خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ فروری 2024ء

حضرت مصلح موعودؓ کی باون سالہ خلافت کےدَور کا ہر دن اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شان کا اظہار کر رہا ہے

جہاں کہیں مسلم قوم کی بہتری اور بہبودی کا معاملہ درپیش ہوتا آپ کی قابل عمل تجاویز ہمارا حوصلہ بڑھانے کا موجب بنتیں۔ ایسے مواقع پر آپ کا رؤاں رؤاں قومی درد سے تڑپ اٹھتا تھا۔ فرقہ بازی کا تعصّب میں نے اس وجود میں نام کو نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے … ہم یاس و افسردگی کی تصویر بنے ان سے ملاقات کے لیے جاتے اور جب باہر آتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ناامیدی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور مقصد میں کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے۔ وزنی دلیل دیتے اور قابل عمل بات کرتے اور پھر اسی پر بس نہیں ہر نوع کی قربانی اور تعاون کی پیشکش بھی ساتھ ہوتی جس سے ہم میں جرأت اور حوصلہ کے جذبات پیدا ہوتے۔ (مولانا غلام رسول مہر،ایڈیٹرانقلاب)

مَیں نے آج تک ایسی معقول گفتگو اور ایسی مدلل تقریر کسی مسلمان کے منہ سے نہیں سنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا خلیفہ بہت بڑا سکالر ہے اور مذاہب عالم پر اس کی نظر بڑی گہری ہے (امریکی پادری)

سیاست میں اپنی جماعتوں کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتدا کرکے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کرکے رہتا ہے (اخبار سیاست، لاہور)

’’وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدماتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں،مشعل راہ ثابت ہوگا۔‘‘ (مولانا محمد علی جوہر)

’’میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہو جائے گی۔‘‘ (سیّد حبیب صاحب)

’’ایسی پُراز معلومات تقریر بہت عرصے کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے۔ خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت ہی عمدہ ہے۔ میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہورہی ہےوہ زائل نہ ہوجائے۔‘‘ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

He has a good mind and had carefully thoughtout his constitutional scheme.(Secretary of State for India, Edwin Samuel Montagu)

’’بہت سے علماء اور فضلاء …نے آپؓ کو نہایت عمیق ریسرچ رکھنے والا عالم اور سب مذاہب اور ان کی تاریخ و فلسفہ کا گہرا مطالعہ رکھنے والا اور شریعت الٰہیہ کی حکمت و فلسفہ کی واقفیت رکھنے والی شخصیت پایا۔‘‘ (اخبار العمران دمشق)

’’ اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ ‘‘…ایک ایسا مضمون ہے جو احمدیوں کو بھی پڑھ لینا چاہیے۔ان کی بہت ساری معلومات میں اضافہ ہوگا۔

(حضرت مصلح موعودؓ کی) بہت سی کتب کی اشاعت انگریزی زبان میں بھی ہوچکی ہے۔ جن کو اردو نہیں آتی انہیں اس علمی خزانہ سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے

پیشگوئی مصلح موعودؓ کے بعض پہلوؤں کے حضرت مصلح موعودؓ کی ذات بابرکات میں پورا ہونے کے تناظر میں انصاف پسند غیراز جماعت مشاہیر اور دانشوروں کے تأثرات

پاکستان اوریمن کے احمدیوں اور فلسطینیوں نیز صدسالہ جوبلی جلسہ سالانہ گھانا کے کامیاب انعقاد کے لیے دعا کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍فروری2024ء بمطابق 23؍ تبلیغ 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج مَیں

پیشگوئی مصلح موعود کے بعض پہلوؤں کا ذکر

کروں گا۔ جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے اور ہر سال اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ 20؍فروری 1886ء کی پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک مختلف صفات کے حامل بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی لیکن اس بارے میں بیان کرنے سے پہلے

مَیں بچوں اور بعض نوجوانوں کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ دے چکا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ جب ہم سالگرہ نہیں مناتے تو حضرت مصلح موعودؓ کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے؟

اس بارے میں واضح ہو جیساکہ مَیں نے کہا مَیں کئی مرتبہ بیان کرچکا ہوں کہ

مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی پیدائش کی سالگرہ نہیں منائی جاتی بلکہ پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش تو 12؍جنوری 1889ء کی ہے۔ دوسرے جن گھروں میں یہ ذکر نہیں ہوتا وہاں خود والدین کو پڑھ کر بچوں کو بتانا بھی چاہیے، سمجھانا بھی چاہیے کہ پیشگوئی مصلح موعود کیا ہے۔ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو پہلے نوشتوں کے مطابق جن کی پہلے انبیاء نے بھی خبر دی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ اعلان کرنے کا فرمایا تھا۔

یہ ایک لمبی پیشگوئی ہے اس کا شروع کا حصہ مَیں بیان کردیتا ہوں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزوجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ و عزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں‘‘ یعنی خدا کہتا ہے میں قادر ہوں۔ ’’اور جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذر یّت اور نسل ہوگا۔‘‘ اور پھر آگے اس پیشگوئی میں اس لڑکے کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض کا، ایک دو کا مَیں ذکر کردیتا ہوں۔ فرمایا ’’…وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا … علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔‘‘ پھر فرمایا وہ ’’…اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 647)

یہ اس لمبی پیشگوئی کی چند باتیں ہیں۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ اس مدت کے اندر جو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آپؑ نے دی تھی وہ لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی کے تمام حصوں کا مصداق بنا جن کی تعداد پچاس، باون بنتی ہے۔ بہرحال جیساکہ مَیں نے کہا مَیں نے تو یہ دو تین باتیں ہی اس پیشگوئی کی لی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کی باون سالہ خلافت کےدَور کا ہر دن اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شان کا اظہار کررہا ہے۔

اب کوئی نہ ماننے والا ہمارا مخالف یہ کہہ سکتا ہے کہ احمدی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی دلیل دیں گے ہی، وہ تو کہتے ہی رہیں گے کہ پیشگوئی پوری ہوگئی لیکن کوئی ٹھوس دلیل پیش کرو۔ تو یہ ایسے معترضین کی ڈھٹائی ہے ورنہ حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا ہر دن جیساکہ مَیں نے کہا اس کی روشن دلیل ہے۔ بہرحال

جن باتوں کا پیشگوئی کے حوالے سے مَیں نے ذکر کیا ہے اس بارے میں ایسے انصاف پسند لوگوں کی گواہیاں پیش کرتا ہوں جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور برصغیر میں وہ جانی پہچانی شخصیتیں ہیں۔

