ سرسید کے جعلی دستخط بنا بنا کر بینک سے وصول کیے۔ شیام بہاری لال نے سرسید کے دستخط کی نقل کر نے میں اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ خود سرسید کو بعض وقت دھوکا ہوتا تھا کہ آیا یہ میرے اصلی دستخط ہیں یا کسی نے نقل کی ہے۔ بابوشیام بہاری لال علی گڑھ کے رہنے والے تھے اور بڑے خر اچ اور عیاش آدمی تھے۔ سرسید پر یہ رعب جمارکھا تھا کہ وہ گھر کے بڑے رئیس ہیں کیونکہ ان کے بعض رشتہ داروں کے پاس زمینداریاں تھیں اور مکانات تھے۔ بابوشیام بہاری لال انگریزی میں چیک لکھ کر سرسید کے دستخط کرا کے بینک میں پیش کرتے تھے اور روپیہ وصول کرتے تھے جو کالج کے خرچ میں آتا تھالیکن علاوہ معمولی ماہانہ خرچ کے وہ جعلی چیک بنا بنا کر بھی روپیہ وصول کرتے تھے۔ سرسید نے کالج کے کچھ روپے سے گورنمنٹ کے پرامیسری نوٹ خرید کر بنک میں امانت رکھ دیے تھے اور بنک ہی ان کا سود وصول کرتا تھا۔ شیام بہاری لال نے امانت کا روپیہ جو نقدی کی صورت میں بینک میں تھا وہ وصول کیا اور علاوہ اس کے کالج کے کیپٹل فنڈ کے پرامیسری نوٹ جو بنک کی سپردگی میں تھے ان کے بارے میں یہ کارروائی کی کہ ٹرسٹیوں کی طرف سے ایک جلسے کی کاروائی جعلی بنا کر اس میں بینک کو لکھوایا کہ کیپٹل فنڈ کی ضمانت پر کالج کی ضرورتوں کے لیے روپیہ دیا جائے۔ چنانچہ اس طریقہ سے نقدی کے پرامیسری نوٹوں کی کفالت پر بہت سارو پیہ بینک سے نکال لیا اور یہ کل رو پیہ اس نے عیاشی میں صرف کیا۔ سرسید کو آخر تک مطلق خبر نہ ہوئی کہ ان کا معتمد سکریٹری یہی جعل کھیل رہا ہے۔ چنانچہ ۱۸۹۳ء میں شیام بہاری لال پر فالج گرا۔ لوگوں کو شبہ ہواکہ اس شخص نے فالج گرنے سے قبل کالج کارو پیہ خردبرد کر لیا۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ سرسید کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو ان کو یقین نہیں آیا اور اپنی فٹن میں بیٹھ کر شیام بہاری لال کے مکان پر پہنچے اور اس کوتسلی دی کہ تم بیمار ہوتم کو سن کر صدمہ ہوگا کہ لوگ کہتے ہیں تم نے کالج کارو پیہ غبن کیا ہے لیکن مجھے یقین نہیں آیا اور میں تم کو یقین دلانے آیا ہوں کہ جب تک تم تندرست نہ ہو جاؤ کوئی تحقیقات نہیں ہوگی۔ مجھے تم پر اب بھی ایسا ہی اعتماد ہے جیسا کہ پہلے تھا۔

(صفحہ ۳۳)شیام بہاری لال نے روروکر اور گڑ گڑا کر سرسید کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ سرکار کا نمک خوار ہوں مجھ پر اگر سرکار کا اعتماد ہے تو مجھے امید ہے کہ میری کوئی خطا ثابت نہ ہوگی اور سرکار کا اعتماد بدستور قائم رہے گا۔ سرسید واپس چلے آئے لیکن لوگوں نے کہا کہ تحقیقات کیجیے یا نہ کیجیے لیکن دیکھیے تو سہی کہ کیا حال ہے۔ اس روز نامچے،ڈاک بہی، چیک بک کے مثنے نکلوا کر دیکھے گئے تو شیام بہاری لال کی بد دیانتیوں کا راز پورے طور پر کھل گیا۔ بینک سے خط و کتابت کر کے حالات دریافت کر نے پر یقین ہو گیا کہ واقعی شیام  لال نے بہت سا روپیہ غبن کر لیا ہے۔سرسید مجبور ہوئے تو خود کچہری میں جا کر جوائنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں شیام  بہاری لال کے خلاف استغاثہ دائر کیا۔ شیام بہاری لال گرفتار ہو کر عدالت میں آئے۔ بیمار تھے لیکن ہوش وحواس بالکل درست تھے۔ حوالات میں دیدیے گئے۔مقدمہ کی چند پیشیاں بھی ہوئیں۔سرسید کے اظہار بھی قلم بند ہوئے۔ مسٹر بیک پر نسپل کالج بطور ماہر فن تحریر سرسید کے دستخط شناخت کرنے کے لیے پیش ہوئے۔انہوں نے جعلی اور اصلی دستخطوں کے شناخت کر نے میں بہت سا وقت دیا چونکہ جعلی دستخطوں اور اصلی دستخطوں میں تمیز کرنا نہایت دشوار معلوم ہوتا تھا۔لیکن آخر جعلی چیز جعلی ہوتی ہے۔مسٹر بیک نے جعلی دستخطوں کے چیک الگ الگ کر کے دکھائے۔ابھی مقدمہ چل ہی رہا تھا کہ شیام بہاری لال کا حوالات ہی میں انتقال ہو گیا۔لوگ کہتے تھے کہ اس نے کچھ کھا لیا ہے۔ بعض سرسید کے مخالفین نے یہاں تک گل افشانیاں کیں اور کہنا شروع کیا کہ شیام بہاری لال کا تو نام بدنام ہے،سرسید نے خود روپیہ وصول کر لیا ہے اور شیام بہاری لال کا نام لگا دیا ہے۔ایسے لوگ صرف دو تین ہی تھے۔ باقی لوگوں نے ان کے بیان کو کچھ وقعت نہیں دی اور ان کو جھوٹا سمجھا۔سرسید نے خود خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی زندگی میں شیام بہاری لال کے غبن کا راز کھل گیا ورنہ ان کے بعد ان کے مخالفین ان ہی پر الزام لگاتے کہ انہوں نے ہی رو پیہ خرد بردکر لیا ہے۔ سرسید مرحوم کو اس تغلب کا بہت رنج تھا۔ اور اس وقت لوگوں کو خیال یہ تھا کہ اس صدمہ نے ان کی زندگی میں بہت کمی کر دی اور اگر یہ نہ ہوتا تو دو چار سال تک اور زندہ رہتے۔

