از مرکز

دنیا میں امن کے قیام کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ (اٹھارھویں سالانہ پیس سمپوزیم یوکے ۲۰۲۴ء سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

(مسجد بیت الفتوح، لندن،۹؍مارچ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام اٹھارھویں سالانہ پیس سمپوزیم کا انعقاد ہوا جس میں تیس ممالک سے ۵۵۰؍خصوصی مہانان سمیت کل بارہ سو افراد شامل ہوئے۔ گذشتہ تقریباً دو دہائیوں سے منعقد ہونے والی اس تقریب کی خصوصیت امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی بنفس نفیس تشریف آوری اور شرکا سے خطاب ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حالات کے تناظرمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیا کو امن کی طرف متوجہ فرماتے ہیں۔

اس تقریب میں شمولیت کے لیے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ چھ بجے کے قریب مسجد بیت الفتوح میں تشریف لائے جہاں چھ بج کر بیس منٹ کے قریب حضورِ انور نے مسجد میں تشریف لا کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔

سوا سات بجے حضورِانور طاہر ہال میں تشریف لائے جہاں پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پروگرام کے ماڈریٹر کے فرائض فرید احمد صاحب سیکرٹری امور خارجیہ جماعت احمدیہ برطانیہ نے انجام دیے۔ حضورِانور کے دائیں جانب مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ جبکہ بائیں جانبLiberal Democrats پارٹی کے سربراہ Sir Edward Jonathan Davey تشریف رکھتے تھے۔

فرید احمد صاحب سیکرٹری امور خارجیہ جماعت برطانیہ نے کچھ انتظامی اعلانات کیے اورمہمانان کو خوش آمدید کہا جس کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ نفیس احمد قمر صاحب نے سورۃ النساء کی آیت ۱۳۶کی تلاوت کی۔ متلوآیت کا انگریزی ترجمہ حزیم احمد عارف صاحب نے پیش کیا۔ بعد ازاں محترم امیر صاحب یوکے نے تعارفی تقریر کی۔

استقبالیہ تقریر میں مکرم امیر صاحب نے سلام کے بعد تمام مہمانان کو خوش آمدید کہا اوربتایا کہ یہ پروگرام اس وقت دنیا کے شدید تناؤ کے ماحول میں ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال ہم نے یہاں یوکرائن رشیا جنگ کے حوالے سے بات کی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ اب فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ زور پکڑ گیا ہے۔ اس وقت تک بچوں اورعورتوں سمیت کئی ہزار جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ دنیا کی لیڈر شپ کی جانب سے ان کے سدِباب کے لیے خاطرخواہ ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہمیں اس وقت جنگ بندی اور متاثرینِ جنگ تک خوراک اور طبی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔

حضورِانور گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا کو ایٹمی جنگوں کے خطرے سے متنبہ فرما رہے ہیں۔ دنیا کو عالمی امن کے لیے ایک بہتر لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو ہمیں نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی ہولناکیوں سے بھی متنبہ کرے۔ اس بارے میں آج حضورِانور ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہیں حضورِانور نے متعدد ممالک کی پارلیمنٹس میں خطاب فرمایا ہے اورانسانیت کی بقا کے لیے امن کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم ہر مقام پر مل کر امن کے قیام کے لیے باثمر کوششیں کرنے والے ہوں۔ جزاکم اللہ

اس کے بعد سٹیج سیکرٹری نے مہمانان کو اظہارِ خیال کے لیے دعوت دی۔

Dame Siobhain McDonagh MP

آپ نے حالیہ جاری جنگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری ذمہ داری امن کی طرف بلانا ہے۔ لیبر پارٹی امن کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔ میں ہر ایک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں جو امن کے لیے بلاتا ہےاور احمدیہ جماعت امن کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہاں برطانیہ میں بھی اسلام کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ جماعت احمدیہ جن کا ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ ہے یہاں بھی امن کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ امن اور انصاف کا حقیقی قیام ضروری ہے۔

MP Jonathan Lord

آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں anti Islam اور anti Semitism بڑھ رہی ہے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کا نعرہ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ بہت پیارا ہے جس کی سب کو ضرورت ہے۔ میری سب کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔ یہ ماٹو ہمیں اتحاد اور باہمی محبت میں بڑھانے کا سبب بنے گا۔

