الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ایک مباہلہ اور خاص نصرتِ الٰہی

حضرت مولوی فتح الدین صاحب ؓ دھرمکوٹی حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم اور پرانے صحابہؓ میں سے تھے اور حضورؑ کے عشق میں ایسے رنگے ہوئے تھے جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ اُن کے حوالے سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۹؍نومبر ۲۰۱۳ء میں مکرم لطیف احمد طاہر صاحب کے قلم سے نصرتِ الٰہی کا ایک واقعہ شامل اشاعت ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘سے منقول ہے۔

سائیں ابراہیم صاحبؓ آف دھرم کوٹ بگّہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ابتدائے دعویٰ میں دھرم کوٹ کے ہم پانچ کَس نے بیعت کی تھی یعنی خاکسار، مولوی فتح دین صاحبؓ، نور محمد صاحبؓ، اللہ رکھا صاحبؓ اور شیخ نواب الدین صاحبؓ۔ اُس وقت رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں پٹھانان اچھا عابد شخص خیال کیا جاتا تھا۔ وہ دھرم کوٹ بگہ میں بھی آتا جاتا تھا اور مولوی فتح دین صاحب سے حضورؑ کے دعویٰ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سخت کلامی پر بھی اُتر آتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ۱۹۰۰ء میں مولوی صاحبؓ نے اُسے توبہ اور استغفار کی تلقین کی کہ حضورؑ کی شان میں ایسی باتیں نہ کہو۔ لیکن اُس نے کہا کہ مَیں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر مولوی صاحبؓ بھی مباہلے کے لیے تیار ہوگئے اور مباہلہ وقوع میں آگیا۔ لیکن مباہلے کے بعد ہم احمدیوں نے آپس میں بات کی کہ حضرت صاحبؑ کی اجازت کے بغیر مباہلہ کرنا ٹھیک نہیں ہوا۔ پھر ہم پانچوں قادیان پہنچے اور نماز عشاء کے بعد حضورؑ کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کرکے کہا کہ چالیس دن میعاد مقرر کی گئی ہے، حضور دعا فرمائیں۔ حضورؑ نے معاً فرمایا: کیا تم خدا کے ٹھیکیدار تھے؟ تم نے چالیس دن میعاد کیوں مقرر کی؟ یہ غلط طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی دریافت فرمایا کہ مباہلے کے لیے اپنے وجود کو پیش کیا گیا ہے یا کہ ہمارے وجود کو؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! اپنا وجود ہی پیش کیا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آئندہ یاد رکھو کہ مباہلے میں میرا وجود پیش کرنا چاہیے نہ کہ اپنا۔ اس کے بعد حضورؑ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: مَیں دعا کرتا ہوں، آپ بھی شامل ہوجائیں۔

نہایت رقّت بھرے الفاظ سے دعا شروع ہوئی۔ عشاء کے بعد سے لے کر تہجد کے وقت تک دعا ہوتی رہی۔ آخر دعا ختم ہوئی اور حضورؑ نے فرمایا: جاؤ، دعا قبول ہوگئی ہے اور خدا کے فضل سے تمہاری فتح ہے۔

پھر ہم واپس چل پڑے اور نماز فجر راستے میں پڑھی۔ واپس آکر بھی حضورؑ کی نصیحت کے مطابق دعائیں کرتے رہے۔ میعاد میں دس دن باقی رہ گئے تو رادھے خان نے آکر پھر سخت کلامی کی اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر جنگل میں دعا کرنے کے لیے چلاگیا۔ بعد میں اُس نے یہ بھی کہا کہ اُس کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ یہ دعا کرنے کے بعد وہ واپس اپنے گاؤں کی طرف چلا تو راستے میں اُس کی پنڈلی کی ہڈّی پر چوٹ لگی جس کا زہر اُس کے جسم میں پھیل گیا اور چند دن میں ہی اُس کا جسم اتنا پھول گیا کہ چارپائی پر پورا نہ آتا تھا۔ مولوی صاحب اس کی بیماری کی حالت میں اُس کے پاس گئے اور توبہ و استغفار کی تلقین کی لیکن وہ متوجہ نہ ہوا اور میعاد ختم ہونے سے ایک دن پہلے واصل جہنم ہوا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مسنون طریق یہ ہے کہ مباہلے کے لیے ایک سال کی میعاد مقرر کی جائے اور اسی واسطے حضرت صاحبؑ چالیس روز میعاد کے مقرر ہونے پر ناراض ہوئے ہوں گے۔ مگر خدا نے حضرت صاحب کی خاص دعا کی وجہ سے چالیس روز میں ہی مباہلے کا اثر دکھا دیا مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے ورنہ عام حالات میں ایک سال سے کم میعاد نہیں ہونی چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے بھی جب اہل نجران کو مباہلہ کے لیے بلایا تھا تو اپنی طرف سے ایک سال کی میعاد پیش کی تھی۔

