متفرق مضامین

نماز تہجد و تراویح (قسط دوم۔ آخری)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

رمضان اور تہجد

بخاری کتاب الصوم میں موجود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی یہ گواہی كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرسید المرسلینﷺکی ممتاز و مطہر سیرت کی ایک مختصر جھلک ہے۔مگر جب سید الشہور آتا تو سیدالاتقیاﷺ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُوْنُ فِي رَمَضَانَ کے مصداق ایک نئی اور نرالی شان کے ساتھ رب رحیم کے در پہ سر بسجود ہوتے۔ اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں۔

عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ، وَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَ احْتِسَابًا، خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔(سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ: ذِكْرِ اخْتِلاَفِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَالنَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ فِيهِ )حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو اسے تمام مہینوں میں افضل قرار دیا اور فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیاتو وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ بَابُ تَطَوُّعُ قِيَامِ رَمَضَانَ مِنَ الإِيمَانِ)حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :رمضان میں جو شخص ایمان کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی خاطر اٹھتا ہے، تو اس سے جو گناہ پہلےہو چکے ہیں ان سے ان کی مغفرت کی جاتی ہے۔

أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُوْلُ لِرَمَضَانَ: مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ )حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ سے روایت ہے ، آپؐ رمضان کے متعلق فرماتے تھے: جو جذبہ ایمان سے بھرپور ہوکر رضائے الٰہی حاصل کرنے کی غرض سےعبادت کے لیے رات کو بیدار ہوا تو جو گناہ اس کے ہو چکے ہوں گے ان کی مغفرت کی جائے گی۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى وَذَالِكَ فِي رَمَضَانَ۔(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے رمضان میں نماز(تراویح)پڑھی۔

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا،فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ، عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ، أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ، وَلَكِنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ۔ (صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ) ابن شہاب سے روایت ہے کہ عروہ نے انہیں خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےانہیں بتایا کہ رسول اللہﷺایک رات بوقت نصف شب نکلے، اور مسجد میں نماز پڑھی۔ اور آپ کی اقتدا میں کچھ مردوں نے بھی پڑھی۔ لوگ صبح اٹھے تو انہوں نے یہ سن کر ایک دوسرے کو بتایا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نےاس رات بھی نماز پڑھی اور لوگوں نے آپﷺ کی اقتدا کی۔جب چوتھی رات ہوئی تو(لوگوں کا اس قدر انبوہ ہوا)کہ نمازی مسجد میں سما نہ سکے۔ لیکن اس رات آپؐ تشریف نہیں لائےبلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھا لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو ئے اور تشہد پڑھا، پھر اس کے بعد فرمایاتمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہ تھی۔ لیکن میں ڈرا کہ تم پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے، اور تم اس کی ادائیگی میں عاجز آجاؤ۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے وفات پائی تو پہلا دستور ہی رہا۔

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ وَذَالِكَ فِي رَمَضَانَ۔(صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ نے دوسری رات بھی یہ نماز پڑھی تو لوگ بہت ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہﷺ ان کے پاس باہر نہیں گئے۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا میں نے دیکھ لیا جو تم کرتے تھے۔ اور مجھے تمہارے پاس باہر آنے سے اسی بات نے روکا کہ میں ڈر گیا کہ تم پر (تہجد) فرض ہو جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔

پس یہ وہ پاکیزہ اور کامل اسوہ ہے جس پر عمل کرنا حُبّ رسول کا دعویٰ کرنے والے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایک احمدی مسلمان کے لیے دہریت، مادہ پرستی اور مصائب و الم کے اس دور میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تہجد کی طرف توجہ کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے۔

اس زمانے کا حصن حصین جس عافیت کے حصار کی طرف اپنی جماعت اور کل عالم کو دعوت عام دے رہا ہے اس میں داخل ہونے کے لیے تہجد بھی ایک ضروری عبادت ہے۔ اسی لیے آخرین کی جماعت کی بنیاد رکھنے سے پہلے امام آخر الزمان نے بیعت کی جو شرائط مشتہر کیں ان میں عبادت کے قیام کو لازمی قرار دیا۔ تیسری شرط بیعت یوں تحریر فرمائی:’’ سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کےاحسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔‘‘ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۰۶، ایڈیشن ۲۰۰۹ء۔ نظارت نشرو اشاعت قادیان)

اسی طرح طاعون کے ایام میں اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’…ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لےگا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی در داور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ۲۴۵،ایڈیشن ۱۹۸۴ء )