چنانچہ

مولانا غلام رسول صاحب مہر

ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ آپ یعنی مولانا غلام رسول صاحب 1885ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ایک محقق، مصنف، ادیب، صحافی اور مؤرخ تھے۔ روزنامہ زمیندار سے منسلک رہے۔ بعد میں مولانا عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر اخبار انقلاب لاہور سے جاری کیا۔ 20 اور 25؍دسمبر 1966ء کو شیخ عبدالماجد صاحب آف لاہور مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوران گفتگو حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق مولانا غلام رسول مہر صاحب نے بتایا کہ آپ لوگوں کی کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے کارناموں کی مکمل آگاہی نہیں ملتی۔ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ پرائیویٹ تبادلہ خیالات کیا ہے۔ مسلم قوم کے لیےتو ان کا وجود سراپا قربانی تھا۔ پھر کہنے لگے کہ ایک دفعہ مجھے راتوں رات قادیان جا کر حضرت صاحب سے مشورہ کرنا پڑا۔ وہ سفر اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ انسانیت کے لیے اس شخص کے دل میں بڑا درد تھا۔ یعنی حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں بڑا درد تھا۔ اور

جہاں کہیں مسلم قوم کی بہتری اور بہبودی کا معاملہ درپیش ہوتا آپ کی قابل عمل تجاویز ہمارا حوصلہ بڑھانے کا موجب بنتیں۔ ایسے مواقع پر آپ کا رؤاں رؤاں قومی درد سے تڑپ اٹھتا تھا۔ فرقہ بازی کا تعصّب میں نے اس وجود میں نام کو نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے۔

پیشگوئی کے الفاظ ہیں ذہین و فہیم ہوگا۔ غیر از جماعت بھی اس کی گواہی دے رہا ہے۔

پھر سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ مَیں نے پاک و ہندمیںسیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ پریکٹیکل پالیٹکس میں ایسا کام کرتا ہے جیسا مرزا صاحب کا دماغ کام کرتا تھا۔ بے لوث مشورہ، واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل یہ ان کی خصوصیت تھی۔ مجھے ان کی وفات پر بڑا صدمہ ہوا۔ کہنے لگے مَیں نے اسماعیل صاحب پانی پتی کو تعزیت کا خط بھیجا ہے۔ اس خط میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ حضرت صاحب سے متعلقہ تعزیتی فقرات کو شائع بھی کرا سکتے ہیں۔

پھر کہتے ہیں افسوس! مسلمانوں نے مرزاصاحب کی قدر نہیں کی۔ سخت مخالفت کی آندھیوں کے باوجود مَیں نے مرزا صاحب کو کبھی افسردہ اور سردمہر نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب کے دل کی شمع ہمیشہ روشن رہی۔

ہم یاس و افسردگی کی تصویر بنے ان سے ملاقات کے لیے جاتے اور جب باہر آتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ناامیدی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور مقصد میں کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے۔ وزنی دلیل دیتے اور قابل عمل بات کرتے اور پھر اسی پر بس نہیں ہر نوع کی قربانی اور تعاون کی پیشکش بھی ساتھ ہوتی جس سے ہم میں جرأت اور حوصلہ کے جذبات پیدا ہوتے۔

(ماخوذ از ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون جولائی 2008ء صفحہ 325-326)

پھر جناب

لالہ کَنور سَین صاحب سابق چیف جج کشمیر

آپؓ کے بارے میں ان کا ایک اظہار خیال ہے۔ لالہ کَنور سین صاحب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی تقریر ’’عربی زبان کا مقام اَلْسِنَہ عَالَم میں‘‘ اور صاحب صدر کے شکریہ کے بعد خاص طور پر شکرگزاری کے جذبات سے لبریز انگریزی میں ایک مؤثر تقریر فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا، (حضرت مصلح موعودؓ کا ایک لیکچر تھا اس کو سننے کے بعد کہا) کہ آج قابل لیکچرر نے زبانِ عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکة الآراء تقریر کی ہے، اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اور اس لحاظ سے بھی مجھے خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں۔ چنانچہ ان کے والد ماجد سے میرے والد صاحب نے عربی سیکھی تھی۔ لالہ صاحب کے والد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عربی سیکھی تھی۔ کہتے ہیں جب مَیں لیکچر سننے کے لیے آیا تو اس وقت مَیں نے خیال کیا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کرتے ہیں۔ کہنے لگے مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبانِ عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا اس کی فضیلت کی تین وجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ مَیں عرب کا رہنے والا ہوں۔ یہ عربی کی فضیلت ہے۔ دوسری یہ کہ قرآنِ مجید کی زبان ہے۔ چلو یہ ماننے والی بات ہے۔ تیسرے اس لیے کہ جنت میں بھی عربی بولی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ مَیں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبانِ عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ مَیں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ مَیں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور مَیں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر قائم رہے گا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد6صفحہ181)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے پرائمری پاس بھی نہیں تھے۔ اس علم سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پُر کیا تھا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور غیر بھی یہ تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔

ایک امریکی پادری کے تاثرات

سنیں۔ شیخ اسماعیل صاحب پانی پتی نے بیان کیا۔ مولوی عمرالدین صاحب شملوی نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ حضور کے خلیفہ ہونے کے چند ماہ بعد یعنی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ 1914ء میں خلافت پر متمکن ہوئےتو چند ماہ بعد امریکہ کا ایک بڑا پادری قادیان آیا۔ جو بڑا عالم فاضل بھی تھا اور اپنے علم و فضل پر نازاں بھی تھا۔ قادیان پہنچ کر اس نے ہم لوگوں کے سامنے چند مذہبی سوالات پیش کیے جو نہایت وقیع اور بڑے اہم تھے اور ساتھ ہی کہا کہ مَیں امریکہ سے چل کے یہاں تک آیا ہوں اور مَیں نے مسلمانوں کی ہر مجلس میں بیٹھ کر ان سوالات کو دہرایا ہے مگر آج تک مجھے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا عالم اور فاضل ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔مَیں یہاں ان سوالوں کو آپ کے خلیفہ صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لیے خاص طور پر آیا ہوں۔ دیکھئے خلیفہ صاحب ان سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ یہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ سوالات اتنے پیچیدہ اور عجیب قسم کے تھے کہ انہیں سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت صاحب ابھی بالکل نوجوان ہیں اور الٰہیات کی کوئی باقاعدہ تعلیم بھی انہوں نے نہیں پائی۔ عمر بھی چھوٹی ہے اور واقفیت بھی بہت تھوڑی ہے، وہ ان سوالوں کے جواب ہرگز نہیں دے سکیں گے اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بڑی بدنامی اور سبکی ساری دنیا میں ہوگی کیونکہ جب حضرت صاحب ان سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو یہ امریکن پادری واپس جا کر ساری دنیا میں اس امر کا پراپیگنڈہ کرے گا کہ احمدیوں کا خلیفہ کچھ بھی نہیں جانتا اور عیسائیت کے مقابلے میں ہرگز نہیں ٹھہر سکتا۔ وہ صرف نام کا خلیفہ ہے ورنہ علمیت خاک بھی نہیں رکھتا۔ کہتے ہیں اس صورت حال سے میں بہت پریشان ہوا۔ مَیں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ امریکن پادری حضرت صاحب سے نہ ملے اور ویسے ہی واپس چلا جائے مگر مجھے اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ امریکن اس بات پر مصر رہا کہ مَیں ضرور خلیفہ صاحب سے مل کر جاؤں گا۔ ناچار مَیں گیا اور مَیں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ایک امریکن پادری آیا ہے۔ آپؓ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہے۔ اب کیا کریں؟ اس پر حضرت صاحب نے بغیر توقف کے اور بلاتامل فرمایا کہ بلا لو اسے۔ ناچار مَیں اسے لے کر آ گیا۔ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دونوں کے درمیان ترجمان کہتے ہیں مَیں ہی تھا۔ وہ انگلش میں بول رہا تھا۔ آپؓ اردو میں جواب دے رہے تھے۔ یہ ترجمانی کررہے تھے۔ کہتے ہیں امریکن پادری نے کچھ رسمی گفتگو کے بعد اپنے سوالات حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیے جن کا ترجمہ مَیں نے آپؓ کو سنا دیا۔ حضرت صاحب نے نہایت سکون کے ساتھ ان سب سوالوں کو سنا اور پھر فوراً ان کے ایسے تسلی بخش جوابات دیے کہ مَیں سن کر حیران ہوگیا۔ مجھے ہرگز بھی یقین نہ تھا کہ ان سوالوں کے حضرت صاحب ایسے پُرمعارف اور بے نظیر جواب دے سکیں گے۔ جب مَیں نے یہ جوابات انگریزی میں امریکن پادری کو سنائے تو وہ بھی حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ

مَیں نے آج تک ایسی معقول گفتگو اور ایسی مدلل تقریر کسی مسلمان کے منہ سے نہیں سنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا خلیفہ بہت بڑا سکالر ہے اور مذاہب عالم پر اس کی نظر بڑی گہری ہے۔ یہ کہہ کر اس نے بڑے ادب سے حضرت صاحب کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور واپس چلا گیا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 163-164)

یہ شان ہے پیشگوئی کے پورے ہونے کی۔ ایک پادری بھی جو اپنے آپ کو علوم کا ماہر سمجھتا تھا اسلام کی برتری کا قائل ہوکرگیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی ایک کتاب ہے ’’نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح‘‘۔ اس کے متعلق ایک رائے دینے والے نے لکھا ہے کہ’’حضور کی اس بروقت راہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے کہا کہ ’’اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کررہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اَور کہیں نہیں دیکھی جاتی‘‘ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار ’’سلطان‘‘ نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کرکے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ ’’میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے … آپ برائے مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کردیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبرگیری کررہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اَور بھی بڑھا دیا اور مَیں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاستدان بھی سمجھنے لگا ہوں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ71-72)

اخبار سیاست لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ 2؍دسمبر1930ء میں اس نے لکھا کہ ’’مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور

سیاست میں اپنی جماعتوں کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتدا کرکے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کرکے رہتا ہے۔

آپؓ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نکتہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نکتہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے استدلال سے مملو کتابیں شائع کرنے کی صورت میں‘‘ یعنی دلیلوں سے بھری ہوئی کتابیں شائع کرنے کی صورت میں ’’آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے۔ زیر بحث کتاب سائمن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعتِ معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کردینے والا ہوتا ہے۔ آپ کی زبان بہت شستہ ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ 219)

عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سٹیشن لاہور سے تقریر

عراق کے حالات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریر فرمائی جو آل انڈیا ریڈیو سٹیشن لاہور سے 25؍مئی 1941ء کو نشر ہوئی۔ اس کے متعلق رائے ہے۔ اس تقریر کا محرک دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور اٹلی کا عراق پر حملہ آور ہونا تھا۔دہلی کے مشہور سکھ اخبار ریاست 2؍جون 1941ء نے اس پر حسب ذیل تبصرہ کیا۔

کہتا ہے کہ ’’غلام اقوام اور غلام ممالک کے کیریکٹر کا سب سے کمزور پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کے افراد اخلاقی سچائی اور جرأت سے محروم ہوجاتے ہیں اور چاپلوسی، جھوٹ، خوشامد اور بزدلی کی سپرٹ ان میں نمایاں ہوجاتی ہے۔‘‘ پھر مثال دے رہا ہے کہ ’’عراق کا رشید علی برطانوی حکومت یا برطانوی رعایا کے نکتہ نگاہ سے غلطی پر ہو یا اس کا برطانیہ سے جنگ کرنا غیر مناسب ہو مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص اپنے ملک کی سیاسی آزادی کے لئے لڑ رہا ہے اور اس کو کسی قیمت پر بھی اپنے ملک کا غدار یا ٹریٹر قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ہمارے غلام ملک کے والیانِ ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر دیکھئے جو والئ ریاست عراق کے متعلق تقریر کرتا ہے۔ رشید علی کو غدار کہہ کر پکار رہا ہے۔ اور جو لیڈر جنگ کے متعلق بیان دیتا ہے سب سے پہلے وہ رشید علی کو ٹریٹر قرار دیتا ہے اور پھر اپنے بیان کی بسم اللہ کرتا ہے اور ان والیان ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر‘‘ یعنی یہ مسلمان یا ہندوستان سمیت بعض دوسرے بھی جو لیڈر ہیں، ان لیڈروں کا کیریکٹر ’’غلامی کے باعث اس قدر پست ہے کہ یہ غلط خوشامد اور چاپلوسی کو ہی ملک یا حکومت کی خدمت سمجھ رہے ہیں۔ ہمارے والیانِ ریاست اور لیڈروں کی اس احمقانہ خوشامد کی موجودگی میں قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کی اخلاقی جرأت آپ کا بلند کیریکٹر اور آپ کی صاف بیانی دلچسپی اور مسرت کے ساتھ محسوس کی جائے گی جس کا اظہار آپ نے پچھلے ہفتہ اپنی ریڈیو کی ایک تقریر میں کیا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 239تا 244)یہ قوم کو اسیری سے نجات دلانے کی آپؓ کی ایک کوشش ہے۔