Rt. Hon. Sir Ed Davey MP

موصوف نے کہا کہ میں یہاں کئی پیس سمپوزیمز میں شامل ہوا ہوں۔ اس امن کے پیغام کی اس سال بطور خاص سوڈان اور غزہ کے حالات کے تناظر میں بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کو اس معاملہ میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نظریں آج راہنمائی حاصل کرنے کے لیے حضورِانور پر ہیں۔ میں نے جنوری ۲۰۰۹ء میں غزہ کا دورہ کیا تھا۔ وہاں خانہ جنگی کے بعد ناقابلِ بیان مناظر تھے لیکن وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں تھا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ میں نے اس نفسیاتی اثر کا مشاہدہ کیا ہے جو اس جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ہو رہا ہے۔ وہاں پر بچوں اور عورتوں کے قتل عام کا بیان ناممکن ہے۔ ہمیں جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمیں امن کی ضرورت ہےتاکہ فلسطینی اور اسرائیلی بے خوف زندگی گزار سکیں۔ مجھے حضور کی تقریر کا انتظار ہے کہ وہ اس بارے میں کیا راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تمنا ہے کہ آج ہم یہاں صرف کھانے پینے کے لیے نہ اکٹھے ہوئے ہوں بلکہ حضور انور کی باتیں سن کر انہیں عملی جامہ پہنانے والے بھی بنیں۔

سالانہ احمدیہ امن انعام

بعد ازاں محترم امیر صاحب یوکے نے دو سالوں کے امن انعام وصول کرنے والوں کا تعارف کروایا۔ پہلا ۲۰۲۰ء کا امن انعام تھا جبکہ دوسرا ۲۰۲۳ء کا انعام تھا۔

احمدیہ عالمی امن انعام ۲۰۲۰ء

Adi Rocheجن کا تعلق آئرلینڈ سے ہے اور Chernobyl Children’s Projectکی سی ای او ہیں اور چرنوبل کے سانحہ کے بعد انہوں نے انسانی بنیادوں پر بچوں کے لیے طبی اور تعلیمی خدمات پیش کیںاس انعام کی مستحق قرار پائیں۔ امیر صاحب نے موصوفہ کا تعارف کروایا اور ان کو انعام لینے اور اس کے بعد مختصر خطاب کی دعوت دی۔ ان کے بارے میں مختصر تعارفی ڈاکومنٹری کے بعد انہوں نے حضور انور ایدہ اللہ سے انعام وصول کیا اور سٹیج پر تشریف لا کر بعد سلام کہا کہ یہ انعام وصول کرنا ان کے لیے باعث اعزاز ہے۔ موصوفہ نے کہا کہ چرنوبل کے سانحہ کی سب سے بڑی قیمت وہاں کے بچوں نے ادا کی۔ انہوں نے اپنی ٹیم میں شامل ڈاکٹرز کی مساعی کا احسن انداز میں ذکر کیا۔ ایک بچی کو ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا لیکن ہمارا ماٹو ہے کہ آخری سانس تک امید ہوتی ہے اور اس بچی کو بالآخر اس امید نے بچا لیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم سب کو مل کر اس امید کو جگانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر انسانیت کو بچانے کی ضرورت ہے تب ہی ہم دنیا کو بچا سکتے ہیں۔

احمدیہ عالمی امن انعام ۲۰۲۳ء

۲۰۲۳ء کا انعام David Spurdleکو دیا گیا جن کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ ان کے ادارہ Stand by Me نے گذشتہ تیس سالوں میں پانچ ہزار سے زائد بچوں کی فلاح کے لیے خدمات پیش کیں۔ ان کے بارے میں مختصر تعارفی ڈاکومنٹری کے بعد موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے انعام وصول کیا اور بعد ازاں سٹیج پر تشریف لاکر مختصر اظہار خیال کیا۔

موصوف نے کہا کہ یہ انعام ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے لبنان سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ تباہ حال عمارتیں، بدحال لوگ، یتیم بے سہارا بچوں نے مجھے متاثر کیا۔ انہوں نے اپنے کام کے آغاز کا ذکر کیا اور اپنے فلاحی کام کے سفر کا خلاصہ بیان کیا اور آخر پر امن انعام ملنے پر شکریہ ادا کیا۔

