متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر،نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ ششم)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

ڈائری کے دوسرے حصے کا اختتام حضور انور کے پیس ویلج سے واپسی کے ساتھ ہوا تھا جو Ottawaکے تاریخی دورہ کے بعد ہوئی تھی۔ اس تیسرے حصہ میں خاکسار ان واقعات کا ذکر کرے گا جو رواں ہفتہ کے دوران پیس ویلج میں رونما ہوئے۔

ایک شہید کی بیوہ کی داستان

۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو حضور انور نے سارا دن فیملیوں سے ملاقاتیں فرمائیں۔ صبح کا سیشن گیارہ بج کر بیس منٹ پر شروع ہوا اور مسلسل تین بج کر بیس منٹ تک جاری رہا اور یوں حضور انور نے احمدی فیملیوں سے مسلسل چار گھنٹے تک ملاقاتیں فرمائیں۔ بعد ازاں دوپہر کے کھانے کے بعد آپ دوبارہ دفتر تشریف لائے اور ملاقاتوں کا آغاز فرمایا۔

ان احباب و خواتین میں سے ایک خاتون جو حضور انور کو ملیں وہ رابعہ وسیم صاحبہ تھیں جن کے ساتھ ان کے تین بچے بھی تھے۔ آپ وسیم احمد صاحب شہید کی بیوہ تھیں جن کی ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ءکو لاہور میں ۳۸؍سال کی عمر میں شہادت ہوئی تھی۔

وسیم صاحب کی شہادت کے وقت ان کے دو بیٹوں کی عمر بہت چھوٹی تھی جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی ان کی شہادت کے چند ماہ کے بعد پیدا ہوئی تھی اور ا س طرح اسےاپنے والد صاحب کو دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ یہ فیملی اب کینیڈا شفٹ ہو چکی تھی۔

خاکسار ان کے حوصلہ اور بہادری سے بہت متاثر ہوا۔ خاکسار کو جن شہداء کی فیملیوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا ہےاکثر کو بلند حوصلہ ہی پایا۔ان خاتون میں غصہ،تلخی اور خود ترسی کا نام و نشان تک نہ تھا بلکہ وہ نہایت ادب، عاجزی اور چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ بات کر رہی تھیں۔ اور اگر انہوں نے مجھے اپنی داستان نہ سنائی ہوتی تو شاید میں ان کی قربانیوں کا اندازہ بھی نہ لگا سکتا۔

رابعہ صاحبہ نے مجھے اپنے شوہر اور ان سے اپنے تعلق کے بارے میں بتایا کہ میرے شوہر وسیم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جن کی میں خود گواہ ہوں اور میرے نزدیک ان کی بہترین خوبیوں میں عاجزی اور وسعت حوصلہ تھی۔ اگر میں کبھی کسی بات پر غصہ میں آ جاتی یا ناراض ہوتی تو وہ کہتے کہ خلیفہ وقت ہمیں صبر اور حوصلے کی تلقین فرماتے ہیں اور یہ بھی کہ غصہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی کامیابی کی راہ پر نہیں چلنے دیتا۔ یہ سن کرمیں ہمیشہ حوصلہ میں آ جاتی تھی۔

موصوفہ نے مزید بتایا کہ یقینی طور پر میری زندگی کے گذشتہ چھ سال بہت سخت تھے لیکن جب میں اس گزرے ہوئےوقت پرنگاہ ڈالتی ہوں تو میں اپنے شوہر کی شہادت کو اپنے اور اپنی فیملی پر خدا کی خاص نعمت شمار کرتی ہوں۔اس کی سب سے بڑی مثال وہ محبت اور خیال ہے جو ہمارا حضور انور کی طرف سے رکھا گیا ہے۔ میں اس دن کو کبھی بھلا نہیں سکتی جب شہادت کے بعد حضور انور نے ہم سے فون پر گفتگو فرمائی۔ اس بات پر میں مکمل طور پر حیران و ششدر رہ گئی۔ مجھے کبھی اس بات کا خیال بھی نہیں آیا تھا کہ میرے جیسے وجود سے ہمارے خلیفہ گفتگو فرمائیں گے اور یوں اس دن مجھے پتا چلا کہ حقیقی طور پر شہید کا کیا مقام ہے۔ مجھے اپنے شوہر سے جدائی کی بہت زیادہ تکلیف تھی لیکن خلافت کی محبت نے ہماری حفاظت کی اور ہمارے زخموں پر مرہم رکھا۔

