متفرق مضامین

نماز تہجد و تراویح ہادیٔ کاملﷺ کا اسوہ اور خلیفہ راشد کی جاری کردہ سنت (قسط اوّل)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ربِّ رحمٰن کی پرستش وعبادت اور اس کے حضور سربسجود ہونا ہے۔ابنائے آدم چاہے خاکی فطرت رکھتے ہوں یا ناری سب اس حکم کے نیچے ہیں کیونکہ یہ احکم الحاکمین کا فرمان ہے۔ام القریٰ میں پیدا ہونے والے مظہر اتم الوہیت کے ذریعے دنیا کو ملنے والی روشن کتاب اس ابدی صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔(الذّٰرِیٰتِ:۵۷)

یعنی میں نے جنّ اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔پس عقل سلیم رکھنے والے ہر انسان کے لیے عابد بننا ہی حقیقی انسانیت ہے۔ انسان کا تکبر اور تیرہ بختی چاہے اُسے اس سچائی اور عمل سے دور رکھے مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اٹل ہے۔کسی انسان کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ وہ ایک مخلوق ہے جو فقط حرف کُن کا نتیجہ ہے۔حیات مستعار کا کوئی لمحہ کوئی پل اس کےاختیار میں نہیں، ایک کے بعد دوسری سانس اس مالک کی دین ہے جس نے نظام ہستی بنایا۔

روئے زمین پر عبودیت کا حق ادا کرنے والا ایک ہی عبدِ کامل پیدا ہوا جس کا اسوہ رہتی دنیا تک ہر ذی شعور انسان کے لیے اسوۂ کامل ہے۔اور اسلام وہ کامل و اکمل دِین ہے جس میں خدا کی معرفت ِصحیحہ اور اس کی پرستش احسن طور پر بجا لانے کی تمام تعلیم موجود ہے۔ اسلام بطور دین ایک بامقصد زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے، آپ ﷺ کی حیات طبیہ کا ہر پل اُمت ِمسلمہ اور کُل عالم کے لیے رشد و ہدایت کا خزانہ ہے۔وہ ایک ہی ہے جس نےاٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے،سوتے جاگتے، قعود و قیام رکوع و سجود میں عبادت کا حق ادا کیا، اور وہ ایک ہی ہے جسے عرش الٰہی سے ’’مقام محمود‘‘ پر فائز ہونے کا مُژدَہ جانْفِزاسنایا گیا۔ وہ اسی لیے سیدالاولین و الآخرین کہلایا کہ اس جیسا عابد و زاہد چشمِ  فلک نے نہ دیکھا اور نہ آئندہ کبھی دیکھے گی۔ اس کی جان کے دشمن عَشِقَ محمدٌ رَبَّہٗ کہہ کر اس کے عشق و فا کی گواہی دیتے رہے۔عصرحاضر میں پیدا ہونے والے اس کے ظلِ کامل اور عاشقِ صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آقاومولیٰ کی اس خوبی کو یوں واضح فرمایاہے۔

سرور خاصانِ حق شاہِ گروہ عاشقان

آنکہ روحش کرد طے ہر منزلِ و صلِ نگار

فرض عبادات کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے نفلی عبادات بھی اس حسن و خوبی سے ادا کیں جو رہتی دنیا تک بےمثل و لازوال رہے گی۔ ایک نفلی عبادت جسے قرآن مجید نے ’’تہجد‘‘ کے نام سے موسوم کیا، اس حکم خدا وندی کو عاشقانِ الٰہی کے گروہ کے بادشاہ نے کس شان سے پورا کیا،آئندہ سطور میں اس کی جھلک پیش کی جائے گی۔پہلے دیکھتے ہیں تہجد ہے کیا۔

تہجد کے لغوی معنی

عربی زبان کی رُوسے تہجد کا مادہ : ھ،ج،د ہے۔تہجد کا لفظی معنی سو کر اٹھنا ہے۔امام راغب اصفہانی علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں :’’ هجد۔ الهُجُوْدُ: کے معنی نیند کے ہیں۔ اور سوئے ہوئے انسان کو الهَاجِدُ کہا جاتا ہے۔

هَجَّدْتُهُ فَتَهَجَّدِ کے معنی ہیں ’’ میں نے اس کی نیندکو دُور کیا تو وہ جاگ گیا۔ المُتَهَجِّدُکے معنی ’’ رات کونیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے والا‘‘ کے ہیں۔(المفرادت فی غریب القرآن ازابی قاسم الحسین بن محمدالمعروف الراغب الاصفہانی زیر لفظ ’’ھ ج د ‘‘)

لغت کی معروف ویب سائٹ’’ المعانی ‘‘ میں ہے: ’’تَهَجَّدَ (فعل) رات کو نماز پڑھنا تہجد پڑھنا ( ۲) رات میں نماز وغیرہ کے لیے بیدار ہونا۔ قرآن كريم میں ہے وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے جاگ یہ تیرے لیے زائد عبادت ہے ( ۳ ) اکیلا اور منفرد ہونا۔