مولانا محمد علی جوہر صاحب

ہیں۔ 1878ء میں یہ پیدا ہوئے۔ 1931ء میں ان کی وفات ہوئی۔ رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ کلکتہ سے انہوں نے ہفتہ وار اخبار کامریڈ جاری کیا۔ دہلی میں ہمدرد کے نام سے اردو میں بھی اخبار کا اجرا کیا۔ 1923ء میں آل انڈیا کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔ وہیں 4؍جنوری 1931ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔

(ماخوذ از مولانا محمد علی جوہر (حیات و خدمات) از ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صفحہ 15، 30تا 33، 41تا 45، 48)

پاکستان کے قیام، استحکام اور اس کی تعمیر و ترقی کے ہر مرحلے پر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمات نمایاں تھیں۔ آج یہ کہتے ہیں ناں کہ احمدیوں نے کیا کیا؟ یہ تو خود غیر تسلیم کر رہے ہیں کہ نمایاں خدمات تھیں۔ مولانا محمد علی جوہر صاحب نے اس سلسلہ میں اپنے تاثرات اپنے اخبار ہمدرد 26؍ستمبر 1927ء میں درج فرمائے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ناشکرگزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کردی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘ یعنی مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی جماعت۔’’تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم، تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی جدو جہد سے منہمک ہیں۔‘‘یہ احمدیوں کا کردار ہے ’’اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل‘‘ ( سنیں کہتے ہیں ) وہ وقت دُور نہیں جب اسلام کے اس منظم فرقے کا طرز عمل ’’سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدماتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 622)

بڑے بڑے منبروں میں بیٹھ کے دعوے کرتے ہیں۔ ہم مذہبی لیڈر بن کے ظاہر میں بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن کہتا ہے در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں۔ لیکن اندرونی طور پر یہ صرف ان کے دعوے ہیں۔ بڑے گھٹیا قسم کے دعوے ہیں۔ ان کے لیے یہ لوگ مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ یہ دن کسی وقت آئے گا دیکھ لینا۔ یہ ہے انصاف پسند علماء کی رائے۔ آجکل کے علماء جو احمدیوں کو پاکستان اور اسلام کا دشمن کہتے ہیں انہیں اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام کا درد احمدی رکھتے ہیں یا یہ نام نہاد علماء۔

سید حبیب صاحب

ایک شخصیت ہیں۔ 1891ء میں پیدا ہوئے۔ اردو کے مشہور اور ممتاز اخبار نویس تھے۔ رسالہ پھول اور تہذیب نسواں کے مدیر مقرر ہوئے۔ اخبار نقاش اور پھر ’’سیاست‘‘ اور روزنامہ ’’غازی‘‘ جاری کیا۔ نہایت بے باک اور نڈر اخبار نویس تھے۔ 1951ء میں ان کی وفات ہوئی۔

(ماخوذ از یارانِ کہن از عبدالمجید سالک صفحہ 189تا 200 زیر ’’سید حبیب‘‘)

آل انڈیا کشمیر کمیٹی جس کا قیام 25؍جولائی 1931ء کو عمل میں آیا تھا۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے اس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ شروع میں جب کمیٹی بنی تھی تو حضرت مصلح موعودؓ کو سب مسلمانوں کی طرف سے متفقہ طور پہ صدر بنایا گیا تھا۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ نے ایک وقت میں آکے اس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تو سید حبیب صاحب نے اپنے اخبار سیاست لاہور کی اشاعت 18؍مئی 1933ء میں لکھا: ’’ میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال‘‘ یعنی ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب ’’اور ملک برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے اور یوں دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلافِ عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا انہوں نے کام کی کامیابی کو زیرِ نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اُس وقت اگر اختلافاتِ عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو یہ تحریک بالکل ناکام رہتی اور امتِ مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا۔

میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہوجائے گی۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون جولائی 2008ء صفحہ 323-324)

اب پتا لگ جائے گا کہ مرزا صاحب نے کیا کام کیا تھا اور ڈاکٹر علامہ صاحب کیا کام کرتے ہیں اور ان کی کمیٹی جو ان کے بغیر ہے کیا کام کرتی ہے۔ اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ کیا ہوا۔ سب کچھ سامنے ہے۔ یہ کام آپؓ نے کیوں کیا؟ اس لیے کہ اسیروں کی رستگاری کا درد آپؓ میں تھا اور آپؓ نے اس کا موجب بننا تھا۔ آپؓ نے صدارت تو چھوڑ دی تھی اور بعد میں بھی کمیٹی کا کافی کام کیا لیکن اس درد کی وجہ سے پیچھے رہ کر ہر ممکن مدد جو آپ کرسکتے تھے کی اور اس کی تاریخ گواہ ہے۔

پھر مولانا عبدالماجد دریاآبادی صاحب

ہیں۔ 1892ء میں یہ پیدا ہوئے۔ ہندوستان کے ایک اردو ادیب ،قلم کار، محقق اور مفسر قرآن بھی تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے وصال پر مولانا عبدالماجد صاحب نے اپنے اخبار صدق جدید لکھنؤ کی 18؍نومبر 1965ء کی اشاعت میں لکھا کہ دوسرے عقیدے ان کے جیسے بھی ہوں، قرآن و علومِ قرآنی کی عالمگیر اشاعت اور اس کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرمائے۔ یہ خود مفسر قرآن ہیں اور یہ بات مصلح موعودؓ کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں۔ اور ان خدمات کے طفیل میں ان کے ساتھ عام معاملہ درگذر کافرمائے۔ خیر آگے لکھتے ہیں کہ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین اور ترجمانی وہ کرگئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔

(ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ حضرت مصلح موعود نمبرمئی، جون، جولائی 2009ء صفحہ879)

ایک مفسر قرآن جو مسلمانوں کے ہیں خود یہ تسلیم کررہے ہیں کہ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح اور تبیین اور ترجمانی وہ کرگئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔ اختلافِ عقیدہ کے باوجود جس میں وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں گے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ قرآن و اسلام کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔

جب اللہ تعالیٰ نے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کرنے کا وعدہ دیا تھا تو پھر کون آپؓ جیسے علوم و معارف اپنے وقت میں بتا سکتا تھا بلکہ بعد میں آنے والے بھی آپؓ کے علوم سے ہی خوشہ چینی کریں گے تبھی صحیح رستے پر چلتے جائیں گے۔

ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال صاحب۔

ان کے حوالے سے جماعت کے خلاف بہت باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کی یہ باتیں بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ 24؍مارچ 1927ء کو لاہور میں ایک جلسہ ہوا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں تقریر فرمائی۔ اس کے بعد علامہ صاحب نے کہا:’’ایسی پراز معلومات تقریر بہت عرصے کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے۔ خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت ہی عمدہ ہے۔ میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہورہی ہے‘‘ یعنی حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر سے جو لذت حاصل ہورہی ہے ’’وہ زائل نہ ہوجائے۔‘‘

(الفضل 15؍فروری 1999ء صفحہ6)

سید عبدالقادر صاحب ایم اے

تاریخ کے پروفیسر تھے۔ پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور تھے۔ 1919ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ پہ لاہور میں ایک لیکچر دیا تھا۔ بڑا معرکة الآراء لیکچر تھا۔ یہ صدارت کررہے تھے۔ صدارتی خطاب میں سید عبدالقادر صاحب نے بیان کیا کہ فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے۔ مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کوئی شدھ بدھ ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمانؓ کے عہد کے اختلافات کی تہ تک پہنچ سکے اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کے فتنہ کے اسباب سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے فتنہ کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے نہیں گزرا ہوگا۔

(ماخوذ از الفضل 15؍فروری 2002ءصفحہ13)

وزیر ہند ایڈون سموئیل مونٹیگو (Edwin Samuel Montagu)

ہندوستان کے تمام معاملات کے ذمہ دار برطانوی پارلیمان میں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا ہوتے تھے۔ جب یہ انڈو پاکستان یا سب کانٹیننٹ (Subcontinent)برٹش گورنمنٹ کے ماتحت تھا، برطانیہ کی گورنمنٹ کے ماتحت تھا تو یہ اس وقت ہندوستان کے جو معاملات تھے اس میں برطانوی پارلیمنٹ میں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا تھے۔ 1917ء اور 1918ء میں یہ اس عہدے پر فائز تھے۔ انہی ایام میں ہندوستان کی صورتحال کا جائزہ لینے ہندوستان کے دورے پر گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر ہندوستان کے معاملات کو سلجھانے پر واضح اور مفصل راہنمائی ان صاحب یعنی وزیر ہند کے نام ایک ایڈریس کی شکل میں ارسال فرمائی۔ یہ وزیر ہند بھی تھے۔ یہ ایڈریس انہیں لاہور میں پیش کیا گیا جسے حضرت سر ظفر اللہ خان صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔ حضور نے خود بھی وزیر صاحب سے ملاقات کی اور راہنمائی سے نوازا۔ مونٹیگو (Montagu) صاحب نے اس ایڈریس اور اس کا احوال اپنی ڈائری میں نوٹ کیا جو ان کی وفات کے بعد An Indian Diary کے نام سے شائع ہوئی۔ انہوں نے 15؍نومبر 1917ء کی تاریخ میں درج کیا: چوتھا وفد احمدیوں کا تھا جو مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہے۔ یہ مسلمان ہیں اور انسانیت کے اتحاد میں یقین رکھتے ہیں اور تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ انہوں نے ایک طویل دستاویز پڑھ کر سنائی جو ان کے حضور نے تحریر کی ہے۔ یہ دستاویز ان تمام دستاویزات سے کہیں بہتر تھی جو ہمارے سامنے پیش کی گئیں۔ اس دستاویز کی تجاویز ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کے چناؤ سے متعلق اور قانون سازی کےمتعلق سب وفود سے بہتر اور بہت غور و فکر کے بعد نہایت ذہانت سے تیار کی گئی ہیں۔

ان کے اختتامی نوٹ کے اصل الفاظ یوں ہیں کہ

He has a good mind and had carefully thought out his constitutional scheme.

(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 18تا27؍فروری 2020ء صفحہ54خصوصی اشاعت برموقع یوم مصلح موعودؓ)

ان کا دماغ پائے کا ہے اور بڑی احتیاط اور گہرائی سے انہوں نے ایک آئینی سکیم دی ہے۔

یہ ایک پڑھا لکھا منجھا ہوا سیاستدان ہے جو ایک دنیاوی تعلیم نہ حاصل کرنے والے کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ یہ کیوں نہ ہو کہ یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری علوم سے بھی پُر کیا ہے۔

چودھری محمد اکبر خان بھٹی صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

ہیں۔کہتے ہیں: ’’ایک واقعہ کا ذکر کرنا بھی شاید بے محل نہ ہوگا۔ ایک ہفتہ وار رسالہ تھا ’’پارس‘‘، اس کے ایڈیٹر ’’لالہ کرم چند ایک دفعہ اخبار نویسوں کے وفد کے ساتھ قادیان کے سالانہ اجلاس میں شامل ہوئے۔ وہاں سے واپس آئے تو یکے بعد دیگرے کئی مضامین میں مرزا بشیرالدین محمود صاحب کی قیادت، فراست اور شخصیت کا ذکر ایسے پیرائے میں کیا کہ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مجھے خود کہنے لگے۔ ہم تو ظفر اللہ کو بڑا آدمی سمجھتے تھے۔ (سرظفر اللہ ان دنوں میں وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے) مگر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سامنے اس کی حیثیت‘‘ یعنی ظفر اللہ خان صاحب کی حیثیت ’’طفلِ مکتب کی ہے۔ وہ ہر معاملے میں ان سے بہتر رائے رکھتا ہے‘‘ یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ ہر معاملے میں ظفر اللہ خان صاحبؓ سے بہتر رائے رکھتے ہیں ’’اور بہترین دلائل پیش کرتا ہے۔ اس میں بے پناہ تنظیمی قابلیت ہے۔ ایسا آدمی بآسانی کسی ریاست کو بامِ عروج تک لے جاسکتا ہے …تقسیم ملک کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے لاء کالج لاہور میں ملکی ترقی کے امکانات پر چند تقریریں کی تھیں۔ ان تقریروں میں انہوں نے ایک فاضل یونیورسٹی لیکچرار کی طرح نقشہ جات، بلیک بورڈ اور گراف کی امداد سے بعض نکات کی وضاحت کی تھی۔ مجھے ایک نکتہ یاد ہے۔‘‘ یہ لکھنے والے کہتے ہیں ’’مجھے ایک نکتہ یاد ہے اور وہ یہ کہ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’افسوس ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے ان جزائر کی طرف توجہ نہ دی گئی جو ساحل ہند کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ لکادیپ اور سرندیپ، بالا دیپ وغیرہ۔ ان ساحلی جزیروں کی آبادی اکثر و بیشتر مسلمانوں پر منحصر ہے اور ان کی اہمیت دفاعی نکتہ نگاہ سے بہت زیادہ ہے۔ ارشادات سن کر سامعین میں عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ کاش تقسیم کی کارروائی کے وقت خلیفہ صاحب کا اشتراکِ عمل حاصل کرلیا جاتا۔ بے جا تعصّب اور خود فریبی نے قومی سطح پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے کھو دیا… ایک جج نے نجی صحبت میں اعتراف کیا کہ انہیں اپنی ساری فضیلت کے باوجود ان مافوق الفطرت مسائل کے متعلق رتّی بھر واقفیت نہیں تھی۔ مرزا محمود احمد کی توضیحات کو سن کر ان کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور پہلی بار اسلامی نظریات کا صحیح صحیح علم ہوا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 16تا 22؍فروری 2018ءصفحہ3)

