خلاصہ خطبہ جمعہ

رمضان المبارک کے فضائل اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں حصول تقویٰ کا پُر معارف بیان: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍مارچ۲۰۲۴ء

٭… رمضان کے مہينے ميں مساجد ميں درس کا انتظام ہوتا ہے اسي طرح ايم ٹي اے پر بھي انتظام ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہيے

٭… رمضان ميں تو قرآن کريم کے پڑھنے پڑھانے، سننے سنانے، عبادات اور ذکر الٰہي کي طرف توجہ ہوني چاہيے

٭… تقويٰ دنياوي آلائشوں سے پاک کرتا ہے اس ليے تقويٰ کا حصول ہر مومن کا اوّلين فرض ہونا چاہيے

٭… جو شخص مريض اور مسافر ہونے کي حالت ميں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعاليٰ کے صريح حکم کي خلاف ورزي کرتا ہے

٭… نجات خدا تعاليٰ کے فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئي نجات حاصل کرسکتا ہے

٭…رمضان المبارک میں احباب جماعت کو دعاؤں کی خصوصی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍مارچ۲۰۲۴ء بمطابق ۱۵؍امان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۵؍مارچ ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آیات ۱۸۴ اور ۱۸۵ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ آیات کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کردیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ گنتی کے چند دن ہیں پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بہت عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے۔

اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے فضلوں سے نوازنے کے لیے بہت مہربان ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تو عام دنوں میں بھی اپنے بندوں کو اس طرح نوازتا ہے کہ جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس مہینے میں خاص طور پر شیطان کو جکڑ کر اس کے پنجے سے نکلنے کے سامان کرتا ہے تو اس کی مثال دینے کے لیے تو ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں میں عبادات میں جو بھی سستیاں ہم دکھا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں اس کمی کو پورا کرنے کے سامان کردیے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں مساجد میں درس کا انتظام ہوتا ہے اسی طرح ایم ٹی اے پر بھی انتظام ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے اس کی طرف آنے کی ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کو پاکر خوشی ہوتی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر۔

اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے تو اس کو اتنا نوازتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر رمضان کے اس ماحول سے فائدہ اٹھائیں۔

سورۃ البقرہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے حکموں پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے وہیں بعض دوسرے احکام کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ روزے کے حکم کے ساتھ یہ فرماکر کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے ہمیں عاجزی کی راہوں پر چلنے کی طرف توجہ دلادی کہ تم کہیں یہ نہ سمجھو کہ روزے رکھ کر تم کوئی امتیازی کام کرنے لگے ہو۔

روزوں کا مقصد تقویٰ پر چلنا ہے۔

امیر لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اردگرد موجود غرباء کا رمضان میں بالخصوص خیال رکھیں۔ افطاریوں میں صرف امراءہی جمع نہ ہوں بلکہ غریبوں کی افطاری کا بھی انتظام کریں۔ دعوتوں کے رنگ میں جو بڑی بڑی افطاریاں ہوتی ہیں ان کے حق میں ویسے بھی مَیں نہیں ہوں۔ یہ سب دکھاوے اور بدعت کا رنگ اختیار کرگئے ہیں۔ رمضان میں تو قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے، سننے سنانے، عبادات اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔

روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے لیکن ڈھال کا استعمال بھی آنا چاہیے ورنہ شیطان تو ہر وقت انسان کو بہکانے کے لیے کوشاں ہے۔

عبادات اور ذکرِ الٰہی کا حصار ہمیں شیطان کے حملوں سے بچائے گا

روزے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں روزے کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور ایک اثر ہے جو تجربے سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا اس سے منشاء یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی الہامی دعا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ بہت اہم دعا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ نہایت ضروری ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تقریباً ہر مجلس میں اس طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ علیہ السلام کا مصرعہ ہے کہ ‘‘ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے’’اس پر اللہ تعالیٰ نے الہاماً اگلا مصرعہ فرمایا کہ ‘‘اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے’’پس

تقویٰ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف لے کر جاتا ہے۔

تقویٰ دنیاوی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اس لیے تقویٰ کا حصول ہر مومن کا اوّلین فرض ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن شریف نے شروع میں ہی فرمایا ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ پس قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لیے تقویٰ ضروری اصل ہے۔

فرمایا جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا پھر کہتا ہے کہ علومِ دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔

دین کے لطائف اور نکات کے لیے متقی ہونا شرط ہے۔ تقویٰ تمام دینی علوم کی کنجی ہے انسان تقویٰ کے سوا ان کو نہیں سیکھ سکتا۔ پس جو شخص قرآن کریم کی ہدایت پر کاربند ہوگا وہ کامیاب ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ مراتب محض سنانے کے لیے نہیں ہیں یہ خزانہ ہے اسے مت چھوڑو۔ یہ خزانہ تمہارے ہی گھر میں ہے اور ذرا سی کوشش سے تم اس کو پاسکتے ہو۔ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ آج کل کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خزانے کو نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھو! دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو۔

