متفرق مضامین

رمضان المبارک اور تلاوت قرآن

(’م۔ ا۔ معین‘)

شَهْرُرَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ۔ ( البقرہ: ۱۸۶) ترجمہ:رمضان کا مہینہ ( وہ مہینہ ہے ) جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کردینے والے امور ہیں۔

احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ہر رمضان میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنا قرآن مجید نازل ہو چکا ہوتا تھا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دہرائی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان میں ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا کرتے تھے آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دَور کیا کرتے تھے۔( بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: الصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ…روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزے کہیں گے: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا۔ پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا۔ پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ ( مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابہ، باب مسند عبداللہ بن عمرو )

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید قیامت کے دن ایسے شخص کی شکل میں آئے گا جس کا رنگ ( مجاہدات اور رات کو جاگنے کی وجہ سے) زرد ہوا ہو گا۔ تو قرآن اپنے پڑھنے والے کو کہے گا : اَنَا الَّذِیْ اَسْھَرْتُ لَیْلَـکَ وَ اَظْمَاْتُ نَھَارَکَ۔ میں وہی ہوں جس نے تجھے رات کو بیدار رکھا اور دن کو پیاسا رکھا۔ (سنن ابن ماجہ، الادب، ثواب القرآن )

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: بروز قیامت صاحب قرآن ( قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا ) آئے گا تو قرآن کہے گا : یَا رَبِّ حَلِّہِ فَیُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَۃِ : اے میرے رب! اسے زیور پہنا، تو صاحب قرآن کو عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ قرآن پھر کہے گا: اے میرے رب! اسے اور بھی ( لباس ) پہنا۔ تو اسے عزت و بزرگی کا لباس پہنایا جائے گا۔ پھر قرآن کہے گا: اے میرے مولا! اب اس سے راضی ہو جا۔ تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے گا۔ اور اس سے کہا جائے گا : اِقْرَاءْ وَرْقَ وَ تُزَادُ بِکُلِّ اٰیَۃٍ حَسَنَۃً قرآن پڑھتا جا اور بلند ہوتا جا۔ اور ہر ایک آیت کے بدلے میں اس کی نیکی بڑھتی جائے گی۔ (سنن ترمذی، فضائل القرآن عن رسول اللہ،ما جاء فی من قرء )

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُسے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ پس أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ میں یہی اشارہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزے کا اجر عظیم ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۶۱-۲۶۲)

لفظ قرآن میں ایک زبردست پیشگوئی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’ مَیں نے قرآن کے لفظ پر غور کیا تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے… اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ کو پڑھو…۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں… اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔ ‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۴۷)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رمضان کے مہینے میں دعاؤں کی کثرت، تدریس قرآن، قیام رمضان کا ضرور خیال رکھنا چاہیے… یاد رکھو اسی مہینے میں ہی قرآن مجید نازل ہو نا شروع ہوا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نور ہے اسی کی ہدایت کے بموجب عمل درآمد کرنا چاہیے۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۰۷)

رمضان اور آخری عشرہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’رمضان کی ساری راتیں ہی مبارک ہوتی ہیں کیونکہ اس مہینے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کے لیے چنا۔ پس سارے رمضان میں ہی لیکن خصوصیت سے آخری عشرہ میں قرآن کریم بہت پڑھنا چاہیے۔ ذکر الٰہی پر زور دینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں۔ ‘‘

فرمایا: ’’ رمضان جن برکات کا حامل ہے ان میں سے سب سے بڑی برکت قرآن کریم ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کے کام کا انعام الگ الگ ہے لیکن رمضان کا انعام میں خود ہوں اس کے معنی یہی ہیں کہ رمضان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا اور یہ خدا تعالیٰ کا نور ہے۔ گویا رمضان کے ذریعے دنیا کو خدا ملا۔ قرآن کریم میں ہے شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ پس یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس نے قرآن کریم حاصل کیا اور اس کے ذریعے سے بندوں کو خدا سے ملا دیا۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۴ صفحہ ۱۰)