شیام بہاری لال کے مذکورہ بالا واقعہ کے بعد کالج کے حسابات کا مسٹر بیک پر نسپل اور ٹرسٹیوں نے علیحدہ انتظام کر دیا۔ مسٹر بیک خزانچی قرار پائے۔حسابات ڈبل اینٹری کے طریق پر(صفحہ ۳۴)رکھنے کا انتظام ہوا۔ ایک بنگالی بابو جو گورنمنٹ کے حسابات کے محکمہ میں ملازم رہ چکے تھے اور اب پنشن یافتہ تھے، ان کو ملازم رکھا گیا۔ سید عبد الباقی صاحب جو ہائی اسکول میں ماسٹر تھے ان کو بنگالی بابو کی ماتحتی میں واسطے ترتیب حساب کے رکھ دیا گیا اور خدا کا شکر ہے اس کے بعد سے کالج اور یونیورسٹی کے روپے میں ایک پیسے کا تغلب اور تصرف نہیں ہوا۔ ٹرسٹیوں نے ٹھوکر کھا کر حسابات کے معاملہ کوصحیح راستے پر ڈال دیا اور اس وقت تک اس راستے اور اسی انتظام سے حسابات اور رو پیہ کی حفاظت کا کام چل رہا ہے۔‘‘

سرسید کی اولاد

متفرق امور کے تذکرہ کے بعد مصنف نے کتاب کے صفحہ ۷۲ پر ’’سرسید کی اولاد‘‘ کے عنوان کے تحت درج ذیل معلومات درج کی ہیں:’’سرسید کے دو بیٹے تھے۔ایک کا نام سید حامد تھا اور دوسرے کا نام سید محمود تھا۔ جب سرسید کی عمر پینتالیس سال کی ہوئی تو ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ایک مرتبہ انھوں نے خود ہی اس کا ذکر فرمایا تھا۔ سرسید کے دونوں بیٹوں میں سے سید حامد بڑے تھےاور سید محمود چھوٹے تھے۔ پولیس میں ملازم تھے اور میری علی گڑھ کی طالب علمی کی ابتدا میں وہ حیات تھے اور پولیس میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ سیدمحمود نے ولایت میں جا کر تعلیم حاصل کی تھی۔ وہاں سے بیرسٹری پاس کرکے آئے تھے۔ اپنے فن میں یعنی قانون دانی میں اپنے زمانے کے لوگوں میں نہایت ممتاز تھے۔ اول ڈسٹرکٹ کی بھی ملازمت کی اور پھر ہائی کورٹ الہ آباد کے جج ہو گئے۔ ہائی کورٹ کی ججی نو دس سال کی اور پھر سر جان ایچ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے اختلاف کی وجہ سے بھی استعفا دے دیا۔ میرے علی گڑھ میں آنے کے قریب تین سال بعد وہ علی گڑھ آ گئے اور سرسید کے ساتھ رہنے لگے اور کانفرنس و کالج کے کاموں میں سرسید کا بھی ہاتھ بٹانے لگے۔ جب میں نے اول ہی اول ان کو دیکھا اس وقت ان کی جسمانی حالت جس کا اثر ان کے دماغ پر بھی تھا قابل اطمینان نہیں رہی تھی۔ رفتہ رفتہ حالت خراب ہوتی گئی یہاں تک کہ سرسید میں اور ان میں نقیض شروع ہو گیا۔ اختلاف کی وجہ سرسید کی ایمان داری اور سید محمود کی دماغی خرابی تھی۔سید محمود یہ چاہتے تھے کہ کالج کا کل مالی انتظام ان کے سپرد کر دیا جائے اور کالج کی آمد نی وخرچ کی ذمہ داری ان پر چھوڑ دی جائے۔سرسید اس پر کسی طرح بھی رضا مند نہیں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ سید محمود کا اس معاملے میں اختلاف جنون کی حد تک پہنچ گیا اور ۱۸۹۷ء کے آخیر اور ۱۸۹۸ء کے شروع میں سرسید میں اور سید محمود میں اس قدر زبردست تنازعہ اور اختلاف پیدا ہوا کہ سید محمود نے سرسید سے یہ کہہ دیا کہ کوٹھی جس میں آپ رہتے ہیں میری ہے آپ اپنے رہنے کا انتظام کسی دوسری جگہ کر لیجیے۔

