اداریہ

اداریہ: محوِ حیرت ہوں کہ آخر یہ تماشہ کیا ہے(اسرائیل حماس جنگ کے دوران غزہ میں پیش آمدہ انسانیت سوز صورت حال پر ایک نظر)

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

صاف نظر آرہا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں زندہ خدا کا خوف اور حقیقی انصاف ناپیدہیں

گذشتہ سولہ سال سے زیرِ محاصرہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے حالیہ حملے کو پانچ ماہ مکمل ہوچکے۔ قطر اور مصر حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کی کوشش کرر ہے ہیں جبکہ ۷؍ مارچ کو قاہرہ میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے طے پانے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ حماس کی کوشش ہے کہ بعض شرائط پر اتفاق کرتے ہوئے رمضان کے دوران جنگ بندی کا اعلان کر دیا جائے، لیکن حماس کے ذمہ دار افراد کے مطابق سرِدست اسرائیل ایسا کرنے پر رضامند دکھائی نہیں دیتا۔بعض خبروں کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی جنگ بندی کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔

اسرائیل حماس جنگ میں پانچ ماہ کے دوران ہونے والے مظالم اپنی ذات میں ایک الگ کہانی ہے جسے تاریخ یاد رکھے گی۔ مؤرخ یہ بھی ضرور لکھے گا کہ جس دور میں انسان اپنی جدّت پسندی، تہذیب اور مادی ترقیات کے عروج پر ہونے کا دعویدار تھااس دَور میں دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں نے ’’حقِ دفاع‘‘ یعنی Right of self-defense کو ایک عجیب و غریب مفہوم دے دیا، گویا ظالم کو مظلوم کے خلاف ’’حقِ دفاع‘‘ استعمال کرنے کا ایسا حق دے دیا کہ نہ تو اخلاقیات و انسانی اقدار اور نہ ہی ہر دو فریقین کے مذاہب اس کی اجازت دیتے تھے۔ اور پھر حقِ دفاع استعمال کرنے والوں نے جو کیا، الامان والحفیظ!

قرآن کریم میں تو جو درج ہے سو درج ہے،پرانے عہدنامے میں بھی وضاحت موجود ہے کہ کسی فریق کو اپنے ’’حقِ دفاع‘‘ میں کس حد تک جانے کی اجازت ہے: ’’جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پاؤں کے بدلے پاؤں لے لینا۔ جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ پہنچانا‘‘۔ (خروج باب ۲۵)

اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ اب تک ساڑھے گیارہ سو کے قریب اسرائیلیوں کے بدلے اکتیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ غزہ پر کیے جانے والے بے دریغ اور بےرحمانہ حملوں میں بہتّر ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غزہ کا ہر پچھتر میں سے ایک فرد اس لڑائی میں کام آ چکا ہے جن میں بارہ ہزار سے زائد معصوم بچے اور ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب خواتین شامل ہیں۔ اس طرح حالیہ جنگ میں ستّر فی صد ہلاک شدگان معصوم عورتیں اور بچے ہیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس جنگ میں اب تک دس ہزار حماس جنگجوؤں کو ہلاک کر چکی ہے۔ بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ پر BBC Verify کالم کے تحت اس دعوے پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی گئی ہے جس کے مطابق اسرائیل کا یہ دعویٰ حقیقت کے قریب بھی نہیں ہے۔ اَور تو اَور امریکی صدر جو بائیڈن بھی اسرائیل کو کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کو دنیا کے اکثر ممالک بشمول امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر کی جانے والی بے دریغ بمباری کے باعث اسرائیل کے لیے ان ممالک کی حمایت کمزور پڑرہی ہے۔

خبروں کے مطابق ایک طرف اسرائیل غزہ پر حملے کر کے اسے خالی کروا رہا ہے، مغربی کنارے پر تین ہزار سے زائد مزید گھر تعمیر کر کے وہاں یہودیوں کو بسانے کا خواہاں ہے تو دوسری جانب غیرقانونی طور پر فلسطین کے قدرتی گیس کے ذخائر پر قبضہ کر کے اسے ان وسائل سے محروم کرنا چاہتا ہے جنہیں فلسطینی مستقبل میں فلسطین کی تعمیرِنَو اور ترقی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ الجزیرہ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر۲۳ء میںاسرائیل کی وزارت توانائی و انفراسٹرکچرکی جانب سے بعض اسرائیلی اور غیرملکی کمپنیوں کو ایسے سمندری پانیوں میں قدرتی گیس کے ذخائر ڈھونڈنے کا ٹھیکہ دے دیا گیاجن میں فلسطینی سمندر بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے جو ان پانیوں پر سرے سے ایسا کوئی حق ہی نہیں رکھتا ایسے ٹینڈر جاری کرناغیرقانونی ہے۔

