از افاضاتِ خلفائے احمدیت

رمضان المبارک کے بارے میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشادات

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے رمضان المبارک کے بارے میں چند ارشادات پیش کرنے مقصود ہیں۔ وما توفیقی الا با اللّٰہ

عبادتوں کا مجموعہ اور گلدستہ

’’رمضان کی عبادت ہر قسم کی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں نفس کشی بھی شامل ہے۔ اس میں جفا کشی بھی شامل ہے۔ اس میں لذت کی قربانی بھی شامل ہے۔ اس میں مال کی قربانی بھی شامل ہے۔ اس میں وقت کی قربانی بھی شامل ہے۔ اس میں جان کی قربانی بھی شامل ہے ہر قسم کی قربانیوں کا نمونہ، ہر قسم کی قربانیوں کے پھولوں کا گلدستہ ہے۔ یہ ماہ رمضان!!۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۶۷ءخطبات ناصر جلد اول صفحہ ۱۰۱۶۔۱۰۱۷)

نزول قرآن

’’یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قدر عظیم کتاب کو ہم نے رمضان کے مہینے میں نازل کرنا شروع کیا تھا شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ اور اسے (سارے کے سارے کو) اپنے اپنے وقت پر رمضان کے مہینے میں نازل کرتے رہے ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام نزول فرماتے اور میرے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے۔ اس رمضان میں جتنا حصہ قرآن کریم کا نازل ہو چکا ہوتا اس کا دور نزول کے ذریعے جبرائیل علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ نزول ہوتا رہتا تھا اور آخری سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے میرے ساتھ دو دفعہ قرآن کریم کا دور کیا ہے۔ غرض اتنی عظیم کتاب کا اس مہینے میں بار بار نزول ہونا اور پھر اسی مہینہ میں نزول ہونا بتاتا ہے کہ یہ ماہ بھی بہت سی برکتیں اپنے اندر رکھتا ہے پس فرمایا کہ یہ مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم کے احکام بھی پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس کا قرآن کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور جو قرآنی برکتیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہیں جن کا اختصار کے ساتھ ابھی میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم ان برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو رمضان کی عبادتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر۱۹۶۷ء خطبات ناصر جلد اول صفحہ۹۶۹-۹۷۰)

قرآن کریم پر عمل کرنے والا مہینہ

’’قرآن کریم کامل ہدایت ہے اور حکمتوں اور دلائل کے ساتھ اپنی بات منوانے والی کتاب ہے اور اس پر عمل پیرا ہو کر نور اور فرقان انسان کو حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک کامل اور مکمل نور ہے۔ جو اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِکے سرچشمہ سے نکلا ہے اور رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت اور اس کی حکمتوں اور اس کے فرقان سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیا جا سکے۔‘‘۔ ( خطبہ یکم دسمبر۱۹۶۷ءخطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۷۶ )

قرآن کریم کے ذریعے دلوں کی تسخیر

“ میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو کہ دنیاوی معاملات میں ایک مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی ہو۔ شریعت اسلامی بنی نوع انسان کے لئے خالصتاً باعث رحمت ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام ؓنے لوگوں کے دلوں کو محبت پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا۔ اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ قرآن کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے “ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘‘( Love for all , Hatred for none) یہی طریقہ ہے دلوں کو جیتنے کا۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔‘‘(حیات ناصر جلد اوّل بحوالہ دورہ مغرب ۱۴۰۰ ھ صفحہ ۵۲۳۔۵۲۴)

روحانی اور جسمانی ترقیات

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اتنی برکتوں والا مہینہ ہے جو تمہاری روحانی اور جسمانی ترقیات کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ جسے اللہ تعالیٰ زندگی اور صحت میں رمضان دکھائے اس کا فرض ہے کہ وہ رمضان سے فائدہ اٹھائے اس لئے جو شخص بھی رمضان میں زندہ ہو اور صحت مند ہو وہ رمضان کے روزے رکھے اور دیگر عبادات بجا لائے کیونکہ رمضان کی عبادت محض یہ نہیں کہ انسان بھوکا رہے بھوکا رہنے سے خدا کو یا خدا کے بندوں [کو] کیا فائدہ، اگر یہ شخص اس بھوکا رہنے کی حکمت کو نہیں سمجھتا اور اس کے لوازم کو ادا نہیں کرتا۔

