متفرق مضامین

ایک بطلِ جلیل کی صدائے حق (پیس سمپوزیم کا پسِ منظر)

(نصیر احمد حبیب۔ لندن)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی‘‘۔(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن،جلد ۱۰،صفحہ ۳۲۸)

تاریخ کے اوراق اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ دنیا نہ صرف روحانی و اخلاقی اعتبار سے پستی کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی بلکہ معاشی استحصال و ظلم و جبر کا بھی شکار تھی۔’’کیا مشرق اور کیا مغرب دونوں میں عوام الناس کی حالت اتنی خستہ و خراب تھی کہ بیان سے باہر ہے۔انہیں نہ کوئی ملکی حقوق حاصل تھے، نہ کوئی سیاسی رعایت۔دونوں یا تو دولت مندوں اور طاقت  وروں کی بلا شرکت غیرے ملکیت تھے یا مذہبی تصور رکھنے والے طبقوں کی۔ امیر و غریب، ادنیٰ و اعلیٰ، قوی و ضعیف کے لئے ایک ہی قانون نہ تھا ‘‘۔(سید امیر علی،روح اسلام،ترجمہ محمد ہادی حسین،ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۹۹ء،صفحہ ۴۱۸)

چنانچہ اس فساد فی البر و البحر کے بارے حضرت  شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں:’’جب ایرانیوں اور رومیوں کو حکومت کرتے صدیاں گزر گئیں اور دنیوی تعیش کو انہوں نے اپنی زندگی بنا لیا اور آخرت تک کو بھلا بیٹھے اور ان پر شیطانیت غالب آ گئی… یہ حالت ایسی ہمہ گیر ہو گئی کہ وبا کی طرح ساری مملکت میں سرایت کر گئی…اس ہمہ گیر مالی مصیبت کا سبب یہ تھا کہ یہ سامان عیش و عشرت کثیر دولت صرف کئے بغیر حاصل نہ ہو سکتا تھا اور مالِ خطیر…نئے ٹیکس لگانے اور پہلے کے لگے ہوئےٹیکس بڑھانے کے سوا حاصل نہ ہو سکتا تھا۔پھر ان لوگوں کو طرح طرح سے تنگ کر کے ٹیکس وصول کئے جاتے…نتیجہ یہ نکلتا کہ عوام ٹیکس ادا کرنے اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کمانے کے سوا اور کوئی کام کر ہی نہیں سکتے، چہ جائیکہ سعادت اُخروی کے متعلق کچھ سوچ سکیں‘‘۔(بحوالہ مولانا عبیداللہ سندھی۔قرآنی دستور انقلاب۔بیت الحکمت لاہور صفحہ ۱۵۶۔۱۵۸)

دنیوی تعیش کا یہ لالچ بازنطینی اور ساسانی سلطنت کو آمنے سامنے لے آیا’’اور یہ دونوں سلطنتیں آپس کی لڑائیوں میں نڈھال ہو گئیں‘‘۔

(Ira M.Lapidus,A History of Islamic Societies,3rd edition, Cambridge:p-148)

گویا عالمی امن بھی خطرہ میں پڑ گیا۔چنانچہ ان جنگوں کے اخراجات اور اُمراء کےلیے عیاشیوں کے سروسامان مہیا کرنے کا سارا بوجھ عوام پر اس طرح پڑا کہ وہ اپنی سعادت اُخروی کے لیے عبادات تک بجا لانے سے محروم ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ تو یہ ارشاد فرماتا ہے ’’وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(الذاریات:۵۷) یعنے میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری پرستش کریںیہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ پرستش الٰہی ایک فطرتی امر ہے پس… توحید الٰہی اور پرستش الٰہی سب بنی آدم کے لئے فطرتی امر ہوا۔(براہین احمدیہ۔چہار حصص،روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۸۵)

