اداریہ: حج کے دوران خانہ کعبہ اور عرفات میں کی جانے والی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مقبول دعا
(ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس دعا کا نہ صرف حرف حرف پورا ہوا بلکہ قیامت تک ہوتا جائے گا)
بیت اللہ میں حاضری کے دوران ہر کوئی ایک خاص کیفیت سے گزرتا ہے۔ وہاں کے ماحول کا کیا کہنا ! کہ چوبیس گھنٹے مسلمان انفرادی اور اجتماعی ہر دو صورتوں میں طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی زیرِ لب، کوئی سجدہ ریزہو کر، کوئی کعبے کے غلاف کو پکڑ کر، کوئی میزابِ رحمت کو دیکھ کر رحمتِ خداوندی کے واسطے دیتا ہوا، کوئی اس بابرکت گھر کے دروازے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں، کوئی سنتِ نبویؐ میں حجرِاسود کو چھونے اور بوسہ دینے کی جستجو میں اور کوئی موقع ملنے پر حطیم میں دو نوافل ادا کر کے اپنے ربّ کو یاد کرتا، اُس سے راز و نیاز کرتا اور اُس کے حضور اپنی فریادیں پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ صحنِ کعبہ میں جسے مطاف بھی کہا جاتا ہے کالے،گورے، امریکی، افریقی، ایشیائی، آسٹریلوی، انڈونیشین، چینی، سماٹری، جاوی غرض ہر مرد وزن کی بلا تفریق رنگ و نسل و قومیت ایک ہی پہچان ہوتی ہے یعنی اس کا مسلمان ہونا۔یہ بھی سچ ہے کہ ایک مرتبہ اس در پر حاضری دینے والا بار بار وہاں حاضر ہونے کو ترستا ہے اور وہ جسمانی طور پر دنیا میں کہیں بھی ہو،اُس کا دل مسجدِ حرام کے برآمدے کے کسی ستون سے اٹکا رہتا ہے جہاں سے کعبہ پر براہِ راست نظر پڑتی ہو۔
افسوس کی بات ہے کہ احمدی مسلمان پاکستانی پاسپورٹ پر بیت اللہ اور مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت پر نہیں جاسکتے۔ چنانچہ احمدیوں کے اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کر کے مغربی ممالک میں آباد ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مکہ و مدینہ جانے کے لیے قانونی قدغنوں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور اُن میں سے اکثر اول فرصت میں حرمین شریفین کا سفر اختیار کرکے عمرہ اور جس کے لیے ممکن ہو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور خوب دعائیں کر کے اپنی مرادیں پاتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر ہوا کہ لوگ انفرادی طور پر بھی کعبے کا طواف کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اور اکثر اجتماعی طواف کرنے والے بآوازِ بلند دعاؤں کا ورد ایسے کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک فرد اونچی آواز میں دعائیں پڑھتا جبکہ دیگر ممبران ان دعاؤں کو دہراتے ہیں۔
ایسے ہی بیس بائیس افراد کے ایک گروپ کو طواف کے دوران بآوازِ بلند دعائیں پڑھتے دیکھا تو چشمِ تصورمیں ۱۸۸۵ء کے حجِ بیت اللہ جو کہ حجِ اکبر بھی تھا کا ایک خوبصورت نظارہ آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔ لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے صاحبِ رؤیا و کشوف بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ (جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب سے باقاعدہ اعلانِ بیعت سے قبل وفات پا چکے تھے لیکن ان کے اخلاص ووفا اور عقیدت کے باعث حضرت اقدسؑ نے ازالہ اوہام میں انہیں اپنے مخلصین میں شامل فرمایا اور ان کی وفات پر ان کی نمازِ جنازہ غائب ادا کی۔ نیز پہلی بیعت کے لیے آپؓ کے مکان کا انتخاب فرمایا۔)اپنے بیس، بائیس احباب کے ہمراہ خانۂ خدا کا طواف کر رہے ہیں اور حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی (مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بآوازِ بلند پیش کرتے اور باقی احبابِ جماعت بآوازِ بلند آمین کہتے ہیں: ’’اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! ایک تیرابندہ عاجز اور ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔اس کی یہ عرض ہے کہ اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تُو غفورورحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھےزندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں مجھے اٹھا۔اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! جس کام کی اشاعت کے لیے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لیے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنےہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفّل اور متولی ہوجا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا۔اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ ۲۷، ۲۸ ایڈیشن ۲۰۱۳ء)
اس دعا کے الفاظ پر جب غور کیا جائے تو انسان ایک جانب یہ سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول اور خدمتِ دین کی بجاآوری کے لیے کس قدر جوش رکھتے تھے تو دوسری جانب بے اختیار خداتعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالانے لگتا ہے کہ آج جبکہ اس واقعہ کو قریباً ۱۳۹؍ سال گزر چکے ہیں ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ گواہی دیتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اس دعا کا حرف حرف پورا ہوا بلکہ قیامت تک اس کے مثبت اثرات مترتب ہوتے چلے جائیں گے۔ ان شاء اللہ العزیز
اس وقت ہم سیّدالشہور یعنی مہینوں کے سردار رمضان سے گزر رہے ہیں جسے دعاؤں کا مہینہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم اس بابرکت مہینے میں دعاؤں اور عبادات کی طرف غیرمعمولی توجہ فرما تے تھے۔ ہم جہاں اپنے لیے، اپنی اولاد اور گھر والوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں وہاں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ اور آپ کے غلامِ کامل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام دعائیں آپ اور آپ کے متبعین کے حق میں قبول فرمائے، آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے، ہمارے دلوں میں بھی امام الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی میں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اُس کے دین کی خدمت کی بجا آوری کا جذبہ پیدا فرمائے اور پھر اس کی توفیق بھی دے، سب اس مہینے میں مقبول دعائیں کرنے کی توفیق پائیں اور نبی اکرمﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کی کامیابی یعنی غلبۂ اسلام کے لیے اپنے حصے کے کام بجا لا سکیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کا مشن کیا تھا؟ اس کا بیان حضورؑ ہی کی ایک دعا کے الفاظ میں ہدیۂ قارئین ہے۔ حضورؑ اپنی معرکہ آرا تصنیف حقیقۃ الوحی کے تتمہ میں خدا تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں فریاد کرتے ہیں کہ’’اے میرے قادر خدا میری عاجزانہ دعائیں سُن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے۔ آمین
اے میرے قادر خدا مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہریک طاقت اور قوت تجھ کو ہے۔ اے قادر خدا ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔ ‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۰۳)