نیز فرمایا: ’’ جس مہینے کا اللہ تعالیٰ نے اس بات کے لیے انتخاب فرمایا ہو کہ ابتدائے قرآن اس میں نازل ہوا اور جس میں جبرائیل اس وقت تک نازل شدہ قرآن کو ہمیشہ دہراتے رہے ہوں اس مہینہ کے بارے میں مومنوں کے دلوں میں جتنا جوش پیدا ہو اور جتنی قرآن کریم کی تلاوت اس مہینہ میں کی جائے کم ہے… خدا تعالیٰ کا یہ فعل اور جبرائیل کا نزول اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے ساتھ تلاوت فرمانا بتلاتا ہے کہ رمضان کا تعلق صرف روزوں سے ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کی تلاوت، اس پر غور و خوض اور اس کے معنی پر تدبر کرنا بھی روزوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے ضروری امور میں سے ہے۔ ‘‘( خطبات محمود جلد ۲۲ صفحہ ۴۵۶)

کثرتِ تلاوت ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’کثرت تلاوت قرآن کریم ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ خلوص نیت ہونا نہایت ضروری ہے اس کے بغیر تلاوت کی جو نعمتیں ہیں یا قرآن کریم کی جو نعمتیں ہیں وہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس کے لیے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کے فیوض سے انسان تبھی حصہ وافر لے سکتا ہے جبکہ وہ اللہ تعالی کی صفت رحیمیت کو جوش میں لائے۔ اسی لیے رمضان کے مہینے میں کثرت تلاوت پر زور دیا گیا ہے۔‘‘(خطبات ناصر جلد ۲ صفحہ۹۵۸)فرمایا: ’’ ہمارے بزرگ محدثین یعنی علم حدیث کے جو علماء تھے وہ تو رمضان کے مہینے میں اپنی حدیث کی کتب کے مسودات اور پوتیاں وغیرہ کو بند کر دیتے تھے اور صرف قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ رمضان میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔‘‘(خطبات ناصر جلد ۲ صفحہ ۹۵۹)

بار بار تلاوت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم نے جو رمضان کی زائد ذمہ داریاں ڈال دی ہیں… ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ہی مہینے میں قرآن کریم کی بار بار تلاوت کی جائے… وہ لوگ جن کو بعض دفعہ سارے سال میں بھی قرآن کریم ختم کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔ رمضان کے ایک مہینہ میں بار بار اس کا دور کرتے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا ’’ قرآن کریم کے بعض پہلو رمضان میں ہی انسان کو معلوم ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتے۔ تو یہ مہینہ دراصل قرآن کا متبادل ہے یعنی قرآنی تعلیم عملی طور پر جس مہینہ میں اپنائی جا سکتی ہے یہ وہ مہینہ ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍اپریل۱۹۸۹ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد۸ صفحہ۲۲۳)

رمضان کی قرآن سے خاص نسبت

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے… روزوں کی اہمیت اس لیے ہے اور اس لیے بڑھی کہ اللہ تعالیٰ نےاس مہینے میں انسان کامل پر اپنی آخری اور کامل شریعت نازل فرمائی جو قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی۔ خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور دعاؤں کے اسلوب تمہیں اس لیے آئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ طریق سکھائے جس سے اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ پس اس کتاب کو پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری رمضان میں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا… اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہیے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر دو مرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ خود پڑھ کر دور مکمل کریں پھر درسوں کا انتظام ہے تراویح کا انتظام ہے اس میں ( قرآن ) سنیں… اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے، اس مہینے میں پڑھنا چاہیے اور سننا چاہیے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴؍ستمبر ۲۰۰۹ء خطبات مسرور جلد ۷ صفحہ ۴۱۲-۴۱۳)

فرمایا: ’’ اللہ کرے کہ ہم نے گزشتہ دنوں میں… قرآن کریم کے پڑھنے سے جو فیض پایا ہے اس سے بڑھ کر رمضان کے جو بقیہ دن… رہ گئے ہیں ان دنوں میں فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم روزانہ اپنا جائزہ لیں اور لیتے رہیں کہ ہر روز ہم نے اس سلسلے میں کیا ترقی کی ہے۔ اور پھر یہ بھی ارادہ کریں کہ… تلاوت کی عادت جو رمضان میں پڑ گئی ہے اس کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا ہے۔ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہم نے رمضان کے بعد عام دنوں میں بھی کرنی ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کریم کی برکات سے فیض پانے والے ہوں اور ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں۔‘‘ ( خطبہ جمعہ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء خطبات مسرور جلد ۳ صفحہ ۶۳۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button