گویا مخلوقِ خدا،امیر شہر کے لیے سامان تعیش فراہم کرنےکے لیے اس قدر ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچلی گئی کہ عبادت کے فطرتی حق سے بھی محروم ہو گئی۔ اسلام سے قبل جو انسانیت کی تذلیل کی جاتی تھی اس کی مثال ملنی محال ہے۔’’انسانی گوشت پوست کا تاجر ایک…کوڑا ہاتھ میں لئے گھوڑے پر سوار غلاموں کی قطار کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور کوڑے کی ضربوں سے تھکے ماندے غلاموں کو چلتے رہنے پر آمادہ کرتا تھا۔جب کبھی یہ کوڑا لگتا اور جس کے لگتا اُس کی کھال کی ایک بوٹی اُڑا دیتا۔مرد عورتیں اور بچے اسی طرح لٹکتے ہوئے چیتھڑے پہنے لہو لہان ٹخنے اور آبلوں سے چھلنی ننگے پاؤں گھسیٹتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہنکا کر لے جائے جاتے تھے۔‘‘ (سید امیر علی۔روح اسلام۔صفحہ ۴۲۰)

ظلم وستم کا شکار یہ مظلوم طبقے اگر اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے اپنا حال دل بیان کرنا چاہتے تو انہیں اس کی اجازت نہیں تھی۔بقول البیرونی’’ شودر برہمن کے خدمت گار کی طرح تھے جو ان کے کام تجارت کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کرتے، وہ ہر کام جو برہمن کے لئے مخصوص ہے مثلاًخدا کی عبادت کرنا، وید پڑھنا…ان لوگوں کے لئے حرام ہے۔اگر وہ ایسا کریں تو برہمن بادشاہ کے روبرو ان پر الزام لگاتا ہے اور بادشاہ ان کی جِیب(زبان)کاٹ دینے کا حکم دیتاہے‘‘۔(ڈاکٹر عابدہ خاتون۔عربوں کی نظر میں قدیم ہندوستانی مذہب اور معاشرہ۔مرکز ادب اردو،لکھنؤ ۱۹۸۹ءصفحہ ۱۶۶)

یہ وہ تناظر تھا جب بقول حضرت شاہ ولی اللہ کہ ’’خداوندِعالم نے ارادہ کیا کہ مذہب کی کجی کو دور کر دے اور لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا فرقہ پیدا کرے جو لوگوں کونیکیوں پر مامور کریں اور برائیوں سے روکیں اور لوگوں کی خراب رسموں کو بدل ڈالیں۔تو ایسا انتظام موقوف تھا کہ ان دونوں دولتوں کا زوال ہو جائے۔ اس کی آسانی کے لئے ضرور تھا کہ اُن سلطنتوں کی حالت سے تعرض کیا جائے۔ان کی یہی حالتیں تمام ملکوں میں سرایت کر گئی تھیں۔اس لئے حضرتِ خدا وندی نے مقدر کیا کہ یہ دونوں طاقتیں تباہ ہو جائیں۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسریٰ ہلاک ہو گیا اب کوئی کسریٰ اس کے بعد نہ ہو گا۔اور قیصر ہلاک ہو گیا اب کوئی قیصر اس کے بعد نہ ہو گا۔‘‘(شاہ ولی اللہ۔حجۃ اللہ البالغہ:ترجمہ مولانا عبدالحق حقانی۔فرید بک سٹال لاہور صفحہ ۲۲۴)