نماز تراویح

شارع اسلامﷺ نے اپنی امت کو یہ نصیحت فرمائی تھی: عِن الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، يَقُولُ: قَامَ فِيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ، فَقَالَ: عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللّٰهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ۔(سنن ابن ماجه كتاب السنة بَابُ : اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ) حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں نہایت پر اثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپﷺ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اللہ سے ڈرو، اور امیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں بدعتوں سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

عالم اسلام میں خلیفہ راشد حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نئی طرح ڈالی اور آپ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں میں تراویح کا نظام شروع ہوا۔ اس سنت کو قبول عام کی سند حاصل ہوئی اور یوں کل عالم میں رمضان المبارک کے مہینہ میں مساجد میں نماز تراویح کا اہتمام کیا جانے لگا۔ہاں مگر تراویح کی رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے۔ اس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔

طبقات ابن سعد میں لکھا ہے:’’وهو أول من جمع القرآن في الصحف. وهو أول من سن قيام شهر رمضان وجمع الناس على ذلك وكتب به إلى البلدان وذلك في شهر رمضان سنة أربع عشرة. وجعل للناس بالمدينة قارئين. قارئا يصلي بالرجال وقارئا يصلي بالنساء۔‘‘ (الطبقات الكبرى محمد بن سعدالجز الثالث صفحہ ۲۶۲،الناشرمکتبہ الخانجی قاہرہ مصر)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے قرآن مجید کو صحائف میں جمع کیا،آپ نے ہی سب سے پہلے رمضان المبارک ۱۴؍ہجری میں باقاعدہ تراویح کا سلسلہ جاری فرمایا، اور لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں جمع کیا۔اور شہروں میں باقاعدہ اس کا فرمان بھجوایا۔ مدینہ میں ایک قاری کو آپ نے مردوں کی امامت کے لیے اور ایک کو خواتین کی امامت کے لیے مقرر فرمایا۔

’’تراویح‘‘جمع ہے، اس کا مفرد ’’تَرْوِیْحَه‘‘ہے جس کا معنی راحت لینے کے ہیں، تراویح کی ہر چار رکعت کو ترویحہ کہا جاتا ہے اور اس کا یہ نام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر آرام کیا جاتا ہے۔معروف لغت المعانی میں لکھا ہے۔

تَرَاوِيْحُ (اسم) واحد: ترویحۃ: ترویحہ اصل میں ہر جلسہ ( نشست ) کا نام ہے لیکن اصطلاحاً رمضان المبارک کی رات میں چار رکعات کے بعد بیٹھنے کو ترویحہ کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ اس وقفہ میں آرام کرتے ہیں، پھر مجازاً ہر چہار رکعات کے مجموعہ کو کہا جانے لگا یہ لفظ باب تفعیل کا مصدر ہے۔

رَاحَ لِلأَمْر رَوَاحًا ورَاحًا ورَاحَةً وأَرْيَحِيَّةً ورِيَاحَةً (فعل) کسی کام سے خوش ہو جانا، ہشاش وبشاش ہونا۔

مُسْتَرِيحًا، بالرَّاحَة، في رَاحَة وطُمَأنِينَة.(اسم)آرام سے۔

رَاحَ الرِّيْحُ الشيءَ (فعل)کسی چیز کو ہوا لگنا راح الشجر وريح: درخت کا ہوا پانا یا درخت کو ہوا لگنا هو مروح ومريح۔

(https://www.almaany.com/ur/dict/ar-ur/%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D9%88%D9%8A%D8%AD/)

حافظ ابن حجر العسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابۂ کرام ؓ کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دو سلام (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)