بعد ازاں سٹیج سیکرٹری صاحب نے مین ٹیبل پر موجود معزز مہمانان کے نام پڑھ کر سنائے۔ جس کے بعد آٹھ بج کر بارہ منٹ پر حضورانور منبر پر تشریف لائے اور خطاب فرمایا۔

خلاصہ خطاب حضورِ انور

حضورِانور نے تمام مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور فرمایا:

آج ایک مرتبہ پھر ہم یہاں پیس سمپوزیم کے موقعے پر جمع ہوئے ہیں تاکہ ہم حقیقی امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لے سکیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے مَیں دنیا بھر کی حکومتوں، سیاستدانوں اور عوام سے اپیل کر رہا ہوں کہ آپ اپنے معاشی اختلافات کو دُور کرکے دنیا میں حقیقی امن کے قیام کے لیے مل کر کوشش کریں۔ مَیں نے ہمیشہ اُن مذہبی اور سیاسی عوامل کی نشان دہی کی ہے کہ جو امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مَیں نہ صرف بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے اقوامِ عالم کو متوجہ کرتا رہا ہوں بلکہ مختلف ممالک کے داخلی معروضی حالات میں جہاں بہت سی قومیتیں اکٹھی رہتی ہیں، انہیں بھی سمجھاتا رہا ہوں کہ کس طرح ان مختلف گروہوں کو قریب لایا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ معمولی نوعیت کے علاقائی جھگڑے بسا اوقات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور اگر کوئی عالمی طاقت اپنے کسی ایجنڈے کے تحت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہے تو جنگ کے شعلے دُور دُور تک جا پہنچتے ہیں۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے عراق، شام اور پھر سوڈان کے حالات کو ابتر سے مزید ابتر کردیا۔ اگر ہم غور کریں تو ان داخلی ناہمواریوں کی اصل وجہ عدل و انصاف اور مساوات کا فقدان ہے۔ دنیا بھر میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عدم انصاف ہی ہے۔

حالیہ برسوں میں مختلف ممالک کے اندر اور باہر، عالمی سطح پر جس تیزی سے تنازعات میں اضافہ ہورہا ہے ان کی جانب سے منہ موڑ کر یہ سمجھنا کہ دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ایسی جہالت ہے جو بالآخر دنیا کی ہلاکت پر منتج ہوگی۔ وہ طاقتیں جو اس حقیقت کو ماننے پر آمادہ نہیں تھیں کہ دنیا کا امن خطرے میں ہے اب برملا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے ڈر کا اظہار کر رہی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ جوہری ہتھیار کیسی ہولناک تباہی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ سامنے کھڑی اس تباہی کو دیکھتے ہوئے بھی یہ لوگ اصلاح پر آمادہ نہیں اور نہ ہی اس تباہی کو روکنے میں سنجیدہ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ادارے جن کا مقصد ہی دنیا میں امن قائم رکھنا تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کے زیرِاثر آچکے ہیں۔ مثلاً اقوامِ متحدہ انتہائی کمزور اور تقریباً غیر فعال ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو ویٹو پاور رکھتی ہیں ہمیشہ غیرمنصفانہ طور پر اس کا استعمال کرتی ہیں، گویا ان کے ہاتھ میں یہ تُرپ کا پتّا ہے جسے جب چاہا جہاں چاہا استعمال کرلیا۔ اگر ویٹو پاور کا یونہی غیر منصفانہ استعمال ہوتا رہا تو پھر امنِ عالم کا تصور ایک دیوانے کے خواب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کتنی ہی قومیں اور کتنے ہی ممالک عالمی طاقتوں کی اس رعونت اور بے رحمی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ان دگرگوں حالات میں جہاں امنِ عالَم کی کوششیں بظاہر عبث معلوم ہوتی ہیں مَیں دنیا کو ایک بار پھر امن کی طرف بلارہا ہوں کیونکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہی ہے کہ مومن کا کام کوشش کرتے چلے جانا ہے۔ پس ہم نے بہرحال سچ بولنا ہے اور دنیا کو سچائی کا آئینہ دکھاتے چلے جانا ہے کیونکہ سب سے بڑا جہاد یہی ہے کہ بلا خوف و خطر جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہا جائے۔ پس جماعت احمدیہ ہمیشہ محکوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ آواز بلند کرتی رہے گی خواہ ہماری آواز پر کوئی کان دھرے یا نہ دھرے۔ ہم اس سلسلے میں مسلسل کوشش کرتے رہیں گے اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