چنانچہ یہ وہ تناظر تھا کہ جب ایک جان عشق الٰہی میں اس طرح پُر سوز ہوئی کہ لاہوتی اور ناسوتی کمالات کے انتہائی مقام طے کرتے ہوئےقرب کے انتہائی مقام قاب قوسین تک پہنچ گئی اور دربارِ الٰہی سے رحمۃ للعالمین کا خطاب حاصل کیا۔چنانچہ وہ واحدِ یگانہ جو ایک مدت تک خاموش رہا اس پاک وجود کے ذریعے اپنا چہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ فاران کی چوٹیوں سے فتح مکہ تک جوعالم امر کے ارتسامات ہیں وہ نہ صرف قرآن پاک بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا۔آپ صلی  اللہ علیہ وسلم قربِ الٰہی کے ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ ظلی طور پر خدا تعالیٰ کی جلالی و جمالی صفات کے مظہر اتم بن گئے۔جب کفار نے کہا’’لَسۡتَ مُرۡسَلًا‘‘ (الرعد:۴۴) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَبَیۡنَکُمۡ…(الرعد:۴۴)اُن کو کہہ دے کہ تم میں اور مجھ میں خدا گواہ کافی ہے‘‘۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲،صفحہ ۵۴۹)چنانچہ اللہ  تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم کی حیثیت سے ایسے نشانات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا خالق حقیقی کا چہرہ دیکھ لیتی ہے۔چنانچہ غزوہ بدر کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں کفار جب حملہ آور ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۳۱۳؍ اصحاب بدر ؓکو خوشخبری سناتے ہیں سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔(قمر۔۴۶) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹھی سنگریزوں کی کفار پر چلاتے ہیں تو در پردہ الٰہی طاقت کام کرتی ہے۔’’وَمَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(الانفال:۱۸) یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔‘‘( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۶۵) چنانچہ اس کا ایسا خارق عادت اثر ہوتا ہے کہ کفار سراسیمہ ہو کر مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر میں اُس گڑھے کے پاس تشریف لائے جس میں رئوسا قریش دفن کیے گئے تھے اور پھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا:’’ھَلْ وَجَدْتُمْ مَّا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّیْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا‘‘۔’’کیا تم نے اس وعدے کو حق پایا جو خدا نے میرے ذریعہ سے تم سے کیا تھا۔تحقیق میں نے اس وعدے کو حق پا لیا جو خدا نے مجھ سے کیاتھا‘‘۔(حضرت مرزا بشیر احمدؓ۔سیرت خاتم النبیینؐ،صفحہ ۴۱۳)

یہ نشانات نہ صرف خطۂ عرب میں بلکہ معمورۂ عالم کے کناروں تک نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ تھا سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَفِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ۔( حٰم السجدہ:۵۴)پس ہم ضرورانہیں آفاق میں بھی اور ان کے نفوس کے اندر بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر خوب کھل جائے گا کہ وہ حق ہے۔

اسلام کا مشن ایک عالمگیر مشن تھا جو کہ دنیا کو فساد سے بچا کر روحانی اور دنیاوی رفعتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے شروع ہوا تھا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف حکومتوں کے سر براہوں کو تبلیغی خطوط بھجواتے ہیں۔

ہرقل کے بعد دوسرا خط کسریٰ ابرویز بن ہرمز بن انوشروان کی طرف لکھا جو ایران کا بادشاہ تھا…جب یہ خط اس کے سامنے پڑھا گیا تو اس نے پھاڑ دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا‘‘(امام علامہ احمد بن محمد قسطلانی۔المواہب اللدنیہ ترجمہ محمد صدیق۔جلد اول۔فرید بک سٹال لاہور۔صفحہ ۶۱۰)

یہ پیشگوئی اس شان سے پوری ہوئی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں احنف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کونامہ فتح لکھا اور خمس کے ساتھ ان کی خدمت میں روانہ کر دیا۔امیر المومنین کے حکم سے خط پڑھا گیا۔اس کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ نے مجوسی سلطنت کو تباہ اور اس کے شیرازے کو منتشر کر دیا…اب اس ملک میں کوئی قوت نہیں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکے‘‘(محمد حسین ہیکل۔ سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم، ترجمہ حبیب اشعر، اسلامی کتب خانہ،اردو بازار لاہور۔صفحہ ۵۰۵)

کفار مکہ جن کے ظلم و جبرکے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر انہ الحقکا نظارہ دیکھ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فتح پڑھتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔

کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں کعبہ شریف کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھلتے تھے اور چابی بردار عثمان بن طلحہ تھا۔ایک دن نبی کریمؐ تشریف لائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کے ساتھ کعبہ شریف میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن عثمان بن طلحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت کلامی سے پیش آیا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اے عثمان! عنقریب تم دیکھو گے کہ چابی میرے قبضہ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا دوں گا‘‘۔ عثمان بن طلحہ حیران رہ گیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی  اللہ علیہ وسلم نے چابی منگوائی اور دوبارہ عثمان کو عنایت فرما دی، جب وہ واپس ہوا تو آپؐ نے اسے آواز دی اور دریافت فرمایا ’’ کیا وہی بات نہیں ہوئی جو میں نے کہی تھی کہ عنقریب تم دیکھو گے یہ چابی میرے قبضے میں ہو گی اور میں جسے چاہوں گا دوں گا؟ طلحہ بن عثمان نے کہا ’’ ہاں کیوں نہیں‘‘ اور کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (علامہ احمد بن محمد قسطلانی:المواہب اللدنیہ:ترجمہ محمد صدیق ہزاروی۔فرید بک سٹال لاہور ۲۰۱۱ء صفحہ ۴۳۲)

گویا فخر موجودات سرور کائنات رحمۃ للعالمین نے چابی اسی شخص کو عطا فرما دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کو تیار نہیں تھا۔

حسینان عالم ہوئے شرمگیں

جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں

پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں

کہ دشمن بھی کہنے لگے، آفریں

زہے خلق کامل، زہے حسن تام

علیک الصلوٰۃ علیک السلام

چنانچہ فانی فی اللہ کے فیض کمالات سے ایک ایسا عالمگیر انقلاب آیا کہ ظلم و جبر کی اندھیری رات کا خاتمہ ہوا اور ایک سحر طلوع ہوئی اور آپ کی پاک تعلیمات کے نتیجے میں ایک ایسا ابر کرم برسا کہ ہر گوشہ بساط دامان باغبان کف گل فروش بن گیا۔ آپؐ دنیا میں اُس وقت آئے جبکہ دنیا کی حالت بالطبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپؐ اس وقت اُٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ۔(الرعد:۱۸)…یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے۔(شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۳۵۱) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کا دروازہ کھلا ہوا ہے،اس لئے آپ کو زندہ نبی کہا جاتا اور حقیقی حیات آپؐ کو حاصل ہے… اور اس آیت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابد الآباد کے لئے زندہ رہے۔‘‘(الحکم جلد ۶،نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۲ءصفحہ۷)چنانچہ اس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ’’ انبیاء من حیث الظل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ظلی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کوان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۵۱۔۳۵۲)

ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق نافع الناس وجود زمین پر ٹھہر جاتے ہیں اور سید الانبیاء خیر الوریٰ، آنحضرت صلی  اللہ  علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین ہیں ان سے بڑھ کر کون نافع الناس ہو سکتا ہے لہٰذا آپؐ زندہ نبی ہیں۔لہٰذا جب انیسویں صدی میں نٹثےجیسے فلاسفرGott ist Tottکے نعرے لگا رہے تھے اور لائیڈ سٹون جیسے پُر غرور سیاست دان یہ اعلان کر رہے تھے کہ اگر آسمان بھی گرا تو اپنی سنگینوں کی نوک پر تھام لیں گے۔اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور آنحضرت صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بروز کامل کو کھڑا کر دیا اور آپ نے ان گمراہ فلاسفروں اور عاقبت نا اندیش لیڈروں کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیاتُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو!کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۶۹) چنانچہ اس پیشگوئی کے چند سال بعد یورپ جنگ عظیم اول کی لپیٹ میں آ گیا جس میں ۲۰؍ملین کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

آپؑ نے جب یہ انتباہ فرمایا اس وقت ارباب حل وعقدخیر ہی خیر کا بتا رہے تھے۔چنانچہ چرچل ۱۹۰۸ء میں بیان دیتا ہے:’’مہذب دنیا میں اتحاد و یکجہتی کا عمل سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ فروغ پا رہا ہے۔‘‘

(Report of the Proceeding of the International Free Trade Congress London:1908)