پس مصلح موعودؓ ہی ہیں جنہوں نے پہلے بھی اور بعد میں بھی پاکستان کے وجود کے قیام کے لئے اعلیٰ ترین رائے پیش کیں اور پڑھے لکھے لوگوں کے بھی دماغ روشن کردیے۔ ہوش و حواس ان کو بھول گئے۔ ان کو یہ بھول ہی گیا اور وہ اپنے آپ کو بالکل ہی طفل مکتب سمجھنے لگے کہ ہمیں تو ان باتوں کا پتا ہی نہیں تھا۔

اخبار العمران دمشق

جب حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں دورہ کیا تو 10؍اگست 1924ء میں بعنوان ’مہدی دمشق میں ‘ لکھتاہےکہ’’ابھی آپ کے دارالخلافہ میں تشریف لانے کی خبر شائع ہوئی تھی کہ بہت سے علماء اور فضلاء‘‘ جووہاں شام کے تھے ’’آپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور آپ کی دعوت کے متعلق آپ سے مناظرہ و مباحثہ کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے‘‘ اور پھر کیا ہوا ،کہتا ہے لکھنے والا ’’اور انہوں نے آپ کو نہایت عمیق ریسرچ رکھنے والا عالم اور سب مذاہب اور ان کی تاریخ و فلسفہ کا گہرا مطالعہ رکھنے والا اور شریعت الٰہیہ کے حکمت و فلسفہ کی واقفیت رکھنے والی شخصیت پایا۔‘‘(روزنامہ الفضل 17؍فروری1972ء صفحہ10)یہ ایک عرب اخبار کی گواہی ہے۔

اسرائیل کے قیام کی منصوبہ بندی اور پھر قیام پر جب منصوبہ بندی ہورہی تھی اور پھر اس کے قیام کے بعد بھی آپؓ نے مذہبی اور تاریخی تناظر میں مسلمانوں کو حقائق بتا کر ہوشیار کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں بھی کرتے رہے۔ اس ضمن میں آپؓ نے ایک مضمون

’’ اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ ‘‘

لکھا۔ اور اس کا عربی ترجمہ کرکے اسے عرب تک بھی پھیلایا گیا اور عربوں کو اور مسلم دنیا کو کہا کہ اب بھی ہوشیار ہوجاؤ۔ اس مضمون کو کئی عرب اخبارات نے بھی بیان کیا اور سراہا بھی۔

آپؓ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، خدشات کا بیان کیا تھا اور جن نتائج کے پیدا ہونے کا اظہار کیا تھا آج وہی نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور آج جنگ میں نظر آ رہے ہیں جو آپؓ نے بیان کیے تھے۔ کاش کہ مسلمان اس وقت بھی توجہ کرتے اور آج بھی توجہ کریں۔

اس بارے میں الشوریٰ بغداد کا ایک اخبار ہے اس نے 18؍جون 1948ء کے پرچے میں تفصیل لکھی۔ اسی طرح اخبار ’’الف باء‘‘ دمشق شائع ہوتا ہے اس نے بھی اس مضمون کو خوب سراہا۔

یہ ایک ایسا مضمون ہے جو احمدیوں کو بھی پڑھ لینا چاہیے، ان کی بہت ساری معلومات میں اضافہ ہوگا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 393،391)

سردار شوکت حیات خان صاحب

یہ جدوجہدِ آزادیٔ ہندوستان کے سرکردہ رکن تھے۔ اپنی کتاب گُم گشتہ قوم The Nation that lost its soul میں لکھا ہے:ایک دن مجھے قائداعظم کی طرف سے پیغام ملا۔ (قائداعظم کا پیغام یہ تھا )کہ شوکت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالے جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لیے اپنی نیک دعاؤں اور حمایت سے نوازیں۔ کہتے ہیں جلسہ کے اختتام کے بعد مَیں نصف شب کے قریب بارہ بجے رات قادیان پہنچا۔ حضرت صاحب آرام فرما رہے تھے۔ مَیں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ مَیں قائداعظم کا پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں۔ وہ اسی وقت نیچے تشریف لے آئے اور استفسار کیا کہ قائداعظم کے کیا احکامات ہیں؟ مَیں نے کہا کہ وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلبگار ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جواباً کہا کہ وہ شروع ہی سے ان کے مشن کے لیے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکار کا تعلق ہے یعنی احمدیوں کا۔ کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میںکھڑا نہیں ہوگا اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو وہ ان کی جماعت کی حمایت سے محروم ہوگا۔ اگر وہ کھڑا بھی ہوا تو جماعت اس کی فیور (favour)نہیں کرے گی چاہے وہ احمدی ہو۔ مسلم لیگ کے کینڈیڈیٹ کو بہرحال ہم سپورٹ کریں گے۔ اس ملاقات کے نتیجہ میں ممتاز دولتانہ صاحب نے سیالکوٹ کے حلقہ میں ایک احمدی نواب محمد دین صاحب کو بھاری اکثریت سے شکست دی۔ شوکت حیات صاحب یہ لکھتے ہیں کہ قادیانی لوگوں نے اپنے امیر کے حکم کی بجاآوری میں محمد دین کی بجائے ممتاز کو ووٹ دیا اور یہ ممتاز دولتانہ صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1953ء میں اپنی حکومت میں پھر احمدیوں کے خلاف ہی کارروائی کی۔ احمدی جتنا مرضی ان لوگوں کی حمایت کرتے رہیں لیکن یہ لوگ ڈنگ مارنے سے باز کبھی نہیں آتے۔ شوکت حیات صاحب مزید لکھتے ہیں۔جب میں پٹھان کوٹ پہنچا تو قائداعظم نے مولانا مودودی صاحب سے بھی ملنے کے لیے حکم فرمایا۔ وہ چودھری نیاز کے گاؤں سے متصل باغ میں رہائش پذیر تھے۔ جب میں نے انہیں، مولانا مودودی صاحب کو قائداعظم کا پیغام پہنچایا کہ وہ پاکستان کے لیے دعا کریں اور ہماری حمایت کریں تو انہوں نے جواباً کہا کہ وہ کیسے ’’ناپاکستان‘‘ یعنی ناپاک جگہ کے لیے دعا کرسکتے ہیں۔ مزید برآں کہتے ہیں پاکستان کیسے وجود میں آ سکتا ہے کہ جس وقت تک تمام ہندوستان کا ہر فرد مسلمان نہیں ہو جاتا۔ جماعت اسلامی کے قائد کی یہ بصیرت تھی کہ اس وقت تک پاکستان وجود میں نہیں آ سکتا۔