نماز روزہ اور دوسری عبادات تب تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ دوسری بات یہ کہ نوع انسان کا حق ادا کرو۔

تقویٰ یقیناً ایسی چیز ہے جسے یہ حاصل ہو اسے گویا دوسری کسی شئے کی حاجت نہیں رہتی۔ تقویٰ ایسی چیز ہے کہ جسے وہ حاصل ہوگیا وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور اپنے دشمن کی ہلاکت پر بےجا خوش نہ ہوں۔ پس نیک بننے کی کوشش کرو۔ تقویٰ ایک تریاق ہے جو اسے استعمال کرتا ہے تمام زہروں سے نجات پاتا ہے مگر تقویٰ کامل ہونا چاہیے۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

ہماری جماعت کو یہ بات بہت یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حال میں نہ بھلایا جائے۔ ہر وقت اسی سے مدد مانگتے رہنا چاہیے۔

اس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ وہ ایک دم میں فنا کرسکتا ہے۔ طرح طرح کے دکھ اور مصیبتیں موجود ہیں بےخوف اور نڈر ہونے کا مقام نہیں۔ اس دنیا میں بھی جہنم ہوسکتا ہے اور طرح طرح کے مصائب آسکتے ہیں۔ اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو۔ جب تک خوفِ الٰہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا۔ کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ۔ جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچالیے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشیدہ طور پر ضرور تعلق رکھنا چاہیے۔ عقل مند انسان وہی ہے جو اس تعلق کو محفوظ رکھتا ہے۔

ان آیات میں سے دوسری آیت میں روزے سے متعلق بعض احکامات کا ذکر ہے۔ فرمایا:ان گنتی کے چند دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ روزے فرض کرنے کے باوجود تمہیں سہولت عطا کرتا ہے۔ لہٰذا جو مریض اور مسافر ہیں وہ خود پر بلاوجہ بوجھ نہ ڈالیں اور صحت یاب ہونے یا سفر ختم ہونے کے بعد روزے مکمل کرلیں۔ فرض پورا ضرور کرنا ہے لیکن غیر ضروری بوجھ بھی نہیں ڈالنا۔

فدیہ کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ صاحبِ حیثیت کے لیے حکم ہے کہ اس سے دہرا ثواب ملتا ہے۔

یہ زائد نیکی ہے۔ پھر دودھ پلانے والی مائیں ہیں یا مستقل بیمار ہیں۔ ان کو حسبِ توفیق فدیہ کا ارشاد فرمادیا اور فرمایا کہ تمہارا فدیہ دینا روزوں کے متبادل ہے۔ فدیے سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے۔ گویا یہاں بھی حقوق العباد کو عبادت کا درجہ دےدیا۔ یہ ہے اسلام کا خدا جو رحم کے سوا کچھ نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ یہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزے کی توفیق اسے عطا ہو۔ خدا تعالیٰ قادرِ  مطلق ہے اگر وہ چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزے کی طاقت عطا کرسکتا ہے۔ پس فدیے سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہوجائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت روزہ رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے۔ اس حکم پر بھی عمل رکھنا چاہیے۔

جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ نجات خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھتا ہے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آتا ہے۔ تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے رمضان گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کی توفیق دے۔ نہ ہی ہم روزوں سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے والے ہوں اور نہ بلاوجہ سختی اپنے اوپر وارد کرنے والے ہوں۔ ہمیشہ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں ہم اللہ تعالیٰ کی بےشمار برکتیں پانے والے ہوں۔ ہر دن ہمارے لیے برکتوں اور رحمتوں کے سامان لے کر آئے۔

تمام دنیا کے احمدی جماعتی ترقیات کے لیے اور مشکلات کے دور ہونے کے لیے بھی دعا کریں۔

حکومتوں اور ہر شریر کے شر سے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔ اسیران کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ یہ دعا بھی کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا دامن ایسا پکڑیں کہ کبھی ہماری کسی لغزش کی وجہ سے یہ دامن نہ چھوٹے۔ مسلمان دنیا کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ آنے والے مسیح موعود کو قبول کرنے والے ہوں۔ جنگوں کے بد اثرات سے بچنے کے لیے بھی دعا کریں۔ مسلمان ممالک میں اقتدار کے لیے جو جنگیں لڑی جارہی ہیں اس کے لیے بھی دعا کریں۔

دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جنگ اور اس کے بداثرات سے بھی سب کو بچائے۔ ظاہر ہے جنگ ہوگی تو احمدی بھی اس سے متاثر ہوں گے اللہ تعالیٰ اس سے بھی سب کو محفوظ رکھے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی ہراحمدی کو اپنے تقویٰ کا معیار بلند کرنا ہوگا۔

یہاں یوکے میں بھی مسلمانوں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور یہاں کے باقی مسلمانوں کو بھی ان کے بداثرات سے محفوظ رکھے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button