میں ۱۸۹۷ء میں ایم اے اوکالج کے احاطے میں ایک بنگلیا میں رہتا تھا جو یونین(صفحہ ۷۳) کلب کے کچھ فاصلے پر واقع تھی۔ یونین کلب سے بہت قریب ایک اور بنگلیا بھی تھی جس میں اعلیٰ جماعتوں کے کچھ طلباء رہتے تھے۔ ایک روز جب کام ختم ہونے کے بعد میں اپنے مکان پر آیا تو ملازم سے معلوم ہوا کہ سر سید اپنا کچھ سامان لے کر اس بنگلیا میں آگئے ہیں جو یونین کلب کے قریب واقع تھی۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا کہ سرسید بنگلیا کے برآمدے میں تشریف رکھتے ہیں اور سید راس مسعود سامنے کے میدان میں کھیل رہے ہیں۔ میں چائے پینے کے بعد فوراً سرسید کی خدمت میں حاضر ہوا اور سرسید کی کرسیاں وسامان وغیرہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور حیرت کی وجہ یہ بھی تھی کہ ناصر خاں جو عمارت کا کام کیا کرتے تھے وہ بنگلیا کے چاروں طرف مزدوروں سے صفائی کرارہے تھے اور سرسید کا کچھ سامان مزدور سر پر اٹھائے لا رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ آج سرسید سے اور سید محمود سے کوئی ایسا جھگڑا پیش آیا ہے جو سرسید کی برداشت سے باہر ہوگا۔ اس وجہ سے وہ اپنی مسکونہ کوٹھی چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں۔ میں نے سرسید سے کچھ نہیں پوچھا بلکہ کھڑا دیکھتا رہا۔ سرسید نے مسکرا کر فرمایا کہ حیرت اور پریشانی کی کیا بات ہے۔ تم اب بورڈ نگ ہاؤس چھوڑ نے کو آمادہ بیٹھے ہو۔ چند ماہ میں یہاں سے رخصت ہو جاؤ گے۔ میں نے سمجھا کہ میں بورڈنگ میں آ کر تمھارے بجائے کسی مکان پر قبضہ کرلوں اور بورڈر بن جاؤں۔ مجھے رنج تو انتہا درجہ کا ہوالیکن میں نے زبان سے کچھ نہیں کہا اور ناصر خاں کو میں نے بنگلیا کے ایک طرف کچھ کوڑا پڑا ہوا تھا اس کے اٹھانے کی ہدایت کی اور تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد مزید حالات دریافت کر نے کے لیے وہاں سے چلا آیا۔

حالات جو مجھے معلوم ہوئے وہ یہ تھے کہ سید محمود جو ایک عرصے سے اس بات پر مُصر تھے کہ کالج کی آمدنی اور خرچ کی ذمہ داری ان کے سپر دکر دی جائے اور سرسید اس کام میں دخل نہ دیں۔اس کی نوبت آخر یہاں تک پہنچی کہ سید محمود نے سرسید سے نہایت سختی سے کہا کہ میری کوٹھی چھوڑ دیجیے اور کسی دوسری جگہ اپنا ٹھکانہ کیجیے۔ یہ بات سن کر سرسید نے ناصر خاں کوحکم دیا کہ میرا اور راس مسعود کا ضروری سامان پلنگ وغیرہ اس بنگلیا میں پہنچا دو جو یونین کلب کے قریب واقع ہے اور راس مسعود کو اپنے ہمراہ لے کرفٹن میں بیٹھ کر اس وقت کالج کے احاطے میں چلے آئے۔ شام ہونے سے پہلے ٹرسٹیوں میں سے چند معززین سرسید سے آ کر ملے جن میں مرزاعابد علی بیگ، نواب محمد اسماعیل خاں شروانی اور سید محمد احمد برادرزاده سرسید کے نام مجھ کو یاد ہیں۔(صفحہ۷۳) ان لوگوں نے اس وقت سے سیدمحموداور سرسید میں صلح وصفائی کی گفتگو شروع کر دی۔لیکن دونوں میں سے ایک بھی اپنی بات سے نہیں ہٹتا تھا۔ سرسید کسی طور پر سید محمود کے ہاتھ میں کالج کا مالی انتظام دینا نہیں چاہتے تھے اور سید محمودسخت مصر تھے کہ کالج کی آمدنی اور خرچ کا کام مجھ پر چھوڑ کر سر سید الگ ہو جائیں۔سرسید اس بنگلیا میں فقط چند روز رہے اور پھر ٹرسٹیوں کے درمیان میں پڑنے سے سنا کہ سید محمود نے اپنی ضد چھوڑ دی کہ کالج کا روپیہ ان کے سپر د کیا جائے اور سرسید نے بھی احباب کے کہنے سے اپنی سکونت کی کوٹھی میں واپس جانا ہی مناسب سمجھا۔اس لیے سید راس مسعود کواپنے ہمراہ لے کر اسی طور پر واپس چلے گئے جیسے کہ آئے تھے۔‘‘