رمضان کے مہینہ میں ہم خاص طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور نوافل کی ادائیگی کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صحت میں رمضان کا مہینہ پائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے روزے بھی رکھے۔ نوافل بھی ادا کرے۔ غرباءکا خیال بھی رکھے۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں سخاوت کا مظاہرہ بھی کرے۔ اپنے بھائیوں کی غم خواری اور ان سے ہمدردی بھی کرے۔ تمام بنی نوع انسان سے محبت کا سلوک کرے اور اپنی زبان کو اور دوسرے جوارح کو ان اعمال سے بچائے رکھے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کثرتِ تلاوت اور کثرتِ نوافل اور روزے رکھنے کے نتیجہ میں ہدایت کے بَیِّنَاتٌ کے اور نُوْرٌ مِنَ اللّٰہ کے سامان پیدا کرے گا۔‘‘( خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر۱۹۶۷ءخطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۷۱)

بیمار یا مسافر

’’جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ کسی اور وقت رمضان کے روزوں کی گنتی کو پورا کرے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ اس طرح میں اپنے بندوں کے لئے سہولت کے سامان پیدا کروں۔ مومن وہی ہوتا ہے جو اپنے ارادہ اور خواہش کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کے ارادہ کو قبول کرتا ہے۔ پس مومن کی علامت ہے کہ وہ سفر میں اور بیماری میں اپنی شدید خواہش کے باوجود اپنی اس تڑپ کے باوجود کہ کاش میں بیمار نہ ہوتا یا سفر میں نہ ہوتا روزہ نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیکی اس بات میں نہیں کہ میں بھوکا رہوں بلکہ نیکی یہ ہے کہ میں اپنے ارادہ کو خداتعالیٰ کے ارادہ کے لئے چھوڑ دوں ۔‘‘( خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر۱۹۶۷ء خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۷۱-۹۷۲)

انتہائی سخاوت کا مہینہ

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینہ میں انتہائی سخاوت کیا کرتے تھے پس جو آپ کے اسوہ پر چلنے والا ہے وہ اس مہینہ میںخاموشی کے ساتھ اپنے بھائی کی عزت اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مال میں سے حسب توفیق اپنے بھائیوں کی جیبوں میں ڈالتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بدلہ میں مَیں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اور جب میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا تو تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی معرفت اور ایمان کی مضبوطی پیدا ہو گی اور جنت کے دروازے تمہارے لئے کھولے جائیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے مہینے میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں عبادت قبول ہوتی اور فضل نازل ہوتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۶۷ء خطبات ناصر صفحہ ۱۰۰۳-۱۰۰۴)

رمضان کی معیّنہ تاریخوں میں چاند اور سورج گرہن کا نشان

’’اِنَّ لِمَھْدِیَّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ وَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْہُ وَلَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ(دار قطنی جلد اول صفحہ ۱۸۸مؤلفہ حضرت علی بن عمر بن احمد الدار قطنی مطبوعہ مطبع انصاری)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ امت مسلمہ میں بہت سے جھوٹےدعویدار کھڑے ہوں گے جو یہ دعوٰی کریں گے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مہدی ہیں حالانکہ وہ مہدی نہ ہوں گے مہدویت کا سچا دعویدار وہ ہوگا جس کی صداقت کے ثبوت کے لئے آسمان دو نشان ظاہر کرے گا یعنی چاند اور سورج اس کی سچائی پر گواہ ٹھہریں گے اس طرح کہ رمضان کے مہینے میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات یعنی ۱۳؍ماہ رمضان کو چاند گرہن ہوگا اور اسی رمضان میں سورج گرہن ہونے کے درمیانے دن یعنی۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوگا۔ مہینوں میں سے ماہ رمضان کی تعیین اور چاند کے لئے پہلی رات کی تعیین اور سورج کے لئے درمیانے دن کی تعیین غیر معمولی تعیین ہے جو انسانی طاقت اور علم اور فہم سے بالا ہے۔

چنانچہ جب وقت آیا تو ایک مدعی نے واقعی ظہور کیا اور دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں اور اس کے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر دونوں نشان یعنی چاند اور سورج گرہن جس طرح کہ پیشگوئی میں بتائے گئے تھے ظہور میں آئے۔ پس یہ ایک غیرمعمولی اور معجزانہ پیشگوئی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی کے لئے کی تھی اور جیسا کہ واقعات نے ثابت کیا یہ پیشگوئی اپنے وقوعہ سے قریباً تیرہ صد سال قبل کی گئی تھی یہ پیشگوئی انسانی عقل اور قیافہ اور علم سے بالا ہے۔