احادیث صحیحہ میں اس واقعہ کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَالِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَالِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا۔(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ) حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو جذبہ ایمان سے لبریز ہوکر رضائے الٰہی حاصل کرنے کی غرض سے رمضان میں عبادت کے لیے رات کو بیدار ہوا، تو اس کے گذشتہ تمام گناہوں کی مغفرت کی جائے گی۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریمﷺ کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی دستور رہا۔پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہی طریق جاری رہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ:إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِءٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُوْنَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُوْنَ أَوَّلَهُ۔(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ) حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ رمضان کی ایک رات میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا۔تو کیا دیکھا کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی شخص اپنے طور پر اکیلے نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی شخص ایسے طور پر نماز پڑھ رہا ہے کہ اس کی اقتدا میں چند ایک لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پرحضرت عمرؓ نے کہامیں سمجھتا ہوں کہ ان کو ایک ہی قاری کی اقتدا میں اکٹھا کردوں تو بہتر ہوگا۔ پھر انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا اور حضرت ابی بن کعبؓ کی اقتدا میں ان کو اکٹھا کر دیا۔ پھر آپؓ کے ساتھ میں ایک اور رات نکلا تو لوگ اپنے قاری کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیا اچھی جدّت ہے۔ اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو ئے ہوئے ہوتے ہیں اس حصہ سے افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپؓ کی مراد رات کے آخری حصہ کی فضیلت سے تھی، اور لوگ شروع ہی رات میں نمازپڑھ لیتے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللّٰهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِءٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي تَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ۔(موطا امام مالك رواية يحييٰ كِتَابُ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ )عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد کے لیے نکلا تو دیکھا کہ لوگ جدا جدا متفرق ہیں۔ کسی شخص کے ساتھ آٹھ دس آدمی پڑھ رہے ہیں، تو حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تو بہت اچھا ہو۔ پھر اُنہوں نے ان سب کو حضرت اُبی بن کعبؓ کی اقتدا میں جمع کر دیا۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ پھر میں دوسری رات اُن کے ساتھ آیا تو دیکھا کہ سب لوگ اُبی بن کعبؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیں، تب حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ اچھی بدعت ہے اور جس وقت تم سوتے ہو(یعنی اخیر رات) وہ بہتر ہے اس وقت سے جب نماز پڑھتے ہو، یعنی اوّل رات سے۔ اور لوگ اوّل رات میں کھڑے ہوتے تھے۔

عَن السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ،وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، قَالَ: وَقَدْ كَانَ الْقَارِءُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ۔(موطأ امام مالك رواية يحييٰ كِتَابُ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ )سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت اُبی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔ سائب بن یزید نے کہا کہ امام سو سو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم لکڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے اور نہیں فارغ ہوتے تھے ہم مگر فجر کے قریب۔

پس یہ وہ تراویح ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے پڑھی۔مربی اعظمﷺ کے زیر سایہ اسلام سیکھنے والے یہ اصحاب فلک پر چمکتے ستاروں کی مانند تھے، ان کی روشنی سے منور ہونے والے تابعین نے بھی عبادات کو اس طرح اپنے شب و روز کا حصہ بنایا جو بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مثالی نمونے کے طور پر زندہ رہے گا۔

نماز تراویح کی رکعات

نماز تراویح کی رکعات کی تعداد کے بارے میں امت مسلمہ میں اختلاف موجود ہے۔ اس ضمن میں چند اقتباسات ہدیہ قارئین ہیں۔

فقہ احمدیہ

فقہ احمدیہ میں درج ذیل تحریر موجود ہے :’’نماز تراویح دراصل تہجد ہی کی نماز ہے۔ صرف رمضان المبارک میں اس کے فائدہ کو عام کرنے کے لئے رات کے پہلے حصہ میں یعنی عشاء کی نماز کے معاً بعد عام لوگوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس نماز کا زیادہ تر رواج حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پڑا۔ رمضان میں بھی یہ نماز رات کے آخری حصہ میں ادا کرنا افضل ہے۔ نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے کا طریق بھی صحابہ رضوان اللہ علیھم کے زمانہ سے چلا آیا ہے۔ تراویح کی نماز آٹھ رکعت ہے۔ تاہم اگر کوئی چاہے تو ۲۰ یا اس سے زیادہ رکعت بھی پڑھ سکتا ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سستا لینا مستحب ہے۔‘‘ (فقہ احمدیہ حصہ عبادات، صفحہ ۲۰۸۔ ایڈیشن۲۰۰۴ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