یقیناً آپ میں سے بعض یہ جانتے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کس طرح دنیا میں امن کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ وہ طبقات جو عدم مساوات، ظلم اور نا انصافی کی وجہ سے محرومیوں کا شکار ہیں جماعت احمدیہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اب مَیں ان ذرائع کا کچھ ذکر کروں گا کہ جنہیں اختیار کرکے دنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی مذہب کے بانی خواہ وہ موسیٰ علیہ السلام ہوں، خواہ مسیح علیہ السلام ہوں یا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم غرض کسی بانیٔ مذہب نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ظلم و زیادتی سے دنیا کا امن تباہ کردیا جائے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام کے تو معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں۔ پس اسلامی تعلیمات کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ باہمی خیر و بھلائی اور امن و سلامتی کی تعلیم ہی نظر آئے گی۔

قرآن کریم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ اگر کوئی قوم ظلم کرتی ہے تو اس صورت میں بھی دوسری قوم کو حد سے بڑھ کر زیادتی کا اختیار نہیں۔ فرمایا تمہارے لیے معاف کرنا بہتر تو ہے مگر یہ مدنظر رہے کہ آیا معاف کرنا اصلاح کا باعث ہوگا یا نہیں۔

اگر ایک فریق معاہدہ کی خلاف ورزی کرے اور جنگ کی طرف جائے تو دیگر اقوام حملہ کرنے والے کے خلاف متحد ہوجائیں یہاں تک کہ وہ جارحانہ عمل سے باز آجائے۔ اور جب وہ ایک مرتبہ جنگ سے رک جائے تو دیگر اقوام بھی طاقت کا استعمال نہ کریں۔ دیرپا امن کو انصاف کے ذریعہ قائم کرنے کا مقصد ہمیشہ مدنظر رہنا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فریقِ ثالث فائدہ اٹھا لے۔ اگر یہ اصول اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ شعبہ جات اپنے سامنے رکھیں تو تنازعات بہت آسانی سے ختم ہوجائیں گے۔

فرمایا دنیا میں جو تنازعات رونما ہورہے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک اسرائیل اور حماس کی جنگ ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرائن میں جنگ جاری ہے۔ بعض لوگ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کو مذہبی جنگ تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ جیوپولیٹیکل اور علاقائی تنازعہ ہے۔ یوکرائن کی جنگ تو واضح طور پر جیو پولیٹیکل جنگ ہے جو علاقائی وجوہات کی بنا پر لڑی جارہی ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ صرف ایک راستہ سے ان جنگوں کو روکا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ انصاف کو پھیلانے کی یقین دہانی کرائی جائے اور جو بھی تصفیہ ہو وہ مساوات کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔ بصورت دیگر اقوام متحدہ یا عالمی قوانین کا کوئی فائدہ نہیں اور پھر ایک ہی دستور اور قاعدہ ہوگا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

فرمایا جہاں تک یوکرائن جنگ کا تعلق ہے، روس کے پاس اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور ہے اسی طرح یوکرین کے حامی بھی ویٹو پاور رکھتے ہیں۔ اگر فریقین ویٹو استعمال کریں تو تصفیہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جب سے حالیہ جنگ شروع ہوئی ہے اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور کو استعمال کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ۱۵ میں سے ۱۳ ممبران نے فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے اپنی ویٹو کی پاور استعمال کی اور ریزولیوشن ناکام ہوگیا۔ وہاں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے جہاں اکثر یت کی رائے کو اس قدرآسانی سے رد کیا جا سکتاہے۔ یہ انصاف نہیں ہے یہ جمہوریت اور مساوات کو مسترد کرنا ہے۔