پھر یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ وہ عظیم بچہ جو ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا تھا اس نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر ۱۸۹۱ء میں دنیا میں یہ اعلان کیا کہ وہی موعود مہدی ہے اور اپنے دعویٰ کی صداقت کے ثبوت کے لئے ہزاروں عقلی اور نقلی دلائل اور آسمانی تائیدات اور اپنی پیشگوئیاں جن میں سے بہت سی اس کے زمانہ میں پوری ہو چکی تھیں اور بہت تھیں جن کے پورا ہونے کا وقت ابھی بعد میں آنے والا تھا دنیا کے سامنے پیش کیں مگر وقت کے علماء نے اس کے دعویٰ کو جھٹلایا اور انکار کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ مہدی کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کا گرہن بطور علامت کے بیان کیا تھا چونکہ اس پیشگوئی کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن نہیں لگا اس سے ثابت ہوا کہ آپ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں۔ لیکن وہ قادر وتوانا خدا جو اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے مخلص عباد کے ساتھ وفا اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے اس نے عین اپنے وعدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ۱۸۹۴ء کے ماہ رمضان میں معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن کی حالت میں کر دیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا اور ہر دو جہاں کا رب بڑی عظمت اور جلال اور قدرت کا مالک ہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہی نشان رمضان ہی کے مہینہ میں اور عین معینہ تاریخوں پر ۱۸۹۵ء میں دوسری دنیا کو دکھایا تا مشرق اور مغرب اور پرانی اور نئی دنیا کے بسنے والے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی صداقت کے گواہ ٹھہریں۔ پس عظیم ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے اپنے خدا سے علم پاکر یہ معجزانہ پیشگوئی فرمائی اور عظیم ہے آپؐ کا وہ روحانی فرزند جس کے حق میں وہ پوری ہوئی۔‘‘( خطبہ جمعہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۷ء خطبات ناصرجلد اول صفحہ ۹۲۹۔۹۳۰)

رمضان اور قبولیت دعا

’’رمضان کے مہینے کا اور رمضان کے روزوں اور عبادات کا بڑا گہرا تعلق دعا اور قبولیت دعا کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے یہ فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے رکھا جاتا ہے ’’اور میں خود اس کی جزا ہوں گا‘‘ اور وہ خود ہی اس کی جزا بن جاتا ہے۔ اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے اور اپنے پیار اور محبت کا سلوک اس سے کرتا ہے اور پیار اور محبت کے سلوک میں بڑا ہی پیارا سلوک قبولیت دعا کا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌسے پہلے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں ہدایت بھی ہے اور حکمت بھی ہے نور بھی ہے۔ ہر زمانہ میں ہر مہینہ میں ان قرآنی برکات کے حصول کی کوشش کرتے رہا کرو لیکن رمضان میں آسمان سے رحمتوں کا نزول دوسرے مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور قبولیت جو انسان کو حاصل ہو سکتی ہے وہ بھی اس مہینہ میں زیادہ حاصل ہو سکتی ہے…

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌاگر میرے بندے یہ سوال کریں کہ اللہ کا قرب کیسے حاصل ہو سکتا ہے تو انہیں میری طرف سے کہو کہ میں تو قریب ہوں۔اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ رمضان کے روزوں اور دوسری عبادتوں کے نتیجہ میں میں اور بھی قریب ہو گیا اور میرے قرب پر یہ بات شاہد ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا کو میں قبول کرتا ہوں لیکن دعا کو اپنی شرائط کے ساتھ کرنا چاہیے اور دعا کی جو شرائط اسلام نے بتائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جن پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے وہ ساری کی ساری ان دو لفظوں میں آجاتی ہیں کہ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡاللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا لیکن بنیادی طور پر دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ تم میرا حکم ماننے والے ہو۔ کوئی ایسی دعا نہ ہو جو میرے اوامر و نواہی کے خلاف ہو۔ مثلاً اللہ تعالیٰ حکم یہ دے کہ ہمسائے سے حسن سلوک کرو اور ہمسایہ بغض اور حسد سے یہ دعا کر رہا ہو کہ خدا اس کو تباہ کرے اس کے بچوں کو مار دے اس کے رزق میں بے برکتی ڈال تو ایسی دعا اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو گی اور رد کر دی جائے گی اور قبول نہیں کی جائے گی۔

…دوسری اصولی شرط یہ ہے کہ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ میری ذات اور میری صفات پر کامل ایمان رکھتے ہوں اگر کسی شخص کے دل میں یہ خیال ہو مثلاً کہ میرا بچہ اس قدر بیمار ہو چکا ہے کہ اللہ بھی اس کو شفا نہیں دے سکتا تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی اس صورت میں اس کی دعا تو سطحی اور محض زبان کے الفاظ ہوں گے جس کے اندر کوئی حقیقت جن کے اندر کوئی روح نہیں پائی جاتی…‘‘(خطبہ جمعہ ۸؍دسمبر ۱۹۶۷ءخطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۸۶ تا ۹۸۷)