لیکن پھر ہوا کیا کہ ’’ بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی‘‘

’’By the end of nineteenth century the purely historical Concept of the Nation began to be fused with the pseudo – biological Concept of race, to imply a supposed superiority of certain races and a legitimization of the conquest of inferior”

John Keiger, thinking of the causes of World War, Journal of International Relations and Sustainable Development ,No.1(2014) PP.52 -63

یعنی نسلی تفاخر اور وطن پرستی کے بتوں کو زمانہ تراشنے لگااور ان کو باقاعدہ تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر اجتماعی شعور کا حصہ بنایا گیا۔ یہ تصورات اسلام کی ان تعلیمات کے خلاف تھے جن کا اعلان سید ولد آدم، خیرالوریٰ،فخرموجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں، فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔چنانچہ واحد و یگانہ غضب میں آگیا اور معاملات بند مٹھی کی ریت کے دانوں کی طرح ہاتھوں سے نکلنے لگے جیسے جرمن چانسلر بیتھمن ہول ویگ نے جنگ عظیم اول کے آغاز کے موقع پر کہا۔

Bethmann Hollweg remarked on the eve of War on July 30,1914. That the people were peaceful but things are out of control.

(John Keieger: thinking the causes of World War. Journal of International Relations:No,1,2014 .P-57)

جنگ کی آگ بھڑک اٹھی اور ۲۰؍ملین افراد لقمہ اجل بن گئے ۲۳؍ملین زخمی ہوئے شہر گرے اور بستیاں ویران ہوگئیں اور نوح کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اس ہولناک تباہی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور عالمی لیڈر مستقبل میں اس تباہی کی روک تھام کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ستمبر ۱۹۲۴ءمیں مسٹر ایلی سن اور مسٹر رین سیکرٹری لیگ آف نیشنز ریلیجن اینڈ ایتھکس حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں حضور رضی اللہ ان دنوں ویمبلےکانفرنس کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے۔آپ رضی اللہ سے راہنمائی کی درخواست کی گئی آپ نے قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں سنہری اصول بتائے۔ جو کہ آئندہ جنگ کے خطرے کا ازالہ کر سکتے تھے۔ لیکن اس مشورہ پر عمل نہ ہو سکا۔ چنانچہ جو زیادتیاں معاہدہ ورسلزمیں روا رکھی گئیں وہ دوسری جنگ عظیم دوم کا سبب بنیں جس میں چالیس سے پچاس ملین لوگ ہلاک ہوگئے۔ بعض تاریخ دان یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم صرف ایک ہی ہوئی جو ۱۹۱۴ءکو شروع ہوئی مختصر وقفہ کے بعد انہی وجوہات کی بنا پر ۱۹۳۹ءمیں دوبارہ شروع ہو گئی اور ۱۹۴۵ءکو ختم ہو گئی۔

اپنے خالق سے دوری پر دنیا کو انتباہ کا سلسلہ جو آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شروع ہوا وہ خلفاء کے دور میں بھی جاری رہا اور تاریخی شہادتوں سےشنیددید میں بدل گئی۔۲۰۱۲ء میں پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عالمی راہنماؤں کو خطوط تحریر کیے اور امن و امان کے قیام کی خاطر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دعوت فکر دی۔ اس وقت بظاہر کوئی اس صورتحال کا ادراک نہیں کر رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ چیزیں ہاتھ سے نکلنا شروع ہوگئیں اور جرمن چانسلر کی بات یاد آ گئی جو اس نے جنگ عظیم کے آغاز پر کہی تھی:

That the People were Peaceful but things are out of control

اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ روس کے یوکرائن پر حملہ آور ہونے کے ساتھ تیسری عالمگیر جنگ کے خطرہ کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ برطانوی جریدہ دی ویک شہادت دے رہا ہے:

’’ Russia‘s invasion of Ukraine… has been described as more dangerous than anything Europe has seen Since the end of World War II.‘‘(The Week. 28 Feb 2023)