تَهَجُّدُ: (اسم)رات کی نفلی نماز ( ۲ ) شب میں نماز کے لیے بیدار ہونا۔

هَجَدَ هُجُودًا :(فعل)سونا ( ۲ ) رات میں نماز پڑھنا۔

هوأَجِدُّ جَدَّت الشاةُ ونحوُها: (فعل) دودھ کم ہوجانا، تھن کا خشک ہوجانا۔

أَهْجَدَ البَعِيرُ :(فعل) اونٹ کا زمین پر گردن رکھنا۔

أَهْجَدَ فُلَأنًا: (فعل)سلانا ( ۲ ) سوتا ہوا پانا۔

هَجَّدَ فُلَأنًا: (فعل)سلانا

فَتَهَجَّد (قرآن) سو بیدار رہیں۔‘‘

https://www.almaany.com/ur/dict/ar-ur/%D8%AA%D9%87%D8%AC%D8%AF

قرآن کریم میں یہ لفظ ایک دفعہ استعمال ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا(بنی سرائیل:۸۰)اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھا کر۔ یہ تیرے لیے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔

آنحضور ﷺ نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتےرہے، اپنے اہل و عیال اور امت کو بھی اس خاص عبادت کی طرف بھر پور تو جہ دلائی۔

امت کو ترغیب

نماز تہجد کی ادائیگی کا حکم نازل ہونے کے بعد اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کے مصداق ہادیٔ کامل نے اس حکم پر اتنی خوبصورتی سے عمل کیا اورمختلف طریق اور الفاظ سے امت کو اس کی ترغیب دلائی جو اپنی مثال آپ ہے۔ چند احادیث پیش ہیں۔

عَنْ بِلَالٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَى اللّٰهِ وَمَنْهَاةٌ عَنِ الْإِثْمِ، وَتَكْفِيرٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ عَنِ الْجَسَدِ۔(سنن ترمذي كتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گذشتہ صالحین کا طریقہ رہا ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے، برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ، وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ۔ (سنن ترمذي كتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’قیام اللیل(تہجد کی نماز) کو اپنے لیے لازم کر لو، کیونکہ تم سے پہلے کے نیکو کاروں کا یہی طریقہ ہے اور یہ تمہارے لیے اللہ سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ اور برائیوں سے بچ رہنے کا ایک ذریعہ ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا، فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ۔(سنن ترمذي كتاب البر والصلة عن رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ الْمَعْرُوفِ)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا۔ یہ سن کر ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! کس کے لیے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جو مہذب گفتگو کرے،بھوکوں کو کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سورہے ہوں۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ۔ (سنن ترمذي كتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم)حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا : آدھی رات کے آخر ی حصہ میں اور فرض نمازوں کے اخیر میں مانگی گئی دعائیں۔

بے نظیرحسن و طوالت

محمد عربی ﷺ دنیا کے مصروف ترین انسان تھے۔ آپ روزانہ کے معمولات، فرائض و ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر پل ہر لمحہ اپنے مولا کے ذکر، اس کے شکر اور اس کی یاد میں مگن رہتے۔ آپ کے روزمرہ کاموں اور ذمہ داریوں کے بارے میں عرش الٰہی کی یہ گواہی روز روشن کی طرح ہے :اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا۔(المزمل) یقیناً تیرے لیے دن کو بہت لمبا کام ہوتا ہے۔اتنا مصروف الاوقات شخص انتہائی تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد شب کو کچھ دیر آرام کرتا ہے اور پھر اپنی راتوں کو زندہ کرتا ہے، اس انداز اور حسن کے ساتھ کہ عقل انسانی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ سید الاصفیاء ﷺ کے قیام اللیل کا بے نظیر نمونہ ان روایات میں مذکور ہے۔

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قُمْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَامَ فَقَرَأَ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ فِي سُجُودِهِ مِثْلَ ذَالِكَ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِآلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَرَأَ سُورَةً سُورَةً۔(سنن ابي داودأبواب تفريع استفتاح الصلاة باب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ)حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓکہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا، آپﷺ نے حالت قیام میں سورۃ البقرہ پڑھی، آپﷺکسی رحمت والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اوراللہ سے رحمت مانگتے،اور کسی عذاب والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور اس سے پناہ مانگتے، پھر آپﷺ نے اپنے قیام کے بقدر لمبا رکوع کیا، اور آپ ﷺنے رکوع میں سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة پڑھا۔ پھر آپﷺنے اپنے قیام کے بقدر لمبا سجدہ کیا، سجدے میں بھی آپ نے وہی دعا پڑھی، جو رکوع میں پڑھی تھی پھر اس کے بعد کھڑے ہوئے اور دوسرے قیام میں سورت آل عمران پڑھی، پھر بقیہ رکعتوں میں ایک ایک سورت پڑھی۔