اعتکاف اور لیلۃ القدر

’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ علم دینے کے لئے کہ وہ کس قسم کے انقطاع عن الدنیا اور انابت الی اللہ کو پسند کرتا ہے۔ ہمارے لئے اعتکاف کی نفلی عبادت مقرر فرمائی۔ یہ نفلی عبادت یعنی اعتکاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پہلے دس دنوں میں بجا لائے پھر آپ رمضان کے درمیانی دس دنوں میں بھی اعتکاف بیٹھے اور آپ یہ عبادت رمضان کے آخری عشرہ میں بھی بجا لائے ہیں۔ غرض آپ رمضان کے تینوں عشروں میں اعتکاف بیٹھے ہیں اور اسے آخری شکل آپ نے یہ دی کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت بجا لائی جائے اب رمضان کا آخری عشرہ بڑا ہی محدود زمانہ ہے۔ دس دن ہی تو ہیں۔ پھر لوگوں کی ایک تو محدود تعداد اعتکاف بیٹھتی ہے لیکن اس سے ہم سب کو کم سے کم یہ علم ضرور حاصل ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس قسم کی زندگی گزارنے کی ہم سے امید کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے لئے خلوت اور تنہائی کو پسند فرماتے تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴؍جنوری ۱۹۶۶ء خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۴ )

’’معتکف کو اس کے حال پر چھوڑ دیں…معتکف کو مسجد میں صرف اس لئے بٹھایا گیا ہے کہ اس کی نماز جمعہ ضائع نہ ہو اور وہ نماز با جماعت ادا کر سکے اس لئے نہیں کہ جو چاہے اور جب چاہے اس کی کوٹھڑی میں چلا جائے اور اس کی عبادت میں مخل ہو۔ مساجد سے اعتکاف کی عبادت کو لازم کرنے سے اجتماعی دعا اور عبادت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عباسؓ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ایک شخص سارا دن عبادت اور روزہ میں گزارتا ہے رات کو بھی وہ ذکر الٰہی اور نوافل پڑھنے میں خرچ کرتا ہے لیکن وہ نماز باجماعت سے غافل ہے اور جمعہ کی نماز میں بھی نہیں آتا اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے نہایت آرام سے جواب دیا ھو فی النار وہ شخص آگ میں جائے گا۔ پس ہمیں فرائض کی طرف بہر حال پہلے متوجہ ہونا چاہیے اور نوافل تو ایک زائد عبادت ہے…فرائض کے بغیر نوافل کوئی چیز نہیں۔

رمضان کے ان آخری دنوں میں جن میں ہم اعتکاف بیٹھتے ہیں ایک وہ رات بھی آتی ہے جو لیلۃالقدر کے نام سے موسوم ہے لیلۃ القدر کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ رات جس میں اگر انسان چاہے اور پھر اس کا رب فضل کرے تو وہ اپنی اور اپنی قوم کی تقدیر کو اپنے رب سے بدلوا سکتا ہے یعنی لیلۃ القدر وہ رات ہے جس میں تقدیریں بھی بدل سکتی ہیں لیکن اکثر تقدیریں جو متضرعانہ دعا کے نتیجہ میں بدل دی جاتی ہیں ہمارے علم میں نہیں آسکتیں…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (یوسف: ۲۱)

اللہ تعالیٰ تقدیر بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے ہاں جو تقدیر پردۂ غیب میں ہے اور پردۂ غیب میں ہی بدل دی جاتی ہے اس کے متعلق اکثر لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری دعا کو قبول فرما کر بہت سی دکھ دینے والی چیزوں کو بدل دیتا ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے بھر جانے چاہئیں۔

اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَاکثر لوگ غیب کی ان باتوں کی طرف مومنانہ فراست سے متوجہ نہیں ہوتے اور ان کے دل حمد سےخالی رہتے ہیں۔