نماز تراویح اور اس کے جدید فقہی مسائل

عبد السلام بن صلاح الدین مدنی صاحب اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں:’’ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باجماعت تراویح نماز کی ابتدا ءفرمائی اور نِعْمَۃُ الْبِدْعَةِ هَذِهِ فرماکر اس کی مشرعیت ثابت فرمائی۔ اور یہ سنت قرناً بعد قرنٍ مسنونیت کا درجہ حاصل کرتی ہوئی ہنوز قائم ہے، اور انشاءاللہ تاصبح قیامت قائم دائم رہے گی۔ تراویح درحقیقت انتہائی اطمینان و سکون اور انتہائی وقار و اہتمام سے ادا کرنے کا نام ہے۔ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کی نماز تراویح کا جو نقشہ امت مرحومہ کے سامنے کھینچا ہے رہتی دنیا تک کے لئے باعث قُدوہ ہے۔یعنی رسولﷺ نہ رمضان میں ۱۱؍رکعات سے زیادہ ادا فرماتے تھے، نہ غیر رمضان میں۔ یہ رکعات کتنی حسین و طویل ہوتی تھیں نہ پوچھو۔ تامل فرمائیں اسی نماز کو آپﷺ رمضان اور غیر رمضان میں ادا فرمایا کرتے تھے جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تہجد، تراویح اور قیام اللیل مختلف اوقات میں ادا کئے جانے کے صرف مختلف نام ہیں…نبی اکرمﷺ کا عام معمول تھا کہ رمضان اور غیر رمضان میں صرف ۸؍ رکعات تراویح اور ۳؍رکعات وتر ادا فرماتےتھے، یہ شہادت خود مائی عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے …اس حدیث پر ایک بار پھرسے تامل فرمائیں آپ کو معلوم ہو گا کہ نبی اکرمﷺ کی نماز تراویح نَقْرَۃُ الْغُرَابِ والی نماز نہ تھی۔ چار رکعت ادا فرماتے، آرام فرماتے۔ اور انتہائی سکون، خشوع،خضوع اور اطمینان والی نماز کہ مائی عائشہ فرماتی ہیں’’اس کے طول وحسن کے متعلق نہ پوچھو‘‘۔ پھر لمحہ بھر وہ حضرات حفاظ کرام اپنی تراویح پر غور فرمالیں جو ۳۰؍ منٹ میں کئی رکعات ادا فرما جاتے ہیں۔ کیا آپﷺ کی نماز تراویح یہی تھی ؟ جس انداز سے آپ ادا فرماتے ہیں۔پھر اس امر پر بھی غور فرمالیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ’’کمیت‘‘نہیں بلکہ ’’کیفیت‘‘مطلوب ومقصود ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ کون شخص کتنی رکعات پڑھتا ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح پڑھتا ہے۔ اس کی نماز یا اس کا عمل نبی اکرمﷺ کے طریقہ کے مطابق ہے یانہیں؟‘‘(ماہ رمضان اور اس کے جدید فقہی مسائل صفحہ ۲۲۶تا ۲۲۹۔ از عبد السلام بن صلاح الدین مدنی، ناشر یوسفیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی جھار کھنڈ انڈیا)

اسی طرح تراویح کی رکعات کے بارے میں موصوف لکھتے ہیں :’’ ان معرکۃ الآراء مسائل میں جن میں اکثر و بیشتر بحث و مباحثہ، نظر و مناظرہ اور مجادلہ و مناقشہ ہوتا رہتا ہے، ایک عظیم اور بے حد حساس مسئلہ تراویح کی رکعات کا بھی ہے، کہ تراویح کی تعداد صحیح کیا ہے؟ بعض نے۱۱ رکعات، بعض دیگر نے ۲۲ رکعات، بعض نے ۲۶رکعات، اور بعض نے ۳۲رکعات تعداد بتلائی ہے۔ درحقیقت یہ کثیر اور عظیم اختلاف دیکھ کر ایک معتدل شخص جھلا جاتا ہے اور پریشان خاطر ہو جاتا ہے کہ آخر تراویح کی صحیح اور مسنون تعداد کیا ہے؟ ہم اس مختصر سی کتاب میں ان مباحث سے گریز کرتے ہوئے صرف چند گزارشات پر اکتفا کرتے ہیں، ارباب خرد کو ان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

(الف) یہ کئی بار تامل فرما لینا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ کا اس باب میں کیا اسوہ ہے۔ آپﷺ نے کتنی رکعات تراویح ادا فرمائی ہے ؟

(ب) اس امر پر بھی غور فرمالیں کہ ۱۱رکعات سے زائد رکعات کی تعیین کیا نبی اکرمﷺ سے ثابت ہے ؟

(ج) اس باب میں وارد تمام تر اقوال صرف اور صرف مستحب رکعات کے غماز ہیں، ورنہ ان تمام ناقلین علماء نے سنت گیارہ رکعات ہی قرار دیا ہے۔ لہٰذا جب مسنون رکعات ۱۱؍ہی ہیں تو مزید پر اصرار کیوں۔ کیا ہمارے لئے نبی اکرمﷺ کی سنت ناکافی ہے ؟ کیا ہم نبی اکرمﷺ سے زیادہ متقی اور زہد شعار ہیں ؟

(د) اس امر پر بھی تامل فرمانے کی ضرورت ہے کہ تراویح کی یہ رفتار جو عام طور پر دیکھی جاتی ہے کیا نبی اکرمﷺ کی سنت ہے؟