عَنْ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَأَ فَاسْتَاكَ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ مِنَ الْبَقَرَةِ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ وَسَأَلَ وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ يَتَعَوَّذُ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ يَقُولُ: فِي رُكُوعِهِ سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ يَقُولُ: فِي سُجُودِهِ سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً ثُمَّ سُورَةً فَعَلَ مِثْلَ ذَالِكَ۔(سنن نسائي كتاب التطبيق بَابُ: نَوْعٌ آخَرُ)حضرت عوف بن مالکؓ سے مروی ہے کہ میں نبی کریمﷺکے ساتھ رات کو اٹھا، پہلے آپ نے مسواک کی، پھر وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کی، آپ جب بھی کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر رحمت کا سوال کرتے، اور جب بھی عذاب کی کسی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے، اور اس کے عذاب سے اس کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، تو رکوع میں اپنے قیام کے بقدر ٹھہرے رہے، آپ اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِپھر آپ نے اپنے رکوع کے بقدر سجدہ کیا، اور اپنے سجدے میں آپ کہہ رہے تھےسُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ پھر آپ نے دوسری رکعت میں سورت آل عمران پڑھی، پھر ایک اور سورت پڑھی، پھر ایک اور سورت پڑھی، آپ نے اسی طرح کیا۔

عَنْ عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، كَانَتْ تِلْكَ صَلَاتَهُ يَسْجُدُ السَّجْدَةَ مِنْ ذَالِكَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِيْنَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُنَادِي لِلصَّلَاةِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ طُولِ السُّجُودِ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ) حضرت عروہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ تہجد کے وقت گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہی آپﷺ کی تہجد کی نماز ہوتی۔ اس میں آپﷺ سجدہ اتنالمبا کرتے کہ جتنے میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں آپ ﷺ کے سر اٹھانے سے پہلے پڑھ لے۔ فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے، پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے۔ یہاں تک کہ مؤذن آپﷺ کو نماز کے لیے بلانے آتا۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ لَيْلَةً، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللّٰهِ مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتْنَةِ، مَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ، يَا رُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ۔(صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ )حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات جاگے اورآپ نے فرمایا: سبحان اللہ! آج رات کیا کچھ بلائیں اتاری گئی ہیں اورکیا کیاخزانے اتارے گئے ہیں۔ ان حجرے والیوں کو کون جگائے؟ بہت سی جو دنیا میں کپڑے پہنے ہوئے ہیں،آخرت میں ننگی ہوں گی۔

عن حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ: أَلَا تُصَلِّيَانِ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللّٰهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۔(صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ )حضرت حسین بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات ان کے اور فاطمہ  ؓکے پاس آئے، اور فرمایا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھو گے؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، جب ہمیں اٹھانا چاہے ہمیں اٹھاتا ہے۔ جب میں نے یہ کہا تو آپ لوٹ گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے جبکہ آپ پیٹھ موڑ کر واپس جارہے تھے، سنا آپ اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے۔ آپ کہہ رہے تھے: انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے۔

استقامت عمل

ماہ و سال سے قطع نظررسول خدا ﷺ نے نماز تہجد کی ادائیگی کے لیے یکساں طریق اختیار فرمایا۔اور کتب احادیث میں بکثرت اس کا ذکر موجود ہے۔

عَنِ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ؟ قَالَ: مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ۔ (صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا: دو، دو رکعت اور جب صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت سے طاق کردو۔

عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيْلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيْلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔(صحيح البخاري كِتَاب الْوُضُوءِ بَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ بَعْدَ الْحَدَثِ وَغَيْرِهِ )حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گزاری۔ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں تکیہ کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیہ کی لمبائی پر (سر رکھ کر) آرام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے اور جب آدھی رات ہو گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورت آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو (چھت میں) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپ نے وتر پڑھا اور لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی (طور پر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يَعْنِي بِاللَّيْلِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ كَيْفَ كَانَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺکی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی۔

عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عنها عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: سَبْعٌ وَتِسْعٌ وَإِحْدَى عَشْرَةَ سِوَى رَكْعَتِي الْفَجْرِ۔(صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ كَيْفَ كَانَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ) مسروق بن اجدع سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی کریمﷺکی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا، کبھی سات رکعتیں، اور کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعتیں، سوائے فجر کی دو رکعات کے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، مِنْهَا الْوِتْرُ وَرَكْعَتَا الْفَجْرِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ كَيْفَ كَانَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ)حضرت عائشہ صدیقہ ؓبیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺرات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ انہی میں وتر اور فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتیں۔

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ؟فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي۔(صحيح البخاري كِتَاب التَّهَجُّد بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ)حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رمضان میں رسول ﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ آپؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زائد نہ پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتےاور ان کی خوبی اور لمبائی نہ پوچھیے۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ  ؓکہتی تھیں: میں نے پوچھا یا رسول اللہؐ! کیاآپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ! میری دونوں آنکھیں تو سوجاتی ہیں، مگرمیرا دل نہیں سوتا۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button