………٭………٭………٭………

تعارف کتاب ’’سیرت المہدی‘‘

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ بشریٰ مالک صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ۱۲۶۰ صفحات پر مشتمل تصنیف ’’سیرت المہدی‘‘ کا تعارف شامل اشاعت ہے۔

دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کی سیرت کے حوالے سے کُل۲۵۷۱ روایات ہیں۔ اس انمول کتاب میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے بڑی احتیاط ، محنت اور لگن سے کئی رجسٹروں اور مختلف احباب سے روایات لے کر جمع کی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حالاتِ زندگی اور آپؑ کے روح پرور ارشادات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؑ آنحضرتﷺ کی سیرت کا کامل نمونہ تھے۔ آپؑ کے گھر دارالمسیح کاماحول بےحد شفقت و محبت سے بھرا ہوا اور ہر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا۔ چند روایات پیش ہیں۔

حضرت بھائی عبد الر حمٰن قادیانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ قیامِ لاہور کے زمانہ میں حضرت اقدسؑ قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضورؑ بھی رتھ یا فٹن میں بیٹھ کر تشریف لے جاتے تھے۔ کھلی سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انار کلی میں بھی۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہندو حلوائیوں کے ہاںسے کھانے کی چیزیں بھی خریدفرما لیا کرتے تھے جن میں بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرمایا کرتے تھے۔ انار کلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پر اکثر ٹھہرا کرتے تھے اور سب کو سوڈا پلوایا کرتے تھے۔ عام اجازت ہوا کرتی تھی، جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن، روز اور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ۔ مگر حضرت اقدسؑ خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کرپیا کرتے تھے۔

حضورؑ بیمار عورتوں، خادمائوں اور بے سہارا عورتوں پر خاص مہربانی و شفقت فرماتے۔ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب آف پٹی نے بیان کیا کہ آپؑ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے ۔ میری بڑی لڑکی چار سال کی تھی اور اس کو کالی کھانسی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ اگر حضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تو مجھے آرام ہوجائے گا۔ اُس وقت حضورؑ کچھ لکھ رہے تھے۔ حضورؑ نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کے منقّہ دیا اورایک سفید رومال میں باندھ دیااور فرمایا کہ سارا نہ کھا جائے ۔تھوڑا تھوڑا کھائے گرم ہوتا ہے۔ وہ کھانے لگی تو اس کے کھاتے ہی اس کو کھانسی سے آرام ہوگیا ورنہ ہم تو بہت علاج کر چکے تھے۔

اہلیہ صاحبہ مولوی فضل دین صاحب کھاریاں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ آپؑ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لیے دیے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں واپس لیں گے۔ ایک عورت نے کہا کہ حضور! اخروٹوں میں سے بہت گریاں نکلتی ہیں تو حضورؑ مسکرائے۔

مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت اماں جان صاحبہؓ ؓ سے سنا کہ ایک دفعہ شام کے وقت حضرت اُمّ المومنینؓ اور مولویانی نے صلاح کی کہ حسن بی بیؓ اہلیہ ملک غلام حسین صاحبؓ کو ڈرائیں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت اُمّ المومنین ؓ نے حسن بی بی سے کہا کہ پانی پلائو۔ جب وہ پانی لینے گئی تو مولویانی صاحبہ چارپائی کے نیچے چھپ گئی۔ وہ پانی لے کر آئی اور چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر پانی دینے لگی تو مولویانی صاحبہ نے نیچے سے اس کے پائوں کی چٹکی لی ۔ اس نے دو تین چیخیں ماریں اور زمین پر گر پڑی۔ حضورؑ مسجد سے گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور استفسار فرمایا تو سب چپ ہو گئیں۔ اس پر فرمایا کہ میں نے کئی بار کہا ہے کہ نماز کے وقت ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ آپؑ ہنستے بھی جاتے تھے کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ مذاق کیا گیا ہے۔

مراد خاتون صاحبہؓ مزید بیان کرتی ہیں کہ حضورؑ گھر کے کسی کام میں عار نہ سمجھتے تھے۔ایک دفعہ سب نے مل کر آم کھائے تو صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت مکھیاں آگئیں۔ کچھ خادمات بھی وہاں موجود تھیں۔ مگر حضر ت اقدسؑ نے خود ایک لوٹے میں فینا ئل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔

حضورؑ اپنے مہمانوں کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایسااتفاق ہوا کہ دونو ں وقت دال پک کر آئی ۔ حضورؑ کو علم ہوا تو آپؑ نے فرمایا: مَیں نہیں چاہتا کہ میرے مہمانوں کو دونوں وقت دال دی جائے۔ مَیں تو بدل بدل کر کھانا کھلائوں گا۔ یہ میرے مہمان ہیں۔

حضرت منشی عبدالعزیز صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں حضور علیہ السلام گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے اور احاطۂ کچہری میں ایک جامن کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر مع خدّام تشریف فرما تھے۔ حضورؑ کے لیے دودھ کا گلاس لایا گیا۔ چونکہ حضورؑ کا پس خوردہ پینے کے لیے سب دوست جدوجہد کیا کرتے تھے۔ میرے دل میں اس وقت خیال آیا کہ مَیں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں ۔ اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضورؑ کا پس خوردہ مل سکتا ہے؟ اس لیے میں ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ حضورؑ نے جب نصف گلاس نوش فرما لیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا: میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ عام آدمی سے بھی بےحد شفقت ومحبت کا برتائو کرتے تھے ۔ آپؑ بےحد سادہ اور دِل کے حلیم تھے اور آنحضرتﷺ کا کامل نمونہ تھے ۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو گھر کا کوئی کام کرنے سے کبھی عار نہ تھی۔چارپائیاں خود بچھا لیتے،فرش کر لیتے، بستر کر لیا کرتے۔ کبھی یک دم بارش آجاتی تو چھوٹے بچے تو چار پائیوں پر سوتے رہتے۔ حضورؑ ایک طرف سے خود ان کی چارپائیاں پکڑتے ۔دوسری طرف سے کوئی اَور پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کروا لیتے۔ اگر کوئی شخص ایسے موقع پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجوڑ کر جگاناچاہتا تو حضورؑ منع کرتے اور فرماتے کہ اس طرح یک دم ہلانے اور چیخنے سے بچہ ڈر جاتا ہے۔آہستہ سے آواز دے کر اٹھائو۔

آپؑ مہمانوں کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ جب مولوی محمد علی صاحب ایم اے حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کے ایک حصّہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی تو حضر ت صاحبؑ خود ان کے لیے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کرکے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔ آپؑ کو مہمانوں کی بہت خاطر منظورہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپؑ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ فلاں کام میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظرنہیںآتی۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’میاں! تم اللہ تعالیٰ کے نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔‘‘

ملک مولا بخش صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعودؑ بمعہ اہل بیت و خدام امر تسر تشریف لائے۔ امر تسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کہ مرد زیادہ ہوں گے، مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لیے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لیے تجویز کیا۔ حضورؑ نے آتے ہی مکان کو دیکھا تو بڑے حصے کو زنانہ کے لیے مخصوص فرمالیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو عورتوں کے آرام کا بہت خیال تھا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button