حقیقت یہ ہےکہ دنیا اس وقت اپنی تمام تر ترقی کے باوجود تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اس خطرہ سے سےچھٹکارہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک دنیا اپنے قومی، نسلی اورعلاقائی تعصبات سے رہائی حاصل نہیں کرتی اور یہ خالق ِحقیقی کی پہچان اور اس پر ایمان لائے بغیر ممکن نہیں۔

روس اور یوکرائن کے موجودہ تنازع کی وجہ سے یورپ تو امن میں نہیں ہے لیکن اب اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے ساتھ ایشیا بھی محفوظ نہیں رہا۔

اسرائیل نے حماس کے حملے کی آڑ لے کر ظلم و ستم کا ایسا پہاڑ مظلوم فلسطینیوں پر توڑا ہے کہ تیس ہزار کے قریب فلسطینی لقمۂ اجل بن گئے ہیں جن میں دو تہائی عورتیں اور بچے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ بڑی طاقتیں تو ایک طرف خود اسلامی ممالک کے بڑے بڑے لیڈروں کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں ہونٹوں پر تالے پڑگئے ہیں گویا وہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں اہل فلسطین جانیں اور ان کا کام۔ لیکن اس تنازعہ کے جو خطرناک نتائج نکلیں گے اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

ایک صحافی Robin Wrightلکھتی ہیں:

“The longer the war in Gaza plays out, the greater the potential for wider consequences well beyond the Israel or Palestine borders.‘‘

(Robin Wright: The Five Globel Dangers From The Gaza War. Middle East Program)

حقیقت یہ ہے کہ دنیا اس وقت اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اپنے اندرونی تنازعات کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اور اس خطرہ سے چھٹکارہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک عالمی طاقتیں اسلام کے اُن زرّیں اصولوں کو اپنا مطمح نظر نہیں بناتیں جن کی طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۲۴ء میں لیگ آف نیشنز کے اربابِ حل و عقد کو متوجہ کیا تھا اور جن کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بار بار عالمی لیڈروں کو متوجہ کر رہے ہیں۔چنانچہ آپ نے ۴؍مارچ ۲۰۲۳ء کو پیس سمپوزیم کے موقع پر فرمایا:’’دنیا اس وقت ایک زبردست تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ ممکنہ تباہی محض آج کی نسل کےلیے ہلاکت خیز نہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس خوف ناک تباہی سے محفوظ نہ رہ سکیں گی۔پس!امن ہی وہ کنجی ہے جس کےذریعے معاشرے میں حقیقی خوش حالی ممکن ہے یہی وہ راستہ ہےجس کےذریعے ہم آنے والی نسلوں کی بقا اور فلاح کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ افسوس! کہ آج کا انسان خدا سے دُور جانے کے سبب امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مارچ ۲۰۲۳ء صفحہ ۱۴)

لیکن اس انتباہ کے باوجود عالمی طاقتوں نے مظلوم فلسطینیوں کے جائز مطالبات نظر انداز کر کے اُنہیں ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جس کے نتیجے میں اُن پر ایسا کوہ ستم ٹوٹا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حالیہ پیس سمپوزیم میں ایک بار پھر فرمایا :’’ان دگرگوں حالات میں جہاں امنِ عالَم کی کوششیں بظاہر عبث معلوم ہوتی ہیں مَیں دنیا کو ایک بار پھر امن کی طرف بلارہا ہوں کیونکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہی ہے کہ مومن کا کام کوشش کرتے چلے جانا ہے…جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام کے تو معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں۔ پس اسلامی تعلیمات کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ باہمی خیر و بھلائی اور امن و سلامتی کی تعلیم ہی نظر آئے گی۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مارچ ۲۰۲۴ء)

پیارے امام نےدنیا کی کشتی کو جو چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے آواز حق بلند کر کے تباہی کے راستے سے ہٹانے کی کوشش فرمائی ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے،اپنے دل کا خون اس قرنامیں بھر دے کہ عرش کے پائے لرز اٹھیں۔ اور شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آ جائے اور دنیا عافیت کے حصار میں داخل ہو جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button