حضور انور کی دعاؤں کے بارے میں رابعہ صاحبہ نے بتایاکہ آج میں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ اکیلی زندگی گزار رہی ہوں اور ایسے ملک میں ہوں جو اس ملک سے بہت دور ہے جہاں میں پلی بڑھی ہوں۔ پھر بھی میں اور میرے بچے خوش ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ ورنہ میری جیسی کسی بھی خاتون کے لیے ہجرت کرنا نا ممکن ہوتا، خاص طور پر دنیا کے ایک دُور دراز کونے میں جس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا۔ الحمدللہ،اب ہماری زندگی پُرامن اور خدا کے فضلوں سے پُر ہے اور سب سے بڑھ کر ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

حضور انور سے ملاقات کے بعد موصوفہ بے حد خوش تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے حضور انور سے ملاقات کی سعادت ملی اور میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔ حضور انور نے ایک باپ کی طرح بے حد محبت سے استفسار فرمایا کہ ہم سب کیسے ہیں اور ہمیں اپنے دست ِمبارک سے تحائف عطا فرمائے۔

ایک جذباتی ملاقات

جب میں حضور انور کے دورہ کینیڈا کے بارے میں سوچتا ہوںتو بہت سے احباب ایسے ذہن میں آتے ہیں جن کی داستان نے مجھے جذبات سے مغلوب کر دیا اور مجھے باور کروایا کہ کیسے بعض اوقات اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی طرف میرا دھیان ہی نہیں جاتا۔ایک باپ ہونے کی حیثیت سے سب سے زیادہ جذبات سے مغلوب کر دینے والی گفتگوایک ایسی فیملی سے ہوئی جن کا تعلق فیصل آباد سے تھا لیکن وہ فیملی ایک لمبے عرصے سے کینیڈا میں مقیم تھی۔اس فیملی کے بزرگ نعیم احمد قیصر صاحب تھے اور وہ مع فیملی حضور انور سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے۔

میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو نعیم صاحب کی بیٹی بہت پریشان معلوم ہوتی تھیں۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنی چند ماہ کی بچی کو اٹھائے ہوئے آگے پیچھے چکر لگا رہی تھیں۔ خاکسار ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ سب خیریت ہے اور ان کے رویے سے مجھے احساس ہوا کہ وہ سن نہیں سکتیں۔ ان کے والد صاحب جو ان سےچند قدم پیچھے تھے انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی سن نہیں سکتی جس پر خاکسار نے عرض کی کہ وہ پریشان کیوں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ان کی نواسی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ لیکن ان کی بیٹی کو کوئی علیحدہ جگہ نہیں مل رہی جہاں وہ اِسے دودھ پلا سکے کیونکہ ہر جگہ لوگ موجودہیں۔

خاکسار انہیں اپنے دفتر میںلے گیااورپردے نیچے کر کے ان کے والد صاحب کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کو بتا دیں کہ وہ بغیر کسی پریشانی کےیہاں بچی کو فیڈ (feed)کروا سکتی ہیں۔دفتر میں جاتے ہوئے میں نے اس ماں کی آنکھوں میں سکون محسوس کیا۔ میرا ایک لحظہ کے لیے نظر پڑنا مجھے یہ یاددہانی کروانے کے لیے کافی تھا کہ ایک ماں کی اپنے بچے کے لیے محبت ایک منفرد رنگ رکھتی ہے اور وہ کسی حالت میں بھی اپنے بچے کی پریشانی برداشت نہیں کر سکتی۔جب انہوں نے دودھ پلا لیا تو خاکسار نعیم صاحب اور ان کی فیملی سے ملا اور جو حالات انہوں نے بیان کیے سن کر وہ حیران و ششدر رہ گیا۔