اگر آپ انتہائی سنجیدگی سے ان امور پر تامل فرمائیں گے تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوگی نہ کوئی دقت کہ تراویح کی مسنون رکعات صرف اور صرف ۱۱؍ رکعات ہیں۔یہی آپﷺ کا عام معمول تھا۔ بھلے سلف سے اس سے زیادہ پڑھنا ثابت ہو، تا ہم ہرقسم کا خیر و فلاح اتباع سنت میں مضمر ہے۔‘‘ (ماہ رمضان اور اس کے جدید فقہی مسائل صفحہ ۲۳۵، ۲۳۶۔ از عبد السلام بن صلاح الدین مدنی، ناشر یوسفیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی جھار کھنڈ انڈیا)

قیام رمضان

رمضان المبارک کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض ارشادات’’قیام رمضان‘‘کے عنوان سے الفضل میں شائع ہو ئے، جو درج ذیل ہیں۔

ا۔قیام رمضان جسے عوام الناس تراویح کہتے ہیں کوئی الگ نماز نہیں، وہی تہجد کی نماز ہے جسے متقی مسلمان بارہ مہینے پڑھتے ہیں۔ہاں رمضان میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔ اول طریق یہ ہے کہ تہجد اپنے اپنے گھر میں پڑھیں۔

ب۔ لیکن عام طورپر یہی مناسب ہے کہ اگر کوئی حافظ میسر ہو تو سحری کھانے سے پہلے پچھلی رات باجماعت ادا کر لیں، کیونکہ بعض لوگ اکیلے اکیلے پڑھنے میں سستی کرتے ہیں۔

ج۔ اگر پچھلی رات نہیں پڑھی جا سکتی تو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لیا کریں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں صحابہؓ کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا۔

د۔ مگر آج کل جورسم کے طور پر تراویح پڑھی جاتی ہیں اس سے احتراز لازم ہے۔

ہ۔ گیارہ رکعت مع وتر۔

و۔ تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہے۔بعض لوگ جو ان کو دو الگ عبادتیں خیال کرکے دونوں کو ادا کرتے ہیں یہ غلطی ہے۔(الفضل قادیان ۲۸؍ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔ جلد ۲،شمارہ ۱۸)

نمازتراویح اور حکم عدل کا ارشاد

تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کے متعلق کیا ارشاد ہے، کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے۔ فرمایا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھاکرتے تھے اور یہی افضل ہے، مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے رات کے اول حصہ میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔‘‘( بدر قادیان ۶؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷۔ جلد ۷شمارہ ۵)

ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا:’’ سفر میں دوگانہ سنت ہے۔ تراویح بھی سنت ہے پڑھا کریں، اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بے شک پڑھو۔‘‘( بدر قادیان ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶۔ جلد ۶شمارہ۵۲)

حرف آخر

رمضان المبارک در اصل ماہ صیام، ماہ قیام اور ماہ غفران ہے۔ یہ اپنی روحانیت کو رفیع کرنے اور میزان حسنات کو ثقیل کرنے کا نادر موقع ہے۔ قیام اللیل کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات،زکوٰۃ و فطرانہ اور داد و دِہِش میں بادصرصر سے بڑھ جانے کے ایام ہیں۔

وہ پاک وبرتر وجود جو سخاو کرم، خیرو فیاضی میں یکتا و بےمثل ہے رمضان اس کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کا بہترین موقع ہے۔ ان ایام میں خود تہجد پڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو تہجد کی تحریک کرنا اور جہاں تک ممکن ہو انہیں تہجد کے لیے جگانا بھی تقویٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو….لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں وہ یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جو سست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ ۱۰۵۔ایڈیشن ۲۰۰۴ء،نظارت نشر و اشاعت قادیان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے صرف نمازوں پر ہی اکتفا نہ ہو بلکہ بعض دوسری عبادتیں بھی فرض ہیں وہ بھی اداکرنا ضروری ہیں۔ پھر نوافل ہیں وہ ادا کرنے بھی ضروری ہیں۔ اپنی نمازوں کو نوافل سے بھی سجائیں۔ تہجد اور دوسرے نوافل کی طرف توجہ دیں…جب توجہ ہو تو پھر اسے زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ فرائض کی کمیاں نوافل سے پوری ہوتی ہیں اور نوافل میں تہجد کی بڑی اہمیت ہے…پس تہجد کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے لئے اُٹھنا ہی انسان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ آج کل کی دنیا میں مختلف ترجیحات ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ رات دیر سے سوتے ہیں۔ تہجد کا مجاہدہ یقیناً ان حالات میں تقویٰ میں ترقی اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس یہ عبادت کے حق کی ادائیگی انسان کو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے وہاں انسان کے اپنے فائدے کا بھی بڑا زبردست ہتھیار ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ جون ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۲ء صفحہ ۵-۶)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button