متفرق مضامین

گھر… ایک جنت (حصہ اول)

(عطیۃالعلیم۔ ہالینڈ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اردو شعر کے مصرعہ میں فرماتے ہیں:

نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال

دجالی فتنہ جہاں اور کئی صورتوں میں ظاہر ہوا ہے وہاں اس کا ایک حملہ مغربی تہذیب کی صورت میں بھی ظاہر ہوا جس کےبارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے اپنی امت کو آگاہ کیا اور جس سے بچنے کی دعائیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھائیں۔اس دجالی فتنہ کے نتیجے میں سب سے پہلے گھروں کے امن تباہ ہوئے اور شیطان کے تصرف کے نتیجے میں شادیاں خراب ہوئیں۔

حالانکہ قرآن کریم اور آنحضور ؐکی سیرت نے خاص طور پر عائلی زندگی کے بہترین راہنما اصول مقرر فرمائے اور مومنین کو بعض معاملات کی سنگینی کے بارے میں خبردار کیا تاکہ وہ مسائل کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پڑنے سے بچ سکیں۔اور اپنے گھروں کو جنت نشان بنا سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے جنت کا تذکرہ قرآن کریم میں کئی دفعہ فرمایا۔بلکہ فرمایا وَمِنۡ دُوۡنِہِمَا جَنَّتٰنِ…جن میں دو جنتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

قرآن کریم میں سب سے پہلے جنت کا ذکر سورة البقرة آیت ۲۵؍ میں ہے۔جہاں جنت حاصل کرنے کے دیگر عوامل میں ’’ازواج مطہرہ ‘‘کو ایک اہم مقام دیا۔اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ایک جنت وہ بھی ہے جو مرد عورت ایک گھر کی صورت میں بناتے ہیں۔جس میں ’’الرجال قوامون علی النساء ‘‘کہہ کر گھر کے مالی و انتظامی معاملات میں ایک درجہ فوقیت مردوں کو دی گئی۔لیکن عورت کی حیثیت سے انکار نہیں کیا گیا۔کیونکہ مکان کو گھر بنانے والی عورت ہی ہوتی ہے۔اپنی نرم طبیعت،نازکی،نفاست، سلیقہ شعاری اور خوبصورتی کی وجہ سے عورت ہی home makerکہلاتی ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ جنت قربانیاں مانگتی ہے۔ایمان بالغیب کا اس جنت کے قیام سے گہرا تعلق ہے۔کیونکہ اس جنت کو بنانے کے لیے کہیں ہم اپنے جذبات کی قربانی دیتے ہیں،کہیں سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرتے ہیں، کہیں اپنی خواہشات سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سب اعمال کو دیکھ رہاہے اور وہ کبھی بھی کسی کی بھی قربانی اور نیکی کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔لیکن انسان چونکہ فطرتاً بے صبرا ہوتا ہے تو وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بہترین موقع اور بہترین وقت پہ reward دیتا ہے۔

میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس کو مسلسل سینچنا پڑتا ہے۔اس کو سینچنے کا ایک اہم عمل دعا ہے جس کا ثبوت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سے ملتا ہے۔آپؑ ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’میں التزاماً چند دعائیں ہر روزمانگا کرتاہوں…دوم: پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃعین عطاہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پرچلیں۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب حضرت اقدس التزاماً یہ دعائیں کرتے تھے تو ہمیں کتنی شدت سے ضرورت ہے کہ ہم اپنے ازواج اور اولاد کے لیے دعا مانگیں۔

ایک اہم نکتہ جو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بیان کیا وہ یہ ہے کہ جب تک میاں بیوی کو ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب نہ ہو تب تک اولاد بھی ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بن سکتی۔(خطبہ جمعہ ۲۹؍جون ۱۹۹۰ء)

پہلے فرائض کی ادائیگی پھر طلبِ حقوق

یہ بات تو طے شدہ ہے کہ گھر کو جنت بنانے میں سب سے اہم کردار عورت کا ہے۔ اور عملی زندگی میں ایک عورت کو پہلے خود قربانی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے لیے کچھ کرنا ہوتا ہے اپنے فرائض اچھی طرح سرانجام دینے ہوتے ہیں اور پھر اپنے حقوق طلب کرنے چاہئیں۔ گھر بنانے کے تعلق میں قربانی کا لفظ کچھ ایسا نہیں ہے کہ صرف اسلام میں ہی اس پر زور دیا گیا ہے۔مغربی معاشرے کو بھی اگر دیکھیں تو میاں بیوی کے درمیان give and take کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔لیکن عورت پر اس کے اہم کردارکی وجہ سے ذمہ داری زیادہ ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ جب لڑکی بیاہی جاتی ہے تو اس کے ہاتھ میں دو چابیاں ہوتی ہیں ایک صلح کے دروازے کی اور ایک لڑائی کے دروازے کی چابی وہ جس دروازے کو چاہے کھول سکتی ہے۔ خوش نصیب ہوتی ہیں وہ عورتیں جنہوں نے صلح کا دروازہ کھولا۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی ایک نصیحت

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اپنی ایک تحریر میں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’پس اے عورت!اے گزشتہ نسل کی بیٹی موجودہ نسل کی بہن اور بیوی اور آئندہ نسل کی ماں! تیری اور محض تیری خیر خواہی اور فائدہ کے لیے تیرے پیدا کرنے والے اور تیری حقیقی فطرت کے جاننے والے نے تیرے لیے بعض مفید اور اعلیٰ قواعد تجویز سنائے ہیں کہ تو ان پر عمل کر اور آخرت میں سرخرو ہو۔

پہلی بات یہ ہے کہ تو اپنے خاوند خداوند خدا کا درجہ اور عظمت دنیا کی ہر چیز اور ہر عزیز سے بلند اور اعلیٰ سمجھ اور اس کے ان احکام کو جو اس نے تجھ پر فرض کیے ہیں ہر شخص کے حکم اور منشا پر مقدم رکھ۔

خدا کے بعد تجھ پر تیرے خاوند کا حق ہے کہ تو اس کی حتی الوسع فرمانبرداری کر۔

خاوند کی اطاعت کے بعد سب سے بڑا فرض تیرا یہ ہے کہ تو اپنی اولاد کی نیک تربیت کر تاکہ تیری نیکی دائمی اور تیرے عمل باقیات الصالحات میں شمار ہوں اگر صرف ان تین باتوں پر ہی تیرا عمل ہو تو یقین کر لے کہ تو جنت کی حور خدا کی پاک باز اور پیاری بندی اور دنیا کی رونق اور برکت ہے۔‘‘

(شمع حرم صفحہ ۳۰-۳۱ بحوالہ لباس صفحہ ۱۰۰)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button