(ماخوذ از گم گشتۂ قوم از سردارشوکت حیات۔جنگ پبلشرز،صفحہ195،اشاعت اوّل دسمبر1995ء)

اس کا مطلب ہے ان کے نظریہ کے مطابق تو آج تک نہیں آنا چاہیے تھا۔ جماعت اسلامی کے قائد کی یہ بصیرت، یہ سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے قائد کی یہ بصیرت اور نظریہ تھا۔ اور دوسری طرف دیکھو مرزا بشیر الدین محمود احمد کا کیا نظریہ تھا۔ آج احمدی ان تاریخ سے نابلد سیاستدانوں اور نام نہاد علماء کی نظر میں ملک دشمن ہیں جو ملک کے لیے ہر قربانی کے لیے اس کے وجود کے وقت بھی تیار تھے اور آج بھی تیار ہیں اور یہ ملک بنانے کے خلاف جو لوگ ہیں وہ ملک کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں سے ملک کو نجات دلائے۔

پھر مسلمانوں کا درد رکھتے ہوئے آپؓ کا ایک اَور کارنامہ

ہے۔ 1923ء میں آپؓ نے تاریخ شدھی کے خلاف جہاد کا آغاز فرمایا۔ یعنی ہندو بنانے کی تحریک وہ تحریک جو شردھانند نامی ایک ہندو لیڈر نے ہندوستان میں ان مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے چلائی تھی جن کے آباءو اجداد کبھی ہندو تھے۔ آپ نے یکے بعد دیگرے آنریری مبلغین کے وفود ملکانہ کے علاقے کی جانب روانہ کیے۔

اس حوالے سے اخبار مشرق گورکھ پورنے 29؍مارچ 1923ء کی اشاعت میں لکھا کہ’’جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتار تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑا ہے اور اس جہاد میں اس وقت سب کے آگے یہی فرقہ نظر آتا ہے اور باوجود اس بات کے احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس فرقہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا اس لئے اس کی شرم سے‘‘ یعنی کہ اسلام کے نام کی شرم سے ’’امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہوگیا اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ احمدیہ جماعت اپنے عقائد کی تعلیم دے گی تو وہ متفقہ جماعت میں …ایسا خلوص پیدا کرکے آگے بڑھیں۔‘‘ پھر دوسرے مسلمان اگر انہیں خطرہ ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے عقائد نہ جاری کردیں تو پھر وہ مسلمان سارے اکٹھے ہوجائیں، متفقہ جماعت بنائیں اور ایک خلوص پیدا کرکے آگے بڑھیں ’’کہ ستو کھائیں۔‘‘ کس طرح کریں جس طرح احمدی کرتے ہیں۔ ستو کھائیں ’’اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں۔‘‘ جو لوگ وہاں گئے تھے وہ تو اس طرح گزارہ کرتے تھے۔ کوئی کھانا پکا ہوا نہیں ملتا تھا۔ چنے کھاتے تھے اور ستو پیتے تھے۔ ’’جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں۔‘‘ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ارکان میں یہ خلوص ہم بیشتر دیکھتے ہیں۔ ’’دیانت، ایفاءِ عہد، اپنے امام کی اطاعت۔ پس یہ جماعت فرد ہے۔ جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں۔‘‘ یہ ایک بن گئے ہیں اور یہ مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں کہ تم بھی اکٹھے ہو اور ایسا ایثار پیدا کرو۔ ’’دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ

باوجود آمدن کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کررہے ہیں۔‘‘

(مسیح موعودؑ اور جماعت احمدیہ انصاف پسند اصحاب کی نظر میں مرتبہ مولوی عبدالمنان شاہد صفحہ 261، 262)

یہ غیر تسلیم کررہے ہیں۔یہ درد تھا آپؓ کے دل میں جس کے لیے آپؓ نے جماعت میں خاص تحریک کرکے پوری جماعت کو ہی کسی نہ کسی رنگ میں اس کام پر لگا دیا اور متحرک کردیا جس کے غیرازجماعت بھی معترف ہیں۔

م ش صاحب ایک مشہور صحافی اور سیاستدان تھے۔ قلمی نام ان کا ’’م۔ش‘‘ تھا۔ اصل نام میاں محمد شفیع تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پہ انہوں نے ’’لاہور کی ڈائری‘‘ میں لکھا کہ ’’مرزا بشیر الدین محمود احمد نے 1914ء میں خلافت کی گدی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صدر انجمن احمدیہ کو ایک فعال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کرکے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنا لیا تھا۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ میں نے انگریزی کی مہارت ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ سے حاصل کی۔ ان کے ارشاد کے مطابق جب تک یہ اخبار خواجہ نذیر احمد کے دور ملکیت میں بند نہیں ہوگیا انہوں نے اس کا باقاعدہ مطالعہ جاری رکھا۔ مرزا صاحب ایک نہایت سلجھے ہوئے مقرر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے اور ہر ایک اس موقع کو بلا دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوں۔ جماعتی نکتہ نگاہ سے ان کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا کہ تقسیم برصغیر کے بعد جب قادیان ان سے چھن گیا تو انہوں نے ربوہ میں دوسرا مرکز قائم کرلیا۔‘‘

(روزنامہ الفضل 11؍دسمبر1965ء صفحہ5)

پھر The Light جو غیر مبائعین کا ترجمان اخبار ہے اس نے حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پہ لکھا۔ اس کا عنوان یہ تھا۔