پس ان آخری دنوں میں اعتکاف بیٹھنے کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس رات کی تلاش کے لئے ان دنوں میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو یہ رات دکھا دے اور جس خوش قسمت کو وہ گھڑی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بڑی کثرت سے سنتا ہے تو اسے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس رات کی تلاش سے پہلے اسے یہ سوچ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت دعا کی یہ گھڑی نصیب کر دی تو وہ اس میں کون کون سی دعا کرے گا۔ احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! میں نوافل بھی پڑھوں گی اور دعائیں بھی کروں گی لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر مجھے لیلۃالقدر کی گھڑی نصیب ہو جائے تو اس میں مَیں کون سی دعا کروں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھڑی میں تم اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو۔ پس استغفار ایک بنیادی دعا ہے اس کے بغیر حقیقتاً ہماری زندگی زندگی ہی نہیں رہتی نہ دنیوی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ اخروی زندگی۔ نہ مادی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ روحانی زندگی۔ اس دنیا میں جو مختصر زندگی ہمیں ملتی ہے اس میں ہم اس قدر غلطیاں کرتے ہیں اتنی کو تاہیاں ہم سے سر زد ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو نہ ہو اور وہ اس دنیا میں یا اگلی دنیا میں ہمیں پکڑنا چاہے تو ہمارے لئے راہ نجات ممکن ہی نہیں۔

لیلۃ القدر میں جو دعائیں مانگنی چاہئیں ان میں سے دو بنیادی اور انفرادی دعائیں استغفار اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا ہے۔ استغفار یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت چاہنا اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ پوشی کی درخواست کرنا اور خاتمہ بالخیر ہو جائے تو پھر پچھلی غلطیاں شمار نہیں ہوتیں۔ وہ سب معاف ہو جاتی ہیں۔ اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور اپنی رضاکی جنت ہمیں نصیب کرے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴؍جنوری ۱۹۶۶خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۶تا۹۹)

’’لیلۃ القدر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کی تقدیریں تمہارے حق میں اور تمہارے فائدہ کے لئے اس وقت حرکت میں آئیں گی جب تم راتوں کو اپنے رب کے لئے زندہ کرو گے۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ ہر روز تمہارا خدا تمہارے لیے اپنی تقدیر کی تاریں ہلائے تو تمہیں ہر رات کو لیلۃ القدر بنانا پڑے گا۔ اگر تم اپنی ہر رات کو لیلۃ القدر نہیں بناتے بلکہ غفلت میں اور سوتے ہوئے سارے سال کی راتوں کو گزار دیتے ہو تو ایک لیلۃ القدر سے تمہیں کیا فائدہ؟ پس اگر میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو۔ اگر روحانی ترقیات چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تمہاری ہر رات لیلۃ القدر کی کیفیت رکھتی ہو۔ اور تمہارا ہر دن جمعۃ الوداع کی کیفیت رکھتا ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو خدا تعالیٰ کی رضا کو نہیں پا سکو گے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۶؍جنوری ۱۹۶۷ءخطبات ناصر جلد اول صفحہ۵۵۱)

متفرق احکامات اور ان کی حکمت

’’اول وقت میں افطاری اور آخری وقت میں سحری کھانا بڑی برکت کا موجب ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنا چاہیےتا اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی برکات سے نوازتا چلا جائے۔

پھر روزے کی عبادت کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک اور لطیف بات معلوم ہوتی ہے۔ اس عبادت میں ہمیں کھانے پینے سے روکا گیا ہے اور کھانے پینے پر ایک فرد کی بقا ءکا انحصار ہے کیونکہ کوئی شخص کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

پھر ہمیں جنسی تعلقات سے بھی روکا گیا ہے اور جنسی تعلقات پر نسل کی بقاءکا انحصار ہے۔ اس کے بغیر نسل انسانی جاری نہیں رہ سکتی۔ اگر دنیا کے سارے لوگ وہ کیفیت اپنے اوپر وارد کر لیں جو روزہ کے وقت ایک روزہ دار کی ہوتی ہے تو یقیناً یہ دنیا اسی نسل میں ختم ہو جائے۔

توبنیادی چیز جس کا اقرار اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ذریعہ ہم سے لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اپنی نسل کی زندگی۔ اے خدا!تیرے حوالے کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ان چیزوں سے بھی روکا گیا ہے جس پر ہماری نسل کی بقا ءکا انحصار ہے گویا ہم سے خدا تعالیٰ یہ اقرار کرواتا ہے کہ ہمارا سب کچھ تیرا ہو گیا۔ تُو اگر کہے تو ہم بھوکے پیاسے مرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور تُواگر چاہے اور تیری رضا اسی میں ہو تو ہماری نسلیں بھی تجھ پر قربان۔

پس یہ ایک بنیادی منشاء ہے جس کے گرد قرآن کریم اور اسلامی شریعت کے تمام احکام چکر لگاتے ہیں اسی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی عبادتوں کا تو اپنا اپنا ثواب ہے۔ لیکن روزہ میرے لئے ہے۔ اور میں خود روزے دار کی جزاءہوں۔ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۷۱-۷۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button