کتاب کے صفحہ ۷۴ پر ’’سرسید سے مولوی سمیع اللہ خاں کا اختلاف‘‘ کا احوال لکھنے سے قبل بتایا کہ ’’متذکرہ بالا واقعات کا کسی دوسری جگہ ذکر دیکھنے میں نہیں آیا۔مولا نا حالی نے حیات جاوید میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ سرسید کی زندگی میں واقعات کے تذکرے میں اس طرف اشارہ کیا ہے اور اس کی وجہ تھی کہ سرسید اور سیدمحمود اور سید راس مسعود کی زندگی میں انہوں نے اس واقعہ کی تفصیل بعد کی نسلوں کے لیے چھوڑ نا مناسب نہ بھی ہوگی۔لیکن مجھ کو اس واقعہ کا قلم بند کرنا نہایت مناسب معلوم ہوا۔ جو لوگ سرسید کی زندگی کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کے لیے یہ واقعہ نہایت اہم ہے۔ حیات جاوید اور دیگر تحریروں سے یہ بات سب کو معلوم ہے اور ہو جاوے گی کہ ان اختلافات سے قریب بارہ سال قبل جب سرسید نے کالج کے ٹرسٹیوں کی جماعت قائم کی اوراس میں آپ کو لائف آنریری سکریٹری اور سیدمحمود کو جوائنٹ سیکرٹری مقرر کیا اور یہ بھی شرط کی کہ ان کے بعد سید محمودان کی بجائے لائف آنریری سکریٹری ہوں گے تو اس قانون اور ان شرائط کی ایک فریق نے سخت مخالفت کی اور جس فریق کے سرغنہ جناب مولوی سمیع اللہ خاں صاحب سی ایم جی تھے۔ ان کو سرسید سے تو اتنی مخالفت نہیں تھی لیکن سید محموداوران میں عرصے سے ناخوشگوار تعلقات چلے آتے تھے اس وجہ سے وہ نہیں چاہتے تھے کہ سید محمود جوائنٹ سیکریٹری ہوں اور سرسید کے بعد بلاکسی انتخاب کے وہ سرسید کی جگہ سکریٹری بن جائیں۔ (صفحہ ۷۴)

مزید تفصیلات درج کرنے کے بعد صفحہ ۷۶ پر لکھا کہ ’’اس موقع پر اس امر کا ذکر کرنا ضروری تھا کہ مولوی سمیع اللہ خاں صاحب اور سرسید میں جو اختلاف تھا، اس کے وجوہات کیا تھے۔ سرسید اور سید محمود کے مابین جو اختلافات پیدا ہو گئے تھے وہ سید محمود کی کمزوری دماغ کی وجہ سے ہوا تھا جو اس علت کی وجہ سے ان کو لاحق ہوگئی تھی جس علت کی ممانعت مذہب میں آئی ہے اور جولوگ اس علت کو اپنے گلے لگا لیتے ہیں ان کو دنیا میں آخر کار سخت پریشانی اور نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ سیدمحمودکوشراب پینے کی عادت ججی کے زمانے میں پڑگئی تھی۔ (صفحہ ۷۷) اب جوں جوں ان کی عمر بڑھتی گئی اس عادت میں بھی زیادتی ہوتی گئی۔ چنانچہ اب میں نے ان کو دیکھا ہے تو اس وقت ان کی دماغی حالت میں کمزوری آگئی تھی۔ اب ان کا اصرار کہ کالج کارو پیہ میرے ہاتھ میں آئے بھی ان کے دماغی ضعف کا باعث تھا۔ سرسیداپنی آنکھ کے سامنے دیکھتے تھے کہ چھ سور و پیہ ماہوار جوپنشن کا سیدمحمود کا مقر رتھا وہ ان کے ہاتھ میں آتے ہی ختم ہو جا تا ہے اور روپے کی ہر وقت ضرورت اور پریشانی رہتی ہے پھر ان حالات کے دیکھنے کے بعد سرسید اگر ایک معمولی آدمی ہوتے تو وہ اپنے بیٹے سے اس روپے کے معاملے میں اس قدرسخت اختلاف پیدانہ کرتے لیکن ان کی شخصیت اور ایمانداری اور اصولوں کی پتلی ایسی نہیں تھی کہ وہ اس قسم کی کمزوری دکھاتے کہ سید محمود کے کہنے سے کالج کار وپیہ ان کوسونپ دیتے۔