A great Nation Builder

انہوں نے 16؍نومبر 1965ء کے شمارے میں لکھا ہے کہ ’’امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محموداحمد کی وفات انتہائی طور پر پُراز واقعات ایک ایسی زندگی کے اختتام پر منتج ہوئی ہے جو دُوررَس نتائج کے حامل، بےشمار عظیم الشان کارناموں اور مہمات سے لبریز تھی۔ آپ علوم و فنون پر حاوی ایک نابغہ روزگار وجود اور بے پناہ قوتِ عمل سے مالا مال شخصیت تھے۔ گذشتہ نصف صدی کے دوران دینی علم و فضل سے لے کر تبلیغ و اشاعت اسلام کے نظام تک اور مزید برآں سیاسی قیادت تک فکر و عمل کا بمشکل ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جس پر مرحوم نے اپنے منفردانہ اثر کا گہرا نقش نہ چھوڑا ہو۔ دنیا بھر میں پھیلا ہوا اسلامی مشنوں کا ایک جال اطراف و جوانب میں تعمیر ہونے والی مساجد اور عرصہ دراز سے قائم شدہ عیسائی مشنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی تبلیغ اسلام کا افریقہ میں وسیع و عمیق نفوذ، یہ وہ کارہائے نمایاں ہیں جو مرحوم کی تخلیقی منصوبہ بندی، تنظیمی صلاحیت اور انتھک جدوجہد کے حق میں ایک مستقل اور پائیدار یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حالیہ زمانہ میں بمشکل ہی انسانوں کا کوئی اور ایسالیڈر ہوا ہوگا جواپنے متبعین کی اتنی پُرجوش محبت اور جاںنثاری کا مستحق ثابت ہوا ہو۔ پھر آپ کے متبعین کی طرف سے پُرجوش محبت اور جاںنثاری کا اظہار صرف آپ کی حیات تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اس کے بعد بھی اس کا اظہار اسی شدت سے ہوا جبکہ ملک کے تمام حصوں سے ساٹھ ہزار لوگ اپنے جدا ہونے والے امام کو آخری نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے دیوانہ وار دوڑے چلے آئے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مرزا صاحب کا نام ایک ایسے عظیم معمارِ قوم کے طور پر زندہ رہے گا جس نے شدید مشکلات کے عَلَی الرَّغْم ایک متحد و مربوط جماعت قائم کر دکھائی اور اسے ایک ایسی قوت بنا ڈالا کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد23صفحہ182)

باوجود اختلاف کے غیر مبائعین کا اخبار بھی اس طرز کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ آپؓ ایک عظیم لیڈر تھے۔ بہرحال یہ بھی ان لوگوں کا کھلے دل کا اظہار ہے۔

آپؓ کے بارے میں اس طرح کے بےشمار غیروں کے تبصرے ہیں۔ اس کے علاوہ آپؓ نے مختلف موضوعات پر جماعت کو، عمومی طور پر مسلمانوں کو بھی نصائح فرمائی ہیں، راہنمائی فرمائی ہے۔ وہ کئی مضمون ہیں۔ کئی کتابیں ہیں ۔کئی ضخیم جلدوں پر یہ مشتمل ہیں۔ کچھ شائع ہوگئی ہیں کچھ شائع ہونے والی ہیں۔ تقریروں کی جلدیں ہی پینتیس چھتیس ہوگئی ہیں۔ خطبات چھبیس ستائیس یا اٹھائیس ہوگئے ہیں۔ تو بہرحال آپؓ نے بہت نصائح فرمائی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی سکول، کسی مدرسہ، کسی کالج، یونیورسٹی میں نہ پڑھنے کے باوجود جو علمِ قرآن اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا فرمایا تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس بارے میں بھی غیروں نے بےشمار تبصرے کیے ہوئے ہیں جو گذشتہ سالوں میں مَیں بیان کرچکا ہوں اور اب جو پرانے ریکارڈ میں سے غیر مطبوعہ نوٹس یا خطبات اور تقریروں میں سے جو تفسیریں قرآن کریم کی مل رہی ہیں وہ ابھی چھپی نہیں ہوئیں۔ تفسیر کبیر میں وہ نہیں آئیں۔ جو تفسیرکبیر کے دس Volumeہیں ان سے تقریباً دوگنے سے زیادہ ہیں۔ ان کی بھی ان شاء اللہ تعالیٰ جلد اشاعت ہوجائے گی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا فرمایا۔ اس پیشگوئی کو پورا فرمایا اور یہ جو پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی عظیم پیشگوئیوں میں سے ایک ہے اور ہمارے ایمان کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔

بہت سی کتب کی اشاعت انگریزی زبان میں بھی ہوچکی ہے۔ جن کو اردو نہیں آتی انہیں اس علمی خزانہ سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پہلے بھی مَیں کہتا رہتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

آج کل پاکستان میں دوبارہ جماعت کے خلاف مخالفت کی ایک لہر شروع ہوئی ہوئی ہے۔

سیاستدان اور مولوی جو انتخابات میں ہارے ہیں یا اپنی مرضی کے نتائج انہیں حاصل نہیں ہوسکے ان کی ایک بڑی تعداد فساد پھیلانے کے لیے پھر احمدیوں پر حملے کررہی ہے۔ ان کا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے کہ جب خود ناکام ہوجائیں تو سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے پھر احمدیوں کے خلاف محاذ کھڑا کردو۔ یہی یہ لوگ آج کل کوشش کررہے ہیں۔ اپنے خودغرضانہ مقاصد کے لیے یہ جو بھی کرسکتے ہیں کرتے ہیں اور کررہے ہیں اور کریں گے۔ اس لیے

احمدیوں کو جہاں ہوشیار ہونا چاہیے وہاں دعاؤں اور صدقات پہ بھی بہت زیادہ زور دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو محفوظ رکھے۔

یمن کے احمدیوں کے لیے بھی بہت دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔ ان کے بہت سارے اسیری میں زندگی گزار رہے ہیں ان کی جلد اسیری سے رہائی فرمائے۔

فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرمائے اور بڑی طاقتوں کے ظلموں سے ان کو نجات دلائے۔

گھانا میں جلسہ ہورہا ہے۔ کل سے شروع ہے۔ کل ہفتہ کو ان کا آخری دن ہے۔ ان کے ہر طرح کامیاب ہونے کے لیے دعا کریں۔

ان کا جماعت کے قیام پر سو سالہ جلسہ ہے۔ کل ان شاء اللہ یہاں سے جلسے پہ میری تقریر بھی ہوگی۔ لائیو وہاں جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل جمعۃ المبارک ۱۵؍ مارچ ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button