اسلام انصاف کو قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی قوم یا لوگوں کی دشمنی تمہیں انصاف سے انحراف کی طرف نہ اکسائے۔ دیانتداری کو اختیار کرنا تقویٰ کے قریب ہے، یہاں تک کہ غیرمذہبی لوگ یقینی طور پر دیانت داری کو پہچان لیتے ہیں اور انصاف کے اس نمایاں معیار کو اپنانے کے فوائدجانتے ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ کیوں ان اسلامی تعلیمات کے باوجود جو میں بیان کررہا ہوں، الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے۔ یہ بحث گذشتہ دنوں میں بعض لوگوں کے اشتعال انگیز اور گمراہ کن بیانا ت کے ذریعے پھر سامنے آئی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ جنگیں اور تنازعات جو آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے خلفائے کرام نے لڑیں وہ مکمل طور پر مدافعانہ نوعیت رکھتی تھیں۔ قرآن کریم مسلمانوں کو جنگ لڑنے کی صرف اس وقت اجازت دیتا ہےجب اسلام کے دشمنوں کی طرف سے بے رحمانہ حملہ ہو یا ظلم و ستم کی انتہا ہوجائے۔ یہ اجازت قرآن کریم کی سورۃ الحج آیت ۴۰ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم یہ واضح کرتا ہے کہ لڑائی کرنے کی اجازت دینے کا مقصد صرف اسلام ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کا دفاع کرنا ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دوسروں پر ظلم کرنے والوں کو نہ روکا گیا تو چرچ ، یہودی عبادت گاہیں، مندراور مساجد اور تمام عبادتگاہیں جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے تباہ ہوجائیں گی۔ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا دفاع اور حفاظت کرو بجائے اس کے کہ ان کو نقصان پہنایا جائے۔ اس کے علاوہ آنحضرتﷺ نے مسلمان فوج کو لڑائی کےلیے بہت سے قواعد و ضوابط کی پاسداری کرنے کا ارشاد فرما رکھا ہے۔ پہلا یہ کہ جنگ ذاتی مقاصد اور زمینوں پر قبضہ اور دوسروں پر بالادستی کرنے کے لیے نہیں لڑی جائیں۔ مسلمانوں کو لڑائی کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت دی گئی کہ اُن پر جنگ مسلط کردی جائے۔ اگر جنگ مسلط ہوجائے تو دوسری اقوام ظالم کو روکنے کے لیے متحد ہوجائیں، ایک مرتبہ ظالم طاقت استعمال کرنے سے رُک جائے تو دوسری اقوام فوری طور پر جنگ کو ختم کردیں اور امن کو قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔

آنحضرتﷺ نے سختی سے عام شہریوں کو جنگ کا نشانہ بنانے سے منع فرمایا۔ یہ آجکل کی ماڈرن دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں میں عام دیکھنے کو ملتاہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ جنگ کو جتنا محدود کرسکتے ہو کرو۔

فرمایا اسلام میں تو جنگی قیدیوں کے ساتھ انتہائی نرمی کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیا ہےاورہرقسم کے ظلم و سختی سے روکا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دوسری قوموں کے نمائندگان سےعزت و تکریم اور احترام کے ساتھ پیش آؤ کیونکہ اگر ایسا نہیں کروگے تو پھر یہ امن و سلامتی کےقیام کے لیے خطرہ ہوگا۔ یہ وہ بنیادی قوانین اوراصول ہیں جو اسلام نے جنگ سے متعلق قائم فرمائے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں جنگوں کا مقصد دراصل انصاف قائم کرنا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں آج کی جنگیں تو مکمل طور پر ذاتی مفاد کی خاطر لڑی جارہی ہیں۔ اگر مسلم حکومتیں یا قومیں ان جنگوں میں شامل ہوتی ہیں تو انہیں بلاشبہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان جنگوں میں لڑنا چاہیے۔ اگر مسلم قومیں اسلامی اصولوں پرعمل پیرا ہوں تو حالات اس قدر خراب نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس قدر شدید خلفشار، دشمنی، عداوت اور منافرت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی جو نسل در نسل چلتی رہے۔ پس تمام وہ اقوام جو جنگوں میں ملوث ہیں خواہ وہ مغربی اقوام ہوں جن میں اسلام اور اسلامی دنیا سے نفرت پیدا ہوگئی ہےیا مسلمان ہوں اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ امن و سلامتی کا قیام تب ہی ممکن ہے جب اسلامی اصولوں کے مطابق جنگیں لڑی جائیں اوراختلافات کا تصفیہ کیا جائےورنہ ہم ایک ایسی عالمی تباہی کے دہانے پر کھڑے رہیں گے جس کا بیان ممکن نہیں اور جس سے ایسے ہولناک نتائج نکلیں گے کہ آنے والی نسلوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔

اب تو یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ دنیا ایک جوہری تباہی کے دہانے پر ہے اور اس کی وجہ مغربی قوموں کے سربراہان اور راہنماؤں کی عدم دلچسپی ہےجس کی وجہ سے جنگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ مغربی قوموں کا یہ جو نظریہ ہے کہ رشیا اور چین بُری قومیں ہیں اور یہ ممالک ہر لحاظ سے ہمارے دشمن ہیں تو یہ لوگوں کے ذہنوں کو خراب کر رہا ہے نیز اس کے ذریعہ دشمنی اور عداوت پیدا کی جارہی ہے۔ اس وقت جس حد تک خطرات بڑھ چکے ہیں یورپی راہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے مفاد کی خاطر ہی دیکھیں کہ ان کی اپنی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ایک امریکی سینیٹر برنی سانڈرز کہتے ہیں کہ اس جنگ کے نتیجے میں ۲۵؍۲۶؍ہزار لوگوں کا قتل ہوگیا ہے جس میں دو تہائی عورتیں یا بچے ہیں۔۶۵؍ ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ کئی لاکھ بچے بھوک کی وجہ سے موت کے منہ تک پہنچ گئے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کی جارہی۔ مغربی حکومتیں اس لحاظ سے اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور یہ بھی ظلم میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔ جس طرح ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کو مارا گیا تو اب اسی طرح کئی لاکھ فلسطینیوں کو اُن کے اپنے گھروں سے بے گھر کیا گیا ہے۔ انہیں اپنی زمین پر رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ کئی ایسے مبصرین اور تبصرہ نگار ہیں جو اب کھل کر اسرائیل کی استحصالی پالیسی کا ذکر کر رہے ہیں۔ فرمایا مجھے اس سے کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی کہ میں ان باتوں کو بیان کروں لیکن میں دعا کرتا ہوں اور مجھے امید ہےکہ دنیا کو جلد از جلد عقل آجائے تاکہ اس ظلم و زیادتی اور ان جنگوں کو ختم کیا جائے۔ اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مابین اور روس اور یوکرائن کے درمیان مکمل جنگ بندی کی ضرورت ہے ورنہ ان جنگوں کے نتیجے میں سب کو نقصان پہنچے گا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو ان جنگوں کے بداثرات سے بچایا جائے اور آنے والی نسلوں میں معذور بچے نہ پیدا ہوں تو پھر چاہیے کہ پالیسی بنانے والے تمام لوگ اور ادارے اپنے ذاتی مفادات کی بجائے سنجیدگی اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کریں۔ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بقا کی خاطر کوشش کریں اورآنے والی نسلوں کے لیے ایسی دنیا چھوڑیں جو امن و سلامتی کی دنیا ہو۔ ہم سب کواپنی تمام تر توانائیاں اور کوششیں اسی بات میں صَرف کرنی چاہئیں۔

حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ مَیں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ آج یہاں تشریف لائے اور اُنہوں نے میرا خطاب سنا۔ مَیں معذرت خواہ ہوں کہ مجھے ایک طویل خطاب کرنا پڑا لیکن حالات کے مدنظریہ ضروری تھا۔مَیں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا شکر گزار ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

آٹھ بج کر ۴۸؍منٹ پر حضور انور کا خطاب ختم ہوا جس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کروائی۔ دعا کےبعد مہمانوں کی خدمت میں پُرتکلّف عشائیہ پیش کیا گیا۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ برطانیہ کی خدمت میں کامیاب پیس سمپوزیم پر مبارکباد پیش کرتا ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت اور پُرامن آواز پر کان دھرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بنے۔ اللّٰھم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button