سرسید اور سید محمود کا اختلاف کا واقعہ سرسید کی سوانح کا ایک لازمی جز ومعلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کے اخلاق کی برتری اور ان کے اصولوں کی عظمت کا سکہ دل پر بیٹھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس محمود کے لیے ان کے اور ان کے دوستوں کے درمیان ایک وقت میں سخت اختلافات ہو گئے تھے، اس محمود کی حالت میں جب تغیر پیدا ہوا تو سرسید نے اس کی خواہش کا مطلق کچھ لحاظ نہیں کیا۔ سرسید کا سید محمود کی کوٹھی سے نکل کر کالج کے احاطے میں چند روز کے لیے چلے آنا سر سید اور سید محمود کے درمیان انتہائی کشیدگی کا ثبوت تھا اور سرسید کے واپس چلے جانے کے بعد سے قیاس ہوتا تھا کہ وہ کشیدگی رفع ہوگئی لیکن فی الواقع وہ کشیدگی رفع نہیں ہوئی تھی۔ اب ہم سرسید کے درمیانی حالات پر روشنی ڈالنے کے بعد اس موضوع کی طرف پھر توجہ کر یں گے اور سرسید کی زندگی کے آخری دنوں کے مناظر ناظرین کے سامنے پیش کر یں گے۔‘‘

کتاب کے صفحہ ۹۴ پر ’’سر سید کے آخری دن‘‘ کا عنوان بنا کر لکھا: ’’میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ ۱۸۹۷ء میں سرسید اور سید محمود میں کالج کی مالی حالت کے متعلق ایک سخت نزاع پیدا ہوا۔ سرسید مالی انتظام سید محمود کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے اور سید محمود جن کی دماغی حالت دگرگوں ہو چکی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ کُل رو پیہ ان کے ہاتھ میں آئے اور جس طور پر میں چاہوں خرچ کروں۔ یہ کہنا خلاف واقعہ اور انصاف کے خلاف ہوگا کہ باوجود اپنی حالت کی پستی کے سید محمود کی نیت میں کبھی یہ آیا ہوگا کہ میں کالج کا رو پیہ اپنے ہاتھ میں لے کر جس طرح چاہوں اپنی ذات پر خرچ کروں اور خردبُردکر دوں۔ میں اس الزام سے ان کو بالکل بری کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں سرسید کی دُوراندیشی، ایمان داری اور بےلوث زندگی سے اس بات کوقطعی بعید سمجھتا ہوں کہ وہ سید محمود کی اس زمانے کی حالت کے لحاظ سے ٹرسٹ کا روپیہ سید محمود کے سپردکر دیتے۔

گواحباب کے کہنے کی وجہ سے سرسید بورڈنگ ہاؤس سے پھر لوٹ کر سید محمود کی کوٹھی میں چلے گئے تھے جیسا کہ اس سے قبل بیان ہوا ہے لیکن دونوں میں جو باہمی نزاع تھا وہ بدستورقائم رہا اور دن رات کچھ نہ کچھ چھیڑچھاڑ رہتی تھی۔ایک مرتبہ مولا ناشبلی مرحوم نے بیان فرمایا کہ سید محمود نے غصے میں آ کر ایک گھونسا اس کرسی پر مارا جہاں سرسید بیٹھے تھے اور زبان سے کہا کہ پیر فانی اب تک بھی تمہاری حرص حکومت کرنے کی اور روپیہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی باقی رہ گئی ہے۔ میں نے اس واقعہ کی کچھ تحقیقات نہیں کی تھی کیونکہ مولاناشبلی مرحوم نے یہ واقعہ اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو اس میں سید محمود کی نہایت بے جا حرکت تھی۔ لیکن اس زمانے میں سید محمود کی وہ حالت تھی کہ ہم اس واقعہ کو بعید از قیاس بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں سید محموداور سرسید میں بے لطفی حد کو پہنچ چکی تھی۔لیکن سرسید کے دل میں جو قوم کا دردتھا اس کی آگ باوجود اپنی نجی زندگی کی بے لطفی کے کسی طرح کم نہیں ہوئی تھی۔

اس زمانے میں پنڈت مدن موہن مالو می اور بہت سے ہندو لیڈروں نے سر اینٹونی مکڈانلڈ لفٹوٹ گورنر یو پی کے سامنے ایک عرض داشت پیش کی کہ اس صوبے میں اردو کی جگہ ہندی جاری کی جائے لیفٹیننٹ گورنر نے اس کے جواب میں ممبران ڈیپوٹیشن کو اس معاملے میں اپنی توجہ کی امید دلائی۔(صفحہ ۹۵) ان دنوں سرسید کی طبیعت بہت مضمحل ہوگئی تھی۔ تا ہم اس درخواست اور لیفٹیننٹ گورنر کے جواب پر وہ بے چین ہو گئے اور ایک دن صبح کے وقت مجھے بلایا اور فرمایا کہ دیکھو اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر کا رجحان پہلے ہی سے ہندی کے موافق اور اردو کے خلاف تھا۔ مدن موہن مالویہ وغیرہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے سامنے ایک عرضداشت پیش کی ہے کہ ہندی کو رواج دیا جائے۔ ہم عمر بھر تک اس معاملے میں ہندی کے طرف داروں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔اب ہمارا وقت لڑنے کا نہیں رہا۔اب دوسرے لوگوں کو اس میں کچھ کرنا چاہیے اور تم اگر کچھ کر سکتے ہوتو ہندی کے ڈیپوٹیشن کی درخواست کی تردید کرنی چاہیے۔ میں نے کہا تمام ملک مسلمانوں سے بھرا پڑا ہے،کوئی تو آواز اٹھائے گا۔ آپ اس علالت کی حالت میں اس معاملے میں پریشان ہورہے ہیں؟ فرمایا کہ مجھے امید ہوتی کہ دوسری جگہ کے مسلمان کچھ کرنے کو کھڑے ہو جائیں گے تو مجھے پریشانی نہ ہوتی۔لیکن دیکھ لینا کہ مسلمانوں میں ایک شخص بھی کھڑا نہیں ہوگا کہ وہ ہماری قوم کی آواز لیفٹینٹ گورنر تک پہنچائے۔ میں اس گفتگو کے بعد وہاں سے چلا آیا اور میں نے واقعات جمع کرنے شروع کیے اور سرتھیوڈور مارین اپنے پروفیسر سے کہا کہ آپ اخبار پانیر میں پنڈت مدن موہن مالویہ کی عرض داشت کی تردید لکھ دیجیے۔ واقعات جو بھی بہم پہنچیں گے میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب موصوف نے ایک طویل خط لکھا جو اخبار پانیر (پرانے پانیر ) میں شائع ہوا۔ اب میں میں نہیں کہہ سکتا کہ پانیر کی جلدوں میں یہ خط ۱۸۹۷ء کے آخر یا ۱۸۹۸ء کے شروع میں ملے گا مگر ملے گا ضرور۔ جب خط اخبار پانیر میں شائع ہو گیا تو میں نے پر چہ لے جا کرسر سید کو دکھایا۔ انھوں نے فرمایا کہ ٹھیک لکھا ہے۔‘‘