نعیم صاحب اور ان کی اہلیہ دونوں بزرگ تھے۔ان کے چار بچے تھے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ سب سے بڑے بچے کی عمر۳۴؍سال اور سب سے چھوٹے کی عمر ۲۷؍سال تھی۔اتفاق سے چاروں بچے نہ سن سکتے تھے اور نہ بول سکتے تھے۔ اپنے بچوں کے لیے ایک نارمل زندگی کے حصول کے لیے نعیم صاحب اور ان کی اہلیہ نے بہت کوشش کی کہ وہ ایسے گھرانے ڈھونڈ سکیں جن کے بچے بھی نہ سن سکتے ہوں تاکہ وہاں اپنے بچوں کے رشتے کر سکیں۔ وہ اپنے بچوں کی شادیاں ایسے گھرانوں میں کرنا چاہتے تھے جہاں وہ دوسروں پر بوجھ نہ بنیں۔ان کے بچوں کی بھی یہی خواہش تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ بصورت دیگر ان کے رشتے خراب نہ ہو جائیں۔

اللہ کے فضل سے ان کی محنتیں رنگ لائیں اور ان کی دو بیٹیاں دو ایسے لڑکوں سے بیاہی گئیں جو سن نہ سکتے تھے اور ان کے اب پانچ نواسے،نواسیاں تھے۔ معجزانہ طور پر ان کے نواسوں اور نواسیوں کی شنوائی اور گویائی بالکل ٹھیک تھی اور وہ ہر لحاظ سے نارمل اور صحت مند تھے۔

اپنی زندگی میں سب سے زیادہ جذبات سے مغلوب کردینے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نعیم صاحب نے بتایا کہ شادی کے ۳۷؍سال کے بعد میں نے بابا کا لفظ پہلی بار سنا، جب میرے نواسے نے مجھے پکارا۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ خوشی کا کیا عالم ہوگا جو میں نے اس لمحے محسوس کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ میں اپنے لیے ساری عمر یہ لفظ نہیں سن سکوں گا۔ جس وقت انہوں نے یہ کہا تو نعیم صاحب جذبات سے مغلوب ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، درحقیقت میری بھی آنکھیں اس وقت بھر آئیں۔

موصوف نے بتایا کہ یہاں کے ڈاکٹرز نے کہاکہ ہمارے بچوں کے گونگے اور بہرے ہونے کی وجہ ہماری کزن میرج ہے۔ اس کے جواب میں مَیں نے انہیں کہا کہ جہاں میرے بچے پڑھتے ہیں وہاں ۱۲۰؍ بچے ہیں جو سب کے سب گونگے اور بہرے ہیں اور میں نے ڈاکٹرزسے پوچھا کہ کیا وہ سب بچے بھی کزن میرج کی وجہ سےپیدا ہوئے ہیں؟ جب میں نے یہ کہا تو وہ ڈاکٹر خاموش ہو گئے اور ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا۔

اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے نعیم صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی تین نسلوں کی اس دن حضور انور سے ملاقات تھی۔ جس طرح یہ ملاقات ختم ہوئی وہ ایک منفرد انداز تھا۔ نعیم صاحب نے بتایا کہ حضور انور سے آج کے دن ملاقات ہماری فیملی کے لیے ایک معجزہ ہےاور جذبات سے مغلوب کر دینے والا واقعہ ہے۔میری نواسی عزیزہ فاتحہ جس کی عمر نو سال ہے وہ روانی سے بولتی ہے اور اشاروں کی زبان (sign language)میں بھی خوب ماہر ہے۔ اس نے میرے بچوں اور حضور انور کے درمیان ایک مترجم کا کام سرانجام دیا۔ میرے چاروں بچے اس کو اشاروں میں جواب دیتے اور وہ حضور انور کو بتاتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟جب حضور انور جواب عنایت فرماتے تو میری نواسی حضور انور کے الفاظ اشاروں سے اپنے والدین، خالہ اور ماموں کو بتاتی۔ یہ سننا نہایت خوشی کا موجب تھا کہ کس طرح ایک چھوٹی سی بچی خلیفۂ وقت اور اپنی فیملی کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن رہی تھی۔

اپنی داستان سنانے کے بعد نعیم صاحب نے مجھے اپنی نو سالہ نواسی عزیزہ فاتحہ سے متعارف کروایا جو اپنے والدین کے ہمراہ Mississauga میں رہتی ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ فاتحہ بہت لائق اور ذمہ دار بچی تھی۔ مجھے بار بار خود کو یہ یاد دلانا پڑتا تھا کہ وہ نو سال کی ہے اور جن حالات میں وہ بڑی ہو رہی تھی، اس میں وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ عقلمند معلوم ہوتی تھی۔

عزیزہ فاتحہ نے بتایا کہ سکول میں بسا اوقات میں اپنے والدین اور اساتذہ کے درمیان مترجم بنتی ہوں اور اکثر میں اپنی رپورٹ اپنے والدین کو خود ہی دیتی ہوں۔ میرے والد صاحب تعمیرات کا کام کرتے ہیں اور بسا اوقات میں ان کے افسر اور ان کے درمیان مترجم بنتی ہوں۔ یوں مجھے اشاروں میں بات کرنے کا تجربہ ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جب مجھے پتا چلا کہ مَیں حضور انور کی موجودگی میں مترجم بنوں گی۔

عزیزہ فاتحہ نے مزید بتایا کہ حضورِانور سے ملاقات کرنا واقعی سحرانگیز تھا اور میں نے حضور انور سے صرف ایک ہی درخواست کی کہ حضور میرے خاندان کی صحت کے لیے دعا کریں اور خاص طور پر میری ایک ماہ کی کزن کے لیے۔ میں نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ وہ ایک صحت مند بچی کی طرح پرورش پائے اور اسے سننے یا بولنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

پھر فاتحہ نے محبت سے میرے لیے بھی مترجم ہونے کی خدمت کی پیشکش کی۔ چنانچہ میں اس کی خالہ زینب صاحبہ سے مخاطب ہوا جو اپنی بچی کے ساتھ کمرے میں موجود تھیں۔فاتحہ کے توسط سے میں نے زینب صاحبہ سے پوچھا کہ حضور انور سے ملاقات کے بعد ان کے کیا تاثرات ہیں؟ انہوں نے اپنا جواب اشاروں کی صورت میں بتایا جس کو عزیزہ فاتحہ نے میرے لیے ترجمہ کیا۔ زینب صاحبہ نے بتایا کہ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ آج ہم سب حضور انور کو ملنے کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ نے فوراً ہی میری چھوٹی سی بیٹی کو دیکھا اور اس کی صحت کے لیے دعا کی اور میں آپ سے اسی بات کی درخواست کرنا چاہتی تھی۔ یہاں موجود ہونا اپنی بچی اور فیملی کے ساتھ اور اپنے روحانی راہنما سے ملنا، ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔

نعیم صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ میری ملاقات ختم ہوئی تو میں جذبات سے مغلوب تھا۔میں یہی سوچ رہا تھا کہ کس طرح ہمارے خلیفہ ہر روز سینکڑوں لوگوں سے ملاقات فرماتے ہیں اور وہ سب اپنی انفرادی مشکلات اور مسائل لے کر حاضر ہوتے ہیں۔محض خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے ہی کوئی ایسے بوجھ کا متحمل ہو سکتاہے۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button