ایک خبریہ بھی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کے لیے ایک عارضی بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی انسانی ہمدردی کے مشن کے مطابق اسرائیل نے چوبیس میں سے صرف چھ امدادی قافلوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔ غزہ میں خوراک اور پینے کے صاف پانی کی خطرناک حد تک قلّت پیدا ہو چکی ہے جبکہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے استدعا کی ہے کہ اسے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل حماس کے درمیان جنگ بندی کا حکم دینا چاہیے تاکہ غزہ میں پیدا ہونے والی قحط کی خطرناک صورتِ حال سے بچا جا سکے۔

آج کا انسان دورِحاضر کو تاریخِ انسانیت کا ترقی یافتہ ترین اور مہذّب ترین زمانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن وہی انسان یہ سوچ کر محوِ حیرت بھی ہو جاتا ہے کہ کیا تہذیب اور ترقی نے اسے یہ سکھایا ہے کہ دو گروہوں کی جنگ میں ’ظالم‘ اسے قرار دیا جائے جس کے ہزاروں نہتے اور معصوم بچوں اور خواتین کو شہید کردیا گیا ہو اور کوئی ان کے حق میں آواز اٹھانے والا نہ ہو، جس کے پاس زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہ ہو، جس پر پچھلے ڈیڑھ سو سے زائد ایّام کے دوران گزرنے والے ہر گھنٹے میں کوئی نہ کوئی معصوم اپنی جان گنوا بیٹھا ہو، جس کی ساٹھ ہزار کے قریب حاملہ خواتین غذا کی قلّت سے شدید متاثر ہوں گویا اُن کی آنے والی نسل کی صحت پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہو اور ’مظلوم‘ وہ ٹھہرے جو ’ظالم‘ تک امداد پہنچنے کے ہر راستے کو مسدود کردے، جس کے ہلاک شدگان کی تعداد ’ظالم‘ سے تیس گنا کم ہو، جس کی طرف سے زیادہ سے زیادہ یہ ’بریکنگ نیوز‘ آتی ہو کہ فلاں علاقے میں راکٹ الارم بول اٹھے، پھر بھی دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک اسے نہ صرف ’حقِ دفاع‘ کے بہانے ظلم کو روا رکھنے کی کھلی چھٹی دیتے ہوں بلکہ اپنے قریبیوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنانے کا غم اٹھانے والے، زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم، بھوک اور افلاس میں اپنے گھروں سے بےدخل کیے گئے ’ظالموں‘ کے لیے واحد امید کی کرن یعنی اقوامِ متحدہ کے انسانی بنیاد پر امداد پہنچانے والے مشن (UNRWA) کی فنڈنگ کو روک دیتے ہوں مبادا ’ظالموں‘ کی حاملہ خواتین کو قوت لایموت پہنچ جائے۔ فلسطین میں بسنے والے مظلوم اور نہتے لوگوں کے بارے میں ایسے اقدامات کرنے والے کیا اپنے ممالک کے باسیوں کو بھی اسی ترازو میں تول سکتے ہیں؟؎

محوِ حیرت ہوں کہ آخر یہ تماشہ کیا ہے

اس ترقی یافتہ اور مہذّب دنیا میں شاید سب کچھ ہی پایا جاتا ہو گا لیکن صاف نظر آتا ہے کہ زندہ خدا کا خوف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا حقیقی انصاف ناپید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بے چینی اور بدامنی کا دور دورہ ہے اور ہمارے سروں پر تیسری جنگِ عظیم کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔

دنیا میں حقیقی امن کے قیام کے لیے سادہ لیکن بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یارک یونیورسٹی اونٹاریو کینیڈا میں منعقد ہونے والی تقریب میں فرمایا:’’اگر ہم حقیقی طور پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ہمیں عدل اور مساوات کو اہمیت دینی ہوگی۔آنحضرتﷺ نے کیا ہی خوبصور ت فرمایا ہےکہ دوسروں کے لئے وہی پسند کروجو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ہمیں صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے دنیا کے فائدے کے لئے کام کرنا ہوگا۔فی زمانہ حقیقی امن کے قیام کے یہی ذرائع ہیں۔‘‘ (مورخہ ۲۸؍اکتوبر۲۰۱۶ء – یارک یونیورسٹی، اونٹاریو، کینیڈا)

اللہ تعالیٰ دنیا کے پالیسی سازوں کو، کیا چھوٹے اور کیا بڑے، ہر پیمانے پر ایسے عدل و مساوات کے قیام کی توفیق دے جس سے انسانیت کا وقار قائم اور بہبود یقینی ہو اور انسان کی مادی ترقیات اور تہذیب اس کی بقا کی ضامن بنیں نہ کہ بے انصافیوں کے باعث اس کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button