کتا ب کے صفحہ ۹۶ پر ’’آخری خدمت ‘‘ کا ذکرکیا کہ

’’اب سر سید کی حالت روز بروز گرتی گئی…‘‘

اور پھر ’’سر سید کی وفات‘‘ کاعنوان باندھااور لکھا:’’سرسید جنوری ۱۸۹۸ء سے کم و بیش ہر روز کچھ نہ کچھ تکلیف محسوس کرنے لگے تھے۔ عمر کافی ہو گئی تھی۔ تفکرات بہت تھے۔ سیدمحمود کی مخالفت اور دن رات کی کِل کِل کا ان کے دل پر بہت گہرا اثر تھا جوان کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا۔ان کے پاس بیٹھنے والوں میں اس قسم کی باتیں بھی اپنے طور پر سنیں کہ اب سورج افق کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سرسید بھی کبھی بھی فرماتے تھے کہ طبعی عمر ہو چکی ہے اب بقائے زیست کی امید بہت کم ہے۔ ان دنوں غذا میں بہت کمی ہوئی تھی یہ سب کچھ تھا لیکن کالج کی ڈاک روزانہ دیکھنے کا معمول بدستور قائم تھا۔سرکاری خط و کتابت کے متعلق وہی پابندیاں قائم تھیں جو پہلے تھیں۔لوگ آتے جاتے تھے۔ان کی بات چیت بھی ہو جاتی تھی اور موقع موقع سے طبعی ظرافت کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی تھی۔

جنوری اورفروری کا مہینہ اس طور پرختم ہوا اور مارچ کے مہینے سے سرسید کے چہرے پر بہت زیادہ تفکر کے آثار دکھائی دینے لگے تھے۔ مجھ کوٹھیک یا دنہیں رہا کہ فروری یا مارچ میں سرسید کو پھر سخت مجبوری پیش آ گئی اور ان کو سید محمود کی کوٹھی دوبارہ چھوڑنی پڑی اور وہ نواب حاجی محمد اسماعیل خاں، رئیس دتا ولی کی کوٹھی میں جو بی بی والی کوٹھی کے نام سے مشہورتھی اس میں چلے گئے۔ یہ کوٹھی مزمل پیلس کے جنوب مغرب کی جانب کوئی سویا سوا سو گز کے فاصلے پر واقع ہے۔

(صفحہ ۹۷)اب محمد جان خانصاحب رئیس زادوں نے اس کے قریب میں ایک بڑی کوٹھی تعمیر کی ہے جس کا نام بیت الاکرم ہے اور پان والی کوٹھی کے نام سے مشہور ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں راقم اپنی نجی ضرورتوں سے دہلی گیا اور وہاں پر سامان خریدنے میں چند روز لگ گئے۔ ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو دہلی سے واپس آیا تو ریلوے اسٹیشن علی گڑھ پر یہ خبرسنی کہ سرسید کا ابھی ابھی انتقال ہو گیا ہے۔ یہ معلوم ہوا کہ یہ خبر بہت تاز ہ اسٹیشن پر پہنچی تھی کیونکہ زنانہ ویٹنگ روم کی آیا یہ خبرسن کر ویٹنگ روم کے باہر نکلی اور مردانہ ویٹنگ روم کے بیرے سے کہا کہ باپ رے باپ سنا ہے کہ بریسٹر سید صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔اب کیا ان کا سر کٹے گا اور کٹ کر لندن جائے گا۔ بیرے نے کہا کہ سیدمحمود صاحب نے کہہ دیا ہے کہ ہم سرنہیں کٹنے دیں گے اور نہ لندن جانے دیں گے۔ ان دونوں میں یہ گفتگو اس شہرت کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ جو ہندوستان کے مسلمانوں میں عام طور پر پھیلی ہوئی تھی کہ لندن کے کچھ ڈاکٹروں نے سرسید کے سر کے لیے ایک بہت بڑی رقم دینی منظور کر لی ہے کہ جب سرسید کا انتقال ہوتو ان کا سرکاٹ کر ہم کو دیا جائے تا کہ ہم دیکھیں کہ ان کے دماغ میں وہ کون سی بات ہے جس کی وجہ سے وہ اتنے بڑے عقل مند ہیں۔ گو یہ شہرت سرا سر غلط تھی لیکن چھوٹے طبقہ کے لوگوں میں یہ سچ مانی جاتی تھی کہ ان کا سرکٹ کر لندن جائے گا۔اسی وجہ سے آیا اور بیرے میں مذکورہ بالا گفتگو ہوئی۔

