متفرق

شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ رمضان کے دونوں پہلوؤں پر نفلی روزوں کے پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریرفرماتے ہیں کہ پس ہماری پُر حکمت شریعت نے فرائض کے سارے حصہ کو کامل صورت میں برقرار رکھنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی ہے کہ اس کے دونوں پہلوئوں میں سنتوں کے پہرہ دار کھڑے کر دیئے ہیں۔ تاکہ توجہ کے انتشار والا حصہ فرائض والے وقت پر اثر انداز ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ میں مدغم ہو کر رہ جائے۔اور فرائض والے حصہ میں کسی قسم کارخنہ نہ پیدا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ فرض نمازوں کے شروع میں سنتیں زیادہ کر دی گئی ہیں تاکہ انسان سنتوں والے حصہ میں اپنی توجہ کو جماسکے اور پھر جب فرض والا حصہ آئے تو وہ کامل توجہ کے ساتھ اسے ادا کرنے پر قادر ہو۔ اسی طرح فرض نمازوں کے آخر میں سنتیں اس غرض سے رکھی گئی ہیں تاکہ فارغ ہونے کے وقت سے قبل جو انتشار پیدا ہوتا ہے۔وہ فرائض والے حصہ میں پیدا ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ کی طرف منتقل ہوجائے۔ اس پر سوال ہوسکتا ہے کہ ساری نمازوں کے آگے پیچھے تو سنتیں نہیں رکھی گئیں،بلکہ بعض نمازوں کے دونوں طرف رکھی گئی ہیں اور بعض کے ایک طرف رکھی گئی ہیں۔اور بعض کے کسی طرف بھی رکھی نہیں گئیں سو یہ درست ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ صورت خود اپنی ذات میں شریعت اسلامی کے ایک دوسرے کمال کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ شریعت نے سنتوں کے مقرر کرنے میں ہر نماز کے وقت کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ جو نماز ایسے وقت میں آتی ہے کہ اس کے دونوں طرف دنیوی کا روبار کی غفلت کاغلبہ ہوتا ہے تو ایسی نماز کے دونوں طرف سنتیں مقرر کردی گئی ہیں۔ اور اگر کوئی ایسی نماز ہے کہ جس کے شروع میں غفلت کا وقت ہوتا ہے تو اس سے پہلے سنتیں مقرر کردی گئی ہیں۔ اسی طرح جس نماز کے بعد میں غفلت کا وقت آتا ہے۔اس کے آخر میں سنتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ وعلیٰ ھذالقیاس۔اور بعض نمازوں میں امتحان کے پہلو کو غالب رکھ کر صرف تنبیہہ کر دی گئی ہے کہ اس نماز کاخاص خیال رکھو۔میںاس نکتہ کو دانستہ زیادہ نہیں کھولتا کیونکہ اوّل تو یہ اس کا موقع نہیں اور دوسرے دوستوں کو خود غور کی عادت پید اکرنی چاہئے مگر بہر حال سنتوں کے مقرر کرنے میں اصول وہی مدنظر ہے جواوپر بیان کیا گیا ہے۔

یہی اصول رمضان کی عبادت میں مد نظر رکھا گیا ہے۔ چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ مسلمان رمضان کے سارے مہینہ کو کامل روحانی توجہ کی حالت میں گزاریں اس لئے شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ رمضان کے دونوں پہلوؤں پر نفلی روزوں کے پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نفلی روزوں کے تعلق میں سب سے زیادہ زور شعبان اور شوال کے روزوں پر دیا کرتے تھے یعنی عموماً شعبان کا بیشتر حصہ نفلی روزوں میں گزار تے تھے۔اور اسی طرح عید کے بعد بھی شوال کے چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ اس میں بھی یہی بھاری حکمت مدنظر تھی کہ اصل رمضان کے مہینہ کو توجہ کے انتشار سے بچایا جائے۔میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آنحضرت ﷺ فداہ نفسی کو ذاتی طور پر توجہ کے انتشار کا خطرہ تھا۔کیونکہ حق یہ ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ نے وہ عظیم الشان فطری انجن عطا کیا تھاجوپہلے قدم پر ہی پوری رفتار پکڑ لیتا تھااور جسے رکنے سے قبل بھی رفتار دھیمی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی مگر چونکہ آپ نے اپنی امت کے لئے ایک سبق اور نمونہ بننا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے لئے یہ طریق اختیار کیا کہ اہم نیک کاموں کے دونوں طرف سنتوں اور نوافل کے پہرہ دار مقرر فرمادیئے تاکہ ان کے نیک اعمال کا مرکزی نقطہ ہر دو جانب توجہ کے انتشار سے محفوظ رہے۔

(مطبوعہ الفضل ۲۲؍جون ۱۹۴۹ء۔ بحوالہ مضامین بشیر جلد ۲ صفحہ ۵۶۳-۵۶۴)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button