میں اسٹیشن سے اپنے مکان پر آیا اور وہاں سے اس کوٹھی کی تلاش میں گیا جس کا نام بھی پہلے نہیں سنا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی دو تین کمروں کی کوٹھی تھی۔اس میں جانے آنے کا نہ کوئی کام تھا اور نہ اس کی شناخت کا کوئی موقع تھا۔ بہر حال رات کے گیارہ بجے میں اس کوٹھی میں پہنچا اور حالات دریافت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ تین چار روز سے سرسید کو جاڑے سے بخار آ نے لگا تھا۔ ڈاکٹر کا علاج تھا اور پیشاب سلائی کے ذریعہ نکالا جا تا تھا کیونکہ پیشاب بار بار بند ہو جا تا تھا۔ آخر کو بہت زور کا جاڑا چڑھا اور غفلت ہوگئی اوراس میں انتقال ہو گیا۔ اس موقع پر میں نے سرسید کے بیٹے سید محمود یا ان کے بھتیجے سید محمداحمد یاکسی اور عزیز کونہیں دیکھا۔ ملازم تھے اور جہاں تک مجھے خیال ہے نواب محمد حاجی اسمٰعیل خاں اور مولوی وحید الدین سلیم بھی تھے۔ یہ معلوم ہوا کہ دوسرے روز صبح کے وقت جنازہ اٹھے گا۔ یہ نہ معلوم ہوا کہ کہاں پر دفن ہونا تجویز ہوا ہے۔ میں قریب بارہ بجے لوٹ کر مکان پر آ گیا اور رات کو سو گیا صبح اٹھ کر پھر موقع پر گیا۔ (صفحہ ۹۸) وہاں جا کر ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ سرسید کی تجہیز وتکفین کے لیے رو پیہ بھی نہیں ہے۔

صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اس روز علی گڑھ میں نہیں تھے۔ ان کا ملازم ولی محمد وہاں اس وقت تھا۔ وہ میرے سامنے نواب محسن الملک مرحوم کے پاس گیا اور وہاں سے لوٹ کر کہا کہ دیکھیے کسی نے کفن دفن کے لیے روپیہ بھی نہیں دیا۔ میں نواب صاحب سے یہ پچاس روپیہ مانگ کر لایا ہوں۔ حالانکہ اس وقت سید محمد احمد ان کے بھتیجے بھی وہاں موجود تھے۔ وہیں پر یہ معلوم ہوا کہ سید محمودرات کے دو بجے کالج کی مسجد میں منشی ناصرخاں کو ساتھ لے کر گئے اور وہاں پرمسجد کے شمال مشرق کی جانب ملحقہ اراضی پر قبر کھد وانی شروع کر دی۔ اتنے میں مسٹربیک وہاں پر آئے اور کہا اسٹیشن کے انگریز جنازے میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اس لیے چار بجے شام کا وقت جنازہ اٹھنے کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اتنے میں خواجہ محمد یوسف مرحوم ونواب محمد اسماعیل خاں صاحب اور مولوی سمیع اللہ خاں صاحب وہاں تشریف لائے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو اعتراض تھا کہ مسٹر بیک صاحب جنازہ اٹھانے کا وقت مقرر کرنے والے کون ہیں جب ان کے وارث موجود ہیں تو دوسروں کو کیا حق ہے کہ وقت مقرر کرے۔

یہ اعتراض اعتراض ہی کی حد تک رہا۔اس پر کوئی مزید گفتگو نہیں ہوئی اور نہ عمل ہوا۔ قریب گیارہ بجے دن کے سرسید کوغسل میت دیا گیا۔ خواجہ محمد یوسف صاحب نے اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔ خواجہ صاحب بہت روئے اور سرسید کے ورثاء کی شکایت کے کچھ لفظ بھی زبان پر لائے۔ غسل ہونے کے بعد اس کوٹھی کے بیچ کے کمرے میں جنازہ رکھا گیا۔غسل صحن میں دیا گیا تھا۔یہ کل مقامات جہاں پر ان کا انتقال ہوا اور جہاں پر ان کو غسل دیا گیا اور جہاں غسل کے بعد ان کا جنازہ رکھا گیا میری نگاہ میں ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے میرے سوا اب کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے جو ان حالات اور واقعات سے واقفیت رکھتا ہو۔ قریب ایک بجے کے ضیاءاللہ خاں مرحوم اور میں اور ایک اور دوست جن کا نام اس وقت یاد نہیں رہا سیدمحمود کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ چار بجے جنازہ اٹھے گا آپ کو جنازہ میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ سرسید کی بیماری کے زمانے میں یا انتقال کے وقت یا انتقال کے بعد اس وقت تک جب تک کہ ہم لوگ سید محمود کےپاس گئے وہ اس کوٹھی میں جہاں سرسید کا انتقال ہوانہیں آئے۔ (صفحہ ۹۹) سیدمحمود نے ہم لوگوں کو دیکھ کر سرپر ہاتھ رکھ کر زور زور سے آہیں بھرنا شروع کیں اور کہنا شروع کیا کہ ہائے میرے باپ کا انتقال ہو گیا۔ میرے گھر میں تو بوریا بھی نہیں کہ مہمانوں کو بٹھاؤں۔ جب وہ ذرا خاموش ہوئے تو ہم نے کہا آپ کا آنا ضروری ہے، آپ بھول نہ جائیے گا اور بہتر تو یہ ہے کہ آپ جنازے کے ساتھ چلیے۔اس کا صرف یہ جواب دیا کہ ہاں میں آؤں گا۔ ہم وہاں سے لوٹ کر آئے تو جنازے کے اٹھنے کا وقت ہو گیا تھا۔ کالج کے طالب علم،ممبران اسٹاف، انگریز اور ہندوستانی حکام اور بعض رؤسا، جوعلی گڑھ میں رہتے تھے وہ جنازے کے ساتھ گئے اور شہر کے لوگ بھی خاصی تعداد میں رستے میں شریک ہوتے گئے۔ مسجد کے قریب پہنچ کر یہ بات طے پائی کہ جنازے کی نماز کرکٹ لان میں پڑھی جائے چنانچہ جنازہ کرکٹ لان میں رکھا گیا۔ اتنے میں سید محمودبھی عربی جبہ پہنے ہوئے آموجود ہوئے۔

جنازے کی نماز مولوی عبداللہ انصاری مرحوم ڈین کالج نے پڑھائی۔سید محمودبھی ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ بیک صاحب اور ماریسن صاحب بھی صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد جنازہ قبر کے پاس لایا گیا۔ قبر میں اتارتے وقت ہم طالب علموں کی آنکھوں میں آنسو جاری تو تھے ہی لیکن بیک صاحب اور ماریسن صاحب کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ قبر میں دفن کرنے اور مٹی دینے کے بعد نواب محسن الملک مرحوم صحن کے نیچے میدان میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور سرسید کے ورثا کو خوب کھری کھری سنائیں کہ جس شخص کی بدولت ان لوگوں کو دنیا میں عزت وثروت حاصل ہوئی،ان میں سے کسی کی جیب سے پچاس روپے بھی نہیں نکلے جس سے ان کی تجہیز وتکفین ہوتی۔ میں سرسید کا دوست ضرور تھالیکن وارث نہیں تھا۔ یہ وارثوں کا فرض تھا کہ وہ رو پیہ صرف کرتے لیکن انھہوں نے نہیں کیا۔

یہ سرسید کی آخری زندگی،ان کی بیماری،ان کی تکلیف،ان کی وفات ان کے دفن کفن کی تجویز کی سرگزشت جو مجھ کو یاد تھی وہ سپرد قلم کردی ہے۔ سرسید کی پیدائش ۱۸۱۷ء کی تھی اور ۱۸۹۸ء میں ان کا انتقال ہوا، اس لیے ان کی عمر ۸۱ سال ہوئی۔‘‘

جیسا کہ ذکر گزر چکا ہے کہ سر سید احمد خان صاحب کی سیرت وسوانح پر مولوی الطاف حسین حالی کی کتاب ’’حیات  جاوید‘‘ کا بہت شہر ہ ہے۔ گو اس نامی مصنف نے سر سید احمد خان کی وفات کے حالات پر تفصیلی باب باندھا ہے اور ادھر ادھر کی بہت زیادہ معلومات جمع کردی ہیں لیکن شیخ محمد عبداللہ جو عینی شاہد کادرجہ رکھتے ہیں ان کی یادداشتوں والے اہم امور یکسر نظر انداز کردیے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھو:حیات جاوید، از الطاف حسین حالی۔ صفحہ :۲۶۵ تا۲۸۰ اختتام حصہ اول)

البتہ ضمناً عرض ہے کہ مولوی الطاف حسین حالی نے حیات جاوید کے صفحہ ۲۶۷ پر بڑی دلچسپ بات لکھی ہے :’’اگرچہ سرسید کی وفات کی بے شمار تاریخیں لکھی گئی ہیں لیکن دو عربی مادے عجیب و غریب نکلے ہیں ایک ’’غُفِرَلَہُ ‘‘اور دوسری قرآن مجید کی آیت ’’ اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ‘‘

الغرض مولوی حالی نے سورہ آل عمران کی آیت ۵۶ کا یہ ٹکڑا درج کرکے نیچے حاشیہ میں اردو ترجمہ دیا ہے:’’اس آیت میں عیسیٰ ؑکی طرف خطاب ہے جس میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھ کو موت دینے والاہوں او راپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تجھ کو کافروں کے اتہام سے پاک کرنے والا ہوں۔‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button